تاریخ کے لیے انگریزی میں لفظ History استعمال ہوا ہے۔1 جس کے معانی ہیں: (۱) مہینے کا ایک دن، (۲) کسی چیز کے ظہور کا وقت، (۳) وہ کتاب جس میں بادشاہوں اور مشہور آدمیوں کے حالات اور ان کے عہد کے واقعات درج ہوں، (۴) جملے، شعر یا فقرے، جن کے عدد نکالنے سے مادہ تاریخ نکل آئے (۵) روایات، قصے، افسانے (۶) جنگ نامے۔2
اردو میں تاریخ کے مترادف الفاظ توریخ، تواریخ، اخبار، تذکرہ، کتاب، روایت، داستان، دن، عہد، دور، مجموعہ، واقعہ، روزنامچہ، کہانی، خبر، خبریں اور علم سرگزشت وغیرہ ہیں۔ عام لغات میں تاریخ کے معنٰی ہیں "وقت بتانا" درج ہے۔ اصل میں تاریخ اور توریخ ایک ہی معنی دیتے ہیں۔
عربی زبان میں ارخت الکتاب بولا جاتا ہے یعنی کتابت کا وقت درج کرنا۔ عربی زبان میں نازل شدہ کتاب مقدس قرآن مجید میں لفظ تاریخ کے لیے بیسیوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً موقوتاً، قصص، دھر (زمانہ)، عصر اردو، واقعہ اور خود لفظ آیت بھی کئی معنی دیتا ہے۔
ترکی زبان میں لفظ History کو Torik کے نام سے رقم کیا گیا ہے۔3 جرمن زبان میں History کے لیے لفظ Geschichte ادا ہوتا ہے جس کے معنی Ancient/Old history, event, story کے ہیں۔4
فرانسیسی زبان میں لفظ History لفظ History کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں اس کے معنی تاریخ و کہانی کے ہیں۔5
اٹھارہویں صدی عیسوی میں زمانے کی دیگر ترقیوں کے ساتھ ساتھ لفظ History نے بھی ترقی کی جانب قدم بڑھایا اور اسے “Philosophy of History” کہا جانے لگا۔
تاریخ کسی بھی نصاب تعلیم کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ سب سے منور، جگمگ کرنے والا، ذہنی و روحانی طور پر بصیرت سے بہرہ ور کرنے والا علم ہے۔ ذہن و روح کی بھر پور فطری و قدرتی نشوونما میں معاون و موید و کارگر ہو، جو ذہن و جذبات میں اُبال پیدا کرنے کا موجب بنتا ہو۔ تاریخ کا مقصد ہونا چاہیے: زندگی کی تفہیم۔ ابتدائی ایام میں لوگ کس طرح سوچتے تھے، محسوس کرتے تھے، زندگی گزارتے تھے، ان کے افکار، محسوسات طرزِ زیست، سب کا مطالعہ تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ تاریخ ایک ایسا علم ہے جو لوگوں کے دلوں میں ایک تعمیری تخیل اور طاقت و جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔
مسلم تاریخ اس انداز سے پڑھائی جائے کہ مسلمان طالب علم اپنے علمی، سماجی، سیاسی ورثے تہذیبی و ثقافتی ورثے پر فخر کرنے والا بنے۔ اور وہ اپنے آپ کو ماضی کی اس شاندار تحریک کا ایک رُکن محسوس کرے۔ مسلمان حکام، امرا، سپہ سالاران، علماء، دانش وروں، معماروں، امرا یہ نہ صرف یہ کہ ان پر فخر کرے بلکہ ان جیسا بننے کی تڑپ اور لگن پیدا کرے۔
مسلمان نصف دنیا کے فاتح رہے ہیں۔ صرف ممالک و براعظموں کے نہیں بلکہ دلوں کے فاتح، کہ جن کو لوگ پوچنے پر مجبور ہو جائیں۔
ان کی مثالیں، اور نمونے تاریخ کا لازمی جزو ہونے چاہیئں۔ تاریخ کا علم نا پختہ ذہنوں کو پختگی عطا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ان کی ذہنی و روحانی تربیت کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔
حضرت آدمؑ سے لے کر نبی آخر الزمان ﷺ تک تاریخ مذاہب عالم میں کوئی مذہب بھی اپنی تاریخ کے لیے اس قدر عالم گیر، ہمہ گیر، جامع و منظم اور مکمل تاریخ ساز مواد کا خزانہ نہیں رکھتا، جس قدر تاریخ اسلام۔ دنیا کے بڑے مذاہب، یہودیت، نصرانیت، ہندو مت اور بدھ مت کے مذہبی تاریخی حوادث و روایات میں توازن و اعتدال کی روح نمایاں طور پر کم پائی جاتی ہے۔ وہ آج تک اسلامی تاریخ نگاری کی تجزیاتی و تنقیدی، اجتہادی و استبادی اور علمی و فکری جامع خصوصیات کے چیلنج کا جواب نہیں دے پائیں۔
