بچوں سے قرآن حفظ کرانا

ڈاکٹر عرفان شہزاد

عہدِ رسالت سے قرآن مجید حفظ و تحریر دونوں طریقوں سے محفوظ اور منتقل کیا گیا۔ صحابہ اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق قرآن مجید مکمل یا جزواً یاد کر لیتے تھے۔ لیکن رسمی حفظِ قرآن اور بچوں کو بالجبر قرآن یاد کرانے کا کوئی تصور نہ تھا۔

تاہم، مسلمانوں کو ایک طویل عرصے سے یہ باور کرایا گیا ہے حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کرنے کی بہترین عمر بچپن کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک حافظِ قرآن اپنے خاندان کے دس ایسے افراد کو جنت میں لے جانے کا ذریعہ بنے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔1 حافظِ قرآن کے والدین کو روزِ قیامت ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہو گی2۔ ان ترغیبات کے زیر اثر والدین یہ سعادت حاصل کرنے اور جہنم سے بچنے کے لیے ہر قیمت پر اپنے بچوں کو قرآن حفظ کرانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ گلی، محلوں، گاؤں اور شہروں میں جگہ جگہ کھلے ہوئے حفظِ قرآن کے مدارس ایسے ہی بچوں سے آباد اور ایک بڑے طبقے کے معاش کا ذریعہ ہیں۔

حفظِ قرآن سے متعلق محولہ بالا روایات ضعیف ہیں اور دین کے مسلّمہ اصولوں کے بھی خلاف ہیں۔ قرآن مجید ہر شخص کو اس کے اپنے اعمال کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے3، وہ بتاتا ہے کہ خدا کی عدالت میں کوئی کسی دوسرے کے کام نہیں آئے گا، وہاں بغیر میرٹ کے کسی کی سفارش نہیں کی جا سکے گی۔4

مگر والدین ان برسر خود غلط ترغیبات سے متاثر ہو کر اپنے کم سن بچوں کو زبردستی حفظ کرانے کے لیے کسی مدرسے میں چھوڑ جاتے ہیں۔ بلکہ ترجیحاً اپنے گاؤں، محلے اور گھر سے دور کسی مدرسے میں داخل کراتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے علاقے اور گھر کے قریب کے مدرسے میں بچے کی توجہ اپنے خاندان اور دوستوں سے ملنے کی تڑپ میں منتشر رہتی ہے، چناں چہ کوشش کی جاتی ہے کہ اسے ان سب سے دور بھیج دیا جائے، جہاں وہ کوئی شناسا نہ پائے اور پوری توجہ سے قرآن مجید حفظ کرنے پر مجبور ہو جائے۔

والدین کی شفقت اور احساسِ تحفظ سے محروم ہو جانے کے بعد ایک اجنبی ماحول میں بچہ جس جذباتی المیے سے گزرتا ہے، اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ بچپن کے لا ابالی پن سے لطف اندوز ہونے کی عمر ایک سخت روٹین کے شکنجے میں پھنس جاتی ہے۔ ایک محدود ماحول میں مقید ہو جانے سے معاشرتی رویے سیکھنے کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں۔ مختلف عمر اور مزاج کے لڑکوں اور اساتذہ کے درمیان اس کی معصومیت بھی ہمہ وقت خطرے میں رہتی ہے۔ بچہ جتنا کم عمر ،خوش شکل اور والدین کی خبر گیری سے دور ہوتا ہے، اس کے استحصال کے امکانات اتنے زیادہ ہوتے ہیں۔

راقم کو ایسے والدین دیکھنے کا موقع ملا جن کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔ انھیں خبر کی گئی، وہ آئے مگر بچے کو اپنے ساتھ لے جانے کی بجائے اسے تسلی دے کر پھر اسی مدرسے میں چھوڑ کر چلے گئے۔ بہت ہوا تو ایسے ہی کسی دوسرے مدرسے میں اسے داخل کرا دیا، مگر حفظِ قرآن مکمل کرائے بغیر وہ اسے واپس لے جانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ان کے لیے ایسے حادثات غیر متوقع نہیں تھے۔ ان خدشات کو گوارا کرتے ہوئے ہی وہ اپنے کم سن بچوں کو اجنبی ماحول کے سپرد کر آتے ہیں۔

