بالآخر وہائٹ ہاؤس کے ’’شیاطینِ بزرگ‘‘ سے ہری جھنڈی ملنے کے بعد اسرائیل نے لبنان پر فضائی اور بری حملہ کر دیا۔ جس میں 28 ستمبر کی رات کو ضاحیۃ بیروت میں امریکہ کے فراہم کردہ ۸۰ بنکر بسٹر بموں سے چھہ عمارتوں پر مشتمل ایک بڑے کمپاؤنڈ کو پوری طرح زمین دوز کر دیا گیا اور اس میں حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصر اللہ اور اس کی ٹاپ قیادت شہید کر دی گئی۔ یہ کئی افراد تھے جن میں بعض ایرانی کمانڈر بھی تھے جو وہاں حملے کے وقت موجود تھے اور میٹنگ کر رہے تھے۔ جنوبی لبنان اور دارالحکومت بیروت کے مضافات تک کے رہائشی علاقوں میں اسرائیل نے ایک ہی رات میں 1300 سے زاید ہوائی حملے کیے۔ جن میں ایک ہی دن میں چھ سو سے زیادہ شہری مارے گئے۔ انفرااسٹرکچر تباہ ہوا اور لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑ رہی ہے۔ زخمی ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔
تب سے اسرائیل کے حملے مسلسل جاری ہیں اور اب اس نے زمینی حملے بھی کر دیے ہیں جن کا حزب اللہ کے مجاہد بھرپور جواب دے رہے ہیں۔ بظاہر اسرائیل یہ دعوا کرتا ہے کہ اُس نے صرف حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ مگر امریکہ اور اسرائیل دونوں کا طریقہ ٔواردات جنگ میں زیادہ سے زیادہ شہریوں کو ہلاک کرنے اور انفرااسٹرکچر کی زیادہ سے زیادہ تباہی پر مبنی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح دشمن جلدی گھٹنے ٹیک دے گا۔
اسرائیل کا ماننا ہے کہ اس ہتھ کنڈے سے لبنان کے عوام خود حزب اللہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہی اندازہ اس کا غزہ کے بارے میں بھی تھا لیکن سال بھر سے زیادہ شدید اور ناقابل برداشت اذیتوں سے گذرنے کے باوجود غزہ کے عوام نے اس کو غلط ثابت کر دکھایا ہے۔
لبنان پر اپنے حملوں کا آغاز اسرائیل نے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں سے کیا جس کی پلاننگ ظاہر ہے کہ بہت پہلے سے کی گئی ہو گی، اور اس میں امریکی انٹیلینجس اور تائیوان وغیرہ کی کمپینیوں کا ملوث ہونے کا بڑا امکان ہے۔ اِن پیجر دھماکوں میں حزب اللہ کے بہت سے کمانڈرز و کارکنان بھی مارے گئے اور عوام بھی، اور ہزاروں لوگ زخمی بھی ہوئے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ حزب اللہ کا کمیونیکیشن سسٹم تباہ کر کے اُسے زبردست شاک لگا دیا گیا۔ اِس صدمے سے ابھرنے سے پہلے ہی اسرائیل اپنی مہیب فضائی قوت کے ساتھ لبنان پر چڑھ دوڑا۔
ابتدائی دنوں سے ہی حزب اللہ نے جو جوابی اسٹریٹیجی اپنائی تھی وہ کامیاب رہی یعنی دشمن کے اقتصادی، انٹیلیجنس ٹھکانوں، اسلحہ خانوں اور فیکٹریوں کو نشانہ بنانا۔ اگر آئرن ڈوم کی زد سے بچ کر اُس کے تھوڑے سے بھی میزائل اور راکٹ نشانہ پر پہنچ جاتے ہیں تو اس سے اسرائیل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ غزہ ایک ساحلی اور سپاٹ ایریا ہے کھلے آسمان کے نیچے، جبکہ لبنان پہاڑوں سے گھرا ملک ہے۔ پہاڑی محل وقوع سے بھی حزب اللہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ شاید انہیں خطرات کو محسوس کرتے ہوئے اسرائیل نے حزب اللہ کی پوری قیادت کو ختم کرنے کی پلاننگ کی تاکہ اُس کو پوری طرح مفلوج بنایا جا سکے۔ چنانچہ اسرائیل حزب اللہ کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہیں دے رہا تھا بلکہ تابڑ توڑ فضائی بمباری کر کے اس نے حزب کے مزید کئی قائدین کو ہلاک کر دیا۔ ابتداء میں حزب اللہ کو گہرا شاک لگا مگر رفتہ رفتہ اب اس نے خود کو سنبھال لیا اور اسرائیل پر جوابی حملے شروع کر دیے۔