تاریخ مذاہب عالم کا مل نہیں ادھوری ہے کیوں کہ اس میں جزوی صداقت پائی جاتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلامی تاریخ پر اعتبار سے مکمل و حسین اور فطری ہے۔ اس کا تجربہ اس قدر کامیاب ثابت ہوا کہ اسلامی معاشرہ صدیوں تک مثالی سمجھا جاتا رہا اور اس نے علم و حکمت ادب و فن، صنعت و حرفت، ریاست و حکومت، قانون و سیاست، سیاحت و حرب، معاشیات و فقاہت، غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں عظیم و باکمال اور نابغہ روزگار شخصیات پیدا کیں اور اُمتِ مسلمہ نے سات آٹھ صدیوں تک اقوام عالم کی قیادت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلامی نظام کو پھر قائم کر دیا جائے تو دنیا اسے پھر مثالی سمجھنے پر مجبور ہو جائے گی۔
ابن خلدون وہ پہلا شخص ہے، جس نے اس خاص نقطہ نظر کو پیش کیا ہے، جس کی رُو سے، تاریخ کو اسی حد تک کہ اس کی غائب حقائق کو جمع کرنا اور اس کی تنظیم و منہج ہے تاکہ ان کے ذریعے اسباب و تنازع کا انکشاف ہو سکے۔ ان کے نزدیک کسی تمدن میں جب کبھی خاص اسباب و علل کا اجتماع ہوتا ہے، تو اس وقت ایک معین حادثے کا ظہور ہوتا ہے۔ تاریخ کی غایت اجتماعیات یا حیاتِ اجتماعی کا مطالعہ ہے۔
تاریخ ایک دلچسپ علم ہی نہیں، دل چسپ مہم بھی ہے۔ گزشتہ قوموں کے اخلاق و احوال؛ انبیاء کی شریعتوں سے آگاہی؛ حکومت اور سیاست کے انداز، سلاطین کی پالیسی، حکمت عملی سے آگاہی؛ لڑائیوں اور حکومت کی خبروں؛ سابق صدیوں کے بیتے ہوئے واقعات؛ حکومتوں کے عروج و زوال کی داستان، سب کچھ تاریخ میں ملتا ہے۔ اسی طرح واقعات کی کیفیات و اسباب کا گہرا علم بھی تاریخ سے حاصل ہوتا ہے۔
بڑے بڑے مورخین اسلام نے مفصل تاریخین لکھیں اور دنیا کے واقعات قلم بند کیے۔ اہم مسلم مورخین میں ابن اسحقٰ، ابن جریر طبری، ابن کابسی، محمد بن عمر و اقدی، مسعودی، یعقوبی، ابن کثیر، ابن اثیر اور ابن خلدون وغیرہم قابلِ ذکر ہیں۔ جنہوں نے تاریخِ انبیاء سے لے کر اپنے عہد تک کے حکمرانوں کی مفصل اور متنوع تواریخ لکھ ڈالیں۔ جن میں اس عہد کے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ اصولِ حکمرانی، قواعدِ سیاست، طبیعتِ مدنیت، تمدن و معاشرت تک کے حالات لکھ ڈالے۔ انہوں نے صرف نقل پر اکتفا نہ کیا بلکہ عقلی اور درایتی معیارات کو بھی بروئے کار لائے۔
برصغیر کی تاریخ پر لکھی گئی کتب کے تذکروں میں ابوریحان البیرونی (۱۰۴۸ء) کی "کتاب الہند" کا نمبر سب سے پہلے آئے گا۔
سردار امراو بہادر کی "بھارت پران" جسے ہندوستان کی قدیم تاریخوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ۵۷۱ صفحات پر مشتمل کتاب، ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئی۔ "بھارت پران"، ہندوستان کی پرانی تاریخ ہے۔ نیز مصنف نے رامائن اور مہابھارت کو بھی پرانے زمانے کے پرانے ہندوستان کی تاریخ کہا ہے۔ اور اس کے لئے انہوں عالمی ادب کے کئی بڑے لوگوں کا سہارا لیا ہے۔ بہرحال یہ کتاب قدیم ترین ہندوستان کی تاریخ ہے جس کو مختلف ابوابوں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ہندوستان قدیم کو سمجھنے میں کسی حد تک معاون ہے۔
ضیاء الدین برنی (۱۳۵۷ء) کی "تاریخ فیروز شاہی" مملوک بادشاہ غیاث الدین بلبن کے دور ۱۲۶۵ء سے فیروز شاہ تغلق کے چھٹے سال جلوس ۱۳۵۷ء تک سلاطین دہلی کی پچانوے (۹۵) سال کی نہایت اہم تاریخ ہے۔