بچے سے قرآن حفظ کروانے کے لیے والدین نہ صرف خود اس پر تشدد کرتے ہیں بلکہ اساتذہ کو بھی اس کی کھلی اجازت دیتے ہیں۔ اس کے لیے یہ بے اصل روایت بھی مشہور کرا رکھی ہے کہ جسم کے جس حصے پر استاد کی مار پڑتی ہے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ تشدد کی صورت میں بچہ اگر زخمی ہو جائے یا، خدانخواستہ، اس کی موت واقع ہو جائے تو والدین عموماً استاد کو معاف کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق بچہ خدا کی راہ میں شہید ہو گیا۔ یوں والدین کی آخرت سنور گئی۔ یہی نصب العین تھا جو قبل از وقت حاصل ہو گیا۔ اس "خدمت" کے عوض استاد کو سزا کیوں دی جائے؟ سزا سے مامونیت کی یہ توقع تشدد پسند طبائع کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

کچھ بچوں میں اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ پورا قرآن یاد کر سکیں۔ راقم کے تجربے میں ایسے والدین بھی آئے جنھیں بتایا گیا کہ ان کا بچہ حفظ نہیں کر سکتا، لہذا اسے مجبور نہ کیا جائے۔ انھوں نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور بضد رہے کہ بچے کو ہر صورت حفظ کرایا جائے۔ ان کے مطابق، حفظ کرنے کی محنت سے دماغ تیز ہو جاتا ہے۔

ایسے بچوں کو برسوں حفظ کی چکی میں پیسا جاتا ہے۔ سبق یاد نہ کر سکنے کی پاداش میں مار پیٹ اور ذلت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہم سبق بچوں کے سامنے وہ نکّو بن کر رہ جاتے ہیں۔ انھیں باور کرایا جاتا ہے کہ وہ گناہ گار ہیں، اسی وجہ سے ان کی یادداشت کام نہیں کر رہی۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ حافظ کے ساتھ عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ شیطان لگے ہوتے ہیں جو اسے حفظ کی سعادت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

یہ صورت حال کسی اذیت گاہ (ٹارچر سیل) سے کم نہیں ہوتی، جہاں بچہ ہر صبح یہ سوچ کر اٹھتا ہے کہ تشدد اور ذلت کا ایک اور طویل دن اس کا منتظر ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک گناہ گار شخص ہے جس سے اس کے والدین راضی ہیں نہ اساتذہ اور نہ ہی خدا۔ ہم مکتب ساتھیوں کی نظروں میں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ یہ بچے مدرسے اور گھر سے بھاگ جاتے ہیں تو پکڑ پکڑ کر لائے جاتے ہیں اور بھاگنے پر تشدد اور ذلت الگ سہتے ہیں۔ ان کی عزتِ نفس ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ مکمل طور پر منفی نفسیات میں جیتے ہیں۔ یہ نفسیات ان کی پوری شخصیت کا احاطہ کر لیتی ہے اور مختلف منفی رویوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ بہت سے طلبہ میں انھی وجوہات سے قرآن مجید سے بد مزگی بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

علم نفسیات کے مطابق، خدا کا پہلا تصور والدین سے ملے تاثرات سے تشکیل پاتا ہے۔ اس میں اساتذہ کی شخصیت کے تاثرات بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین کی شفقت سے محروم اور اساتذہ کی سختیوں سے گھائل ان بچوں میں خدا سے بھی بے زاری، لا تعلقی بلکہ توحُّش کے احساسات پیدا ہو جاتے ہیں۔ والدین کی شفقت اور ان کی دیکھ بھال کے بغیر جینا سیکھ لینے کے بعد وہ خدا کی محبت، اس کی رحمت اور اس کے سامنے اپنی محتاجی کے احساس سے بھی بڑی حد تک بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ وہ والدین سے ناراض ہوتے ہیں مگر ان کی ناراضی سے ڈرتے بھی ہیں۔ یہی نفسیات خدا کے ساتھ ان کے تعلق میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ وہ خدا سے محبت نہیں کر پاتے، لیکن اس سے ڈر کے احساس کے تحت اس کی رسمی اور قانونی قسم کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی نفسیات لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات میں بھی جھلکتی ہے۔ وہ عام طور پر خوف دلاتے اور جبر اور دھونس سے بات منواتے نظر آتے ہیں۔