۲۶۔۲۷ ستمبر ۲۰۲۴ء کو منعقدہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں امریکی صدر نے پھر وہی اپنا گھسا پٹا موقف دہرایا کہ اسرائیل کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔ حماس کا سات اکتوبر کا حملہ دہشت گردی تھا وغیرہ۔ انہوں نے اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین ۲۱ دن کی عارضی جنگ بندی کا بھی اعلان کیا جسے مسترد کرنے میں اسرائیل نے ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔ ترکی صدر رجب طیب اردغان اور اردن کے کنگ عبد اللہ بن حسین نے بڑی زوردار تقریریں کیں اور اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کے دوغلے پن کو صاف آشکارا کیا۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی شاید پہلی بار صاف و صریح الفاظ میں اسرائیل پر شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ ہماری سرزمین ہے اور ہم اس سے کہیں جانے والے نہیں۔ (لن نرحل لن نرحل)
جب اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کو خطاب کے لیے بلایا گیا تو تمام عرب نمائندے اور ان کے ساتھ بہت سارے ممالک کے سفراء ہال سے واک آؤٹ کر گئے۔ آدھا ہال خالی ہو گیا، اس نے خالی کرسیوں کو ہی خطاب کیا۔ سفارتی سطح پر یہ اسرائیل کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ آج دنیا کی رائے عامہ مغربی اور اسرائیلی میڈیا کے تمام تر غلط پروپیگنڈے کے باوجود اسرائیل اور امریکہ کا بیانیہ بک نہیں پا رہا ہے، اور پہلے مغربی دنیا کی رائے عامہ جو پوری طرح اپنے میڈیا کے ذریعہ گمراہ کی گئی تھی اب سرکاری نیریٹو کو قبول نہیں کر رہی ہے۔ اور نئی نسل سڑکوں اور کالجوں و یونیورسٹیوں میں اس کے خلاف نکل رہی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ پوری طرح اسرائیل کی غلامی کر رہا ہے۔ نتن یاہو جب چاہتا ہے بائڈن اور اس کی انتظامیہ کو دھتکار دیتا ہے اور اُن کو بے عزت کر دیتا ہے۔ اِن امریکی چودھریوں کو اپنی ذلت کا بھی احساس نہیں۔ کئی مہینے پہلے صدر بائڈن نے اسرائیل اور حماس کے بیچ جنگ بندی کا ایک پروپوزل یہ کہ کر پیش کیا تھا کہ یہ اسرائیل کا تجویز کردہ ہے۔ حماس نے اس کو تسلیم کر لیا مگر اسرائیل نے فوراً مسترد کر دیا۔ وہائٹ ہاؤس بجائے اس کے کہ اس پر ناراض ہوتا اُس کی لیپاپوتی میں لگ گیا۔ ہو یہ رہا ہے کہ اسرائیل کوئی بھی بیان یا تجویز دیتا ہے جو نتن یاہو کی خطہ کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کے پروگرام میں مدد دے، تو امریکی خارجہ سیکریٹری اُس کا چورن بیچنے کے لیے دوڑیں لگا دیتا ہے۔
یوروپ میں اسرائیلی جنگلی پن اور وحشیانہ اقدامات سے تشویش ہے مگر یورپ کے نوے فیصد ممالک اپنی سیکیوریٹی کے لیے امریکہ کے دست نگر ہیں، اس لیے اس کے خلاف جا نہیں سکتے۔
عرب ممالک، جو صحیح معنوں میں چند شیوخ کی جاگیریں ہیں، تمام کے تمام مل کر بھی اسرائیل کی مہیب فوجی طاقت کا اور خاص کر فضائی قوت کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ امریکہ ہر سال اسرائیل کو جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے یوں لیس کر دیتا ہے کہ پڑوسیوں کے لیے وہ ناقابل تسخیر بنا رہے۔ عرب رجواڑوں نے منظر سے اپنے آپ کو بالکل غائب کر لیا ہے۔ کاش کہ وہ اندلس کے ملوک الطوائف سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے جن کو جنوب کی ایک عیسائی ریاست نے ایک ایک کر کے نگل لیا تھا۔ او آئی سی اور عرب لیگ کا کوئی کردار نہیں۔ سعودیوں نے جو اپنے حلیفوں کی اتحادی فوج بنائی تھی، جس کی قیادت راحیل شریف کو دی گئی تھی اُس کا کوئی بیان تک نہیں آتا ۔وجہ ظاہر ہے کہ یہ رجواڑے پولیس اسٹیٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے پاس دشمن سے لڑنے اور اپنا دفاع کرنے کے لیے فوج نہیں ہے، بلکہ مخابرات (انٹیلی جنس) ہے جس کی تربیت امریکن سی آئی اے کرتی ہے۔ اور جس کا بہیمانہ استعمال داعیانِ دین کو ٹارچر کرنے اور مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
یو این کی سلامتی کونسل مفلوج ہو چکی ہے، تبھی تو وہ اپنی قرارداد (2735/2024) پر بھی اسرائیل سے عمل نہیں کروا سکی۔ یہ قرارداد بائنڈنگ تھی مگر امریکہ نے اس کو زبردستی نان بائنڈنگ قرار دے کر بے اثر کر دیا۔ آئی سی جے نے ایڈوائزری جاری کی کہ اسرائیل اپنی جارحیت فوراً بند کرے۔ مگر امریکہ نے سارے قواعد و ضوابط کو پامال کرتے ہوئے اس پر بھی عمل درامد نہیں ہونے دیا اور نتن یاہو کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ بھی ایشو نہیں ہونے دے رہا ہے۔