"منتخب اللباب"، خافی خاں نظام الملک کی تصنیف ہے جو ہندوستان کی عمومی کتب ہائے تواریخ میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کو تاریخ خافی خان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کتاب کو تین جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی جلد میں سبکتگین سے لے کر لودھیوں تک کے مقامی شاہی خاندان شامل ہیں۔ جلد دوم میں تیموری خاندان اور مغل شہنشاہ اکبر تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جلد ۳ اکبر کی وفات کے بعد مغل دور (1605) پر محیط ہے۔ اس کتاب میں محمد شاہ کے دورِ حکومت کے 14 ویں سال یعنی 1732 کے آغاز تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
"ہندوستان کا شاندار ماضی" 6، اے ۔ایل باشم کی مشہور کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ جس کو غلام سمنانی صاحب نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ یہ کتاب ہندوستانی تہذیب و تمدن کی عکاس ہے۔ ہندوستان کی تہذیب و تمدن اور تاریخ کو بیان کرتے ہوئے مصنف نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ کوئی چیز محروم تشریح نہ رہ جائے ۔ہندوستان کی تہذیب، مذہب اور فن اہم ہیں۔ اس لیے بہرحال مختصرا ہی سہی ہندوستانی زندگی و فکر کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔ ہندوستانی تہذیب و تمدن نہایت ہی رنگا رنگ اور خوبصورت ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پیش نظر کتاب اسی رنگا رنگ تہذیب و ثقافت سے واقف کراتی اہمیت کی حامل ہے۔
"سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات" از خلیق احمد نظامی7 اس موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ سلاطین دہلی کے عقائد و نظریات کیا تھے؟ اس پہلو پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ حالانکہ اس موضوع پر یوروپین مورخین نے بہت کچھ لکھا ہے مگر ان کی تحریروں کی حقانیت پر پورا بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ان سلاطین کی زندگی کے ماخذ زیادہ تر فارسی زبان میں ہیں۔ اس کتاب میں سلطان قطب الدین ایبک سے لے کر سلطان ابراہیم لودھی تک تمام سلاطین دہلی کے مذہبی افکار، نظام حکومت اور تاریخ اسلام میں سلطنت دہلی کی حیثیت پر مکمل بحث موجود ہے۔
"سلاطینِ دہلی کے عہد میں ہندوستان سے محبت و شیفتگی کے جذبات" از صباح الدین عبد الرحمان8 میں موضوع سے متعلق مواد کو علمی انداز میں عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔
"مسلمان حکمران" از رشید اختر ندوی9 رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں میں سے ٹیپو سلطان تک کے حکمرانوں کے احوال و وقائع کا ایک طویل تذکرہ ہے۔
صباح الدین عبدالرحمان کی کتاب "ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری"10 اپنے موضوع پر نہایت اہم کتاب ہے۔ مصنف نے مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری کے متعدد واقعات مستند حوالوں کے ساتھ نقل کیے ہیں۔
مصنفِ موصوف کے دیگر کتب میں سے دو کتابیں: "ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے تمدنی کارنامے" اور "ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے تمدنی جلوے" بھی موضوع سے متعلق اہم کتب سمجھی جاتی ہیں۔
ایشور ناتھ ٹوپا کی "ہندی مسلمان حکمرانوں کے سیاسی اصول"11 میں مصنف نے سلاطین اور مغل حکمرانوں کی سیاسی پالیسیوں کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ محمد بن قاسم کی سیاسی پالیسیوں سے آغاز کر کے مغل حکمرانوں تک بشمول عہدِ سلطنت کے مختلف خاندان حکمرانوں کے ادوارِ حکومت میں رائج سیاسی نظام خصوصاً جزیہ جیسے مسائل کا اختصار سے جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ یہ ان موجود تاریخی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے، جو برٹش حکومت کے زمانے میں پیدا ہو گئی تھیں۔ مصنف کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کی پالیسی سیاسی مصلحتوں سے اثرانداز ہوتی رہی ہے نہ کہ مذہبی اور تبلیغی جذبات سے۔