بچہ ہو یا بڑا اس کی مرضی کے بغیر اسے کسی ایسی ذہنی یا جسمانی مشقت میں مبتلا کرنا جس کا مطالبہ دین اور عقل نہیں کرتے، اس کا استحصال ہے۔ حفظِ قرآن ان بنیادی مہارتوں کی تعلیم نہیں ہے جن کا سیکھنا ناگزیر ہوتا ہے اور اس بنا پر انھیں بچپن میں بالجبر بھی سکھایا جاتا ہے، جیسے لکھنا پڑھنا، ابتدائی ریاضی وغیرہ۔

دس سے بارہ سال کی وسیع البنیاد تعلیم پانا تعلیمی رجحان رکھنے والے ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ اس کے بعد اس کا خصوصی رجحان دیکھ کر فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ اسے کس طرح کی تخصیصی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ حفظ قرآن ایک تخصیصی تعلیم ہے، یہ فرد کی مرضی اور رجحان جانچے بنا بچپن میں نہیں دلائی جا سکتی۔ یہ اپنے ذوق، صلاحیت اور شعوری انتخاب کا معاملہ ہے، جو شعور کی عمر ہی میں کیا جا سکتا ہے۔

یہاں مریم علیھا السلام کی پیدایش سے پہلے ان کی والدہ کا انھیں خدا کے نام پر وقف کر دینے کے واقعے سے استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کو بچوں کے کیرئیر کے انتخاب کا مطلق حق حاصل ہے۔ مریم علیھا السلام کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ اپنے پیدا ہونے والے بچے کو دین کی خدمت کے لیے خدا کے نام پر وقف کر دیں۔ قرآن مجید میں ان کی دعا اسی خواہش کا اظہار ہے۔5 مگر مریم علیھا السلام پر اس طرز زندگی کو اختیار کرنے کی کوئی پابندی نہیں تھی جس کی خواہش اور دعا ان کی والدہ نے کی تھی۔ ایسے ہی جیسے بچپن میں طے کیے گئے نکاح کو قبول کرنے کی پابندی بچوں پر نہیں ہوتی۔ وہ شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچ کر رشتے سے انکار کر سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ مریم علیھا السلام کی اپنی طبیعت بھی اسی کام کی طرف مائل رہی جس کی خواہش ان کی والدہ نے کی تھی۔ یوں ان کی دعا پوری ہوئی۔

پھر یوں نہیں ہوا کہ مریم علیھا السلام کے پیدا ہوتے ہی انھیں دین کے خدّام کے حوالے کر دیا گیا۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیلات بیان نہیں ہوئیں۔ تاہم، یہ اقدام ان کی شعور کی عمر کے بعد ہی کیا گیا ہوگا۔ اصولی طور پر اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو جب خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے اسمعیل علیہ السلام کو خدا کے لیے ذبح کر رہے ہیں تو انھوں نے اس پر من و عن عمل کرنے سے پہلے اپنے بیٹے کی راے لی، اور بیٹے کی رضامندی کے بعد ہی اقدام کیا۔

دینی مدارس میں رائج حفظِ قرآن کی کلاس کا طویل دورانیہ بچوں پر سخت گراں بار ہوتا ہے۔ اس سرگرمی میں تنوع نہیں ہوتا کہ بچہ یکسانیت کی بوریت سے نجات پا سکے۔ زبانی یاد کرنے کی ایک ہی سرگرمی اتنے طویل دورانیے تک کرتے چلے جانا، ایک غیر صحت مند طریقہءِ تعلیم ہے۔

کچھے بچوں کو اسکول سے ہٹا کر حفظ کرانے بٹھا دیا جاتا ہے۔ حفظ کے بعد انھیں دوبارہ سکول میں داخل کرانا ہوتا ہے۔ سکول کی تعلیم کا حرج کم کرنے اور قرآن کا حفظ جلد مکمل کرانے کی خاطر بچے کا زیادہ سے زیادہ وقت حفظ قرآن میں لگایا جاتا ہے۔ اس سے بچے کا ذہنی اور جسمانی استحصال ہوتا ہے۔ اس سے بد تر پریکٹس یہ ہے کہ اسکول کے ساتھ حفظ بھی کرایا جاتا ہے۔ یوں بچے والدین کی دو طرفہ خواہشوں کے پاٹوں میں پس کر رہ جاتے ہیں۔ انھیں اپنا بچپن جینے کا پورا موقع ہی نہیں ملتا۔