یو این سیکریٹری جنرل کو اسرائیلی نمائندے بار بار بے عزت کرتے ہیں۔ سلامتی کونسل کے ارکان کے سامنے اسرائیلی نمائندہ یو این چارٹر کو پھاڑ دیتا ہے۔ اب یو این سیکریٹری جنرل کو Persona non grata (ناپسندیدہ شخص) قرار دے کر اسرائیل میں داخلہ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
لبنان میں یو این کے جو سلامتی دستے تھے ان پر اسرائیل حملے کرتا ہے اور بنجمن نتن یاہو بڑے غرور سے کہتا ہے کہ یو این سیکریٹری جنرل کو اپنے دستوں کو وہاں سے نکال لینا چاہیے۔ اسرائیلی وزیر تعلیم کہتا ہے کہ لبنان کو بھی غزہ کی طرح ہموار کرنا ہے۔
اس منظرنامہ میں اسرائیل اب اچھی طرح سمجھ چکا ہے کہ اُس کو ہر طرح سے فری ہینڈ ملا ہوا ہے اور کوئی طاقت اُس کو روکنے والی نہیں ہے۔ یہی بات ای یو کے ایک اہم ذمہ دار جارج بوریل نے بھی کہی ہے۔ موقع کو سنہری جانتے ہوئے اب اسرائیل اپنے گریٹر اسرائیل کے خواب کو پورا کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ اخلاقی و معنوی سطح پر فلسطینیوں کو بتدریج کامیابی مل رہی ہے:
پہلے اُس کو اقوام متحدہ میں مستقل ممبر بنا لیا گیا اور آبزرور کی بجائے اس کو پرمانینٹ سیٹ دے دی گئی۔
دوسرے نمبرپر ۱۷ ستمبر 2024 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس کو یہ فتح حاصل ہوئی کہ 120 ممبران کی اکثریت نے اُس قرارداد کو منظور کر لیا جس میں اسرائیل کو 1967 پر قبضہ کیے ہوئے علاقوں کو مقبوضہ تسلیم کیا گیا اور اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ ان علاقوں کو خالی کرے۔ اس کے لیے اس کو ایک سال کا وقت دیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس قراداد کی مخالفت میں صرف چودہ ووٹ پڑے جبکہ 39 ممالک نے غیر حاضری درج کرائی۔ اور انڈیا بھی بے شرمی کے ساتھ انہیں غیر حاضر ملکوں میں رہا۔ انڈیا کا سرکاری میڈیا پوری طرح اسرائیل کی گود میں بیٹھا ہوا ہے اور اسی کے بیانیہ کو بے شرمی اور ڈھٹائی سے بیچ رہا ہے۔ بلکہ خفیہ طور پر اسرائیل کو ہتھیار بھی دیے جا رہے ہیں اور کئی ہزار مزدور بھی انڈیا نے اسرائیل بھیجے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ برہمن واد (ہندتو) اور صہیونیت دونوں نسل پرست تحریکیں ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی زبردست ہمدرد اور اسلام و مسلمانوں کی دشمنی میں ایک سے بڑھ کر ایک۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ خود عرب ملکوں کا سرکاری میڈیا بھی مغربی بیانیہ کا ہی پرچار کر رہا ہے۔ صرف الجزیرہ نے غیر جانبدار رپورٹنگ اور صداقت کا ساتھ دینے کی ہمت دکھائی ہے اور اپنے بہت سارے صحافیوں کی قربانی دی ہے۔
بہرحال اقوام متحدہ کی مذکورہ بالا علامتی قرارداد کا کوئی عملی فائدہ ہو گا یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا، بظاہر تو نہیں لگتا کہ ہو گا، تاہم اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی اکثریت فلسطین کے ساتھ ہے اور امریکہ و اسرائیل کو دنیا میں سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ یہ اکثریت کمزور ہے اور زیادہ تر تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتی ہے، جن کو معاصر سیاسیات میں گلوبل ساؤتھ کہا جاتا ہے۔
اسرائیل اور اس کے اتحادی (یعنی گلوبل نارتھ) اپنی عسکری طاقت، ٹیکنا لوجیکل برتری اور معاشی دھونس سے دنیا سے اپنی رِٹ منوا رہے ہیں۔ یہ مغربی دنیا اسرائیلی جارحیت سے یوں بھی ایکسپوز ہوئی ہے کہ حقوق انسانی کے جو ادارے انہوں نے بنائے، بنیادی انسانی آزادیوں کے جو تصورات دنیا کو دیے` اظہارِ خیال کی آزادی کا جو راگ صدیوں سے انہوں نے الاپا، اب خود ہی ان سب چیزوں کو اسرائیل کے لیے پامال کر رہے ہیں!
یہاں غالباً یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ شام کے بعض آزاد علاقوں میں اہل سنت نے شیخ حسن نصر اللہ کے مارے جانے کی خوشیاں منائیں اور سعودی عرب کے پیرول پر رہنے والے سنی دنیا کے بعض حلقوں سے ایسا ردعمل آیا جو نہیں آنا چاہیے تھا۔ خاص کر سلفی مدخلی رجحان رکھنے والے علما اور ان کے یوٹیوبرز کے تبصرے قابل افسوس ہیں۔ ایک مدخلی شیخ نے تو ’’نصراللہ علیہ لعنۃ اللہ‘‘ کی نام سے ویڈیو بنا کر ڈالی۔ مدخلی سعودی عرب میں ایک متشدد سلفی فرقہ ہے جو ایک متشدد سعودی عالم ربیع بن ہادی مدخلی سے نسبت رکھتا ہے اور اپنے سوا سب کو، جن میں اشاعرہ ماتریدیہ بھی ہیں، بدعقیدہ اور دوزخی سمجھتا ہے، برصغیر میں یہ اپنے آپ کو منھجی کہتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ حزب اللہ (جس کو مدخلی علما اور یوٹبرز حزب اللات کہتے ہیں اور نصر اللہ کو نصراللات) اور دوسری شیعہ ملیشیاؤں نے شام میں اہلِ سنت کا بے دریغ خون بہایا ہے۔شامی مظلوموں کی ایسے موقع پر خوشی منانا تو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے، مگر بڑی بات یہ ہے کہ اہل سنت و اہل تشیع کے اختلافات اپنی جگہ، یہاں دیکھنا یہ چاہیے کہ مقابلہ ایسے بے رحم دشمن سے ہے جس کی ڈکشنری میں اخلاقیات کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں اور جو نہ شیعہ کو چھوڑتا ہے نہ سنی کو۔ سو اپنے گھر کے اختلافات بعد میں بھی حل ہوتے رہیں گے مگر کامن دشمن کے خلاف تو ایک مشترکہ محاذ بنانا چاہیے۔
جب سنی ممالک نے فلسطین کو پوری طرح بے یارومددگار اور اسرائیل و امریکہ جیسے سفاک دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، اور ایران ہم مسلک نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی مدد کر رہا ہے تو ظاہری بات ہے کہ فلسطینیوں اور حماس والوں کا جھکاؤ ایران کی طرف ہونا ایک لازمی بات ہے۔ اصل قصور ان کا نہیں، خلیج کے بے غیرت حکمرانوں اور عرب منافقوں کا ہے! ایران کو کس بنیاد پر سنی مطعون کرتے ہیں! ان فریب خوردہ یوٹیوبرز کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل نے حسن نصر اللہ کو اِس لیے نہیں مار دیا کہ انہوں نے شام میں سنیوں پر مظالم ڈھائے تھے اور اسرائیل نے ان کا بدلہ لے لیا ہے، نہیں بلکہ اسرائیل نے ان کو اس جرم میں مارا ہے کہ انہوں نے اہل غزہ کا ساتھ دینے کی کوشش کی تھی۔
اتنی بڑی سنی دنیا کیا کر رہی ہے؟ ان کے علما اور یوٹیوبرز دجال کے خروج اور مہدی کے ظہور کے خیالی سراب کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں کہ مزعومہ مہدی آئے گا اور ان کے سارے دلدر دور کر دے گا! ان کو تو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ مہدی کا تصور تو اہل تشیع کے ہاں ان سے زیادہ قوی ہے مگر وہ صرف اس کے انتظار میں نہیں بیٹھے ہیں بلکہ دنیا میں اپنی بقا کے لیے اور آگے بڑھنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے وہ کر رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ایران اس خطہ میں تسلط کے اپنے مفادات و مقاصد رکھتا ہے مگر ایران کے (اور اس طرح مزاحمتی قوتوں) کے دشمنوں سے ہاتھ ملانے سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلہ کے لیے تو خود کو مضبوط اور متحد کرنا ہو گا، ایران سے مفاہمت کرنی ہوگی اور بین المسالک ڈائلاگ سے کام لینا ہو گا۔
خلیجی ممالک کا غزہ کے پورے المیہ کے دوران جس طرح کا المناک، بے غیرتی اور بے حسی کا رویہ رہا ہے اُس سے عوام اور حکمرانوں کے بیچ صرف دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ کرایہ کے لمبے عماموں والے اور طویل اللحیہ شیوخ کے فتوے امریکہ کے ذلہ ربا حکمرانوں کو کب تک بچائیں گے؟ پوری تاریخ کیا کہتی ہے جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو بڑے بڑے جبابرہ گر جاتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ عرب جاگیرداروں کو ایران کا خطرہ تو نظر آرہا ہے مگر وہ اسرائیل کے خطرے کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں، جبکہ اسرائیلی وزیر بن غفیر صاف صاف کہہ چکا ہے کہ ’’ہمیں اب گریٹر اسرائیل بنانا ہے اور پانچ ممالک کو فتح کرنا ہے‘‘۔ ان پانچ ممالک میں لبنان، سیریا، اردن، ترکی کا کچھ علاقہ سے لے کر سعودی عرب کا کچھ حصہ شامل ہے۔ ترکی صدر نے اسی خطرہ کو بھانپ کر کہا تھا کہ اسرائیل ترکی پر حملہ کرنے والا ہے۔ لیکن ان کو سمجھنا چاہیے کہ جب آپ صرف زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھیں گے تو دشمن کو فری ہینڈ تو آپ خود ہی دے رہے ہیں۔
اس خطہ میں جس ملک سے بھی اسرائیل کو کوئی موہوم سا بھی خطرہ ہو سکتا تھا اس کو امریکہ اور اس کے حلیفوں نے ختم کر کے رکھ دیا۔ عراق، لیبیا، شام سب کی یہی کہانی ہے۔ ترکی بھی اسرائیل اور بنجمن نتنیاہو کے خلاف زبانی اپنی بھڑاس نکالتا رہتا ہے مگر جیسے ہی امریکہ اور اس کے حلیف یہ محسوس کریں گے کہ وہ واقعی میں اسرائیل کے لیے کوئی خطرہ پیدا کر سکتا ہے تو وہ اس کی بھی خبر لینے میں دیر نہیں کریں گے۔ اس صورت حال میں جبر و تشدد کے علمبردار اس نظامِ عالم کے، فی زمانہ جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے اور جس کو صہیونی قوتوں کا عالمی مقتدرہ ہینڈل کرتا ہے، کے خلاف مزاحمت ایک شرعی و عقلی اور انسانی فریضہ ہے۔ اور اس میں مذہب و مسلک کی محدود تنگ نائیوں سے نکل کر ہی یہ مزاحمت کی جا سکتی ہے۔
شیخ حسن نصر اللہ کی شہادت سے پورے خطہ پر ایک رنج و الم کی کیفیت چھا گئی۔ مگر یہ خوف و ہراس کا ماحول عارضی رہا، حزب اللہ نے اپنا عبوری صدر نعیم قاسم کو مقرر کیا جنہوں نے ویڈیو بیان جاری کر کے بتایا کہ حزب اللہ کی دفاعی طاقت پوری محفوظ ہے اور قیادت کا بحران بھی جلد حل کر لیا جائے گا کیونکہ ان کے سسٹم میں سیکنڈ کمانڈ ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ ہاشم سیف الدین جن کو نصراللہ کی جگہ لینی تھی کو بھی قتل کر دینے کا دعوا کیا گیا ہے۔ اسرائیل نے بیروت پر بھی حملے کیے ہیں اس لیے لبنان کی سرکاری فوج کو مزاحمت کرنی چاہیے اور لبنانی حکومت کو اور زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے، فی الحال تو وہ بھی مفلوج سی نظر آرہی ہے اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی سی کنفیوزن والی حالت میں ہے، اپنے عوام کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہی ہے۔ محور المقاومہ یمن اور عراق سے برابر حملے کر رہا ہے جبکہ حزب اللہ نے بھی راکٹ داغنے جاری رکھے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حزب اللہ اپنے دفاعی کمانڈ کو مجتمع کر چکا ہے۔ اسرائیل کے زمینی حملوں کا مقابلہ کامیابی سے کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف حالانکہ اسرائیلی سماج اس وقت پوری قوت سے بنجمن نتنیاہو کے پیچھے کھڑا ہو گیا ہے مگر اسرائیل اب بہت سے لوگوں کے لیے محفوظ جگہ نہیں رہ گیا ہے، اس لیے ملک کو چھوڑ کر جانے والے اعلیٰ تعلیم یافتوں اور پیشہ وروں کی تعداد میں برابر اضافہ ہو رہا ہے جس کا اسرائیل کی معیشت پر جلد یا بدیر برا اثر پڑنا لازمی ہے۔
تجزیہ نگار نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ
’’ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل میں یہ طے پا گیا ہے کہ حزب اللہ کو نیوٹرلائز کر کے شام پر بھی حملے کیے جائیں۔ اور ایران اگر عوامی پریشر میں آکر اسرائیل پر حملہ کرتا ہے تو اس کے خلاف بڑی کارروائی کرنے کا امریکہ اور اسرائیل کے پاس جواز ہو جائے گا۔ پھر وہ یا تو ایران میں Regime change کرنے کی کوشش کریں گے (جو کہ اب بھی کرتے رہتے ہیں) مگر ایران پر حملہ کی صورت میں وہاں یقینی طور پر تختہ پلٹ ہو جائے گا۔ اور اس کے بعد اس خطہ سے مزاحمتی تحریکوں کو نیست و نابود کر کے فلسطینی مسئلہ سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل جائے گا۔ غزہ کو برباد کر چکے، لبنان کا کچھ حصہ اور شام کی گولان پہاڑیوں تک کو اسرائیل کے اندر ضم کر لیا جائے گا۔ جیسا کہ ٹرمپ کئی بار کہہ چکا ہے‘‘۔
اور ایک عرب مبصر کا خیال ہے کہ:
’’اس موقع پر نتن یاہو امریکہ کو اور اپنی پبلک کو یقین دلا چکا ہے کہ اسرائیلی فوجی طور پر جیت رہا ہے۔ لہٰذا اس کو لبنان میں فری ہینڈ دے دیا جائے اور امریکہ اسے یہ فری ہینڈ دے چکا ہے۔ باقی جنگ بندی وغیرہ کی باتیں محض لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ہیں‘‘۔
راقم السطور نے عرب میڈیا پر نظر رکھی ہوئی ہے اور اس کا بھی یہی خیال ہے کہ غزہ کو تباہ کر کے اب فی الحال اسرائیل جنوبی لبنان اور شام کے کچھ علاقے پر قبضہ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور اس کے اتحادی اصل میں ایران کے نیوکلیر پروگرام کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اسرائیل ایران کو بار بار provoke کرتا آرہا ہے کہ وہ کوئی سخت ردعمل دے کہ اس کے خلاف جنگ چھیڑی جا سکے۔ ایسے میں ایران کچھ دنوں تک تو ایک مخمصہ میں پڑ گیا۔ ایک طرف اس کے عوام کا پریشر تھا کہ اسرائیلی جارحیت کا جواب دیا جائے، دوسری طرف اس کے لانگ ٹرم مقاصد اجازت نہیں دے رہے تھے کہ وہ جنگ میں شامل ہو جائے۔ کچھ نہ کرنے کے نتیجہ ہی میں اسرائیل تہران میں گھس کر اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کی جرأت کر سکا۔ لیکن اب اُس نے عوامی مطالبات مانتے ہوئے جوابی حملہ کیا۔ ایک آپشن یہ بھی تھا جو زیادہ قرینِ قیاس لگتا تھا کہ ایران علی الفور حماس اور حزب اللہ کو جنگی مدد دے، اپنے تجربہ کار جنرل بیروت بھیجے اور اس طرح محور المقاومہ کو پھر سے اسرائیل کا شدید مد مقابل بنا دے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل دونوں ایران سے سیریا اور وہاں سے لبنان آنے والی سپلائی پر برابر فضائی حملے کر رہے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی اسرائیل نے سیریا میں روس کے ائیربیس تک کو نشانہ بنایا۔ اس لیے جنگی مدد حزب اللہ کو دینا بہت آسان بھی نہیں ہے۔
اس جنگ میں اسرائیل کا ہارنا خود خلیج کے ممالک، فلسطین کے مستقبل اور لبنان و ایران سب کی بقا و تحفظ کا ضامن ہو گا۔ اس کی جیت سے امریکہ و اسرائیل پھر سے اس خطہ کا نقشہ بدل دیں گے۔ لیکن افسوس کہ خلیج کے چھوٹے بڑے اور ثروت مند ممالک سعودی عرب، امارات اور ان کے پچھ لگو مصر اور اردن بھی ایران، حزب اللہ اور حماس وغیرہ کی شکست میں اپنی فتح دیکھتے ہیں۔ وہ (درپردہ) اسرائیل کو فاتح دیکھنا چاہتے ہیں، اسی لیے سعودی عرب کی قیادت میں فلسطینی مسئلہ کے حل کے لیے ایک شوپیس کی حیثیت کا بین الاقوامی محاذ بنانے کوشش کی جا رہی ہے جس میں یوروپی یونین کے بعض ممالک بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یہ بلاک اس مسئلہ کے حل کے لیے مزاحمت کی قوتوں سے بالا ہی بالا ایک عالمی کانفرنس بلائے گا جس کا میزبان سعودی عرب ہوگا، اور اُس کے بعد کچھ عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
اس بارے میں ابھی کچھ کہنا تو قبل از وقت ہو گا مگر خلیج کے عرب ممالک اب تک کے کردار کے مد نظر یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مزاحمت کی قوتوں کو اس عمل سے پوری طرح باہر رکھ کر فلسطینی اتھارٹی سے سودے بازی ہو گی۔ غزہ اور مغربی کنارہ کا کچھ حصہ لے کر اس پر فلسطین کے قیام کا اعلان کیا جائے گا۔ القدس کی صورت حال جوں کی رکھنے کی کوشش ہو گی، اور اس کے مشرق میں واقع ابودیس نامی ٹاؤن کو فلسطین کا ممکنہ دارالحکومت قرار دیا جائے گا۔ عرب ممالک خاص کر سعودی عرب غزہ کی بازآباکاری کریں گے (اگر اسرائیل اجازت دے گا)۔ مغربی کنارہ میں اسرائیلی سیٹلمنٹ برقرار رکھے جائیں گے کیونکہ اسرائیل سردست ایک انچ زمین بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مغربی کنارہ وہ ہرگز نہیں دے گا کیونکہ اس کو وہ قدیم اسرائیلی ریاست جوڈیاسمیریا کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ ملینوں فلسطینی رفیوجیوں کو کچھ جاب یا پیسے دے دلا کر قصہ ختم کرنے کی کوشش ہو گی۔ اس مجوزہ آزاد فلسطین کی حیثیت ایک میونسپلٹی سے زیادہ نہیں ہوگی لیکن سردست دنیا کی رائے عامہ کو بہلانے کے لیے اس طرح کا اقدام غالباً اٹھا لیا جائے گا۔
لیکن یہ سب بھی اس وقت کی بات ہے جب اسرائیل اس پر کچھ لے دے کر معاملہ حل کرنے کے لیے تیار ہو۔ ابھی تو وہ تو دنیا کے سامنے جھوٹوں کو بھی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا روادار نہیں ہے۔ اس لیے معلوم نہیں کہ خلیجی ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کے لوگ کس سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور امریکہ اور یہ لوگ کس طرح دنیا میں دو ریاستی حل کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ البتہ یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ عرب ممالک سردست اس سے زیادہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ سعودی ولی عہد (اور اصل حکمراں) محمد بن سلمان کی امریکی خارجہ سیکریٹری سے بات چیت کی خفیہ آڈیو بھی جو لیک ہو گئی سوشل میڈیا پر گردش میں ہے جس میں وہ صاف طور پر کہہ رہے ہیں کہ وہ ’’فلسطینیوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے‘‘ (I don't care)۔
المبادرۃ الفلسطینیۃ (یا فلسطینی انیشئیٹو) کے صدر مصطفیٰ البرغوثی یہی کہتے ہیں کہ ’’عرب ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کے لوگ بڑی غلطی کر رہے جو امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ ان کا مسئلہ حل کرا دے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اس نزاع میں پہلے ہی دن سے اسرائیل کی سائڈ پر ہے تو کیسے اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کوئی پازیٹیو یا کسی منصف ثالث کا رول ادا کرے گا۔‘‘
جنگ باز اور عیار نتن یاہو نے اپنے حربی مقاصد میں بھی توسیع کر لی ہے۔ اب امریکہ کی بھرپور حمایت سے نتن یاہو کی یہ ہمت ہو گئی ہے کہ وہ صاف کہہ رہا ہے کہ اِس خطہ کو نئی shape دینی ہے۔ لبنان پر کیے گئے اپنے حملہ کو بھی اس نے آپریشن نیوآرڈر کا نام دیا ہے۔
تاہم اسرائیل پر ایران کے حملہ نے صورت حال کو کچھ بیلینس کیا۔ دو اکتوبر 2024 کو ایران نے دو سو ہائی سپرسونک میزائل اسرائیل پر داغے جس سے صورت حال میں تبدیلی آئی۔ گو ان حملوں میں اسرائیل کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مگر اس کے بہت سے میزائل اہداف تک پہنچے جو جاسوسی کے نظام مراکز اور اسلحہ ڈپو، پلاننگ کے مراکز اور معاشی اہمیت کے حامل اداروں تک ہی محدود تھے۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں کا دعوا ہے کہ انہوں نے تمام میزائل انٹرسیپٹ کر لیے تھے، مگر سابق امریکی انٹیلی جنس آفیسر اسکاٹ رٹر کا ماننا ہے کہ ایران کے میزائل اپنے اہداف تک پہنچے۔ اسرائیل میں وہ رات قیامت کی رات تھی جب پورے اسرائیل کے لوگ خوف و دہشت میں تھے۔ صہیونیوں کے لیے یہ خوف و دہشت جانی نقصان سے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس خوف و اضطراب سے اسرائیل کے شہری ناآشناہیں، وہ اب اسرائیل کو غیر محفوظ قرا ردے کر امریکہ و یوروپ کی طرف بھاگنا شروع کر دیں گے، جو نفسیاتی اور اقتصادی بے چینی میں اضافہ کرے گا۔ ایران نے خبردار بھی کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے جوابی حملوں کی کوشش کی تو اگلی بار ایران اسرائیل کے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنائے گا۔ یہ تو یقینی ہے کہ اسرائیل خاموش تو نہیں بیٹھے گا اور اس کی امریکہ سے خفیہ بات ہو رہی ہے کہ اگلا نشانہ کس کو بنایا جائے۔
امریکی فوجی ائرکرافٹ کیریر بحری بیڑے ایران کے ساحلوں پر پہنچ گئے ہیں۔ امریکہ نے اپنا جدید ترین Thad سسٹم بھی اسرائیل میں ڈپلائے کر دیا ہے۔ اور دنیا کے سامنے یہ بیانات بھی متواتر دے رہا ہے کہ ہم جنگ کے دائرہ کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کیسی کوشش ہے کہ ایک Monster کو آپ سر سے پاؤں تک خطرناک ہتھیاروں سے لیس کرنے کے بعد گاؤں میں بھیج دیں اور پھر یہ امید لگائیں کہ وہ گاؤں پر حملہ نہیں کرے گا!
سولہ اکتوبر 2024 کو حماس کے سربراہ اور اسرائیل پر سات اکتوبر (2023) کے حملہ کی کامیاب پلاننگ کرنے والے یحیی السنوار بھی اسرائیلی فوجیوں سے شجاعت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس وقت وہ رفاہ کے تل السلطان ایریا میں تھے جب ان پر حملہ کیا گیا۔ یحیی ابراہیم حسن السنوار 29 اکتوبر 1962 کو غزہ کے خان یونس میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت مصر کے زیر انتظام تھا۔ سنوار کئی سال اسرائیلی جیل میں رہے، وہیں انہوں نے ہبرو (عبرانی) سیکھ لی تھی۔ وہ نہایت ذہین اور منصوبہ ساز تھے جن کی پلاننگ سے اسرائیل بھی خوف کھاتا تھا۔ اب ان کے بعد حماس کا سربراہ کون ہو گا، اس کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ویسے حماس کے اب سب سے بڑے قائد خالد مشعل ہیں جو قطر میں قیام پذیر ہیں۔
امریکہ سے لیکر اسرائیل اور ان کے حلیفوں کے کیمپ میں سنوار کی شہادت پر خوشیاں منائی گئی ہیں اور بھارت کے برہمنی میڈیا نے بھی خوشی منائی، مگر ان بیچاروں کو معلوم نہیں کہ اسلامی روایت میں شہادت کی موت اعلیٰ درجہ کی موت سمجھی جاتی اور فلسطینیوں کے لیے تو یہ ایک فخر کی چیز ہوتی ہے۔ چنانچہ حماس کے لوگوں نے اور فلسطین کے عام لوگوں نے بھی اس کا اظہار کیا ہے کہ سنوار کی شہادت سے حماس کی مزاحمت کمزور نہیں ہوگی بلکہ اُس کو اس سے اور زیادہ طاقت ملے گی۔ بلکہ یو این او میں ایران کے مندوب نے بھی نہایت جرأت سے اسی بات کا اعادہ کیا۔