نندینی چترجی کی اس موضوع پر ایک اہم کتاب :
Negotiating Mughal Law: A Family of Landlords across Three Indian Empires12
ہے۔ کتاب میں مصنفہ نے دیہی علاقوں سے میسر معلومات کی بنیاد پر مغل عہد کے مالیات اور ٹیکسوں کے نظام کا احاطہ کیا ہے۔ کتاب سے اس غلط فہمی کی تصحیح ہوتی ہے کہ مسلم ادوارِ حکومت میں غیرمسلموں سے کوئی اضافی محصولات لیے جاتے تھے۔
محمد شفیع علوی کاکوروی کی کتاب "مسلمان حکمرانوں کی ہندی قدردانی"13 میں مصنف نے ہندی تمدن و ثقافت کے نشو و ارتقاء میں مسلمان حکمرانوں کے جاندار کردار کو اجاگر کیا ہے۔ اس ضمن میں صوفیاء، علماء، جاگیردار، گورنرز، اور دیگر طبقوں کے مثبت کردار کو نمایاں کیا ہے۔
"ہندوؤں کی علمی و تعلیمی ترقی میں مسلمان حکمرانوں کی کوششیں"، اس عنوان سے سید سلیمان ندوی نے بہت عمدہ کتاب تحریر کی۔
ہندوستان میں مسلم حکومت
مغل سلطنت کا آغاز 1526ء میں ہوا جب اس کے بانی بابر نے پرانی دہلی سلطنت کے آخری خاندان کا تختہ الٹ دیا۔ وہ سیدھا وسطی ایشیا سے، سمرقند اور کابل سے نکلا تھا۔ پہلے پانچ شہنشاہ، وہ حکمران ہیں جن کے بارے میں مغل تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے۔ ان میں سے آخری اورنگ زیب ہمیں 18ویں صدی کے اوائل میں لے جاتا ہے۔
اس کی موت کے بعد، 1707ء میں، سلطنت نے ایک صدی کے بتدریج زوال کا تجربہ کیا۔ برطانوی حکمرانی کے خلاف 1857ء کی عظیم بغاوت کے بعد جو 1858ء تک کئی طرح سے جاری رہی اور بالآخر اسے باضابطہ طور پر بجھادیا گیا۔ اسی سال ملکہ وکٹوریہ نے مغل ریاست کو باقاعدہ طور پر تحلیل کر دیا اور ہندوستان کو برطانوی سلطنت کا حصہ قرار دیا۔ لہذا، سرکاری طور پر، مغل سلطنت کی تاریخیں 1526ء سے 1858ء تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگرچہ مغلیہ سلطنت کا شان دار دور تو 16 ویں اور 17 ویں صدی کے آخر میں، اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں کا دور ہی تھا۔ ان پانچ عظیم شہنشاہوں میں سے آخری عالمگیر کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے ۔
مختصراً، مغلوں نے جو کچھ کیا وہ یہ تھا کہ ’بادشاہوں کے بادشاہ‘ یا ’شہنشاہ‘ کے اس تصور کو قائم کیا جائے، جو کہ تعریف کے اعتبار سے ایک عظیم سلطنت ہے، نہ کہ محض ایک سلطنت۔ ان کے نیچے بہت سے ماتحت بادشاہ، یا 'راجے' تھے۔ ان کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک راجستھان میں ہندو سلطنتوں کو اپنے سامراجی دائرے میں شامل کرنا تھا۔ اس طرح، ان کی سلطنت ایک عام "وسط ایشیائی سلطنت" نہ تھی، بلکہ ایک عظیم الشان سلطنت تھی، جو متنوع قسم کی تہذیبوں، اور ثقافتوں کے حاملین کو ایک نظام کے تحت لے آئے تھے اور بڑی خوبی سے ان کی صلاحیتوں کو ملک کی تعمیر و ترقی میں صرف کر رہے تھے۔ ۔ پہلے سے موجود راجپوت ثقافت اور فن تعمیر کو اپنے درباری انداز میں ضم کر کے، وہ آہستہ آہستہ ایک ہندوستانی ریاست بن گئے۔
یہ ہندوستان میں انگریزوں کا حکومتی تجربے کا نتیجہ اس کے برعکس تھا۔ اپنے ابتدائی دنوں میں، 17 ویں اور 18 ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں، انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین نے، بنیادی طور پر، مقامی ملازموں کے ذریعے ہندوستانی ثقافت سے جڑنے اور آشنا ہونے کی کوشش کی۔ انگریز اپنی فطری نسل پرستی کی وجہ سے ہندوستان میں اپنی اس روش و عادت سے اپنے آپ کو مکمل طور پر بچا نہ سکے۔
ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی دور کے دوران، برطانوی مورخین نے ہندوستان میں مسلم حکمرانی کے بارے میں مقامی آبادی خصوصاً ان کی نئی نسلوں کو بدگمان کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کچھ برطانوی مورخین نے دانستہ، بعض مذموم مقاصد کی انجام دہی کے لیے مسلمان حکمرانوں کی مذہبی عدم برداشت، ہندو مندروں کی تباہی اور معاشی استحصال کی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم حکمرانوں کا جابرانہ اور تباہ کن تصور پیش کیا۔ البتہ بعض انگریز مورخ ایسے بھی تھے جنہوں نے مسلم حکمرانی کے ثقافتی اور تعمیراتی ترقی کے اقدامات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا، جس میں مسلمان حکمرانوں کی طرف سے فن، ادب اور فن تعمیر میں مختلف تمدنوں کی شراکت تھی۔
برطانوی مورخین کے درمیان ایک عام موضوع مسلم حکمرانی کو ایک غیر ملکی تسلط کے طور پر پیش کرنا تھا، جس نے بقول ان کے مقامی ہندو معاشرے اور ثقافت کو درہم برہم کر دیا۔ اس نقطہ نظر کو دانستہ اور حکمتِ عملی کے تحت پھیلایا گیا، جس میں ایک مقصد یہ تھا کہ مسلم اشرافیہ اور ہندو اکثریتی آبادی کے درمیان اختلافات کو زیادہ سے زیادہ ہوا دی جائے۔
جے ایس گریوال Grewal کی کتاب:
Muslim Rule in India: The Assessments of British Historians14
میں اس غیر متوازن تنقید و تجزیے کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ یہ کتاب ہندوستان میں مسلم حکمرانی پر برطانوی مورخین کے جائزوں پر بحث کرتی ہے۔
مسلم اہلِ علم، خصوصاً تاریخ سے شغف رکھنے والوں نے اس خطرناک منصوبے کو کسی حد تک سمجھا اور اس نوع کے لٹریچر کا جواب دینے کی کوشش کی۔
سرسید احمد خان15، علامہ شبلی نعمانی16، سید سلیمان ندوی،17 معین الدین ندوی18، صباح الدین عبدالرحمان وغیرھم نے اپنے اپنے اسلوب میں مسلمان حکمرانوں کے بارے میں پھیلائی جانے والی ان غلط فہمیوں اور غلط بیانیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ خصوصاً صباح الدین عبدالرحمان19 نے اپنی کتب میں مثبت انداز میں مسلمان حکمرانوں کی ہندی تہذیب وثقافت کی آبیاری میں ان کے جان دار کردار کو مستند حوالوں اور کثیر مثالوں سے ثابت کیا ہے۔ ایک مقام پر فاضل مصنف نے لکھا ہے کہ "مورخ کی نیت صحیح ہو تو موضوع کتنا متنازع فیہ ہو ۔۔۔ اس کے روشن پہلو دکھانا کچھ مشکل کام نہیں، کون سی حکومت ہے جو بے داغ رہی ہے، لیکن اس کے صرف داغدار پہلوؤں کو پیش کیا جائے تو اس کے اچھے پہلو آسانی سے نظر انداز ہو جاتے ہیں"۔
ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی نے دارالعلوم دیوبند، سہارنپور، یو پی سے فاضل اور افتا (اسلامی فقہ میں تخصص) کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ یو پی کے سنی تھیالوجی کے شعبہ سے ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آئی سی سی آر، نئی دہلی کے زیر اہتمام اردو زبان میں بین الاقوامی مضمون نویسی کے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ادارہ التحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ میں بطور محقق کام کیا۔ مئی ۲۰۱۲ء کو اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر شعبہ اسلامیات، عالیہ یونیورسٹی، کولکتہ، مغربی بنگال میں داخلہ لیا۔ جون۲۰۱۴ء سے دسمبر ۲۰۱۵ء اور نومبر ۲۰۱۹ء سے دسمبر ۲۰۲۱ء تک شعبہ کے سربراہ کے طور پر کام کیا۔ ان کی چار عدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سے دو غیر ملکی بین الاقوامی پبلشرز سے شائع ہوئی ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی جرائد و رسائل میں لگ بھگ ڈیڑھ سو سے زائد مقالات اور تحقیقی مقالے شائع ہوئے۔ ۳۵ سے زائد قومی اور بین الاقوامی سیمینارز اور کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔ کشمیر کی سنٹرل یونیورسٹی کے شعبہ تقابلی مذہب میں بورڈ آف سوشل سائنس میں سبجیکٹ ایکسپرٹ کے طور پر کام کیا۔ مغربی بنگال حکومت کے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے بورڈ کے رکن اور غیر ملکی یونیورسٹیوں کے متعدد جرائد کے مشاورتی بورڈ اور جائزہ کمیٹی کے رکن بھی۔ انہیں اسلامی فقہ اور ہندوستان کی اسلامی تاریخ کے شعبوں میں خصوصی دلچسپی ہے۔
بحیثیت مورخ آپ تاریخی بصیرت اور تہذیب و تمدن کے مطالعہ کے ساتھ امت مسلمہ کا درد رکھتے ہیں، آپ مسلمانوں کی یک جہتی اور یگانگت کے آرزومند ہیں، آپ تعمیری ذہن کے ساتھ مثبت اقدام کے حامی ہیں، آپ کا یہ رنگ زیرِ نظر تصنیف میں نظر آتا ہے، آپ کی نگاہ ہمیشہ ماضی کے روشن پہلوؤں پر رہتی ہے۔
زیرِنظر تصنیف "سلاطینِ ہند کی دینی و مذہبی مساعی" میں مصنف نے ہندوستان میں مسلم سلطنت کے آغاز سے لے کر سلطنتِ مغلیہ کے زوال تک، مسلمان حکمرانوں کے مختصر حالات اور ان کے مذہبی و سماجی کارناموں کی مختصر تفصیل دی ہے۔ کتاب کے مشمولات سے اس کے بیانات کے اسلوب اور تنوع کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
ہندوستان میں مسلم سلطنت کا قیام، محمود غزنوی کے حملے کا پس منظر، شہاب الدین غوری کی کامیابی، عہد قطبی کی دینی برکات، شمس الدین التتمش کی خدا ترسی، رضیہ سلطانہ کا حسن تدبر، پاک طینت ناصر الدین محمود، غیاث الدین بلبن کا عہد زریں، جلال الدین خلجی کی دور اندیشی، علاؤ الدین خلجی کی اقبال مندی، غیاث الدین تغلق کی دینداری، محمد شاہ تغلق کی فکری صالحیت، فیروز شاہ تغلق کی مساعی جلیلہ، سلطنت دہلی میں بگاڑ کے آثار، بہلول لودھی کی کسرِ نفسی، عہدِ سکندر لودھی کی دینی و علمی رونقیں، اولو العزم فاتح ظہیر الدین محمد بابر، ہمایوں کی کشمکش اور نامرادی، اکبر کے متضاد رنگ، عہد جہانگیر میں مسلمانوں کی سربلندی، شاہجہان کی دین پروری، حامی اسلام اورنگزیب عالمگیر، اور سلطنت مغلیہ کا زوال۔ مصنف نے کتاب کو ابواب و فصول میں تقسیم نہیں کیا ہے بلکہ حکمرانوں کی زمانی ترتیب سے ان کے اسماء کو عنوان بنا کر ضروری تفصیلات ذکر کی ہیں۔
مذکور حکمرانوں کی انتظامی صلاحیت، رعایا پروری، بحرانوں سے نمٹنے، رفاہی کاموں سے دل چسپی، مذہبی رواداری اور تخلیقی روح جیسی صفات کو نمایاں طور پر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا اندازہ قائم کردہ عنوانات سے ہی ہو جاتا ہے۔
زیرِ نظر تصنیف میں وطن کی محبت اور مذہبی رواداری کے واقعات اور مظاہر کو تاریخ کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے اپنے مثبت تاریخی شعور کا اظہار کیا ہے۔ مسلمان حکمرانوں پر کیے گئے اعتراضات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے مذکور حکمرانوں کی شخصی صفات اور ان کے ادوارِ حکومت کے سیاسی و انتظامی خدوخال کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ان اعتراضات کے تسلی بخش جوابات مل گئے ہیں۔
ڈاکٹر محمد عبداللہ مذکور کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ "زیر نظر کتاب اور اس کے مباحث کی اہمیت عصری تناظر میں مزید بڑھ جاتی ہے کہ موجودہ ہندوستان میں مسلم صلاطین ہند کے ادوار کو ایک بار پھر تاریخی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے چھ دسمبر 1992ء میں ظہیر الدین بابر سے منسوب بابری مسجد کو یہ کہہ کر شہید کر دیا گیا کہ یہ شری رام چندر جی کی جنم بھومی ہے حالانکہ مصنف نے مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر متوفی 1530ء کا وہ مکتوب بھی درج کیا ہے جس میں وہ اپنے بیٹے ہمایوں کو ہندوستان میں رعایا کے ساتھ رواداری اور ان کے مذہبی عقائد کے احترام کی نصیحت کر رہے ہیں اب اسی طرح کے خیالات کا اظہار درگاہ معین الدین چشتی اجمیری اور دیگر معروف مساجد کے حوالے سے بھی کیا جا رہا ہے یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو سیکولر ہندوستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہوگا"۔(ص ۱۱)