کم سن بچوں کا زیادہ وقت کھیل کود میں بیتنا چاہیے۔ ایسی ہر تعلیمی سرگرمی جس کے اوقات کھیل کے اوقات سے زیادہ ہوں، بچوں کا استحصال ہے۔ بچوں کی یہ عمر کھیل کھیل میں سیکھنے، خود کھوجنے اور سوالات کرنے کی ہے ۔لا ابالی پن کی اس حسین عمر کو ایک سخت اور خشک روٹین کی نذر کرنا بچے کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔

ایک بار یاد کر لینے کے بعد قرآن مجید کو مستقلاً یاد رکھنا ایک مسلسل محنت طلب کام ہے۔ شعبہءِ حفظ سے منسلک حفاظ کسی حد تک قرآن یاد رکھ پاتے ہیں، مگر عام حفاظ جو عملی زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں، ان کے لیے قرآن کو یاد رکھنا بے حد مشکل رہتا ہے۔ ان کی اکثریت بڑی عمر میں پورا قرآن یاد نہیں رکھ پاتی۔ ان کا حفظِ قرآن خود ایک یادگار بن کر رہ جاتا ہے۔

ادھر قرآن کے بھلا دینے پر بعض روایات میں وارد ہونے والی وعیدیں بھی بتائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے پورا قرآن یاد نہ رکھ سکنے والے حفاظ احساس جرم کا شکار رہتے ہیں۔ تاہم، قرآن کو بھلا دینے پر سخت سزاؤں کی وعید بتانے والی روایات ضعیف ہیں۔6

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے اعمال کا ثواب مجھ پر پیش کیا گیا، حتیٰ کہ وہ تنکا بھی جسے آدمی مسجد سے اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے (اس کا ثواب بھی لکھا ہوا تھا)، اور میری امت کے گناہ بھی مجھ پر پیش کیے گئے تو میں نے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ کسی آدمی کو قرآن کی کوئی سورت یا کوئی آیت عطا کی گئی اور اس نے (یاد کرنے کے بعد) اسے بھلا دیا۔

اس میں شبہ نہیں کہ قرآن مجید سے بے اعتنائی برتنا بڑی محرومی کی بات ہے۔ لیکن قرآن کو زبانی یاد رکھنا دین کا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔

حفظِ قرآن کی حقیقت و حیثیت

عہدِ رسالت میں متنِ قرآن کی کتابت کے ساتھ اس کی حفاظت اور اشاعت کے لیے اسے زبانی یاد کرنے کا رواج تھا۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی درپیش تھی کہ عرب معاشرت میں لکھنے پڑھنے کا رواج کم تھا۔ کتابت کے ذرائع بھی عام میسر نہ تھے۔ رسم الخط بھی اس درجہ ترقی یافتہ نہ تھا کہ بغیر قراءت کے متن کی درست پڑھائی ہر ایک کے لیے ممکن ہوتی۔ قرآن مجید سب کو لکھ کر دے بھی دیا جاتا تو بھی یہ ممکن نہ تھا کہ سب اسے دیکھ کر پڑھ سکتے۔ وسیع پیمانے پر قرآن مجید کی حفاظت، تلاوت اور اس کی تعلیم و ترسیل کے لیے اسے زبانی یاد کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہ تھا۔

صحابہ کے ہاں بغیر سمجھے قرآن پڑھنے اور حفظ کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ عربی ان کی اپنی زبان تھی اس لیے بنا سمجھے پڑھنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ انھیں قرآن پڑھنے یا یاد کرنے کا کہا گیا تو اس سے قرآن مجید کی بے سمجھ تلاوت یا حفظ مراد لینے کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی۔ بعد میں عجمی اقوام جب دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں، تو پہلی بار ان کے ہاں بے سمجھ تلاوت اور حفظ کا آغاز ہوا۔ قرآن مجید کے متن کی قراءت سیکھنا پہلا کام تھا۔ اس کے بعد انھیں اس کے فہم کی طرف متوجہ ہونا تھا۔ کسی دوسری زبان کی کتاب پڑھنے میں یہی ترتیب اختیار کی جاتی ہے۔ مگر سستی یا بے توجہی کی وجہ سے ان کی اکثریت نے ناظرہ قرآن پر اکتفا کر لیا۔ اس کوتاہی کا جب عام رواج ہو گیا تو اس کے لیے سندِ جواز اختراع کر لی گئی ۔ اِس نئے طرز کے حفظ و قراءت کو اُس تلاوت اور حفظ کا مترادف باور کرا یا گیا جس کی ترغیب احادیث میں وارد ہوئی تھی۔ امام ابوبکر الطرطوشی7 نے بجا طور پر بے سمجھ حفظ کے اس طرز عمل کو بدعت قرار دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں:

