سوال:
منافقین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے کام میں مسائل پیدا کیے۔ جب آنحضور دنیا سے تشریف لےگئے تو بعد میں ان منافقین نے دیگر مسائل پیدا کرنے کےساتھ یہ بھی تو کیا ہوگا کہ آپ علیہ السلام کی طرف احادیث منسوب کی ہوں اور وہ احادیث ہماری کتب صحاح و دیگر کتب میں جگہ پا گئی ہوں۔ چونکہ یہ لوگ نبی کریم کے زمانہ کے تھے، اس وجہ سے ان کی بات ہاتھوں ہاتھوں لی جاتی ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہ لوگ، صحابہ کرام کی جماعت میں شامل تھے جن کی بات بعد میں آنے والوں کے لیے حجت ہے، اس لیے ان کی بات لکھ لی گئی ہوگی۔ کیا ایسا ممکن تھا؟ اگر ممکن تھا تو علمائے حدیث نے اس کی تحقیق کیسے کی؟
جواب:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں منافقین یقیناً مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے، لیکن یہ امکان کہ انھوں نے اپنی طرف سے کچھ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے مسلمانوں میں پھیلا دی ہوں، تاریخی طور پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل حقائق پیش نظر رہنے چاہییں۔
۱۔ مسلمانوں کا دین اساسی طور پر علم العامۃ کے طور پر تاریخ میں محفوظ کیا گیا ہے، چنانچہ دین کی کوئی اساسی تعلیم ایسی نہیں جو کسی خبر واحد پر منحصر ہو۔ مسلمانوں کا دین اصلاً قرآن مجید اور سنت متواترہ کی صورت میں ہے جو نبی علیہ السلام کے دور سے ہی مسلمانوں کے عمومی اتفاق سے امت کو نسل در نسل نقل ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اخبار آحاد میں ذیلی اور فروعی نوعیت کی توضیحات بیان ہوئی ہیں جنھیں قطعی اور متواتر دین کی روشنی میں جانچ پرکھ کر ہی قبول کیا جاتا ہے۔
۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا ذخیرہ بنیادی طور پر جن اکابر صحابہ سے مروی ہے، ان کے ایمان کی صحت کی واضح گواہی احادیث میں موجود ہے۔ غیر معروف صحابہ جن کے احوال کے متعلق تفصیلی معلومات دستیاب نہ ہوں، بہت کم ہیں اور ان سے منقول روایات بھی معدودے چند ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذخیرہ حدیث کے کم وبیش نوے سے پچانوے فی صد حصے میں اس خدشے کا امکان نہیں کہ اس میں عہد نبوی کے منافقین نے کوئی دراندازی کی ہو یا اپنی طرف سے کچھ باتیں اس میں شامل کر دی ہوں۔
۳۔ عہد نبوی کے سرکردہ منافقین کا راز عمومی طور پر فاش نہیں کیا گیا تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ مثلاً حضرت حذیفہؓ کو ان کے ناموں سے باقاعدہ آگاہ کر دیا تھا۔ یہ بارہ افراد تھے جن پر حضرت حذیفہ کی نظر رہتی تھی۔ چنانچہ وہ ان کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوتے تھے اور لوگوں کو یہ بھی بتاتے رہتے تھے کہ اب ان میں سے کتنے افراد زندہ باقی ہیں۔ ایک موقع پر انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ ان میں سے چار لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ان افراد کی سرگرمیوں پر اور خصوصاً ان کی بیان کردہ باتوں پر بھی ان کی نظر رہتی ہوگی اور اگر وہ کوئی ایسی بات حضور علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے جس کا مضمون مشتبہ ہوتا تو یقیناً حضرت حذیفہؓ اس کے متعلق لوگوں کو خبردار کر دیتے۔
۴۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کسی غیر معروف یا غریب بات پر کھٹک محسوس کرنے اور اس کی تحقیق وتفتیش کرنے کا رجحان بھی عہد صحابہ میں عام تھا اور اکابر صحابہ کسی غیر معروف بات کو اور خصوصاً کسی ایسی بات کو جو دین کے معروفات سے ٹکرا رہی ہو، قبول نہیں کرتے تھے۔ اس تناظر میں بھی یہ امکان بہت ہی نادر ہو جاتا ہے کہ کسی شخص نے کوئی ایسی بات گھڑ کر رسول اللہ کی نسبت سے مسلمانوں میں عام کر دی ہو جو بالکل ہی بے اصل ہو اور اس کی چھان پھٹک کرنا راوی کے ظاہری اعتماد کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے ناممکن بن گیا ہو۔