مصنف نے مسلمان حکمرانوں کے اپنی غیر مسلم رعایا کے ساتھ انصاف اور رواداری پر مبنی رویوں کی کئی مثالیں ذکر کی ہیں۔ اس ضمن میں بعض غیر مسلم مورخین جیسے ڈاکٹر تارا چند، ٹی ڈبلیو آرنلڈ، اور آر پی ترپاٹھی وغیرہ کی کتابوں کے حوالے دئیے ہیں۔ مصنف کی اس نوع کی تحریریں ہندوستان کے متفرق اجزاء کو باہم جوڑنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ البتہ مذکور مصنفین کی کتب سے اصل اقتباسات نقل کرنا زیادہ مفید ہوتا ۔ مزید برآں صباح الدین عبدالرحمان کی کتابوں میں مذکور عنوان پر قابلِ قدر مواد منتشر اجزاء میں موجود ہے، اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ علاوہ ازیں جے ایس گریوال Grewal کی کتاب20 میں بھی مفید اقتباسات موجود ہیں، جو شاید مصنف کی نظر سے نہیں گذری۔
اندازِ تحریر سادہ اور موثر ہے۔ ربط و ترتیب اور سلاست و روانی کو ملحوظ رکھا گیا ہے جو پڑھنے والوں کو اس میں بیان کردہ موقف کا قائل کر دیتا ہے۔ کتاب یقیناً اردو ادب اور تاریخ مسلمانانِ ہند دونوں کی خدمت ہے۔
پاکستان کے ایک معروف اشاعتی ادارے "قرطاس" نے کتاب کو خوبصورت ٹائٹل اور معیاری اوراق پر شائع کیا ہے، جس پر ادارہ اور صاحبِ تصنیف دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ امید ہے کتاب عام قارئین، اور اساتذہ و طلبہ سے مزید خراجِ تحسین وصول کرے گی۔
حواشی
(1) Gem Student Dictionary, English to Urdu, p. 211
(2) فیروز اللغات، اردو جدید۔ لاہور، فیروز سنز۔
(3) The Oxford English Turkish Dictionary, p. 253
(4) Cassell’s New German Dictionary, p. 191, 1963
(5) De Vries and Hochman, French English Dictionary, p. 250
(6) ناشر ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، سنِ اشاعت:۱۹۸۲ء، صفحات ۷۵۱
(7) مطبوعہ الجامعہ پریس دہلی، ۱۹۵۸ء، صفحات ۵۰۹
(8) اردو اکیڈیمی، لکھنو، ۱۹۸۳ء، صفحات ۱۴۶
(9) احسن برادرز، لاہور، ۱۹۵۷ء، ۸۳۰ صفحات
(10) مطبع معارف اعظم گڑھ، ۱۹۸۳ء، صفحات ۲۰۴
(11) انجمن ترقی اردو ہند، علی گڑھ، ۱۹۶۲، صفحات ۱۵۶
(12) Cambridge University Press, 2020
(13) سنٹرل لائبریری الہ آباد، ۱۹۸۶ء، صفحات ۲۳۳
(14) Indian Branch, Oxford University Press, 1970 - India - 218 pag
(15) اس کی مثالیں سر سید احمد خان کی آثار الصنادید اور ان کے "مقالاتِ سرسید" مرتبہ محمد اسماعیل پانی پتی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
(16) دیکھیے! کتاب "معارفِ شبلی" مرتبہ: ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، ناشر قرطاس، کراچی۔ مولفِ موصوف نے علامہ شبلی کے تاریخ کے موضوع پر رسالہ " معارف" میں شائع شدہ مضامین کو مرتب کیا ہے۔
ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: شبلی تاریخ کو ملّی تناظر میں دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ’’المامون‘‘ کے مقدمے میں لکھا: ’’ہندوستان کی بہت سی تاریخیں لکھی گئیں اور مغلیہ و تیموریہ حکومت کے کارنامے بڑی آب و تاب سے دکھائے گئے، لیکن ظاہر ہے کہ ہندوستان کی مجموعی تاریخ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔‘‘ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق یورپ کے کذب و افترا اور ان کی تاریخی غلطیوں کا ازالہ علامہ شبلی کی زندگی کا خاص مقصد اور مشن تھا۔ ان کی یہ خصوصیت بھی قابل ذکرہے کہ وہ جن کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں ان کے پایہ اعتبار و استناد کو پہلے ہی بیان کر دیتے ہیں۔ شبلی کے نزدیک مغربی مصنفین کی غلط بیانیوں کی وجہ تعصب کے علاوہ یہ بھی تھی کہ وہ پرانے زمانے کا مقابلہ جدید دور سے کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک غلط اصول ہے، اور مؤرخانہ دیانت داری اور ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کو صرف ماضی کے معیار سے دیکھیں اور ’’موجودہ طرزِِ سلطنت سے ایشیائی حکومتوں کو نہ ناپیں۔‘‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ بعض بادشاہوں کے ذاتی افعال کو مذہب کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ انفرادی افعال ہیں جو یورپ کے بادشاہوں سے بھی سرزد ہوتے رہے ہیں۔ ان کے لیے مذہب کو ملزم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ دوسرے، شبلی کے نزدیک یورپ کی تاریخ میں ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں راوی کے ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کی پروا نہیں کی جاتی، بلکہ اگر کوئی ایسا موقع پیش آجاتا ہے تو ہر قسم کی بازاری افواہیں قلم بند کر لی جاتی ہیں جن کے راویوں کا نام و نشان تک معلوم نہیں ہوتا۔ ان افواہوں میں سے وہ واقعات الگ کر لیے جاتے ہیں جو عقل کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ پھر ایک ’’کتاب‘‘ یا تاریخ بنا لی جاتی ہے اور یہی اصولِ تصنیف ہے جو یورپ کی تصانیف کی بنیاد ہے۔
(17) سید سلیمان ندوی، ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کے نمایاں پہلووں کو اجاگر کرنے کے لیے بہت اہم منصوبے رکھتے تھے، دارالمصنفین کے تحت اس موضوع پر مفید کام انہی کے ایما اور نگرانی میں ہوئے۔ سید سلیمان ندوی نے علامہ شبلی نعمانی کے قائم کردہ ادارہ" دارالمصنفین" کو عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ ملک میں اعلی مصنفین اور اہل قلم کی جماعت پیدا کرنا، بلند پایہ کتابوں کی تصنیف و تالیف اور ترجمہ کرنا، علمی ادبی کتابوں کی طبع و اشاعت کا انتظام کرنا، یہ سب دارالمصنفین کے بنیادی مقاصد تھے، یہ ادارہ اپنے مقاصد کی حصولیابی میں بہت حد تک کامیاب ثابت ہوا ہے۔
(18) دیکھیے، دارالمصنفین سے تاریخ کے موضوع پر ان کی شائع شدہ کتب۔
(19) سید صباح الدین عبد الرحمن ایک مشہور مؤرخ، قلمکار اور مفکر تھے۔ آپ کی زیادہ تر کتابیں ہندوستان میں عہد وسطی سے متعلق ہیں، تاریخ ہند پر آپ کی نگاہ بہت گہری تھی، آپ نے ہندوستان عہد وسطی کی تاریخ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا، اس لیے آپ نے اس دور کے بادشاہوں کی سیاسی، تمدنی، معاشرتی، فوجی کارناموں پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ ان کی اکثر کتابیں دارالمصنفین اعظم گڑھ سے شائع ہوئی ہیں۔ ان کی مشہور کتابوں میں درج ذیل شامل ہیں: زم تیمیوریہ، بزم مملوکیہ، بزم صوفیہ، ہندوستان عہد وسطی کی ایک جھلک، ہندوستان عہد وسطی کا فوجی نظام، ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے، ہندوستان کے سلاطین علماء مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر، عہد مغلیہ، مسلمان اور ہندو مورخین کی نظر میں، اور ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے تمدنی جلوے، وغیرہ۔
(20) Muslim Rule in India: The Assessments of British Historians