"ومما ابتدعہ الناس فی القرآن، الاقتصار علی حفظ حروفہ دون التفقُّہ فيہ۔"8
"قرآنِ مجید کے متعلق لوگوں کی ایک بدعت قرآن کے فہم و تفقہ کو چھوڑ کر محض اس کے الفاظ کو حفظ کرنے پر اکتفا کر لینا ہے۔"

قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے اور بے سمجھے پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے:

{کتاب أنزلناہ إلیک مبارک لیدبروا آیاتہ ولیتذکر أولو الألباب} (القرآن، 38: 29)
یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے، (اے پیغمبر)، تمھاری طرف نازل کی ہے۔ اِس لیے کہ لوگ اِس کی آیتوں پر غور کریں اور اِس لیے کہ عقل والے اِس سے یاددہانی حاصل کریں۔
{أفلا یتدبرون القرآن أم علی قلوب أقفالہا} (القرآن، 47: 24)
سو کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا دلوں پر اُن کے تالے چڑھے ہوئے ہیں؟

رسول اللہ ﷺ سے مروی ایک صحیح حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کر ڈالا اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں۔

روایت یہ ہے:

لم یفقہ من قرأ القرآن فی أقل من ثلاث9
اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کر ڈالا۔

عجیب بات ہے کہ اس روایت کی بنا پر قرآن مجید کو تین دن سے کم میں ختم نہ کرنے کی طرح تو ڈالی گئی، مگر روایت کا اصل مقصود، یعنی بے سمجھ تلاوت کی حوصلہ شکنی، اسے باور ہی نہیں کیا گیا اور بے سمجھ تلاوت اور حفظ کو باعث اجر سمجھ لیا گیا!

قراء کے ہاں یہ طریقہ بھی اپنایا گیا کہ کسی آیت کو ادھورا نہ پڑھا جائے۔ پڑھتے ہوئے سانس درمیان میں ٹوٹ جائے تو آیت کو کچھ پیچھے سے دہرا کر اسے مکمل کیا جائے۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ آیت کا ادھورا مطلب ادا نہ کیا جائے۔ مگر آیت کا مطلب ہے کیا؟ اس کی طرف التفات نہ ہونے کو بھی جائز بلکہ باعث ثواب سمجھ لیا گیا۔

ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ الف، لام، میم کی تلاوت پر تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ اس روایت سے بے سمجھ تلاوت و حفظ کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے۔10 استدلال یہ ہے کہ الف، لام۔ میم کا معنی معلوم نہیں، پھر بھی ان کی تلاوت پر ثواب ملتا ہے۔ اس لیے بے معنی تلاوت بھی اجر کا باعث ہے۔

یہ روایت مستند نہیں۔ تاہم، اگر اس کی صحت پر کسی درجے میں اطمینان ہو بھی جائے11 تو بھی اس کا اسلوب تلاوت کی ترغیب دینے کا ہے نہ کہ بے سمجھ تلاوت کی ترغیب دینے کا۔ الف-لام-میم کے اجر کا بیان، ثواب کا حجم بتانے کے لیے بطور مثال ذکر ہوا ہے۔ یہ بات کسی طرح معقول نہیں کہ کسی بامعنی کتاب کو بے سمجھے پڑھنے کی ترغیب دی جائے۔ خصوصاً قرآن مجید جیسی کتابِ ہدایت کے حق میں یہ تصور بالکل بے جا ہے۔ پھر یہ ترغیب ان لوگوں کو کیسے دی جا سکتی ہے جن کے لیے قرآن مجید ان کی اپنی زبان میں ہونے کی وجہ سے اسے بے سمجھے پڑھنا ممکن ہی نہ تھا؟

محولہ بالا مفہوم کی تمام روایات میں سے کوئی روایت بھی سنداً صحیح یا حسن کے درجے کی نہیں کہ کسی درجے میں بھی بنائے استدلال بنائی جا سکے۔ تاہم، انھی روایات میں سے بعض متون میں وہ پوری بات بھی بیان ہوئی ہے جو دین اور عقل دونوں کے مطابق ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ اجر محض بے سوچے سمجھے تلاوت کرنے پر نہیں، بلکہ قرآن مجید پر غور و فکر کرنے، اسے سیکھنے، سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور دوسرے لوگوں کو سکھانے کے مجموعی کام پر بتایا گیا ہے۔

اس روایت کے الفاظ یہ ہیں:

تعلموا القرآن، واتلوہ تؤجروا بکل حرف عشر حسنات، أما إنی لا أقول: {الم} [البقرۃ: 1]، ولکن ألف، ولام، ومیم12
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قرآن مجید کو سیکھو، سمجھو اور اسے پڑھو، تمھیں ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملیں گی۔ یاد رہے میں یہ نہیں کہتا الم ( ایک حرف ہے)، بلکہ الف، لام اور میم (الگ الگ حرف) ہیں (یعنی تین حروف ہیں)۔"13

احادیث میں وارد ہونے الفاظ "حاملِ قرآن" اور "صاحب قرآن" کا مصداق بھی غلط طور پر اس حافظ کو قرار دے دیا گیا جسے قرآن مجید کے معنی و مفہوم سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ تاہم، اس روایت میں بھی یہ القابات اس شخص کے لیے بیان ہوئے ہیں جو قرآن مجید سے اشتغال رکھتا، اس پر عمل کرتا، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتا ہے، یہ شخص ظاہر ہے کہ قرآن مجید کو سمجھنے والا ہی ہو سکتا ہے۔

روایت یہ ہے:

لحامل القرآن إذا أحل حلالہ، وحرم حرامہ أن یشفع فی عشرۃ من أہل بیتہ، کلہم قد وجبت لہ النار(المعجم الأوسط، 5258)14
ترجمہ: وہ حافظ قرآن جو اس کی حلال کردہ اشیاء کو حلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام کرتا ہے وہ اپنے گھرانے کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہو چکی ہوگی سفارش کرے گا۔

فہمِ قرآن محض طبقہ علما کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ قرآن مجید کے فہم کے مختلف درجات ہیں اور ہر فرد اپنی بساط کے مطابق اس میں سے حصہ وصول کرتا ہے۔ فہمِ قرآن کا ایک دائرہ اعلی سطحی اور فنی نوعیت کا ہے، جو مخصوص علمی ذوق رکھنے والی ذہانتوں کا میدان ہے۔ تاہم، قرآن مجید کا عام فہم بھی مطلوب ہے۔ یہ تذکیر اور تزکیہ کے حصول کے لیے ہے، اور تذکیر و تزکیہ ہی قرآن مجید کا اصل مقصود ہے۔ قرآن مجید کا بیشتر حصہ اسی پر مشتمل ہے اور یہ بہت سادہ اور واضح انداز میں بیان ہوا ہے۔ اس کے لیے کسی اعلیٰ لسانی اور علمی مہارت کی ضرورت نہیں۔

قرآن مجید کے محفوظ ہو جانے کے قابل اعتماد ذرائع میسر آ جانے کے بعد اس کی حفاظت کے لیے اسے زبانی یاد کرنے کی وہ اہمیت اور ضرورت باقی نہیں رہی جو پہلے تھی۔ تاہم، یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رہے اور اس کے لیے حفاظ کی ایک بڑی تعداد دنیا میں موجود رہنی چاہیے، جن کی اجتماعی یادداشت میں پورا قرآن محفوظ رہے۔ قرآن کی حفاظت کا یہ ایسا ذریعہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اپنے ذوق اور عبادت میں حلاوت پانے کے لیے قرآن مجید جزوی طور پر یا مکمل حفظ کرنا بھی بڑی سعادت کی بات ہے۔ مگر یہ ذاتی انتخاب کا معاملہ ہے جو سنِ شعور سے پہلے نہیں کیا جا سکتا۔

بچوں سے قرآن حفظ کرانے کا بہرحال، کوئی جواز نہیں۔ دین کے نام پر یا آخرت کے مزعومہ تحفظ کی خاطر بچوں پر ان کی مرضی کے بغیر، ایسی مشقت مسلط کرنا جس کا حکم یا مطالبہ خدا نے نہیں کیا، ان کا استحصال ہے۔ یہ ہرگز ثواب کا کام نہیں۔۔ اپنا شوق پورا کرنے کے لیے بچوں کو تختہ مشق بنانا زیادتی ہے اور خدا کے ہاں ہر ظلم و زیادتی کا حساب لیا جائے گا۔



حواشی

(1) لحامل القرآن إذا أحل حلالہ، وحرم حرامہ أن یشفع فی عشرۃ من أہل بیتہ، کلہم قد وجبت لہ النار(المعجم الأوسط، 5258)

ترجمہ: وہ حافظ قرآن جواس کی حلال کردہ اشیاء کوحلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام کرتا ہے وہ اپنے گھرانے کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی سفارش کرے گا۔

اسے علامہ البانی ؒ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (ضعیف الجامع الصغیر وزیادتہ، رقم: 4662)

اسی مفہوم کی ایک دوسری روایت بھی ضعیف ہے:

من قرأ القرآن واستظہرہ فأحل حلالہ وحرم حرامہ أدخلہ اللہ بہ الجنۃ وشفعہ فی عشرۃ من أہل بیتہ کلہم قد وجبت لہ النار (الترمذی:2905)

ترجمہ: جس نے قرآن پڑھا، اسے حفظ کیا، اس کی حلال کردہ اشیاء کوحلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام کرتا ہے وہ اپنے گھرانے کے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی سفارش کرے گا۔

امام ترمذی اس کی سندکو صحیح نہیں بتاتے ۔علامہ البانی ؒ نے اسے سخت ضعیف قراردیا ہے۔ (ضعیف الترمذی، رقم: 2905)

(2) حدثنا أحمد بن عمرو بن السرح، أخبرنا ابن وہب، أخبرنی یحیی بن أیوب، عن زبان بن فائد، عن سہل بن معاذ الجہنی، عن أبیہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: «من قرأ القرآن وعمل بما فیہ، ألبس والداہ تاجا یوم القیامۃ، ضوءہ أحسن من ضوء الشمس فی بیوت الدنیا لو کانت فیکم، فما ظنکم بالذی عمل بہذا؟ (مشکاۃ المصابیح: 2139)

معاذ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہو گی جو تمہارے گھروں میں ہوتی ہے اگر وہ تمہارے درمیان ہوتا، (پھر جب اس کے ماں باپ کا یہ درجہ ہے) تو خیال کرو خود اس شخص کا جس نے قرآن پر عمل کیا، کیا درجہ ہو گا"۔ (علامہ البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔) (مشکاۃ المصابیح،رقم: 2139)

(3) {کل نفس بما کسبت رہینۃ} [القرآن، 74: 38]

ہر متنفس (اس روز) اپنی کمائی کے بدلے رہن ہو گا۔

(4) واتقوا یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئا ولا یقبل منہا شفاعۃ ولا یؤخذ منہا عدل ولا ہم ینصرون (القرآن، 2: 48)

اور اس دن سے ڈرو، جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ اس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ لوگوں کو کوئی مدد ہی ملے گی۔

(5) إذ قالت امرأت عمران رب إنی نذرت لک ما فی بطنی محررا فتقبل منی ۖ إنک أنت السمیع العلیم (آل عمران، 3: 35)

انھیں یاد دلاؤ وہ واقعہ جب عمران کی بیوی نے دعا کی کہ پروردگار، یہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے، اس کو میں نے ہر ذمہ داری سے آزاد کر کے تیری نذر کردیا ہے۔ سو تو میری طرف سے اس کو قبول فرما، بے شک تو ہی سمیع و علیم ہے۔

(6) مثلا درج ذیل روایت دیکھیے:

وعن أنس بن مالک قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: «عرضت علی أجور أمتی حتی القذاۃ یخرجہا الرجل من المسجد وعرضت علی ذنوب أمتی فلم أر ذنبا أعظم من سورۃ من القرآن أو آیۃ أوتیہا رجل ثم نسیہا»۔ رواہ الترمذی وأبو داود (مشکاۃ المصابیح، 720)

حافظ زبیر علی زئی نے اس کی اسناد کوضعیف قرار دیا ہے:

رواہ الترمذی (2916 وقال: غریب) و أبو داود (461)۔ ابن جریج مدلس ولم یسمع من مطلب شیئا والمطلب: لم یسمع من سیدنا أنس رضی اللہ عنہ۔

https://islamicurdubooks۔com/ur/hadith/hadith-۔php?bookid=23&hadith_number=720

اس مفہوم کی درج ذیل روایت بھی ضعیف ہے۔

وعن سعد بن عبادۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: «ما من امرئ یقرا القرآن ثم ینساہ إلا لقی اللہ یوم القیامۃ اجذم۔( رواہ ابو داود والدارمی)

رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن پڑھتا ہو لیکن پھر وہ اسے بھول جائے تو وہ روز قیامت حالت کوڑھ میں اللہ سے ملاقات کرے گا۔“

حافظ زبیر علی زئی نے اس کی اسنادکو بھی ضعیف قرار دیا ہے:

یزید بن أبی زیاد: ضعیف و عیسی بن فائد: مجھول، ولم یسمعہ من سعد، بینھما رجل مجھول

https://www۔islamicurdubooks۔com/hadith/hadith-۔php?hadith_number=2200&bookid=23&tarqeem=1

(7) مالکی فقیہ اور حافظ، المتوفی: 250 ھجری

(8) ابو بکر الطرطوشی، الحوادث والبدع، ناشر: دار ابن الجوزی، الطبعۃ: الثالثۃ، 1419 ہ - 1998 م، ص: 101

(9) ترمذی، رقم: 2949،امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔

علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ( صحیح وضعیف سنن الترمذی، 2949)

(10) من قرأ حرفا من کتاب اللہ فلہ بہ حسنۃ، والحسنۃ بعشر أمثالہا، لا أقول الم حرف، ولکن ألف حرف ولام حرف ومیم حرف۔ (سنن الترمذی، 2910)

امام ترمذی نے اس حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔ علامہ البانی نے اسے صحیح بتایا ہے( صحیح وضعیف سنن الترمذی، 2910)۔ تاہم، اس کی سند پر کلام قابل لحاظ ہے جو آگے آتا ہے۔

(11) یہ مضمون کل دو صحابہ سے مروی ہے، ایک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، دوسرے عوف بن مالک الاشجعی۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے محمد بن کعب روایت کرتے ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود کا انتقال 33 ہجری میں ہوا اور محمد بن کعب کی پیدایش 38 یا 40 ہجری کی ہے، لہذا دونوں میں لازما انقطاع ہے اس لیے اس سند سے منقول ساری روایات ضعیف ہیں۔ (التفسیر من سنن سعید بن منصور - محققا (1/ 29)

عوف بن مالک ایک دوسرے صحابی ہیں، ان سے بھی محمد بن کعب ہی روایت کرتے ہیں، یہاں انقطاع کا مسئلہ نہیں کیونکہ عوف بن مالک کی وفات 73 ہجری میں ہوئی ہے، لیکن اس سلسلے کی تمام روایات ایک دوسرے راوی، موسی بن عبیدۃ الربذی کے باعث شدید ضعیف ہیں۔ (الذھبی، دیوان الضعفاء، رقم: 4293، ص: 402)۔ مثلا دیکھیے ، مصنف ابن ابی شیبۃ، رقم: 29933

(12) التفسیر من سنن سعید بن منصور–مخرجا، 1/ 35، ص 6

(13) مستفاد از تحقیق جناب محمد حسن الیاس، '"قرآن مجید کی تلاوت، ہر لفظ پر دس نیکیاں"

https://www۔facebook۔com/100064626491667/posts/1889002831463250/

(14) علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (ضعیف الجامع الصغیر وزیادتہ، رقم: 4662)

دین و حکمت

(الشریعہ — نومبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — نومبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۱۱

چھبیسویں دستوری ترمیم اور دینی حلقوں کے مطالبات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آئینِ پاکستان کی ترامیم
معظم خان لودھی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۸)
ڈاکٹر محی الدین غازی

انسانیت کے اخلاقِ اربعہ (۲)
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مرویاتِ منافقین کی تحقیق : استفسار و جواب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

بچوں سے قرآن حفظ کرانا
ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسرائیل کا لبنان پر حملہ
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

تیسری عالمی جنگ کے آثار
عطیہ منور

دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہ؟
منزہ انوار

فلسطین کا ایک سال — روزنامہ جنگ کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

ڈاکٹر ذاکر عبد الکریم نائیک کی ملاقاتیں
ادارہ

’’سلاطینِ ہند کی دینی و مذہبی مساعی‘‘
محمد عرفان ندیم

سلاطینِ ہند کی دینی و مذہبی مساعی از شمیم اختر قاسمی
پروفیسر عاصم منیر

یادِ حیات (۱) : خاندانی پس منظر/شیخینؒ کا تعلیمی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

Elopements and Our Legal Framework
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter