معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (پہلی مجلس مذاکرہ)

ادارہ

(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)


قابل بحث نکات

الف۔ خروج کا جواز و عدم جواز

۱۔ ریاست کے تمام شہری ایک معاہدے کے تحت اس کے پابند ہوتے ہیں کہ نظم حکومت کے خلاف کوئی مسلح اقدام نہ کریں۔ کیا معاہدے کی یہ پابندی ہر حالت میں ضروری ہے یا اس میں کوئی استثنا بھی پایا جاتا ہے؟ 

۲۔ اگر بعض اسباب اور وجوہ سے پابندی لازم نہیں رہتی تو وہ کون سے حالات ہیں؟ کیا اپنے دفاع کی خاطر یا حکمرانوں کو شریعت نافذ کرنے پر یا قومی مصالح کے خلاف اختیار کردہ پالیسیاں بدلنے پر مجبور کرنے کے لیے یا غیر اسلامی نظام حکومت کی جگہ اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے اس معاہدے کی خلاف ورزی جائز ہوگی؟

۳۔ ایک پہلے سے قائم نظام حکومت میں مسلح جدوجہد ایک ناگزیر ضرورت ہے یا تبدیلی کے لیے اصلاً مطلوب اور معیاری طریقہ؟ اگر یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے جسے بامر مجبوری اختیار کرنا چاہیے تو ’ضرورت‘ کے حدود کیا ہیں؟ آیا یہ صرف دفاع تک محدود ہے یا مثبت طور پر کچھ مقاصد مثلاً نفاذ شریعت کا حصول بھی اس کے دائرے میں آتا ہے؟

۴۔ احادیث میں حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت نہایت تاکید اور شدت سے بیان ہوئی ہے؟ اس ممانعت کی اصل شرعی وجہ کیا ہے؟ 

(i) حکمران کی اطاعت کے اصول کے خلاف ہونا؟ 

(ii) نظام حکومت یا حکمرانوں کے انتخاب کے حوالے سے قوم کے اکثریتی یا اجتماعی فیصلے کی نفی؟

(iii) حکمرانوں کے بگاڑ کے مقابلے میں جان ومال کے ضیاع اور افتراق وانتشار کا زیادہ بڑا مفسدہ ہونا؟

(iv) جدوجہد کے عملاً کامیاب ہونے کا عدم امکان؟ 

۵۔ اگر خروج سے کوئی نیک اور اعلیٰ مقصد مثلاً شریعت کا نفاذ، ظلم وستم کا خاتمہ وغیرہ حاصل کرنا مقصود ہو تو شرعی ہدایات کی روشنی میں ان مقاصد اور مذکورہ اصولوں کی پاس داری میں سے ترجیح کس کو حاصل ہونی چاہیے؟

ب۔ خروج برائے دفاع

۶۔ اگر ریاست کسی گروہ کے خلاف ظلم اور تشدد کی مرتکب ہو تو کیا وہ گروہ اپنے دفاع میں یا انتقام کے لیے ہتھیار اٹھا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس گروہ کے لیے شریعت میں متبادل ہدایات کیا ہیں؟

۷۔ احادیث میں حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسیوں کے باوجود ان کے خلاف تلوار اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔ کیا اس ممانعت کا تعلق اس صورت سے بھی ہے جب کوئی خاص گروہ ریاستی تشدد کا نشانہ بن رہا ہو اور اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائے؟

۸۔ ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا موقف کیا ہے اور موجودہ صورت حال میں اس کے انطباق کا امکان اور عملی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ اگر موجودہ صورت حال میں وہ قابل عمل نہیں تو فرق کے اسباب ووجوہ کیا ہیں؟

ج۔ خروج براے نفاذ شریعت

۹۔ یہ بات مسلم اہل دانش بالعموم تسلیم کرتے ہیں کہ مروجہ جمہوریت کے راستے سے معیاری اسلامی نظام کا قیام کم وبیش ناممکن ہے۔ ایسی صورت میں اسلامی نظام کے قیام اور نفاذ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟ 

۱۰۔ مسلم دنیا کا موجودہ حکومتی نظم عبوری اور وقتی وعارضی ہے جس میں تبدیلی لانا مقصود ہے یا اصل ہے جس کی بقا ودوام اور استمرار مطلوب ہے؟ اگر عبوری ہے تو اس میں تبدیلی کا مجوزہ طریقہ کار کیا ہے اور اس کی کامیابی کا امکان کتنا ہے؟ 

۱۱۔ اگر جمہوری نظام میں شریعت کا معیاری نفاذ ممکن نہیں اور اس مقصد کے لیے جمہوری جدوجہد کے علاوہ کوئی متبادل راستہ اختیار کرنا بھی جائز نہیں تو کیا معیاری اسلامی نظام کے قیام سے مستقل طور پر دست برداری اختیار کر لی جائے گی؟ 

د۔ ظلم کی تائید کے خلاف خروج

۱۲۔ اگر مسلمانوں کی کوئی حکومت کسی دوسری مسلمان حکومت کے خلاف اہل کفر کی یلغار میں انھیں تعاون فراہم کر رہی ہو تو مقدم الذکر ریاست کے باشندوں کی شرعی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ آیا وہ حکومتی فیصلے کی اطاعت کرتے ہوئے تعاون میں شریک ہو جائیں یا غیر جانب دار رہیں یا ریاستی فیصلے کے برخلاف حملے کی زد میں آنے والے مسلمانوں کی مدد کریں؟ 

۱۳۔ اگر ان کے لیے ایسی صورت میں حملے کا شکار ہونے والے مسلمانوں کی مدد کرنا جائز یا فرض ہے تو کیا ایسا کرتے ہوئے اپنی ہی حکومت کے خلاف لڑنا ان کے لیے جائز ہوگا، کیونکہ وہ حملہ آوروں کا ساتھ دیتی ہے؟ اگر جائز نہیں تو کیوں؟ اور اگر جائز ہے تو کیا انھیں حق پر سمجھا جائے گا یا ریاست کا ناجائز باغی؟ 

ہ۔ خروج بر بناے تکفیر

۱۴۔ احادیث میں حکمرانوں کے خلاف خروج کی ممانعت بیان کرتے ہوئے ’کفر بواح‘ کو اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ’کفر بواح‘ سے کیا مراد ہے اور کن صورتوں کو اس کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے؟

۱۵۔ اگر کسی مسلم ریاست کے دستور میں اصولی طور پر قرآن وسنت کی پابندی اور نفاذ شریعت کی ضمانت دی گئی ہو، لیکن آئین کی بعض ذیلی دفعات شریعت کے مطابق قانون سازی میں مانع ہوں یا عملاً بعض خلاف اسلام قوانین نافذ ہوں تو کیا اسے ’کفر بواح‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ بالخصوص جبکہ آئین اور قانون میں ترمیم اور اصلاح کا راستہ اصولی طور پر کھلا ہے؟

۱۶۔ کیا ’کفر بواح‘ کے تحقق یا عدم تحقق کا فیصلہ کرتے ہوئے آئین اور دستور کی تصریحات کو اصل معیار سمجھنا چاہیے یا حکمران طبقات کے طرز فکر اور طرز عمل کو؟ اگر دستور نفاذ اسلام کی ضمانت دیتا ہو جبکہ حکمران طبقات اس کے لیے ذہنی طو رپر مخلص نہ ہوں جبکہ بعض افراد نفاذ شریعت کے خلاف باغیانہ خیالات بھی رکھتے ہوں یا حکمرانوں کی عمومی سیاسی پالیسیاں اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہوں تو آیا اس صورت حال کو ’کفر بواح‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

۱۷۔ اگر ’کفر بواح‘ کا تحقق فرض کر لیا جائے تو کیا ایسی صورت میں خروج کا محض جواز ثابت ہوتا ہے یا وجوب؟ دونوں صورتوں میں کیا خروج کے عملاً نتیجہ خیز کی شرط بھی عائد ہوگی یا نتائج واثرات سے صرف نظر کرتے ہوئے ’خروج‘ کرنا جائز یا واجب ہو جائے گا، خاص طور پر اس صورت میں جب ’کفربواح‘ کے ارتکاب کے باوجود حکمران جماعت کو عمومی سیاسی تائید حاصل ہو؟ نیز ایسی صورت میں ’خروج‘ کے حکم کا مخاطب کون ہوگا؟ مسلمان عوام یا سیاسی جماعتیں یا مسلح افواج یا کوئی بھی گروہ؟

۱۸۔ اس استدلال میں کتنا وزن ہے کہ استبدادی طرز حکومت کے برخلاف، جس میں حکمرانوں کی تبدیلی کے لیے کوئی پرامن راستہ موجود نہیں ہوتا، جمہوری طرز حکومت میں رائے عامہ کی بنیاد پر حکمرانوں اور حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کا راستہ موجود ہے، اس لیے ایک جمہوری نظام میں خروج اور مسلح جدوجہد کو کلیتاً ناجائز ہونا چاہیے؟

و۔ عمومی سوالات

۱۹۔ خروج کے اصولی جواز کی صورت میں عملی اقدام کے لیے کیا باغی قیادت کو قوم کا عمومی اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے یا کوئی گروہ اپنے تئیں بھی خروج کا فیصلہ اور اقدام کر سکتا ہے؟

۲۰۔ مسلم ریاست کے کچھ باشندے اگر مخصوص صورت حال میں کسی گروہ کی طرف سے خروج کے اقدام کو جائز تصور کرتے ہوں تو کیا ان کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ان کی وابستگی علانیہ ہو یا وہ بظاہر ریاست کے مطیع ہوتے ہوئے بھی باغی گروہ کی تائید وامداد کر سکتے ہیں؟ امام ابوحنیفہ کی طرف سے خروج کرنے والوں کی امداد کی نوعیت کیا تھی؟

۲۱۔ اگر باغی گروہ کی خفیہ امداد جائز ہے تو کیا اس سے ریاست کی وفاداری اور اطاعت کے معاہدے پر زد نہیں پڑتی؟ کسی معاہدے کی بظاہر پاس داری کرنے اور خفیہ طور پر خلاف ورزی کرنے کی شرعی واخلاقی حیثیت کیا ہوگی؟

محمد مجتبیٰ راٹھور ― (پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز، اسلام آباد)

معزز علماء کرام اور مہمانان گرامی!

آج کے اس پروگرام میں پاک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیزکی طرف سے ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت اس اہم اور علمی موضوع کے لیے ہمیں نوازا۔ میں ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ آج کی اس تقریب کی کارروئی کا آغاز فرمائیں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز (میزبان) ― (ڈائریکٹر شیخ زاید اسلامک سنٹر، پشاور)

سب سے پہلے تو ہم آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ آپ نے باوجود اپنی مصروفیات کے اس علمی محفل میں شرکت کے لیے وقت نکالا۔

یہ ایک بہت علمی اور بہت ہی دقت نظر کے ساتھ مطالعے کا تقاضا کرنے والا موضوع ہے۔ سب سے پہلے ان سوالات کے حوالے سے ہمار ا ہر شریک گفتگو اپنی رائے پیش کرے گا۔ اس کے بعد نکات اٹھائے جائیں گے اور ان نکات میں دلائل بھی آتے جائیں گے۔ یوں بحث کی ایک صور ت بنے گی اور امید ہے کہ ہماری آئندہ جو محفل ہوگی، اس میں ہم زیادہ علمی انداز سے اس کو گفتگو کا موضوع بنا سکیں گے۔

ہماری کوشش ہوگی کہ جو ماحصل ہے، نتیجہ بحث ہے، اس کو بھی تیار کر لیں۔ چونکہ یہ خالص علمی گفتگو ہے، اس لیے ہماری یہ خواہش ہوگی کہ اس کو علمی انداز میں رکھا جائے اور حکمت اور موعظۃ حسنہ اور جدال بالاحسن کے جو اصول ہیں، وہ ملحوظ رہیں۔ اگر ہمارے درمیان کوئی اختلاف بھی ہے تو اس میں کوشش یہ کی جائے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کے اوپر ایسی تنقید نہ ہو کہ جس سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور ہماری کوشش یہ ہو کہ خالص علمی انداز میں اس گفتگو کی طرف آئیں۔ سب سے پہلے ہم جناب ڈاکٹر علی اکبر الازہری سے گزارش کریں گے کہ وہ ان موضوعات پر اپنی رائے دیں۔

ڈاکٹر علی اکبر الازہری ― (مدیر ماہنامہ ’’منہاج القرآن‘‘ لاہور)

سب سے پہلے میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے منتظمین کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس سنجیدہ اور حساس موضوع پر ملک کے مقتدر علما کو باہم مل بیٹھ کر گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا اور مختلف نظریات کے حامل اسکالرز کو ایک میز پر جمع کر کے اس حساس موضوع کی طرف متوجہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی کاوشوں کو دین متین کی نصرت کے لیے اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے۔

جو سوال نامہ PIPS کی طرف سے جاری ہوا تھا اور جس کا خلاصہ آج ان کی طرف سے ہمیں دیا گیا ہے، موضوع کے اعتبار سے میں نے اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس موضوع کا ایک پہلو ہے دینی اور اصولی جس پر قرآن وحدیث کے دلائل ہیں، علما یعنی ائمہ کبار کے باقاعدہ تفصیلی فتاویٰ جات موجود ہیں اور اس پر لٹریچر بھی موجود ہے۔ اس کا دوسرا جو پہلو ہے جس پر ہماری نظر ہونی چاہیے اور آج کی گفتگو میں بھی خاص طو رپر اس پر توجہ دی جانی چاہیے، وہ اس کا پہلو تاریخی اور سیاسی پہلو ہے۔ اس کے ساتھ اس کا تیسرا پہلو معاصر اور عصر حاضر کے تناظر میں ہے۔ عصر حاضر کے تناظر میں پھر اس کی تین سطحیں بنتی ہیں۔ پہلی سطح وہ ہے جس میں مغربی ممالک سمیت دنیا کی ساری اقوام آتی ہیں۔ اس کی دوسری سطح عالم اسلام کی ہے جس کی ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے ایک چھوٹی سی جھلک آپ کے سامنے پیش کی ہے۔ اس کی تیسری مناسبت ہمیں پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں دیکھنی ہے۔ یہ میرے نزدیک اس گفتگو کی تین سطحیں ہیں۔

جہاں تک پہلا نکتہ ہے تو ا س مسئلے کا جو شرعی اور اصولی پہلو ہے، اس پر بہت لٹریچر موجود ہے۔ اصول ہمارے سامنے ہیں، قرآن وحدیث کی تعلیمات ہمارے سامنے ہیں اور حال ہی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے اس مسئلے کو اقوام عالم کے سامنے اور مسلمان نوجوانوں کے سامنے واضح کرنے کے لیے ان تمام دلائل پر مشتمل چھ سو صفحات کا جو تفصیلی فتویٰ لکھا ہے، وہ پچھلے سال چھپ گیا ہے اور اس وقت سات آٹھ بڑی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ وہ تو تفصیل کے ساتھ ڈسکس ہو رہا ہے، لوگ اس پر لکھ بھی رہے ہیں۔ لیکن اس مسئلے کے دوسرے دو جو پہلو ہیں، اس پر خاص طور پر ہماری توجہ مبذول ہونی چاہیے۔ میرے نزدیک اس موضوع کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس تقسیم کی وضاحت اور بیان ضروری تھا۔ 

موضوع سے متعلق سوالات کا جو خلاصہ ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، اس کے پہلے جز میں احادیث میں حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت کی حکمت دریافت کی گئی ہے۔ سب سے بڑی حکمت یہی ہے کہ اسلام دین امن ہے، سلامتی کا دین ہے اور اسلام سب سے پہلے سلامتی کو یقینی بنانا چاہتا ہے اور کسی جماعت کو یا کسی فرد کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے فکر کو مسلط کرنے کے لیے ایک ریاست کو چیلنج کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہو۔ بغاوت کی جتنی تعریفیں ہم پڑھتے ہیں، علماے احناف کے ہاں پڑھیں، علماے شوافع کے ہاں، علماے حنابلہ کے ہاں، حتیٰ کہ علماے جعفریہ کے ہاں تو بغاوت کا جو لغوی مطلب ہے، اس کے اندر ہی کفر اور تکفیر او رمخالفت اور خون بہانے کا مفہوم شامل ہے۔ اس سے اسلام نے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا ہے اور اس کی کسی صورت کو بھی جائز قرار نہیں دیا۔

دوسرا مرکزی نکتہ جس پر گفتگو کی جاتی ہے، یہ ہے کہ کفر بواح کیا چیز ہوتی ہے؟ کفر بواح ہے کسی حاکم کا اس حد تک اسلام کی مخالفت پر اتر آنا کہ وہ مسلمانوں کو نماز جیسے فرائض سے روکنا شروع کر دے۔ اس کی صورت ہمارے سامنے ترکی میں دیکھنے میں آئی کہ مصطفی کمال اتاترک نے کلمہ پر پابندی لگا دی، مسجدوں کو تالے لگا دیے، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہاں بھی جو دانش ور لوگ تھے، جن کا میں ان شاء اللہ اگلے کسی مرحلے پر ذکر کروں گا، انھوں نے وہاں پر مسلح جدوجہد کی اجازت اس حالت میں بھی نہیں دی۔ 

مولانا ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی ― (دار العلوم، کراچی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۔ اما بعد!

چونکہ مختصر دورانیہ ہے اور ان سوالات کا اس میں احاطہ کرنا ہے تو میں بلاتمہید انھی سوالات پر گفتگو کرتا ہوں۔ 

سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ احادیث میں حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت نہایت تاکید اور شدت سے بیان ہوئی ہے، اس کی وجہ اور حکمت کیا ہے؟

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایک حکم آ چکا ہے تو اس کا احترام ہر حال میں کرنا چاہیے، البتہ فقہا نے اور علما نے اس کی حکمت بیان کی ہے۔ فتح الباری میں علامہ ابن حجر نے کتاب الفتن کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ : وطاعتہ خیر من الخروج علیہ لما فی ذلک من حقن الدماء۔ امام کی اطاعت کرنے کی بجائے اگر اس کے خلاف خروج کیا جائے گا تو مسلمانوں کا خون بہے گا اور سفک الدماء بین المسلمین ایک بہت بڑا فتنہ ہے اور اس کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا، اس لیے چونکہ بہت بڑ امفسدہ پیدا ہو رہا تھا تو اس کو روکنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ریاست کسی گروہ کے خلاف ظلم اور تشدد کی مرتکب ہو تو کیا وہ گروہ اپنے دفاع میں یا انتقام کے لیے ہتھیار اٹھا سکتا ہے؟

یہاں یہ سمجھنا ہے کہ یہ جو سوال ہے، یہ بنیادی طور پر خروج سے متعلق نہیں ہے۔ یہ قتل للدفاع ہے، یعنی اپنا دفاع کرنے کے لیے قتال کرنا اور چیز ہے اور خروج کے طو رپر قتال کرنا اور چیز ہے۔ کیا اپنے دفاع کے لیے کوئی قتال کر سکتا ہے یا نہیں کر سکتا؟ تو ظاہر ہے کہ من قتل دون مالہ فہو شہید، اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے اگر کوئی قتل ہو جائے تو وہ بھی شہید ہے، اپنی عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے اگر کوئی آدمی قتل ہو جائے تو وہ بھی شہید ہے تو اگر کوئی انسان اپنی جان کے دفاع کے لیے قتال کرتا ہے تو اس کی گنجائش ہے، البتہ بعض علما نے یہاں لکھا ہے کہ صبر کر لے تو اولیٰ ہے اور اولیٰ ہونے کی وجہ وہ حدیث ہے جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کن کخیر ابن آدم، آدم علیہ السلام کے جو دو بیٹے تھے، ان میں سے جو بہتر بیٹا تھا، اس کی طرح بن جانا۔ یعنی ہابیل کی طرح بن جانا، قابیل کی طرح نہ بننا جس نے قتل کیا تھا۔ تو اس کی تو گنجائش ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے قتال کرے، لیکن اس کو قتال للدفاع کہا جائے گا، قتال للخروج نہیں کہا جائے گا۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن کے اوپر ظلم ہو رہا ہے، ان کے لیے تو گنجائش ہے۔ کیا سوسائٹی کے دوسرے افراد کے لیے بھی گنجائش ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے خلاف ان کی اعانت کریں؟ اس میں فقہا کی آرا مختلف ہیں۔ بعض نے گنجائش دی ہے، لیکن راجح بات یہ ہے کہ اس بارے میں دوسروں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر ان کے اعانت کرنے سے کوئی مفسدہ پیدا نہیں ہوتا، کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوتا، دفاع صرف دفاع کی حد تک رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوتا تو گنجائش ہے، لیکن اگر ان کے ساتھ مل جانے سے کوئی بڑا مسلح گروہ سامنے آتا ہے جس سے اسلامی حکومت کے لیے، دوسرے شہروں کے لیے پریشانی کھڑی ہوتی ہے تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مروجہ جمہوریت کے راستے سے معیاری اسلامی نظام کا نفاذ ممکن دکھائی نہ دیتا ہو تو اسلامی نظام کے قیام اور نفاذ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟

بات یہ ہے کہ مسلح جدوجہد کی تو گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات صاف ہے۔ مسلح جدوجہد تو اسی صورت میں جائز ہوتی ہے جب کفر بواح ہو اور جمہوریت کے نظام کے کفر بواح ہونے کا فتویٰ آج تک نہیں آیا کہ اگر کہیں جمہوریت کا نظام ہے تو ا س کا مطلب یہ ہے کہ کفر بواح پایا گیا ہے۔ جب اس کو کفر بواح نہیں کہا جا سکتا تو اس کے نتیجے میں یہ کہنا بھی جائز نہیں ہوگا کہ مسلح جدوجہد کی جائے۔

چوتھا سوال یہ ہے کہ کفر بواح سے کیا مراد ہے اور کن صورتوں کو اس کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے؟

کفر بواح کی تشریح یہی کی گئی ہے کہ وہ کفر قطعی اور کفر متفق علیہ ہو، جس کی حدیث میں خود آگے وضاحت آ گئی کہ الا ان تروا کفروا بواحا عندکم فیہ من اللہ برہان۔ تمہارے پاس یقینی دلیل ہو اس بات کی کہ وہ کفر ہے اور وہ بھی اس طرح کہ کفر کھلم کھلا دکھائی دے۔ تری، رؤیت سے ہے۔ لفظ رویت کے متعدی ہونے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ متعدی بہ یک مفعول اور متعدی بہ دو مفعول۔ اگر متعدی بہ دو مفعول ہو تو اس سے رؤیت قلبی مراد ہوتی ہے اور یہ حسبت کے معنی میں آتا ہے اور متعدی بہ یک مفعول ہو تو یہ رؤیت بصری کے معنی میںآتا ہے۔ یہاں رویت بصری مراد ہے ، یعنی اس کا کفر ہونا ایسی یقینی ہو کہ جیسے آنکھ سے دیکھا ہے اور حسی صورت پائی جا رہی ہو۔ گویا کفر بواح کے لیے ضروری ہے کہ تمھیں یقین ہو کہ یہ کفر ہے اور وہ کفر بھی ایسا ہو کہ اس میں کوئی اختلاف نہ ہو۔ متفق علیہ جو صورتیں ہیں، ان کو کفر بواح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 

پانچواں سوال یہ ہے کہ اگر کفر بواح کا تحقق فرض کر لیا جائے تو کیا ایسی صورت میں خروج کا محض جواز ثابت ہوتا ہے یا وجوب؟

اگر حدیث کے الفاظ کو دیکھیں تو جواز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس میں الا ان تروا کے الفاظ ہیں۔ یہ استثنا ہے اور جب امر یا نہی کے بعد استثنا آتا ہے تو عربی گریمر کے اصول کے مطابق اس سے جواز معلوم ہوتا ہے۔ لیکن بعض دوسری نصوص ہیں جو وجوب پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسے من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، وان لم یستطع فبقلبہ۔ تو ان دونوں کو سامنے رکھ کر فقہا نے جو مسئلہ بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ خروج ضروری ہے اگر دو شرطیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ آپ کے پاس تغییر بالید کی صحیح طاقت ہو۔ تغییر بالید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چاہے سامنے کتنی ہی بڑی طاقت کیوں نہ ہو، میں ا س کو ہاتھ سے روک دوں۔ تغییر بالید کی صحیح طاقت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے استعمال کے نتیجے میں اس سے بڑا کوئی فتنہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ اگر اس سے بڑا فتنہ کھڑا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو پھر ایسی صورت میں آپ وہ کام نہیں کریں گے، اس سے اپنے آپ کو بچائیں گے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی جو شرعی حدود ہیں، ان کا پورا لحاظ رکھا جائے۔

چھٹا سوال یہ ہے کہ خروج کے اصولی جواز کی صورت میں عملی اقدام کے لیے کیا باغی قیادت کو قوم کا عمومی اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے یا کوئی گروہ اپنے تئیں بھی خروج کا فیصلہ اور اقدام کر سکتا ہے؟

دیکھیں، جب گنجائش ہوگی تو پھر اس صورت میں یہ تو لازم نہیں ہوگا کہ سب مل کر ہی کریں۔ اگر سب مل جائیں گے تو پھر حکومت کا باقی رہنا ویسے ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ابھی ایسے حالات نہیں ہیں، نہ ہمارے ملک میں نہ میری نظر میں کہیں دنیا میں ہیں کہ کہیں خروج کو واجب کہا جا سکے۔ اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں اور خروج کرنا پڑ جائے تو بنیادی کرنے کا کام یہ ہوگا کہ پہلے راے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے میں جمہوریت ہماری بڑی مدد کر سکتی ہے۔ اگرچہ جمہوریت کو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ مکمل طور پر اسلامی ہے، لیکن اس سلسلے میں جمہوریت ہماری مددگار اور معاون ثابت ہوگی اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو الیکشنز ہوں گے، ان میں لوگ ہمارا ساتھ دیں گے اور بغیر خون ریزی کے ہی ہم اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

آخری سوال تکفیر سے متعلق ہے۔ شریعت کے جو چند نہایت نازک مسائل ہیں، ان میں ایک یہ مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح کسی غیر مسلم کو مسلمان کہنا بہت بڑا جرم اور بہت بڑا گناہ ہے، اتریدون ان تہدوا من اضل اللہ، سخت وعید ہے، اسی طرح کسی مسلمان کو بغیر دلیل کے کافر کہنا، یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ ولا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا۔ جو سلام کرتا ہے، اس کو یہ کہنا کہ تم مومن نہیں ہو، کافر ہو، یہ بڑا نازک معاملہ ہے۔ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ پھر کسی پر کافر ہونے کا حکم لگانا صرف ایک نظری دینی مسئلہ نہیں ہے۔ دینی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ معاشرے کا بھی مسئلہ ہے۔ سوسائٹی کا مسئلہ ہے، معاملات کا مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ جب کوئی آدمی مسلم سوسائٹی سے نکل جائے گا تو میراث سے محروم ہو جائے گا، مسلمانوں کے حقوق جو اس کو معاشرے میں ملنے چاہییں، ان سے محروم ہو جائے گا اور نہ جانے اور کتنے اس پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے کفر کے بارے میں بہت کڑی احتیاط کی تاکید آئی ہے۔ اسی لیے فقہا نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے کوئی کلمہ کفریہ بولا اور اس میں ننانوے احتمالات کفر کے ہیں اور ایک احتمال اس کا ہے کہ اس بات کا کوئی صحیح محمل ہو سکتا ہے تو آپ اس کو اسی ایک پر محمول کریں جبکہ وہ خود اپنی بات کی وضاحت نہ کرسکتا ہو، مثلاً فوت ہو چکا ہو یا دور ہو۔ اب دیکھیں، ننانوے احتمالات ایک طر ف ہیں اور صرف ایک پہلو دوسری طرف ہے، چاہے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو۔ فقہا نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر وہ پہلو ضعیف ہے تو آپ اس کو ضعیف پہلو پر ہی محمول کریں اور اس کو کفر سے بچائیں۔ تکفیر سے متعلق اگلا سوال یہ ہے کہ اس کے اصول کیا ہیں؟

بات تو لمبی ہے، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ دین اور ایمان نام ہے ضروریات دین کو تسلیم کرنے کا۔ تسلیم ما جاء بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وثبت ضرورۃ۔ جن کو ضروریات دین کہا جاتا ہے جو قطعی نصوص سے ثابت ہیں اور تواتر سے امت تک پہنچی ہیں، ان کا اعتراف کرنا اور ان کو ماننا، صرف جاننا نہیں، بلکہ جاننے کے بعد ماننا یہ ایمان ہے۔ اور مومن ہونے کے لیے ایجاب کلی شرط ہے، لیکن تکفیر کے لیے سلب کلی شرط نہیں ہے بلکہ سلب جزئی کافی ہے۔ یعنی اگر ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کر دے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ کافر ہونے کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ ساری ضروریات دین کا منکر ہو۔ مثلاً ہم قادیانیوں کو کافر کہتے ہیں تو ایسا تو نہیں کہ وہ ساری ضروریات دین کا انکار کرتے ہیں۔ ایک بات کا یعنی ختم نبوت کا انکا رکرتے ہیں تو وہ کفر میں چلے جاتے ہیں۔ تو اصول بنیادی طور پر یہ ہے کہ تمام ضروریات دین کا اقرار یہ ایمان ہے اور سلب جزئی کے طور پر ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کر دینا یا یہ کہنا کہ یہ اسلام میں نہیں ہے، یہ کفر ہے۔ 

یہ سوال رکھا گیا ہے کہ جو گروہ یا تنظیم نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر دوسرے مسلمانوں کے قتل وغارت کا ارتکاب کرتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

نظریات کے کئی درجات ہیں۔ نظریاتی اختلاف سے مراد اگر کوئی ایسی بات ہے جو اسلام کا مسئلہ نہیں ہے، مثلاً مہاجر اور مقامی کا مسئلہ ہے، یا مسلکی اور فرقہ وارانہ مسائل ہیں تو اس کی تو اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ تو بہت سخت حرام اور ناجائز ہے اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن اگر نظریاتی اختلاف سے مراد کفر واسلام کے مسائل ہیں تو بھی آپ کے ملک میں اگر کوئی کافر رہتا ہے تو مسلمان ملک میں رہتے ہوئے ایک مسلمان کے لیے اس کی قطعاً اجازت نہیں ہے کہ وہ ایک کافر کو نقصان پہنچائے۔ اس لیے کہ وہ اس ملک کے ایک شہری اور ذمی ہونے کی حیثیت سے رہ رہا ہے، اس کی جان اور مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ ہاں، کسی جرم کی وجہ سے آپ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن افراد کو افراد کے خلاف تلوار اٹھانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے۔ 

ڈاکٹر قبلہ ایاز

مولانا اعجاز احمد صمدانی نے اس پورے مسئلے کو اپنی گفتگو میں بہت اچھا رنگ دیا ہے اور ہر سوال کا وضاحت سے جواب دیا ہے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:

الف۔ حدیث میں حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت جو نہایت شدت سے بیان ہوئی ہے تو اس کی حکمت یہ ہے کہ معاشرے میں فتنہ اور فساد نہ ہو، کیونکہ اسلام اس بات کا بہت بڑا داعی اور حامی ہے کہ معاشرے میں ایک ترتیب اور ایک نظم ہو۔ 

ب۔ اگر ریاست کسی گروہ کے خلاف ظلم اور تشدد کی مرتکب ہو تو اس کے خلاف قتال، خروج نہیں ہے، بلکہ یہ دفاع کے لیے ہے۔ دفاع اگر قتال کے بغیر ممکن نہ ہو تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر یہ مزید فساد کا باعث بن سکتا ہے تو پھر اس سے احتراز کی صورت ہی اختیار کرنی چاہیے۔ 

ج۔ مروجہ جمہوریت کے راستے سے معیاری اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہ دکھائی دیتا ہو تو موجودہ حالت میں مسلح جدوجہد کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اس سے زیادہ فساد کا خطرہ ہے۔ 

د۔ کفر بواح ایسا کفر ہے جو بالکل ظاہر وباہر ہو اور علماء کرام اس کے کفر ہونے پر متفق ہوں اور اس کو کفر بواح قرار دیں۔ ایسی صورت میں خروج کا جواز ہے۔ 

ہ۔ بعض دلائل سے کفر بواح کی صورت میں خروج کا وجوب سمجھ میں آتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی طاقت حاصل کر لے تاکہ اقدام مزید فساد نہ بنے، بلکہ اصلاح پر منتج ہو۔ 

ز۔ باغی قیادت کو اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ راے عامہ کو ہموار کرے، کیونکہ اگر راے عامہ آپ کی پشت پر ہو تو ہم اصلاح اور بہتری کی صورت کی طرف جا سکتے ہیں۔ 

ح۔ تکفیر بہت نازک مسئلہ ہے اور جب تک کسی بات میں کفر کے ننانوے احتمالات کے باوجود ایک صورت بھی اسلام پر محمول کرنے کی ممکن ہو تو احتیاط ہی سے کام لینا چاہیے اور شبہہ کی گنجائش بھی اگر ممکن ہو تو دینی چاہیے۔

ط۔ مسلکی یا نسلی یا اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کی قتل وغارت کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ جس طرح مسلمانوں کو ایک ملک میں رہنے کا حق ہے، اسی طرح غیر مسلموں کو بھی رہنے کا حق ہے اور ان کے بھی اپنے حقوق ہیں۔

مولانا کی گفتگو میں تقریباً ہر سوال کا جواب آ گیا ہے اور ایک سمت کا تعین ہو گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد ہماری جو گفتگو ہوگی، وہ بہت زیادہ باسمت اور با جہت ہوگی۔ 

مولانا مفتی محمد اسد اللہ شیخ (رئیس دار الافتاء، جامعہ حیدریہ، خیرپور میرس)

وقت تھوڑا ہے، بات زیادہ لمبی ہے۔ میں ایک بات تمہیداً عرض کروں گا۔ اسلام ایک وسیع ترین اور عالمگیر دین ہے اور اس کی بنیاد پانچ شعبوں پر قائم ہے: اعتقادات، عبادات، اخلاقیات، معاملات، اجتماعیات۔ اب ہمارے سامنے جو مسئلہ ہے خروج اور تکفیر کا، اس کا زیادہ تر تعلق معاملات سے ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کریں، معاملات، لین دین، قرض، امانت رکھنے کے طریقے کیا ہونے چاہییں؟ کسی انسان کو دوسرے انسان سے واسطہ پڑتا ہے، اگر دیانت اور امانت نہ ہو تو پھر لازمی بات ہے کہ جھگڑا ہوگا۔ جب جھگڑا ہو تو امام عادل کے لیے یہ بات لازم ہے کہ جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا دے اور اگر صاحب امر یہ کام نہیں کرے گا تو ہر ایک اپنا فیصلہ خود کرنے پر مجبور ہوگا۔ اسی سے لاقانونیت پھیلتی ہے اور پھر ملک کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتا۔ 

اجتماعی طور پر قوم کو سنبھالنا، اجتماعی حالات کو درست کرنا، قوم میں اجتماعی طو رپر ایک تنظیم ہو، قوم ایک نظم کے تحت زندگی گزارے، بد امنی نہ ہو، ہر چیز اپنے محل پر قائم ہو، تنظیم ملت کی یہ ذمہ داری پانچ قسم کے لوگوں پر ہے۔ امراے اسلام پر جنھوں نے خصومات کو مٹایا، خلفاے اسلام پر جنھوں نے اخلاقیات کو درست کیا، فقہاے اسلام پرجنھوں نے عبادات کو صحیح کیا، حکماے اسلام پر جنھوں نے عقائد کو درست کیا۔ اس طرح اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے، ہر چیز میں اس نے ایک نظم قائم کیا ہے۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اسمعوا واطیعوا ولو امر علیکم عبد حبشی۔ کہ تم سنو اور اطاعت کرو، اگرچہ تمھارے اوپر کوئی حبشی غلام مقرر کر دیا جائے جس کے کان ناک اور کٹے ہوئے ہوں، اس کی بھی اطاعت کرنی ہے۔ یعنی مامورین پر سمع وطاعت فرض ہے۔ نفسانی جذبات کی وجہ سے اختلاف نہ کرو۔ جب آپ کے ہاتھ میں کتاب وسنت ہے تو یہ تمھارے لیے حجت کافی ہے اور اسی حجت پر عمل کرتے ہوئے اگر تم دوسرے کا خیال کرو گے تو اس سے بدامنی نہیں پھیلے گی۔ 

اور اگر کوئی امیر مقرر نہیں تو مل جل کر سب مسلمان ممالک ایک امیر مقرر کر لیں۔ اگر اتفاق نہیں ہوتا تو ہر خطے کا اپنا اپنا امیر مقرر کر لیں۔ اسی کو اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اولی الامر جو ہوگا، وہ بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کے تابع ہوگا، لیکن اگر اولو الامر کھلم کھلا کسی ایسی چیز کا حکم دے جس کی وجہ سے اسلام پر زد پڑتی ہے تو پھر یہ استثنائی صورت ہے کہ اس کا حکم نہیں مانا جائے گا۔ کفر بواح کا معنی ہے ظاہر ظہور کفر۔ اس کی ایک صورت تو ہے حدود اللہ کے مقابلے میں دوسرے قوانین کو ترجیح دینا اور ان کا انکار کرنا۔ اسی طرح حدود اللہ کے معاملے میں سستی اور بے پروائی سے کام لینا۔ سستی اور غفلت اگرچہ حقیقتاً کفر بواح نہیں، مگر حکم شرعی کے اعتبار سے اس کو کفر میں داخل سمجھا جائے گا، جیسا کہ تکملہ فتح الملہم میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا ہے۔ 

ایک صورت کفر بواح کی یہ بھی ہے جس کے بارے میں صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم ایسی صورت میں ایسے حاکم کی بیعت کو توڑ نہ دیں؟ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ لا، ما اقاموا فیکم الصلوۃ۔ نہیں، جب تک وہ تمھارے اندر نماز کو قائم کرتا ہے۔ نماز قائم کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ایک کو آزادی ہو کہ جس طرح چاہے، نماز پڑھ لے۔ بلکہ امیر پر یہ بات لازم ہے کہ وہ خود بھی نماز کو قائم کرے اور نماز سے متعلق وہ تمام ادارے مثلاً مساجد اور اوقاف وغیرہ جنھیں شریعت نے کوئی حیثیت دی ہے، ان کی حفاظت ہو اور اسی طرح اگر نماز کے وقت میں بازاروں کو بند کرنا پڑے تو وہ بند ہونے چاہییں۔ اس طرح اقامت صلوٰۃ ہوگی۔ پھر سب اعمال کی بنیاد چونکہ نماز ہے، اس لیے جب نماز درست ہو جائے گی تو سب اعمال کو کرنا آسان ہو جائے گا۔

اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بالواسطہ یا بلاواسطہ، ا س کا بھی امام اور رعیت دونوں کے ساتھ تعلق ہے۔ صحیح طرز زندگی پر لوگوں کو قائم رکھنا، اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا مسلمانوں کے ان فرائض میں سے ہے جن کا قرآن میں بار بار مطالبہ کیا گیا ہے۔ کوئی حکومت اس وقت تک نہ صحیح معنی میں نہ جمہوری کہلا سکتی ہے نہ مہذب کہلا سکتی ہے ، نہ ثبات واستحکام اسے حاصل ہو سکتا ہے نہ عزت ووقار حاصل کر سکتی ہے جب تک اس کا معاشرہ بے داغ نہ ہو۔ اگر معاشرے کو گھن لگ چکا ہے، بد اخلاقی عام ہے، بے راہ روی شعار کی صورت اختیار کر چکی ہے تو وہاں امن واستحکام نہیں آ سکتا۔ آج کل بے راہ روی کو ایک قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے، ہر شخص آزاد ہے کہ جس طرح کا کوئی کام کرنا چاہے تو کرے، اس سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا، کسی کے اوپر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی، آدمیت کا احترام اٹھ گیا ہے، آدمیت کا احترام آج کل بالکل نہیں رہا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ میں کیوں پکڑا جا رہا ہوں، کیوں اٹھایا جا رہا ہوں۔ امانت ودیانت کا فقدان ہے، سرکاری مال کو بیت المال کو ہم نے اپنا مال سمجھ رکھا ہے، اپنا حق سمجھ رکھا ہے۔ اسی طرح اخلاقی جرائم اور مفاسد معمولات حیات میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایسی حالات میں نہ حکومت سرسبز ہو سکتی ہے نہ قوم فلاح وبہبود پا سکتی ہے۔ حکومت کی کامیابی اور قوم کا ارتقا صرف ایک ہی چیز پر موقوف ہے کہ وہ صحت مند معاشرہ ہو اور صحت مند معاشرہ تب ہوگا جب امانت ودیانت ہوگی۔ اور جب امانت ودیانت نہیں ہوگی تو صحت مند معاشرہ پنپ نہیں سکتا، اس لیے لازم ہے کہ قرآن نے جو اہل اسلام سے جو مختلف مطالبات کیے ہیں، ان کی بجا آوری پر توجہ دی جائے۔

جہاں تک خروج کا تعلق ہے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام زید بن علی رحمہ اللہ کی اخلاقی معاونت بھی فرمائی، ان کے حق میں فتویٰ بھی دیا اور تعاون بھی کیا۔ مگر انھوں نے اتقوا فراسۃ المومن کے تحت یہ سمجھ لیا کہ جو ان کے ساتھ ہیں، وہ ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور بجائے کامیابی کے، ایک خراب نتیجہ نکلے گا۔ بہرحال انھوں نے ان کی ہمدردی میں فتویٰ دیا اور حمایت کی۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نظر یہ تھی کہ اگر کوئی بغاوت کامیاب نہیں ہوگی تو جو اس کے بعد نتائج آنے والے ہیں، وہ زیادہ خراب ہوں گے۔ جیسا کہ ۱۸۵۷ء میں ہوا کہ بہت سے علما نے ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا۔ ان کی نظر یہ تھی کہ ان شاء اللہ کامیابی ملے گی اور یہ ضروری بھی نہیں کہ جو کسی مقصد کے لیے اٹھ، نتیجہ اس کے ہاتھ میں ہو، بلکہ وہ نتائج کے بارے میں پرامید ہو کر آگے بڑھتا ہے اور جدوجہد کرتا ہے۔ تو امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا کہ یہ تو ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور پھر افراتفری کا عالم ہوگا۔ پھر جب دوسرا دور آیا اور بنو عباس کے دور میں نفس زکیہ اور نفس رضیہ نے خروج کیا تو امام ابوحنیفہ نے ان کا کھلم کھلا ساتھ دیا یہاں تک کہ اپنی جان بھی انھوں نے گنوا دی۔ ان پر کوڑے برسائے گئے، صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے ان کا ساتھ کیوں دیا تھا۔ مگر جس بات کو انھوں نے حق سمجھا، اس کے متعلق انھوں نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ خروج کے اصولی جواز کی صورت میں باغی قیادت کو قوم کا عمومی اعتماد عام طو رپر حاصل ہوتا ہے۔ وہ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھ بہت زیادہ لوگ بھی ہیں اور میں اس بات کا اہل بھی ہوں، جیسے امام زید بن علی رحمہ اللہ نے یہ سمجھا۔ چونکہ بہت سے لوگ ان کے ساتھ تھے، اس لیے انھوں نے قیادت کی۔ اب نتیجہ تو اللہ کے حوالے ہوتا ہے، ہاں اگر یہ نتیجہ پہلے سے دکھائی دے رہا ہو کہ افراتفری کا عالم ہوگا تو ایسے خروج کی اجازت نہیں ہو سکتی۔

تکفیر کے متعلق مختصر طور پر یہ عرض ہے کہ تکفیر کرنا، کسی مسلمان کو کافرکہنا یا کسی کافر کو مسلمان کہنا شرعی طو رپر اس کی بالکل ہی اجازت نہیں۔ اب جب اجازت نہیں تو پھر علماء کرام فتویٰ کیوں دیتے ہیں؟ وہ اس وجہ سے کہ شراح کرام نے تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ اولو الامر سے مراد اہل علم ہیں۔ اہل علم جب اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اس میں وہ چیز یں موجود ہیں جو کہ کافروں میں موجود ہیں تو وہ اس کا حکم بتا دیتے ہیں۔ اہل علم کسی کو کافر بناتے نہیں، بتاتے ہیں۔ سمجھاتے ہیں کہ بھئی، یہ چیزیں ہیں جس کی وجہ سے آدمی کا خروج عن الاسلام ہو جاتا ہے۔ تو ضروریات مذہب، اگر آدمی ان کا انکار کر بیٹھے تو پھر اس میں کوئی تاویل بھی مسموع نہیں ہوتی، کوئی تاویل بھی نہیں چلتی۔ اس وجہ سے علماء کرام، مفتیان عظام بتاتے ہیں کہ یہ کافر ہے یا یہ مسلمان ہے۔

جو گروپ یا تنظیم نظریاتی اختلاف پر دوسرے مسلمانوں کے قتل وغارت کا ارتکاب کرتی ہے تو نظریہ اگر کفر اور اسلام کا ہے تو وہ عقیدہ ہوتا ہے۔ اس کے اوپر تو آدمی جان بھی دے دیتا ہے اور اس کے لیے اجازت بھی ہے، مگر عام طو رپر ہمارے ہاں فروعی اختلافات یا نظریاتی اختلافات کو پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کفر اور اسلام کا مسئلہ ہے، یہ غلط ہے۔ اس کی تو کسی بھی طور پر اجازت نہیں دی جا سکتی اور اسلام میں اس طرح کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے۔

جمہوریت کے متعلق رئیس احمد جعفری نے ایک بات اچھی لکھی ہے کہ جمہوریت اسلامی ہوتی نہیں، لیکن اگر اس کو اسلام کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو پھر اس میں غیر مسلموں کے حقوق کی بھی حفاظت ہوتی ہے اور مسلمانوں کے حقوق کی بھی حفاظت ہوتی ہے۔ شریعت نے اہل حل وعقد کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ کس کو امیر بنانا ہے اور کس طرح وہ لوگوں پر حکومت کرے۔ اب اس کو اگر جمہوریت کا نام دیا جائے اور اس میں وہ خصوصیات موجود ہوں جو اسلامی طو رپر ہونی چاہیے تو پھر یہ اچھی بات ہے، ورنہ جمہوریت اسلام کے ساتھ متصادم ایک نظریہ ہے۔ چونکہ عام طو رپر ہمارے ہاں ایک نظریہ موجود ہے کہ ہم نے جمہوری نظام کو اختیار کیا ہے تو اگر ہم اسی میں رہ کر جدوجہد کریں گے تو ان شاء اللہ کسی نہ کسی وقت ہماری جدوجہد کامیاب اور بار آور ہو جائے گی۔

مولانا محمد سلفی ― (مہتمم جامعہ ستاریہ، کراچی)

موضوع سے متعلق بڑی سیر حاصل اور مفید گفتگو ہو چکی ہے۔ لہٰذا اختصار کو مد نظر رکھا جا رہا ہے تاکہ متعین وقت کی حددو میں اپنی گفتگو کو مکمل کر لیا جائے۔

فقرہ الف میں جو سوال ہے، اس کے بارے میں قرآن پاک میں متعدد آیات کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کسی طرح بھی موجود خلیفہ یا امیر یا سربراہ مملکت کے خلاف بغاوت یا ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں۔ ارشاد باری ہے: یا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم۔ فرمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: علیکم بالسمع والطاعۃ وان امر علیکم عبد حبشی۔ فاضل مفضول کا بھی اعتبار نہیں۔ اگر مفضول بھی بڑا بنا دیا گیا ہے تو ہمیں ہر حال میں اس کی تابع داری کرنی ہے، چہ جائیکہ معتبر اور قابل امیر یا خلیفہ یا سربراہ مملکت ہو اور وہ شعائر اسلام کی پابندی کرتا ہو۔ کسی طرح بھی خروج یا اس کے سامنے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں۔یہاں تک کہ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: علیکم بالسمع، قالوا وان ظلمنا یا رسول اللہ؟ قال فان ظلمکم فعلیہم ولکم الاجر بالصبر۔ 

یہ بات ہماری تاریخ بتاتی ہے۔ مکہ مکرمہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت زبیر بن العوام اور دیگر اجلہ صحابہ موجود تھے اور ظالم حکمران لوگوں پر زیادتی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ عبد اللہ بن زبیر کو سولی چڑھا دیا گیا، تب بھی اکثریت صحابہ نے حکمرانوں کی اطاعت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ امام ابو جعفر طحاوی نے اپنی کتاب شرح عقیدہ طحاویہ میں فرمایا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان کو باغیوں نے انھی کے گھر میں قید کر دیا تو ایک شخص ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے امیر المومنین، آپ خلیفہ رسول ہیں او ربر حق ہیں، لیکن آج منبر رسول پر آپ کی جگہ پر باغی نماز پڑھا رہے ہیں تو کیا میں ان کے پیچھے نماز پڑھ لوں؟ ارشاد ہوتا ہے: یا اخی ، الصلاۃ عبادۃ فان احسنوا فاحسن معہم وان اساء وا فتجنب اذا طاعتہم۔ نماز شعائر اسلام میں سے ہے، دین ہے۔ وہ اگر نماز پڑھ رہے ہیں تو چاہے انھوں نے خلیفہ کی مخالفت کی ہوئی ہے اور باغی ہیں، لیکن نماز پڑھ رہے ہیں تو تم ان کے پیچھے نماز پڑھ لو۔ 

تو حاصل یہ ہے کہ حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی قطعاً اجازت نہیں۔

فقرہ ب کا جواب یہ ہے کہ اس کی بھی اجازت نہیں۔

ج۔ ظاہر ہے کہ اس کی اجازت نہیں۔

د۔ کفر بواح کی یہاں تفصیل ہو چکی ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں۔ امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ کے الفاظ میں کفر بواح سے مراد انکار ذات اللہ، کتاب اللہ، رسول اللہ، دین اللہ اور شرائع اسلام کے ان واضح احکام کا انکار کرنا ہے جو متفق علیہ ہیں۔ ان کا انکار کفر بواح ہوتا ہے۔ اس میں سے کسی ایک چیز کے منکر کو بھی کافر کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی امام ابو جعفر طحاوی نے ص ۱۹۴ اور ص ۲۳۲ میں یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ ولا نکفر مسلما بذنب ارتکبہ ما لم یستحلہ۔ ہم کسی مسلمان کو کسی بھی گناہ کے نتیجے میں کافر نہیں کہیں گے، جب تک کہ وہ اپنے اس گناہ کو حلال نہ سمجھے اور شریعت کا انکار نہ کر دے۔

ہ۔ بنیادی طور پر خروج سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کی ہیبت لوگوں کے دلوں سے نہ نکل جائے۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی خروج کے نتیجے میں مزید فساد پھیلتا ہے اور فساد کا درک اور ترک اور فساد کو ختم کرنے کے لیے ہی اسلام آیا ہے۔ خروج سے اسلام کی نفی ہوتی ہے، لہٰذا کسی بھی شکل میں خروج کی اجازت نہیں۔

و۔ تاریخ میں ایسا ہوا کہ حضرت علی کے سامنے خارجی پیدا ہوئے۔ حضرت عثمان کا حادثہ بھی خارجیوں کی وجہ سے رونما ہوا، لیکن کہیں بھی کسی صحابی، کسی بھی تابعی اور ائمہ دین نے اس بات کی اجازت نہیں دی۔ حکم یہ ہے کہ: وان طائفتن من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینہما۔

ز۔ شریعت اسلام میں کسی بھی حیثیت میں کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا جائز نہیں۔ مشہور حدیث ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے جہاد کے دوران میں ایک کافر کو قتل کر دیا۔ اللہ کے رسول کی خدمت میں یہ واقعہ آیا تو آپ نے اسامہ سے سوال کیا تھا کہ ہلا شققت قلبہ؟ تو ظاہری حالت کیسی ہی کیوں نہ ہو، کسی بھی حالت میں کفر کا فتویٰ لگانے یا کافر کہہ کر کسی کو قتل کر دینے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ 

ح۔ نظریاتی اختلاف تو ہوتا ہی ہے اور ہے اور قیامت تک رہے گا، لیکن کسی نظریاتی اختلاف کے نتیجے میں قتل وغارت یا دوسرے کو کافر کہنے کی کوئی اجازت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ یا آثار صحابہ یا ائمہ مشہورین میں ثابت نہیں۔ امام طحاوی نے ان موضوعات پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے، ان کی کتاب کا اہل علم کو مطالعہ کرنا چاہیے۔ 

ڈاکٹر قبلہ ایاز

مولانا محمد سلفی نے ایک اہم نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول کی ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہمارے دینی طبقے میں امام طحاوی کی العقیدۃ الطحاویۃ کے مطالعے کو عام کیا جانا چاہیے۔ اس کتاب کا مطالعہ، اس پر علمی گفتگو، اس کو جدید اصطلاحات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا، یہ اب حقیقتاً علماء کرام کے کرنے کا کام ہے اور بہت بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ اس کتاب کو عام کر دیا جائے، اس کو مزید محقق کر دیا جائے، اس وقت جو حالات ہیں اور جو نئی صورتیں بن گئی ہیں، ان نئی صورتوں میں بھی اس قسم کی کتابوں سے ہم استفادہ کریں۔ 

دنیا میں اس وقت ایک عالمگیریت کی صورت ہے اور مغرب میں بھی مسلمانوں کی بہت بڑے تعداد موجود ہے۔ وہاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مساجد موجود ہیں اور وہاں بھی مسلمانوں کے ذہنوں میں اس قسم کے سوالات آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ مسلمان ممالک میں مسلمانوں کی آبادی کم ہو گئی ہے۔ مثلاً خلیج کی ریاستیں اب فی الحقیقت مسلمان اکثریتی ممالک نہیں رہیں۔ قطر، دبئی، ابو ظبی، شارجہ اب مسلمان اکثریتی ممالک نہیں رہے۔ اسی طریقے سے کچھ مغربی ممالک کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ۲۰۲۵ء تک ان کے مسلمان اکثریتی ممالک بن جانے کے امکانات ہیں۔ تو وہاں بھی یہ سوالات آنا شروع ہو گئے ہیں کہ مثلاً ایک مسلمان فوجی ہے اور ایک مغربی ملک کی فوج میں ملازم ہے اور وہ مغربی ملک کسی مسلمان ملک پر حملہ کرتا ہے تو یہ مسلمان فوجی آیا یہ اپنی حکومت کی بات مانے گا یا ملت اسلامیہ کی وفاداری کے حوالے سے اپنا فیصلہ کرے گا؟ تو بہت سے سوالات ہیں جو اب وہاں سامنے آ رہے ہیں اور مغربی جامعات میں ان سوالات پر تحقیق ہو رہی ہے، لیکن ملت علماء کرام کی طرف دیکھ رہی ہے اور آپ ہی نے ان سوالات کا جواب دینا ہے۔ الحمد للہ ہمارے پاس اس حوالے سے بہت بڑا علمی ذخیرہ موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کا مطالعہ کریں۔

مولانا مفتی محمد ابراہیم قادری ― (مہتمم جامعہ غوثیہ، سکھر۔ رکن اسلامی نظریاتی کونسل)

میری کوشش ہوگی کہ میں انتہائی اختصار کے ساتھ آٹھ دس منٹ میں اپنا مدعا بیان کروں اور سوال نامے میں جو نکات اٹھائے گئے ہیں، میری کوشش ہوگی کہ میں ان تمام کا اختصار کے ساتھ احاطہ کروں۔ 

۱۔ سب سے پہلی بات جو پوچھی گئی ہے، وہ یہ کہ احادیث میں خروج کی جو ممانعت آئی ہے، اس کی حکمت کیا ہے۔ علما نے اس کی وجہ لکھی ہے: دفعا للفتنۃ، تلوار نہ اٹھانے اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور مسح جدوجہد نہ کرنے کا حکم فتنے کے انسداد اور دفع فتنہ کے لیے دیا گیا ہے۔

۲۔ بہتر ہے کہ اس کے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ جواب پیش کروں جو آپ نے بعض صحابہ کرام کے ایسے ہی اٹھائے ہوئے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا او رمولانا سلفی نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا: علیکم بالسمع۔ تم پر حاکم کی امام کی اطاعت اور اس کی بات سننا لازم ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: وان ظلمنا الامیر؟ ہمارا امیر اگرچہ ہم پر ظلم کرے، تب بھی اس کی اطاعت کرنی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کو آپ نے اٹھایا اور اسی سوال کو صحابہ کرام نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے جواب میں سوال کے جو الفاظ تھے، انھی کا اعادہ کیا ہے۔ سوال یہ تھا: وان ظلمنا الامیر؟ چاہے امیر ہم پر ستم ڈھائے۔ فرمایا: وان ظلمکم فعلیہم الوزر ولکم الاجر بالصبر۔ ہاں، اگرچہ تمھار امیر تم پر ظلم کرے تو بھی تم نے ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھانی، ان کے ظلم کا گناہ ان کے کندھوں پر ہوگا اور تم ان کے مقابلے میں جب صبر کرو گے تو اجر پاؤ گے۔

۳۔ مذکورہ حدیث سے اس شق کا جواب بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

۴۔ کفر بواح سے کیا مراد ہے؟ میں اس بات کو ذرا سی تفصیل کے ساتھ عرض کروں گا۔ وہ حدیث جس میں کفر بواح کے الفاظ آئے ہیں، تھوڑا سا اس کو دیکھ لیا جائے۔ صحابہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا اور ہم نے حضور کی بیعت کی۔ فکان فی ما اخذ علینا ان بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرہنا وعسرنا ویسرنا واثرتنا علینا۔ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم امام کی سمع وطاعت کریں گے، خوشی میں، ناپسندیدگی میں، مشکل میں، آسانی میں، اگر چہ وہ امام ہم پر اوروں کو ترجیح دے۔ ولا ننازع الامر اہلہ۔ اور یہ کہ ہم اہل حکومت کے ساتھ حکومت کے معاملے میں تنازع نہیں کریں گے۔ ہم امر حکومت کے سلسلے میں ا مرا سے تنازع نہیں کریں گے۔ یہاں بغاوت کے الفاظ نہیں ہیں کہ ہم بغاوت نہیں کریں گے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم اہل حکومت کے ساتھ ان کے معاملات حکومت میں نزاع نہیں اٹھائیں گے۔ الا ان تروا کفروا بواحا۔ مگر یہ کہ تم کفر ظاہر دیکھو۔ ایک ہے امرا سے اختلاف کرتے ہوئے اور انھیں منکرات میں گرفتار دیکھ کر ان کے خلاف احتجاج کرنا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر کہ افضل جہاد میں سے یہ بھی ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہا جائے۔ تو ایک ہے احتجاج کرنا، آواز اٹھانا اور امرا سے نزاع کرنا اور ایک ہے کہ ہم ان کے خلاف خروج کریں، بغاوت کریں۔ یہ دو الگ الگ معاملے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جو استثنا بیان فرمایا ہے کہ ہاں، تم کفر بواح کی صورت میں یہ کام کر سکتے ہو، وہ نزاع کے معاملے میں ہے، خروج کے معاملے میں نہیں ہے۔ 

کفر بواح سے کیا مراد ہے؟ امام شرف الدین نووی نے اس پر جو کلام کیا ہے، وہ میں مختصر طور پر عرض کر دیتا ہوں۔ 

علامہ نووی لکھتے ہیں کہ کفر بواح سے مراد ہے کفر ظاہر۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں عندکم فیہ من اللہ برہان کے الفاظ آئے ہیں کہ تمہارے پاس اس معاملے میں کوئی برہان ہو اور جس چیز کو تم ایک واضح منکر اور گناہ سمجھ رہے ہو، اس پر قرآن وحدیث سے کوئی واضح دلیل موجود ہو۔ مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ومعنی الحدیث: لا تنازعوا ولاۃ الامور فی ولایتہم ولا تعترضوا علیہم، الا ان تروا منہم منکرا محققا تعلمونہ من قواعد الاسلام، فاذا رایتم ذلک فانکروا علیہم وقولوا بالحق حیث ما کنتم، واما الخروج علیہم .... دماء المسلمین 

جب تم یہ دیکھو تو اس کا تم انکار کرو۔ جہاں کہیں بھی ہو، حق کا اظہار کرو۔ اسی کو میں نے کہا کہ احتجاج کر سکتے ہو، آواز بلند کر سکتے ہو، خروج کی بات نہیں ہو رہی۔ رہا خروج تو یہ نزاع سے الگ معاملہ ہے۔ فرمایا کہ ان ائمہ جائرین کے خلاف جو خروج ہے، وہ حرام ہے، اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے، اگرچہ حکمران فاسق ہوں، اگرچہ وہ ظالم ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی تمام باتوں کا جواب میری ان گزارشات میں آ گیا ہے۔

تکفیر کے بارے میں، میں ذرا سا اضافہ کروں گا۔ کفر یہ ہے کہ ضروریات دین کا انکار کیا جائے اور ضروریات دین اسلام کے وہ مشہور ومعروف مسائل ہیں کہ جن سے ہر خاص وعام آگاہ ہو، جیسے پانچ نمازیں اور ارکان اسلام، حج، سود کی حرمت، زنا کی حرمت، سرقہ کی حرمت۔ تو یہ جو ضروریات دین ہیں، ان کا انکار کفر ہے۔ ایسے ہی اگر کسی شخص نے صراحتاً ضروریات دین میں سے کسی امر کا انکار تو نہیں کیا، لیکن اس کا ایک ایسا عمل ہے جو ان کے انکار کے زمرے میں آتا ہے تو یہ بھی کفر ہے۔ جیسے کوئی شخص کلمہ بھی پڑھتا ہے، ضروریات دین کا اعتراف بھی کرتا ہے، لیکن پھر بت کو سجدہ کرتا ہے تو یہ کفر ہے، اس لیے کہ اس کا سجدہ کرنا ان ضروریات دین کے انکار کے مترادف ہے۔ یا کوئی آدمی نعوذ باللہ قرآن پاک کو گندگی میں ڈالتا ہے اور اللہ رسول کی توہین کرتا ہے تو یہ کفر ہے۔ 

جو تنظیم اختلاف کی بنیاد پر دوسرے مسلمانوں کے قتل کو جائز سمجھتی ہے، اسلام میں اس کا حکم یہ ہے کہ انھیں سخت سزائیں دی جائیں، عبرت ناک سزائیں دی جائیں، اس لیے کہ وہ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے دوسروں کو قتل کرتے ہیں۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔

محمد عمار خان ناصر ― (الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)

بہت سے نکات جن پر پہلے اہل علم ودانش نے گفتگو کی، ان پر چونکہ میری زیادہ مختلف رائے نہیں ہے، اس لیے میں ان کے تکرار میں پڑے بغیر، دو تین نکتوں پر توجہ مرکوز رکھوں گا جن کے بارے میں، میں ذرا تھوڑے سے اضافے کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں۔

ایک تو یہ کہ پہلے نکتے میں جو یہ بات بیان ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت کو بہت تاکید سے اور بہت شدت کے ساتھ بیان فرمایا، اس سے شریعت کا ایک بنیادی رجحان واضح ہوتا ہے اور اس کو اگر سامنے رکھا جائے تو اگلے جو سوالات ہیں، ان کا جواب زیادہ وضاحت سے مل جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خون کو، ان کے جان ومال کو بچانے کے لیے اور فتنہ وفساد سے گریز کے لیے شریعت یہ چاہتی ہے کہ حکمرانوں کے ظلم وجبر کو اور ان کے بگاڑ کو گوارا کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یعنی اہون البلیتین کے طور پر اس کا انتخاب ہی شریعت کی ترجیح ہے۔ اس سے پہلی بات تو معلوم ہوتی ہے کہ شریعت کا اصل رجحان اورمنشا یہی ہے کہ خروج نہ کیا جائے۔ دوسری بات یہ نکلتی ہے کہ اگر کسی صورت میں استثنائی طور پر گنجائش نکلتی ہے تو اسی اصول کو ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ضرورت کی حد تک رہے، ناگزیر حد تک ہو، اس سے زیادہ اس کو پھیلایا نہ جائے۔ تیسری چیز جو اسی اصول کو ماننے سے نکلتی ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں کسی حد تک اس کی گنجائش پیدا ہو، وہاں پر بھی اس کے ساتھ ایسی شرائط لگنی چاہییں جن کی وجہ سے فتنہ وفساد سے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے جس سے اصل میں شریعت بچانا چاہتی ہے۔ مثلاً یہ کہ خروج کرنے والوں کو اتنی طاقت میسر ہو کہ وہ بالفعل نتیجہ حاصل کر سکیں۔ اسی طرح اگر خروج سے کوئی عمومی مقصد حاصل کرنا مثلاً پورے نظام کو بدلنا یا پوری ریاست پر ایک متبادل نظم حکومت قائم کرنا ہے تو پھر یہ لازم ہے کہ جو باغی قیادت اٹھی ہے، اس پر قوم کا اعتماد ہو۔ اس لیے کہ اسلام میں ویسے بھی یہ اصول ہے کہ قوم پر حکمرانی اس طبقے کو یا اس فرد کو کرنی چاہیے جسے لوگوں کو اعتماد حاصل ہو۔ اگر کوئی گروہ اس دعوے کے ساتھ اٹھتا ہے کہ ہم یہ نظم حکومت بدلنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی یہ شرط لازماً عائد ہونی چاہیے۔ 

دوسری بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے آج کے حالات کے لحاظ سے ایک بڑا اہم سوال ہے جو بظاہر بڑا متاثر بھی کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جس جمہوری نظام کے تحت ہم اس وقت رہ رہے ہیں، اس کے جو بہت سے عملی مسائل ہیں، اس کے لحاظ سے مسلمانوں کے اہل علم ودانش اور علما وفقہا بجا طو رپر یہ محسوس کرتے ہیں کہ شریعت کا نظام جس طرح سے ایک آئیڈیل شکل میں قرآن وسنت میں بیان ہوا ہے، اس نظام کے ذریعے سے اس کو پوری طرح رو بہ عمل کرنا شاید خاصا مشکل ہے۔ اس صورت میں اگر اس راستے سے یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو فطری طو رپر یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ کیوں نہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس حوالے سے یہ بات سامنے ہونی چاہیے اور اس کو بڑی وضاحت سے بیان بھی کرنا چاہیے کہ شریعت کے احکام پر عمل یا بحیثیت مجموعی پورے اسلامی نظام کا قیام یا معاشرے میں شرعی احکام کو رو بہ عمل کرنا، یہ شریعت کا کوئی مطلق حکم نہیں ہے۔ اس میں عملی استطاعت اور عملی حالات اور عملی حکمتوں کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ یہ انفرادی احکام پر عمل میں بھی ملحوظ ہونی چاہییں اور فرد بھی اسی حد تک شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا مکلف ہے جتنا اس کے حالات اجازت دیتے ہوں اور جتنی اس کو استطاعت میسر ہو۔ اسی طرح اگر ہم پورے معاشرے کی بات کر رہے ہیں تو یہی اصول اس پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔

انفرادی احکام کی مثالیں تو سب کے سامنے ہیں۔ اجتماعی احکام کی مثال یہ ہے کہ جو مسلمان دنیا میں غیر مسلم معاشروں میں رہتے ہیں، حتی کہ ایسے معاشروں میں جن کو فقہی لحاظ سے دار الحرب تک کہا جا سکتا ہے، ان کے بارے میں فقہا نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ چونکہ ان کے لیے وہاں پوری شریعت پر عمل کرنا ممکن نہیں، اس لیے وہ وہاں سے ہجرت کر کے آ جائیں۔ فقہا اس صورت حال کے متعلق بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر بنیادی دین کے فرائض، نماز روزہ پر عمل بھی ان کے لیے مشکل بنا دیا جائے، تب ان پر ہجرت کرنا فرض ہے۔ ورنہ وہ وہیں رہیں اور دین کے بنیادی فرائض ادا کرتے رہیں۔ باقی شریعت پر عمل ان کے لیے ممکن نہیں، اس لیے اس کے وہ مکلف بھی نہیں۔ تو میرے خیال میں یہ جو اصول ہے کہ شریعت پر عمل فرد کے لیے بھی اور گروہوں اور معاشروں کے لیے بھی استطاعت سے اور عملی حالات کی سازگاری کے ساتھ مشروط ہے، اس کو ان معاشروں پر بھی لاگو کرنا چاہیے اور اس کی روشنی میں حالات کو سمجھنا چاہیے جن کو ہم بظاہر مسلمان معاشرے کہتے ہیں۔ جن ریاستوں کو ہم مسلمان ریاستیں کہتے ہیں، وہاں بھی اس وقت جو صورت حال ہے، فکری اور اعتقادی لحاظ سے جو فساد پھیلا ہوا ہے، اعمال میں جو بگاڑ ہے، اخلاق اور کردار کا جو بگاڑ ہے، اس سب کے ہوتے ہوئے یہ فرض کرنا کہ اس صورت حال کی اصلاح پر توجہ دیے بغیر اور شریعت کے حقیقی نفاذ میں جو رکاوٹیں ہیں، ان کو دور کیے بغیر فی الوقت اور فی الفور انھی حالات میں پوری شریعت کو نافذ کر دینا یہ شریعت کو مطلوب ہے، میرے خیال میں یہ مفروضہ بہت زیادہ نظر ثانی کا محتاج ہے اور اس پر بات ہونی چاہیے۔

آخری چیز جس پر میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا، تکفیر کا مسئلہ ہے۔ اس میں دو نکتے الگ الگ زیر بحث آنے چاہییں۔

ایک پہلو تو اس کا یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان پر، کسی بھی کلمہ گو پر کفر کا فتویٰ لگانا کسی ایسی بات پر جو حقیقت میں کفر نہیں ہے، کوئی فرعی اختلاف ہے، کوئی فہم کا اختلاف ہے، ظاہر ہے کہ اس کا قبیح ہونا اور اس کا ممنوع ہونا واضح ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو محتمل ہے تو اس میں فقہا کا وہ مشہور اصول سب اہل علم نے بیان کیا کہ اگر ننانوے میں سے ایک احتمال بھی ایسا ہے جو کفر سے بچاتا ہے تو اسے کفر سے بچانا ہی چاہیے، جب تک کہ وہ اس کی وضاحت نہ کر دے۔

زیادہ نازک بحث جو بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان فرد یا گروہ نے کوئی ایسی بات کہی ہے یا اس کو نظریے کے طور پر اپنا لیا ہے جو واقعتا علمی اور فقہی لحاظ سے کفر ہے یا مستلزم کفر ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ جو چیزیں کفر نہیں ہیں، فہم کا یا تعبیر کا اختلاف ہے، ان کو کفر قرار دینے کی شناعت تو واضح ہے۔ جن چیزوں کے بارے میں اہل علم نے، فقہا نے یہ بات بیان کی ہے کہ اگر کوئی آدمی یہ بات کہتا ہے تو یہ کفر ہے اور مستلزم کفر ہے تو ایسے افراد کے بارے میں کیا کہا جائے؟ یہ زیادہ اہم اور نازک بحث ہے۔ میں اس معاملے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نقطہ نظر یہاں بیان کرنا چاہوں گا جو انھوں نے منہاج السنۃ میں اور اپنے فتاویٰ میں اور بعض دوسری کتابوں میں بیان کیا ہے۔ مجھے ان کا نقطہ نظر درست لگتا ہے۔ دلائل کا موقع آئے گا تو اس پر بات ہوگی۔ میں اس کا خلاصہ بیان کر دیتا ہوں۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کوئی فرد یا گروہ ایسا ہے جو کلمہ گو بھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مان کر ہدایت کا ماخذ بھی مانتا ہے اور اس کے ساتھ کسی کفریہ بات کا بھی قائل ہے تو یہاں دو چیزیں ہیں جن کے مابین تعارض ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو اس کی نسبت کا معاملہ ہے کہ وہ اپنی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتا ہے، جبکہ دوسر ی طرف یہ چیز ہے کہ وہ عملاً کوئی ایسا عقیدہ یا نظریہ یا عمل اپنائے ہوئے ہے جو رسول اللہ کے دین کے خلاف ہے۔ اب ان میں سے کس پہلو کا زیادہ لحاظ کیا جائے؟ اس کے کلمہ گو ہونے کا زیادہ لحاظ کیا جائے یا اس کے نظریے یا عمل کے مستلزم کفر ہونے کا زیادہ لحاظ کیا جائے؟ ابن تیمیہ کا کہنا یہ ہے کہ میرے نزدیک دین کا اورشریعت کے مزاج کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے گروہوں کے معاملے میں پہلی نسبت کا زیادہ لحاظ رکھا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے کے بعد اصل میں انسانوں کی دو ہی قسمیں بنتی ہیں۔ یا وہ دائرۂ اسلام میں ہوں گے اور یا دائرۂ اسلام سے باہر ہوں گے۔ تو ایسے لوگ جو نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے ہیں اور آپ کے دین کو بحیثیت مجموعی قبول کرتے ہیں، لیکن بعض عقائد میں یا بعض اعمال میں اس سے ہٹے ہوئے ہیں تو ان کو دائرہ کفر میں شمار کرنے کے بجائے دائرۂ اسلام میں ہی شمار کرنا زیادہ مناسب ہے۔ گویا ابن تیمیہ کے نزدیک ایسی صورت میں کلمہ گوئی کی جو نسبت ہے، اس کو زیادہ وزن اہم ہے۔ 

دوسری بات جو انھوں نے اور ان کے علاوہ دوسرے فقہا نے بھی بیان کی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی قول یا فعل کے فی نفسہ کفر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے قائل کو یا اس کے فاعل کو بھی ہم کافر کہہ دیں۔ ان دونوں باتوں میں فرق ہے۔ قائل یا فاعل اس وقت کافر ہوگا اگر وہ کسی شبہہے یا کسی تاویل کے بغیر وہ بات کہتا ہو۔ اگر بات تو ایسی ہے جو فی نفسہ کفر ہے، لیکن کہنے والے کو کوئی شبہہ لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ کفر نہیں یا کہنے والا اس میں کوئی ایسی تاویل کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھتا ہوکہ کفر نہیں ہے تو اس پر اس پر قانونی لحاظ سے کافر کا حکم جاری کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ 

ابن تیمیہ نے اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے صحابہ کے واقعات سے بعض مثالیں دی ہیں۔ مثلاً بعض صحابہ کو کسی شبہے کی وجہ سے قرآن کی بعض آیات کے قرآن کا حصہ ہونے میں تردد تھا۔ اگرچہ اس میں ایک الگ بحث ہے کہ وہ ایسا تھا یا نہیں، لیکن ابن تیمیہ اس کو مانتے ہیں کہ بعض صحابہ کو شبہہ تھا کہ قرآن کے بعض حصے قرآن کا جزو ہیں یا نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ قرآن کے کسی جزو کو قرآن نہ ماننا فی نفسہ ایک بہت نازک اور حساس مسئلہ ہے، لیکن چونکہ ان حضرات کو اس میں کچھ شبہہ تھا، اس وجہ سے انھیں اس کی رعایت دیتے ہوئے تکفیر نہیں کی گئی۔

اسی طرح فقہا یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ شریعت کی حرام کردہ چیزوں کا عملاً کوئی آدمی ارتکاب کرتا ہو تو یہ فسق ہے، لیکن اگر وہ اس کو حلال سمجھ کر کرتا ہے تو یہ کفر ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص شریعت کی حرام کردہ چیز کو کسی تاویل کے تحت وہ حلال سمجھتا ہے تو ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اس کی مثال موجود ہے کہ بعض صحابہ قرآن مجید کی ایک آیت کی غلط تاویل کے تحت شراب کو حلال سمجھتے تھے اور پیتے بھی رہے۔ تو شریعت کی حرام کر دہ ایک چیز جو نص قطعی سے ثابت ہے، اس کو انھوں نے تاویل کے تحت یہ سمجھا کہ اس کی اجازت ہے، اس کی ان کو رعایت دی گئی۔ 

ابن تیمیہ کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ جن گروہوں یا جن افراد کے عقائد یا نظریات میں فی الواقع ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو کفر ہیں یا مستلزم کفر ہیں تو ایک تو ان کی کلمہ گوئی کی نسبت کا احترام یہ زیادہ ترجیح کے قابل بات ہے اور دوسرے یہ کہ ان کے ہاں جو شبہہ یا تاویل کاپہلو ہے، اس کی رعایت کرنی چاہیے۔ اس سے میں یہ اخذ کرتا ہوں کہ مستند اسلامی عقائد اور نظریات سے ہٹ کر کوئی نقطہ نظر اختیار کرنے والے گروہوں کے بارے میں شریعت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حتی الامکان انھیں دائرۂ اسلام کے اندر رکھا جائے اور علمی تنقید کے ذریعے سے اور باہمی گفتگو کے ذریعے سے ان کے عقائد کی اصلاح کوشش کی جائے۔ ہاں اگر کچھ ایسے زائد وجوہ اور مصالح کسی گروہ کی تکفیر کا تقاضا کریں، مثلاً کوئی گروہ ایسا خطرناک ثابت ہو رہا ہو کہ اس کو الگ کر دینا ہی مسلمانوں کی اور اسلام کی اور ملت کی مصلحت کا تقاضا معلوم ہو تو اس صورت میں یہ اقدام بھی کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

عمار صاحب نے ایک خاص نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول فرمائی اور وہ ہے ان تمام نکات میں ابن تیمیہ کا نقطہ نظر۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امت مسلمہ میں امام ابن تیمیہ کی جو فکر ہے، اس کا بڑا اثر ہے، لیکن یہ بھی درست ہے بعض مقامات پر ابن تیمیہ کی بات کو صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا۔ اگر آپ نے نائن الیون کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کیا ہو تو اس میں باقاعدہ ابن تیمیہ کا ذکر ہے کہ اس قسم کے مبنی بر تشدد تصورات کی بنیاد میں ابن تیمیہ کی فکر بھی کارفرما ہے۔ حالانکہ یہ بات ابن تیمیہ کی پوری فکر سے ناواقفیت پر دلالت کرتی ہے۔ ابن تیمیہ کی زندگی کو اگر ہم تاریخی طو رپر دیکھیں تو یہ وہ شخصیت ہیں کہ جب منگولوں نے اسلامی دنیا پر حملہ کیا اور عباسی خلافت کو ختم کر دیا تو اس وقت ابن تیمیہ مصر میں تھے اور مملوک سلطانوں کے ہاں تھے۔ اس وقت مصر میں ملک الظاہر بیبرس کی حکومت تھی۔ منگولوں کے ساتھ جس شخصیت کی گفتگو ہوئی، وہ ابن تیمیہ تھے۔ انھوں نے مذاکرات اور گفتگو کے ذریعے سے مصر کا دفاع کیا اور منگولوں کو قائل کر لیا۔ اس بات کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے کہ ہمارا دینی طبقہ اور ہمارے علما ء کرام معمول کے موضوعات سے ہٹ کر، جن پر بہت بڑا ذخیرۂ ادب آ گیا ہے اور بڑا علمی کام ہو چکا ہے، اب جو ابھرتے ہوئے مسائل ہیں، ان کی طر ف آئیں اور ان نکات کو اب اپنی تحقیق کا موضوع بنائیں او رملت کی راہ نمائی کریں۔

میں بغیر کسی مبالغے کے یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کا کارنامہ ہے کہ جو موضوعات دینی مدارس میں زیر بحث آنے چاہیے تھے اور جن موضوعات اور مباحث کا ادراک علما کے ہاں ہونا چاہیے تھا اور دینی مدارس کے اندر ہونا چاہیے تھا، اس کا ادراک اور اس کا احساس PIPS کی طرف سے ہوا ہے اور یہ ان کا کمال ہے کہ وہ ازخود کوئی رائے نہیں دے رہے، بلکہ ان کی کوشش یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علما کو یکجا کر کے ان کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرائی جائے۔ اس کو ہم انگریزی میں Sensitization کہتے ہیں، یعنی ان کو احساس دلانا، ان کے شعور کو اپیل کرنا، ان کے شعور کو جگانا اور پھر ان سے راہ نمائی مانگنا۔ تو یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو PIPS کو دینے میں ہم بخل سے کام نہیں لیں گے اور ان کے لیے ہم دعا کریں گے کہ خدا کرے کہ وہ ان موضوعات پر گفتگو کو آگے بڑھائیں کیونکہ یہ ایک سیمینار کا کام نہیں ہے، اس پر ہم نے آگے جانا ہے، علماء کرام سے درخواست کرنی ہے کہ اس پر بے شک ایک چھوٹا سا گروپ بنا لیں اور ان سیمینار ز کی رپورٹس لکھیں، اس پر کتابیں لکھیں اور اصطلاحات کو جدید بنائیں ۔

آج جو علما کی اصطلاحات ہیں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لوگ اور ہمارا جو جدید طبقہ ہے، وہ ان اصطلاحات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ آپ کو آسان اصطلاحات میں اور جدید جو صورت حال ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے سامنے اپنی بات پیش کرنی ہوگی۔ یہ جو اصطلاحات ہیں، ان کو جدید اندازمیں لانے میں یونیورسٹی کے اساتذہ کرام آپ کے ساتھ ہیں۔ مولانا عمار خان ناصر صاحب نے الشریعہ کی صورت میں جو کوشش شروع کی ہے، وہ بڑی کامیاب کوشش ہے کہ مشکل اصطلاحات کو وہ جدید انداز میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کا رسالہ اب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی بہت مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے علماء کرام ناراض نہیں ہوں گے بلکہ اس کو اپنی ایک ذمہ داری سمجھیں گے۔ صرف نماز روزے میں نہیں، بلکہ جو اس وقت نئے مسائل ہیں، ان میں بھی قوم اور ہم سب لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ نے ان کی راہ نمائی نہیں کی تو سچی بات ہے کہ آپ ہی سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔

تو یہ جو خالصتا دینی اصطلاحا ت ہیں، مثلاً اولو الامر، انذار، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی موجودہ کیفیت اور سمع وطاعت، ن کا جدید تناظر میں ذکر کرنا ہے۔ اس وقت عالمگیریت کا ماحول ہے، اس کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ان حالات میں عالمگیریت کی موجودگی میں ہم نے کس طرح ملت اسلامیہ کے تحفظ کی صورتیں نکالنی ہیں، کیونکہ عالمگیریت اس وقت مکمل شرعی نظام کو کسی صورت بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر کوئی جماعت طالبان کی طرح مکمل اسلامی نظام قائم کرنا چاہتی ہے تو گلوبلائزیشن آپ کو ہر گز آسانی کے ساتھ اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس چیز کو ہم نے ادراک کرنا ہے۔ یہ ایک صورت حال ہے اورہم حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے اور اس کے اندر رہتے ہوئے ہمیں اپنے لیے ایک ممکنہ صورت نکالنی ہوگی۔ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی میں امکانات کی صورت کے اندر رہتے ہوئے کام کیا جا رہا ہے اور وہ بہت کامیابی کے ساتھ آگے جا رہے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ ترکی میں حجاب کی کوئی صورت ممکن نہیں تھی۔ اب ترکی کے وزیر اعظم کی بیوی باقاعدہ حجاب کے ساتھ جا رہی ہے۔ ہم یہاں بیٹھ کر اندازہ نہیں کر سکتے کہ ترکی میں یہ کتنی بڑی کامیابی ہے۔ پھر ترکی سے اسرائیلی سفیر کو نکالنا، اس کا آج سے پانچ دس سال پہلے کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ 

ہم نے سیرت رسول کا جو منہج ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے جدید حالات میں اس کے انطباق کی کوئی صورت نکالنی ہے۔ اس حوالے سے بھی ہمارا دین دار طبقہ، ہمارے عوام، ہمارے نوجوان آپ کی طرف دیکھ رہے یں۔ اگر آپ نے ان کی راہ نمائی نہیں کی تو پھر ظاہر ہے کہ یہ دین دار طبقہ اور یہ نوجوان دوسرے تصورات کی طرف جائیں گے اور جب ان کی طرف جائیں گے تو ان کی ذمہ داری بھی ظاہر ہے علماء کرام پر اور دینی مدارس پر آئے گی۔

میںیہ سمجھتا ہوںِکہ ہمارے پینل میں جو پانچ شرکائے گفتگو ہیں، ان کے مابین تمام نکات کے حوالے سے تقریباً ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جبکہ کچھ نکات میں، مفتی اسد اللہ شیخ صاحب کا زاویہ نظر مختلف ہیں۔ اس لیے تو اب ہم گفتگو کا رخ سامعین میں جو جید علما موجود ہیں، ان کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اگر ان کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو وہ سوال پیش کریں۔ باقاعدہ اپنا تعارف کروائیں، اور جو شریک گفتگو ہیں، ان کا نام لے کر ان سے سوال کریں۔ اب ہم آہستہ آہستہ دلائل کی طرف آگے بڑھیں گے۔

مولانا محمد سلفی

ابھی امام ابن تیمیہ کا جو ذکر ہوا، اس کی مناسبت سے ایک تاریخی بات ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جامعہ دار السلام مدراس کے شیخ الحدیث کاکا محمد عمر نے امام ابن تیمیہ کی سیرت پر گیارہ سو صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں انھوں نے ایک بڑی عجیب بات لکھی ہے کہ امامت کا منصب چار چیزوں کا متقاضی ہوتا ہے۔ کتاب اللہ کی تفسیر، حلال وحرام کے تمام مسائل پر ا س کو عبور ہو، سنت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عبور ہو، تفقہ فی الدین اور موجودہ حالات دنیا پر اس کو بصیرت حاصل ہو اور عسکری انداز میں تلوار کا استعمال۔ انھوں نے فرمایا کہ ہمارے معروف ائمہ دین، ائمہ اربعہ اور اس کے علاوہ بھی ہمارے بہت سے ائمہ دین ہیں، اسکالرز ہیں، ان میں سے سارے ہی ان تینوں شرائط کو پورا کرتے ہیں، جبکہ صرف امام ابن تیمیہ ان چاروں شرطوں کو پورا کرتے ہیں کہ انھوں نے تاتاریوں کے ساتھ صرف مذاکرات نہیں بلکہ تلوار کے ساتھ جہاد بھی کیا تھا اور اس وقت کیا تھا جب ہر اسلامی ملک سرنڈر کرتا جا رہا تھا۔ امام ابن تیمیہ نے دمشق میں مسلمانوں کو اکٹھا کر کے میدان معرکہ میں تاتاریوں کو شکست دی تھی۔ تو یہ چاروں شرطیں ان میں پوری ہو گئیں اور وہ امامت کے حق دار کہلائے۔ 

مولانا عبد الحق ہاشمی ― (امیر جماعت اسلامی، بلوچستان)

میں اس قابل قدر کوشش پر PIPS کے شکریے کے ساتھ صرف وضاحت کے لیے یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت ہم نے جو گفتگو کی ہے، اس کے دلائل بھی ابھی آ جائیں گے اور اشارتاً بہت سے دلائل کا تذکرہ ہو بھی گیا ہے، لیکن میں یہ سمجھتا ہوںِکہ یہ کوشش علمی اعتبار سے خلا کا یا نقص کا شکار رہے گی جب تک کہ ان دلائل کا محاکمہ بھی ہم نہ کریں جن کے باعث یہ فتنہ اس وقت موجود ہے اور لوگ اسی سے استخراج کر کے اور اسی سے استفادہ کر کے خروج اور تکفیر کے رستے کو اختیار کر چکے ہیں۔ میری مراد ان عمومات قرآنی سے ہے کہ جن کو ولاء وبراء کے عقیدے کے اعتبار سے یہ لوگ اپنا مستند خیال کرتے ہیں اور اس سے استخراج کرنے کے بعد وہ اس رستے کو اختیار کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ گفتگو ایک طرف کی جہت کو ، ا س کی ضرورت کو تو پورا کرتی ہے، لیکن جو مخالف او ر دلائل ہیں، ان کے محاکمے کی طرف بھی ہماری توجہ ہونی چاہیے۔ اس مجلس میں نہ سہی، میری گزارش کا مقصد ایک علمی ضرورت کو واضح کرنا ہے۔ آئندہ کسی دوسری مجلس کا انعقاد بھی اس سلسلے میں کیا جا سکتا ہے جس میں ان تمام کے تمام عمومات کو سامنے لا کر ان کے مفہوم کا تعین بھی کیا جائے اور اس سے استدلال کا جو نقص یا غلطی ہے، اس کی نشان دہی بھی لوگوں کے سامنے آئے۔ تب یہ بحث ایک کامل شکل میں سامنے آ سکے گی۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

عبد الحق ہاشمی صاحب نے بہت اہم سوال اٹھایا۔ ایک بڑی معروف کتاب ہے: الولاء والبراء، کسی زمانے میں ان لوگوں کے لیے اس کی حیثیت ایسی تھی کہ یہ ان کے نصاب کا حصہ تھی اور اس کتاب کو اور اس کے دلائل کو باقاعدہ ازبر کرایا جاتا تھا۔ پہلے یہ کتاب ایک مخطوطے کی شکل میں تھی، عام لوگوں کی اس کتاب تک رسائی نہیں تھی۔ اب یہ کتاب چھپ کر آ گئی ہے اور لوگوں کو اس تک رسائی ہے۔ واقعی یہ جو پہلو ہے، یہ بھی اس کا متقاضی ہے کہ کسی موقع پر ہم الولاء والبراء کے حوالے سے بھی کچھ سوالات بنائیں اور خالص جو ماہرین ہیں، ان کے سامنے رکھیں، کیونکہ یہ بہت مہارت کا متقاضی موضوع ہے او ربہت حساس موضوع ہے۔اس میں ایک چھوٹا سا گروپ اگر بلا لیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت اچھی گفتگو بن جائے گی۔

مولانا مفتی محمد زاہد ― (شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد)

ماشاء اللہ شرکا نے بہت اچھی گفتگو کی ہے۔ خاص طور سے ڈاکٹر اعجاز صمدانی صاحب اور مولانا عمار ناصر صاحب نے مسئلے کو بہت حد تک منقح کر دیا ہے۔ ایک تو یہی تجویز میرے ذہن میں تھی جو ہاشمی صاحب نے پیش کی۔ میں اس کی تائید کروں گا، اس لیے کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلائل چونکہ سطحی ہیں اور سطحی چیزوں سے عام لوگ جلدی متاثر ہوتے ہیں، صرف دینی مدارس کے طلبہ نہیں، بلکہ دینی مدارس سے زیادہ جدید تعلیم یافتہ نوجوان اس سوچ سے متاثر ہو رہے ہیں، اس لیے ہمیں انھیں counter کرنا پڑے گا اور اس کے لیے بہرحال ہمیں کھل کر بات کرنی ہوگی۔ لیکن یہ ایک الگ مجلس کا موضوع ہو سکتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ماشاء اللہ PIPS نے جو عنوان منتخب کیا ہے، میں ا س کے حوالے سے بات کروں گا کہ ’’عصری تناظر میں مسلمان ریاست کے خلاف خروج کا مسئلہ۔‘‘ ایک تو یہاں یہ بہت اچھی بات ہے کہ انھوں نے اسلامی ریاست کی بات نہیں کی، بلکہ مسلمان ریاست کی بات کی ہے، کیونکہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ عدم خروج کا مسئلہ اسلامی ریاست کے لیے ہے، حالانکہ یہ اسلامی ریاست کے لیے نہیں بلکہ مسلمان ریاست کے لیے بھی ہے۔ اس لیے کہ وہ احادیث اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ وہ ائمہ جور کے ماتحت چل رہی ہیں۔ دوسرا یہ کہ پہلے زمانے میں مسلمان حکمران ہوتے تھے اور حکمرانوں کے خلاف خروج ہوتا تھا۔ آج جمہوری ریاستوں کا دور ہے اور میں جمہوری ریاستیں افراد کا نام نہیں ہوتیں، بلکہ اداروں کا نام ہوتی ہیں۔ آج جو خروج ہوتا ہے، وہ درحقیقت افراد کے خلاف نہیں ہوتا، وہ بنو امیہ کے کچھ لوگوں کے خلاف اور بنو عباس کے کچھ لوگوں کے خلاف نہیں ہے، وہ آصف زرداری کے خلاف نہیں ہے، وہ گیلانی کے خلاف نہیں ہے، بلکہ وہ ریاست کے خلاف ہے۔ اگر ان لوگوں کی کارروائیوں کو دیکھیں تو اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ چند مخصوص افراد کے خلاف کارروائیاں نہیں ہیں، بلکہ پوری کی پوری ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف ہیں، یہاں تک کہ وہ ادارے بھی جو ان لوگوں سے لڑنے کے لیے نہیں بنے ہیں۔ پولیس بنیادی طور پر ان سے لڑنے کے لیے نہیں بنی، واہ فیکٹری بنیادی طور پر ان سے لڑنے کے لیے نہیں بنی، لیکن وہ چونکہ ریاست کا ایک حصہ ہیں، اس لیے وہ اس پر اٹیک کر رہے ہیں۔ تو مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج اور مسلمان ریاست کے خلاف خروج ، ان میں جو فرق ہے، وہ بھی کسی موقع پر زیر بحث آنا چاہیے۔ 

خاص طو رپر مغرب کے حوالے سے ان حضرات کا ایک بہت بنیادی استدلال یہ ہے کہ ان ممالک کی پالیسیاں صرف وہاں کے حکمرانوں کی پالیسیاں نہیں ہوتیں، بلکہ چونکہ وہ ووٹ لے کر منتخب ہوتے ہیں، اس لیے وہاں کے سارے عوام ان پالیسیوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں، چنانچہ وہ اس بنیاد پر مقاتل اور غیر مقاتل کا فرق نہیں کرتے۔ اب اگر ان کے اسی استدلال کو ہم مسلمانوں میں جو جمہوری ریاستیں ہیں، ان پر منطبق کریں تو اسی استدلال کا مقتضا یہ بنتا ہے کہ مسلمان ریاست کے خلاف اگر وہ خروج کر رہے ہیں تو صرف ریاستی اداروں کے خلاف یا چند افراد کے خلاف نہیں خروج کرر ہے، بلکہ ریاستی عوام کے خلاف خروج کر رہے ہیں۔ یہ ان کے استدلال کا ایک منطقی نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ جو نکتہ ہے، یہ بھی میرے خیال میں کسی وقت زیر غور آنا چاہیے۔ 

تیسری چیز جس کے بارے میں، میں عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ تکفیرکی دو سطحیں ہیں۔ ایک تو عام تکفیر ہے کہ فلاں فرقے نے فلاں فرقے کی تکفیر کر دی۔ اس پر یہاں گفتگو ہوئی اور یہ بھی بڑا حساس مسئلہ ہے اور اس وقت جس صور ت حال کا ہم سامنا کر رہے ہیں، اس کا تعلق اس تکفیر کے ساتھ بھی ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں خاص طو رپر اگر ہم پاکستان کے مغرب کی طرف دیکھیں تو اس طرف سے جو کچھ آ رہا ہے یا ایک امپورٹڈ سوچ جو مصر میں یا بعض عرب ممالک میں پیدا ہوئی، وہ پاکستان میں آئی ہے، تو وہ اس طرح کی تکفیر نہیں ہے۔ وہ تکفیر اس معنی میں ہے کہ جو لوگ سسٹم کا حصہ بن گئے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو گئے۔ان کا لٹریچر اگر پڑھیں تو وہ افغان فوج ہو، پاکستانی فوج ہو، پاکستانی پولیس ہو، افسران ہوں، بیوروکریسی ہو، سب کے لیے وہ تقریباً مرتدین کا لفظ بولتے ہیں۔ تو ا س معنی میں جو تکفیر ہے، میرا خیال ہے کہ اس کو خاص طو رپر کسی وقت موضوع بحث بنانا چاہیے، کیونکہ خروج کے مسئلے کا اس تکفیر کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں گہرا تعلق ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے بہت اچھے نئے سوالات اٹھائے ہیں۔ میری گزارش ہوگی کہ یہ سوالات بھی نوٹ کر لیے جائیں۔ آئندہ جو ہمارے مذاکرے ہوں گے، ان میں کسی مرحلے پر ہم ان کو بھی موضوع گفتگو بنا سکتے ہیں۔ اس وقت سچی بات یہ ہے کہ بہت عجیب قسم کے سوالات سامنے آ رہے ہیں اور یہ تمام سوالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ علماء کرام ان پر سوچیں۔ مثلاً ہماری مغربی سرحدات پر جو صورت حال ہے، وہ بہت عجیب صورت حال ہے۔ اس میں آپ دیکھیں کہ روس کے خلاف لڑنے والے تمام مجاہد گروپ، سوائے طالبان کے، وہ کزائی حکومت کا حصہ ہیں۔ مثلاً امام ربانی جنھیں شہید کر دیا گیا، وہ مجاہد تھے اور حکومت کا حصہ ہیں۔ صبغت اللہ مجددی مجاہدین میں سے تھے ، وہ بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ حکمت یار کی حزب اسلامی کے کمانڈروں کا بہت بڑا گروپ، سوائے کشمیر خان اور کچھ اور کمانڈروں اور بذات خود حکمت یار کے، حامد کرزئی کی حکومت کا حصہ ہے۔ عبد رب الرسول سیاف جو کہ بہت بڑا مجاہد تھا، وہ حکومت کا حصہ ہے۔ حامد کرزئی خود مجاہدین کے بہت بڑے فنانسر تھے، مالی مدد کرنے والے تھے۔ خود مجاہد تھے اور ان کے والد بہت بڑے مجاہد تھے۔ ان کی حکومت ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام اس کے باوجود کہ افغانستان میں اس وقت سابقہ مجاہدین کی حکومت ہے، وہ مسلح جدوجہد کا جواز دیتے ہیں محض اس وجہ سے کہ وہاں ایک غیر ملکی فوج موجود ہے جو کہ حقیقتاً وہاں پر قابض ہے۔ تو یہ جو صورت ہے، اس کو بھی ظاہر ہے کہ ہمارے علماء کرام نے زیر بحث لانا ہے اور ان صورتوں میں ہماری راہ نمائی کرنی ہے۔

محمد صفدر شاہ ― (جامعہ خلیلیہ رضویہ، کندیاں، ضلع میانوالی)

مولانا عبد الحق ہاشمی صاحب اور مفتی زاہد صاحب نے بہت اچھی باتیں کی ہیں۔ میرا تاثر یہ ہے کہ یہ فورم جس سطح پر بھی ہے، اس کو آپ میچور کرنے کے لیے مختصر بھی رکھیں، لیکن اس کو موثر بنانے کے لیے اس کو وسیع کرنا بھی ضروری ہے۔ اس میں مزید وسعت بھی پیدا کی جائے اور اس میں مزید لوگ بھی ہمارے جو جید علماء کرام ہیں، انھیں بھی شامل کیا جائے تاکہ ایک ایسی صورت بن جائے کہ یہاں جو تجاویز مرتب ہوں، وہ تمام مکاتب فکر کے ہاں قابل قبول ہو جائیں۔ 

مفتی اسد اللہ شیخ صاحب سے سوال ہے کہ ان کی رائے میں جمہوریت حرام ہے، لیکن انھوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسی جمہوریت سے ہم نے راستہ نکالنا ہے اور اپنے عقائد کو نافذ کرنا ہے تو ان کے ذہن میں اس کا کیا نقشہ ہے؟ اس کی وضاحت کر دیں کہ اگر اس جمہوری سسٹم میں ہم اپنے عقائد کو نافذ نہیں کر پائیں گے تو پھر دوسرا راستہ اگر بغاوت یا جہاد نہیں ہے تو وہ کون سا راستہ ہوگا جس پر ہم چل کر کامیابی حاصل کر پائیں گے؟

مفتی اسد اللہ شیخ

میں نے کفر بواح کی وضاحت میں یہ بات کہی تھی کہ حدود اللہ کے مقابلے میں دوسرے قوانین کو ترجیح دینا، یہ بھی کفر ہے۔ اس سے جمہوریت کی نفی نہیں ہو رہی۔ جو نظام جس ملک میں قائم ہے، اسی کے اوپر اگر علماء کرام کا اتفاق ہے کہ ہمیں اسی کے ذریعے سے کامیابی حاصل کرنی ہے یا تبدیلی لانی ہے تو پھر علماء کرام کے اتفاق سے اسی مسئلے کو لیا جائے گا۔ مگر حدیث پاک میں جو کفر بواح کے الفاظ آئے، اس کی تشریح میں یہ سب باتیں آ جاتی ہیں کہ جمہوریت کا کوئی بھی کام ایسا نہ ہو جو کہ حدود اللہ کے یا شعائر اللہ کے خلاف ہو۔ اس بات سے تو آپ بھی اتفاق کریں گے کہ جو چیز شعائر اللہ کے خلاف ہوگی، اس کے مقابلے میں آپ بھی اٹھ کھڑے ہوں گے۔ عمومی طو رپر عوام میں یہ بات ضرور پھیلی ہوئی ہے کہ جمہوریت بنیادی طور پر حدود اللہ کو قائم کرنے کے لیے ہے ہی نہیں۔ جب حدود اللہ کو قائم کرنے کے لیے نہیں ہے تو پھر ا س کے لیے محنت یا جدوجہد بے سود ہونی چاہیے۔ مگر علماء کے اتفاق کی وجہ سے یہ بات ادھر قائم ہے کہ جمہوریت کے ذریعے ہی ہمیں تبدیلی لانی ہے۔

محمد نواز کھرل ― (سنی اتحاد کونسل، لاہور)

میرے دو چھوٹے چھوٹے سوال ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس وقت ہمارا جو مشاہد ہ ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی criterion ایسا نہیں ہے اور کوئی علمی سطح طے نہیں ہے کہ اس سطح کی علمی استعداد رکھنے والا آدمی ہی فتویٰ دے سکتا ہے۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ہر آدمی مفتی بنا ہوا ہے اور اس کا جو جی چاہتا ہے، کہہ دیتا ہے۔ اسلام کی اپنی من پسند تعبیرات پیش کرتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ فتویٰ جاری ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے فتنہ وفساد پیدا ہو رہا ہے۔ یقیناًاسلام نے ایک معیار مقرر کیا ہوگا۔ آپ ہماری راہ نمائی کریں۔ اس وقت تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ یہ معیار ہے مفتی ہونے کا اور جو اس معیار پر پورا اترتا ہے، صرف وہی فتویٰ دے سکتا ہے۔ اور کسی دوسرے آدمی کو اختیار نہیں ہے کہ وہ فتویٰ دے۔ اگر اس طرح کا کوئی ضابطہ اخلاق بن جائے تو بہت سے معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔

میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر القاعدہ نے خروج اور تکفیر کے حوالے سے اپنی فکری مہم کا دائرۂ کار بہت بڑھا دیا ہے اور وہ بہت تواتر اور تسلسل کے ساتھ تکفیر اور خروج کے سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمان بھی اور اسلام بھی بدنام بھی ہو رہا ہے اور مصائب اور مشکلات کا بھی شکار ہیں۔ آپ کو ڈرنے کے بجائے یا مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے اس پر ایک واضح رائے دینی چاہیے۔ ان کا یہ جو رویہ ہے، آپ جو اہل دین ہیں، اہل علم ہیں اور اہل دانش ہیں، آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز

ہمارے ہاں اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے جس میں ہر مکتب فکر کے لوگ ہیں، ان کے نمائندہ مولانا مفتی ابراہیم قادری صاحب کی صورت میں موجود ہیں۔ وہ اپنی رائے سے ہمیں آگاہ فرمائیں۔

مولانا مفتی محمد ابراہیم قادری 

اصل میں ہمارے ہاں حکومت کی طرف سے اور سرکاری طو رپرایسا کبھی نہیں کیا گیا کہ کوئی فقہی پینل بنایا گیا ہو جو اس بات کا مجاز ہو کہ اپنی رائے فتوے کی صورت میں دے سکے۔ ایسا کوئی نظما ہے نہیں اور ہم اپنے آپ کو اور ہمارے ادارے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ بہت سے مدارس میں ایسے غیر ذمہ دار اور ایسے نا اہل اور بے علم لوگ موجود ہیں جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو مفتی کہتے ہیں او روہ اس کے اہل ہوتے نہیں ہیں۔ جن چیزوں نے ہماری قوم میں جو فتنے کے بیج بوئے ہیں، ان میں سے ایک سبب یہ بھی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں جو امامت ہے، اس کا کوئی معیار نہیں ہے، خطابت کا کوئی معیار نہیں ہے اور جس آدمی کا جی چاہتا ہے، اسے مسجد کا امام بنا دیا جاتا ہے اور پھر وہ تقریر کرتا ہے اور جب وہ منبر پر بیٹھتا ہے تو اس کے منہ میں جو آتا ہے، وہ بول دیتا ہے۔ تو ہمارے ہاں کوئی ایسا سرکاری طو رپر ضابطہ کار نہیں ہے جس کا کسی ادارے کو پابند بنایا جا سکے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ٹھیک ہے۔ البتہ یہ ہے کہ ہر ادارے پر اخلاقی طو رپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ و اپنے ادارے میں یہ خدمات لائق آدمی کے ذمے لگائے جو اس کا اہل ہو اور جب بھی وہ فتویٰ دے تو قرآن کی روشنی میں، احادیث کی روشنی میں اور ائمہ دین کے اقوال اور شرعی کتب کی روشنی میں دے۔ یہ ہمارا ایک اخلاقی فریضہ ہے اور اس طریقے سے سوائے حکومت کی طاقت کے کوئی اور ہمارے پاس اتھارٹی نہیں ہے جو کسی کو اس کا پابند بنا سکے۔

مولانا محمد سلفی

موضوع کی مناسبت سے ایک بات عرض کرتا ہوں۔ دنیا ٹی وی پر ایک پروگرام میں مجھے شرکت کی دعوت دی گئی اور یہی موضوع پیش کیا گیا کہ پاکستان میں اب تک جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، اس سب کو بھول کر یہ بتایا جائے کہ آنے والے مستقبل میں پاکستان کو مملکت اسلامیہ اور مملکت رفاہیہ اور دنیا میں اسلام کے نام سے مسلمانوں کی مملکت بنانے کے لیے کیا کیا جائے؟ وہاں میں نے اختصار کے ساتھ یہ بات کہی کہ کوئی بھی ملک یا کوئی بھی ملت یا قوم اپنی لیڈر شپ کی بنیاد پر آگے برھتی ہے۔ مثلاً ترکی میں طیب اردگان اور ایران میں محمود احمدی نژاد جب وہ ایک بات کہہ دیں تو سیاسی طور پر کسی کی یہ مجال نہیں ہوتی کہ اس کی مخالفت کرے۔ اسی طرح میں مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک میں گیا ہوں تو میں نے وہاں دیکھا کہ عیسائی یا مسلمان اپنا اپنا ایک لیڈر یا رہبر یا مفتی اعظم یا پوپ رکھتے۔ مسلکی یا دینی طور پر ان کا بڑا جو بات کہہ دے، اس کی مخالفت نہیں ہوتی۔ میں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم سیاسی طور پر بھی یتیم ہیں کہ ہماری کوئی ایسی لیڈر شپ ابھی تک نہیں ہے کہ وہ متفقہ طور پر کوئی بات کہے تو سارے پاکستان کے عوام اس پر لبیک کہہ دیں۔ اسی طرح دینی طور پر ہمارا کوئی مفتی اعظم نہیں ہے جبکہ اس کی ضرورت ہے اور اس کے وجود کی افادیت اتنی بڑی ہے کہ پوری قوم اور پورے مسلمان ملک کو متفق ومتحد کرنے کا یہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہو سکتا ہے، لیکن ہم اس سے محروم ہیں، لہٰذا سچی بات یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت علما، بحیثیت ادارے، بحیثیت مسلکی فرقے کے اس بات پر سوچنا چاہیے اور اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر اتفاق واتحاد اس حد تک پیدا ہو جائے کہ کسی ایک شخصیت کو اپنا بڑا مان لیں۔ بلاشبہ سارا دین ہمیں اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ امام کی پیروی کی اور بڑے کی پیروی کی جائے۔ ہم پانچ وقت کی نماز اپنے گھر میں بھی پڑھ سکتے ہیں، لیکن کیوں مسجد میں جا کر امام کے پیچھے پڑھتے ہیں؟ ساری باتیں اتحاد واتفاق اور کسی ایک کو بڑا بنانے کا اشارہ دے رہی ہیں جس میں ہم ابھی تک ناکام ہیں۔ اللہ رب العالمین ہی ہمیں کوئی راہ دکھا سکتا ہے، بشرطیکہ ہمارے اندر یہ نیت اور ارادہ اور کوشش ہو کہ ہم اتحاد واتفاق کے ذریعے ان چیزوں کا رواج پیدا کریں۔

محمد عمار خان ناصر

اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے جسے اس موضوع کی تنقیح اور تجزیہ کرتے ہوئے زیر بحث آنا چاہیے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی حکومت کے خلاف خروج تو جائز نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ بعض دفعہ مسلمان حکمرانوں کی ناروا پالیسیاں اور ان کا ظلم وجبر کچھ لوگوں کو اس پر مجبور کر سکتا ہے کہ وہ ہتھیار اٹھا لیں۔ ایسی صورت میں باقی قوم عملاً باغیوں کا ساتھ تو نہیں دے گی، لیکن اگر ان کے مطالبات میں وزن ہے یا بغاوت کرنے کے لیے ان کے پاس انسانی سطح پر قابل فہم وجوہ موجود ہیں تو ان پر بہرحال توجہ دی جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلو سے ہمیں ان لوگوں کے موقف اور استدلال پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے جنھوں نے ہمارے ہاں خروج کا راستہ اختیار کیا ہے۔

میرا طالب علمانہ تجزیہ یہ ہے یہ بات عرض کروں گا کہ ان لوگوں کو اس راستے پر ڈالنے اور اس کا فکری اور عملی جواز مہیا کرنے میں خود ہماری ریاست اور بڑی معذرت کے ساتھ عرض کروں گا، ہمارے مذہبی راہ نماؤں کا حصہ بھی کم نہیں ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی دوغلی پالیسیوں اور خفیہ ایجنسیوں کا دو رخا طرز عمل اس سوچ کو پروان چڑھانے میں ایک بہت بڑے عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ نائن الیون کے بعد ہم نے ریاست کی سطح پر تو یہ فیصلہ کیا کہ ہم طالبان کے ساتھ نہیں ہیں، بلکہ ان کے خلاف لاجسٹک سپورٹ امریکہ کو دیں گے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ریاست نے یہ فیصلہ ایک جبر کے تحت کیا تھا اور یہ فیصلہ انھوں نے ریاست کی سطح پر تو کیا لیکن نیچے خاص طو رپر وہ علاقے جو افغانستان سے ملے ہوئے ہیں، وہاں پر اس کا کوئی عملی اہتمام نہیں کیا یا کرنا ممکن نہیں تھا کہ پاکستان کے باشندے اور پاکستان میں رہنے والے لوگ بھی اس جنگ میں شریک نہ ہوں۔ ریاست نے بین الاقوامی سطح پر جو علانیہ پالیسی اختیار کی، یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ وہ درست تھی یا غلط، لیکن اس کے حوالے سے دوغلا پن اختیار کر کے ریاست نے حالات کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیا۔ 

سیاسی طور پر ہم دنیا کو یہی کہتے رہے کہ امریکہ کے خلاف طالبان کی لڑائی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، لیکن درون خانہ ریاستی ایجنسیوں نے سرحد ی قبائلی علاقوں کو اور جہادی تنظیموں کو امریکہ کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کو پوری پوری سپورٹ بھی فراہم کی۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہماری ایجنسیوں نے اس وقت بھی ان کو خفیہ طو رپر سپورٹ کیا اور اب بھی کر رہی ہیں جو افغانستان میں جا کر لڑنا چاہتے ہیں۔ اس طرح خود ریاست کے بہت سے عناصر اس جنگ میں شریک ہوتے گئے۔ اب ظاہر ہے کہ ریاست بظاہر یہ کہہ رہی ہے کہ ہم اس جنگ میں ان کے ساتھ نہیں ہیں، لیکن خفیہ طو رپر ان کو سپورٹ کر رہی ہے تو اس سے لوگوں کو یہ پیغام ملا کہ یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں، یہ صحیح ہے اور شرعی طور پر یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اسی سے انھوں نے منطقی طور پر یہ نتیجہ نکالا کہ اگر ہم ریاستی پالیسی کے برعکس افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں تو کل اگر خود ہماری ریاست ہمیں اس سے روکتی ہے یا ہمارے خلاف اس بنیا دپر کوئی اقدام کرتی ہے کہ ہم وہاں جا کر کیوں لڑ رہے ہیں تو ہمارے لیے ان سے لڑنے کا بھی جواز موجود ہے۔ میرے خیال میں اپنے طرز عمل سے ایک جواز ریاست نے یا ہماری ایجنسیوں نے خود ان کو دیا ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ جس بنیاد پر آپ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں، اگر وہ درست ہے تو اسی بنیاد پر اگر پاکستان کی طرف سے کوئی اقدام ان کے خلاف ہوتا ہے تو یہاں پاکستانی فوج کے لڑنے کو بھی شرعی طورپر درست ہونا چاہیے۔

دوسری بات اس صورت حال میں یہ بھی غور کرنے کی ہے کہ ہمارے جو ذمہ دار علما ہیں، انھوں نے بھی اس موقع پر جب افغانستان پر امریکہ کا حملہ ہوا، ایک ایسا موقف اختیار کیا جو بعد میں چل کر خود ریاست پاکستان کے خلاف مسلح اقدام کے جواز کی بنیاد بن جاتا ہے۔ اس وقت دیوبندی مکتب فکر کے اکابر اور نمائندہ علما کی طرف سے باقاعدہ یہ فتویٰ دیا گیا اور وہ باقاعدہ رسائل وجرائد میں چھپا کہ افغانستان میں امریکہ کے حملے کے بعد جہاد فرض ہو گیا ہے اور وہاں امریکہ کے خلاف لڑنے والے مسلمانوں کی مدد کرنا، وہ جس صورت میں بھی ممکن ہو، مالی طور پر، اخلاقی طو رپر، سیاسی طور پر یہ لازم ہے اور جو حضرات وہاں جا کر لڑ سکتے ہیں، وہ وہاں جا کر لڑیں۔ اب دیکھیں، اس میں جو چیز ملحوظ نہیں رکھی جا رہی ، وہ یہ ہے کہ ریاست کی سطح پر یہ فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ ہم اس جنگ میں ان کے ساتھ نہیں ہیں، لیکن خفیہ طو رپر یا نجی سطح پر ریاست بھی سپورٹ کر رہی ہے کہ ہاں جا کر لڑیں اور علما بھی اس کو جواز دے رہے ہیں تو ان دونوں چیزوں کے ملنے سے یہ لوگ خود اپنی ریاست کے خلاف لڑنے کے لیے بھی اگلے مرحلے پر تیار ہو گئے ہیں۔ میراخیال ہے کہ وہ کم سے کم اپنے استدلال کی حد تک معذور ہیں۔ ان کے پاس ایک استدلال موجود ہے جو ہماری ریاست نے او رہمارے علما نے اپنے فتوے کی صورت میں انھیں دیا ہے۔ اس کو بھی موضوع بنانا چاہیے کہ ان لوگوں نے اگر یہ لائحہ عمل اختیار کیا ہے اور اس کو وہ شرعی طو رپر جائز سمجھتے ہیں تو کس حد تک ان کے استدلال کی خامی ہے اور کس حد تک ہمارے ذمہ دار لوگوں نے ان کو یہ استدلال فراہم کیا ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

یہ ایک بہت اہم سوال آیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ہم اور خاص طور پر ہمارا دینی طبقہ بہت بڑے ابہام کا شکار ہے اور بہت سے مسائل کا ہمیں ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً اس وقت جو زمینی حقیقت ہے جس کے بارے میں اخفا سے کام لینے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر جو طالبان ہیں، ان کے بڑے نمائندے ہیں جن میں ایک حافظ گل بہادر ہے اور دوسرا ملا نذیر ہے جن کی فعالیت وزیرستان کے اندر ہے اور دونوں وزیر قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حکیم اللہ محسود، محسود قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اب ملانذیر اور گل بہادر کے ساتھ پاکستانی علما اور پاکستانی اداروں کے بہت ہی خوشگوار تعلقا ت ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان پاکستان کے خلاف کسی کارروائی میں ملوث نہیں ہیں، اس لیے یہ انھیں اچھے طالبان کہا جاتا ہے او ریہ لوگ افغانستان کے اندر کارروائیاں کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ پاکستان کے شہری ہیں اور اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے اور عام ریاستی اعلانات کی صورت میں ہمارا افغانستان کی ریاست کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کے تحت ہم یہ اصول مان چکے ہیں کہ ہم کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے تو اس صورت میں اس قسم کے اقدامات کا کیا جواز ہے؟ کیا سورۂ انفال اور سورۂ توبہ میں معاہدات کی پابندی کے حوالے سے جو ہدایات دی گئی ہیں، ان کی رو سے اس قسم کی کوئی صورت واقعی جائز ہے؟ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اگر کوئی مکہ کا کوئی باشندہ مسلمان ہوگا تو اس کو مدینہ آنے کی اجازت نہیں دی جائے۔ معاہدے پردستخط ہونے سے پہلے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ان کو فرمایا کہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، کیونکہ میں یہ مان چکا ہوں کہ مکے کے کسی مسلمان کو پناہ نہیں دوں گا اور اسے مدینہ کی حدود کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گا۔ تو اس اصول کا انطباق ہماری موجودہ صورت حال میں پر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ وہ سنجیدہ سوالا ت ہیں جنھیں آئندہ محافل میں ہمیں سامنے رکھنا چاہیے۔

اس وقت حقا نی نیٹ ورک کا مسئلہ موضوع بحث ہے۔ حقانی گروپ پاکستانی نہیں ہے، یہ افغان ہے۔ یہ افغان جہاد کے زمانے میں یہاں آیا تھا جب پوری دنیا نے بلکہ اقوام متحدہ نے بھی افغان جہاد کے حق میں قرارداد پاس کی تھی، لیکن افغان جہاد کے بعد بھی حقانی نیٹ ورک یہاں موجود رہا۔ اب ایک اور صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ امریکہ کہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ تو ہم گفتگو کے لیے تیار ہیں، لیکن حقانی نیٹ ورک کے ساتھ نہیں۔ اب اس موقف کے اندر ایک خامی ہے کہ جب آپ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں تو حقانی گروپ نے بھی تو ملا عمر کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے تو آیا وہ طالبان کا حصہ نہیں ہے؟ جب آپ ایک گروپ کے ساتھ جو مرکزی گروپ ہے، مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں تو اس کی بیعت کے اندر ایک دوسرے گروپ کے خلاف آپ پاکستانی حکومت یا اداروں کو کیوں مجبور کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کریں اور مذاکرات نہ کریں۔ کیا اس دلیل کے اندر کمزوری نہیں ہے؟ کیا امریکہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر آپ واقعی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو مذاکرات کے لیے آپ کے پاس مضبوط ترین گروپ حقانی گروپ ہے جو آپ کا ملا عمر کے ساتھ رابطہ بنا سکتا ہے؟ کیا ہم اس دلیل کو آگے نہیں بڑھا سکتے تاکہ ہم اپنے ملک، اپنے علاقے اور اس پورے خطے کے مفادات کا تحفظ کر سکیں؟ تو اس سوال پر بھی آئندہ محافل میں گفتگو ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر اعجاز صمدانی

ابھی طالبان کے حوالے سے جو گفتگو ہوئی، میرا خیال یہ ہے کہ یہ براہ راست ہمارے موضوع کا حصہ نہیں ہے، کیونکہ خروج یا تکفیر کا براہ راست اس سے تعلق نہیں ہے۔ جہاں تک ہمارے حکمرانوں یا حکومت کی پالیسیوں کا تعلق ہے کہ ظاہراً امریکہ کے سامنے ہاں کر دی اور ایجنسیاں کچھ اور کر رہی ہیں تو یہ ڈپلومیسی حکومتی پالیسیوں کا حصہ رہتی ہے۔ ان کو اپنا ملک بچانے کے لیے امریکہ کے سامنے ہاں کرنا پڑتی ہے، کیونکہ امریکہ نے کہا کہ نہیں کرو گے تو پتھر کے دور میں بھیج دیں گے۔ دوسری طرف وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ طالبان جو پاکستان کے سچے ہمدرد تھے، اگر ان سے بھی دشمنی مول لے لیں تو ہمارے لیے ملک بچانا مشکل ہو جائے گا۔ تو یہ مختلف لاجکس ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ یہ کام کرتے ہیں۔ بہرحال یہ عنوان ایک مستقل بحث کا تقاضا کرتا ہے۔ میرے ذہن میں یہ ہے کہ جو گفتگو ہم نے خروج اور تکفیر کے حوالے سے کی ہے، اسی پر کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔ اگر ہم ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔

مثلاً ہم نے یہ کہا کہ صرف کفر بواح کی صورت میں اجازت ہے کہ آپ خروج کر سکتے ہیں۔ اس بات پر تقریباً سب متفق ہیں، لیکن مفتی اسد اللہ صاحب نے ایک حدیث سنائی۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ خرج نہ کرو جب تک وہ تمھارے مابین نماز کی اقامت کرتے رہیں۔ اقامت صلوٰۃ کا ایک مفہوم وہ ہے جو مفتی صاحب نے بیان کیا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کفر بواح تو نہ ہو لیکن اقامت صلوۃ بھی ہو ہو، مثلاً حکمرانوں نے اجتماعی طو رپر نماز کا کوئی نظام نہ بنایا ہو، صدر مملکت بھی بے نماز ہیں، نماز نہ پڑھنے والے کی بھی کوئی تادیب نہیں کی جاتی تو کیا یہ صورت بھی ایسی ہے جس میں خروج کی اجازت ہوگی یا نہیں؟ اس کے بارے میں ہمیں محدثین کی آرا دیکھنی چاہییں۔ قاضی عیاض اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ای ماداموا علی الاسلام، یعنی جب تک وہ اسلام پر قائم رہیں، اس و قت تک آپ ان کے خلاف خروج نہیں کر سکتے۔ اب اس تاویل کی مزید تشریح مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ’’جزل الکلام فی عزل الامام‘‘ میں کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس زمانے میں نماز کا پڑھنا اسلام کا شعار سمجھا جاتا تھا، جیسا کہ شد زنار کفر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ حدیث بھی اس پر لے کر آئے کہ الفرق فی مابین العبد والکفر الصلوۃ، کہ مسلمان اور کافر کے مابین جو فرق ہے، وہ بنیادی طو رپر نماز کا ہے۔ اب نماز فارق بن رہی ہے، جبکہ بے نمازی کو آج کے دور میں کافر نہیں کہہ سکتے حالانکہ اکثریت آج کل کے دور میں بے نمازی ہے، لیکن کوئی فتویٰ کفر کا نہیں دے رہا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ اس زمانے میں ایک علامت تھی جو آج کے دور میں مسلمان ہونے کی علامت نہیں رہی۔ تو کسی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے اس کے مخصوص پس منظر کو بھی سامنے رکھا جائے تو اس سے صحیح نتیجے تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔

اسی طرح کفر بواح کے تحت ایک بات آتی ہے اکراہ علی المعصیۃ، کہ حکمران مسلمانوں کو معصیت پر مجبور کرتا ہو کہ تم گناہ کرو۔ اکراہ علی المعصیۃ کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے اکراہ علی المعصیۃ استخفافا کہ وہ شریعت اسلامیہ کا استخفاف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شراب پینا حلال ہے، اس لیے شراب پیو۔ یہ بھی کفر ہے کیونکہ وہ اعتقاداً حلت خمر کا قائل ہو گیا ہے۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے جس کی وجہ سے نیکیوں پر عمل کرنا مشکل ہو جائے۔ مثلاً آج کل یہ حالات سامنے آ رہے ہیں اور واقعات بھی ہیں کہ اگر آپ نے ڈاڑھی رکھی ہوئی ہے تو آپ کو ملازمت ملنے میں مشکل پیش آتی ہے، آپ پر شک وشبہہ کیا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جی تو چاہتا ہے، آپ لوگ فضائل بھی سناتے ہیں اور ڈاڑھی نہ رکھنے پر ڈراتے بھی ہیں، لیکن کیا کریں، ملازمت جاتی ہے۔ اسی طرح شلوار قمیص پہننے میں مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر جاب کرنی ہے تو آپ کو سوٹ پہن کر آنا ہوگا۔ اب یہ باتیں استخفافاً نہیں ہیں، بلکہ حالات وواقعات کے رخ سے اور ایمانی کمزوری کی وجہ سے ہیں۔ اس صورت میں یہ نہیں کہا جائے گاکہ حکومت نے چونکہ ضابطہ بنا دیا ہے اگر آپ کو بنک کی جاب کرنی ہے یا کوئی اور جاب کرنی ہے تو آپ کو سوٹ پہن کر آنا ہوگا، اس لیے یہ کفر ہوگیا ہے۔ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔

اسی طرح یہ پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے کہ شریعت نے اس سے تو منع کر دیا ہے کہ آپ خروج نہ کریں، لیکن کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے تاکہ بہتری آئے۔ خروج تو ہم نہیں کر سکتے، لیکن اگر کچھ بھی نہ کریں، گھر بیٹھ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر آنے کی نہ توقع ہو اور نہ اس کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے۔ تو اس کے لیے بھی شریعت نے راہیں رکھی ہیں۔ 

ہمارے ہاں آج کل جو مغرب سے طریقہ آتا ہے، وہی زیادہ نافذ ہوتاہے۔ مثلاً مطالبات منوانے کے لیے ایک طریقہ ہڑتال کا ہے کہ دوکانیں بند کرا دی جائیں۔ اگر آپ شرعی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ بھی بہت قابل اشکال طریقہ ہے، کیونکہ کوئی آدمی اپنی خوشی سے اپنی دکان بند کرے کہ میں کسی احتجاجی مقصد کے تحت آج کاروبار نہیں کروں گا تو اس کی تو گنجائش ہے، لیکن اس بات کی قطعاً کوئی اجازت نہیں کہ وہ کسی اور سے کہے کہ تم بھی دوکان بند کرو۔ اگر نہیں کرو گے تو ہم تمھاری دوکان کا سامان جلا دیں گے۔ تو یہ ہڑتال والا طریقہ غیر شرعی ہے۔ اللہ ہمیں معاف کرے، نہ صرف سیاسی اور دوسری جماعتیں اس کو اختیار کر رہی ہیں، بلکہ اب مذہبی جماعتوں نے بھی اس رنگ کو اختیار کرنا شروع کردیا ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنے مطالبات کو منوانے کا شریعت نے جو بہترین اصول بتایا ہے، وہ حدیث میں آیا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق، کہ اللہ کی نافرمانی ہے تو اس میں آپ نے حکومت کی بات نہیں ماننی۔ حکومت نے ایک قانون بنایا کہ آپ کو سودی بینکاری کرنی ہے۔ اب اگر تمام شہری یہ فیصلہ کر لیں کہ شریعت میں سود حرام ہے، ہم سودی بینکوں میں ڈپازٹ نہیں رکھیں گے اور ملازمین بھی کہیں کہ ہم اس میں ملازمت نہیں کریں گے تو حکومت مجبور ہو جائے گی کہ اس کا متبادل سوچے اور اس کا متبادل لانے کی کوشش کرے۔ اسی طرح کوئی بھی غیر شرعی بات ہو تو لوگ اس معاملے میں اپنے طور پر شریعت کے حکم پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب اپنے جسم پر شریعت نافذ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ اگر اپنے جسم پر شریعت نافذ کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو ایک دن کی ہڑتال کر کے آدمی اپنے آپ کو تسلی دے لیتا ہے اور چونکہ یہ طریقہ مغرب میں چلتا ہوا آ رہا ہے اور ہم وہاں کی چیز کو زیادہ اچھا سمجھتے ہیں، اس لیے اس کو اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔

تکفیر کے بارے میں ایک بڑی عام غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ لانکفر احدا من اہل القبلۃ، جو اہل قبلہ ہیں، ہم ان کو کافر نہیں کہیں گے۔ اصل میں یہ عبارت شرح مقاصد میں آئی ہے۔ انھوں نے یہ عبارت المنتقی شرح الموطا سے نقل کی ہے اور نقل کرنے میں تھوڑی سی غلطی ہو گئی ہے۔ المنتقی میں جو اصل عبارت ہے، وہ یہ ہے کہ لا نکفر احدا من اہل القبلۃ بذنب۔ ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کہیں گے اور یہ بات ایک حدیث سے ثابت ہے جو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ثلاث من اصل الایمان، الکف عمن قال لا الہ الا اللہ ولا نخرجہ بعمل، یعنی تین چیزیں ایسی ہیں جو ایمان کی جڑ ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو آدمی کلمہ پڑھنے والا ہے، اس کا خون نہیں بہائیں گے اور کسی گناہ کی وجہ سے اس کوملت اسلامیہ سے خارج نہیں کریں گے۔ تو اہل قبلہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو شخص قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہو تو وہ ہر حال میں مسلمان ہی ہے، چاہے وہ قادیانیت کے نظریات پر ہو، ختم نبوت کا انکار کرتا ہو۔ یہ بات نہیں ہے، بلکہ یہ اصل میں خوارج کی تردید ہے کہ اعمال کے اوپر کفر اور اسلام کا مدار نہیں، بلکہ اعتقادات کے اوپر مدار ہے۔ 

اسی طرح یہ سوال ہے کہ اگر کوئی شخص تاویل کرتا ہے تو کیا تاویل کی وجہ سے وہ کفر سے بچ جائے گا؟ تو تاویل کا اصول بھی یہی ہے کہ ایسی تاویل نہ ہو جو متواترات شرعیہ سے متعارض ہو۔ ورنہ تو پھر شیطان بھی کفر سے بچ جائے گا، کیونکہ اس نے جب سجدہ کرنے سے انکار کیا تو یہ تاویل کی کہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین، کہ مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔

اسی طرح ایک چیز یہ ہے کہ جب آدمی کوئی کلمہ کفریہ بولتا ہے تو کیا بولتے ہی وہ کافر ہو جاتا ہے؟ اللہ معاف کرے، ہماری موجودہ سوسائٹی کی صورت حال کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ عام لوگ گفتگو میں بھی ایسے کلمے بول جاتے ہیں جو کفریہ ہوتے ہیں۔ تو کیا اس سے آدمی فوراً کافر ہو جائے گا؟ فقہا نے اس کی تفصیل لکھی ہے کہ ایک ہے لزوم کفر اور ایک ہے التزام کفر۔ لزوم کفر کا معنی ہے ایسا کلمہ بولنا جس سے کفر لازم آتا ہو، جبکہ التزام کفر ہے اس کو اپنے اوپر لازم کرنا یعنی اس کو ماننا۔ تو کلمہ کفر بولنے سے لزوم کفر ہوتا ہے، التزام کفر نہیں ہوتا اور انسان کافر بنتا ہے التزام کفر سے، لزوم کفر سے کافر نہیں بنتا۔ مطلب یہ کہ اگر کسی آدمی نے ایسا کلمہ بولا جو کلمہ کفر یہ ہے تو آپ اس کو اس پر متوجہ کریں کہ دیکھو، یہ جو کلمہ بول رہے ہو، یہ کفریہ ہے۔ کیا آپ کی مراد یہی ہے؟ وہ کہے گا، نہیں نہیں، غلطی سے میری زبان سے نکل گیا یا یہ کہ مجھے اس کے کلمہ کفریہ ہونے کا علم نہیں تھا تو اس کو آپ کافر نہیں کہیں گے۔ آج کل ہمارے ہاں دار الافتاء میں سوالات آتے ہیں کہ فلاں آدمی نے ایسا جملہ بول دیا، اب بتائیں وہ کافر ہو گیا ہے یا نہیں؟ تو چونکہ ہمارے ہاں تحقیق کا اتنا ماحول نہیں ہے، تو جذباتیت میں ہم لکھ دیتے ہیں کہ جس نے یہ کلمہ بولا، وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اس کا نکاح ٹوٹ گیا، بیوی جدا ہو گئی، اب وہ نئے سرے سے کلمہ پڑھے۔ اتنے لمبے احکام او رلمبی تفصیلات اس پر جاری کر دیتے ہیں، حالانکہ یہ تفصیلات جاری کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے جو کلمہ کہا ہے، کیا اس کا کوئی صحیح محمل نکل سکتا ہے؟ کیا آپ نے اس کو متوجہ کیا ہے؟ اگر تحقیق کے بعد ثابت ہو جائے کہ صرف لزوم ہوا ہے، التزام نہیں ہوا تو کفر کا فتویٰ کیوں جاری کرتے ہیں؟ ان چیزوں کی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جو علمی گفتگو ہے، یہ بہت ہی قیمتی بنتی جا رہی ہے اور بہت اچھے اور بہت جامع نکات ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی صاحب نے اپنی ابتدائی گفتگو کے حوالے سے کچھ دلائل بھی دیے اور نئے خیالات بھی سامنے آ گئے۔ یہ بات درست ہے کہ اس مجلس میں ہماری توجہ تکفیر اور خروج پر مرتکز ہونی چاہیے، لیکن جو سوالات ہمارے ساتھیوں کی طرف سے آئے ہیں، وہ دراصل اس مقصد کے لیے ہیں کہ اگر اس سلسلے کو ہم جاری رکھنا چاہیں آئندہ مذاکروں میں ہم ان نکات پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جو تجاویز آئی ہیں، وہ بھی بہت وقیع اور قیمتی ہیں اور آئندہ ہمارے جو پروگرام ہیں، ان کے لیے بھی ہمارے پاس مواد موجود ہے۔

صمدانی صاحب کی طرف ایک بہت اچھا نکتہ یہ آیا کہ کوئی بھی موقف اختیار کرتے ہوئے ہم نے اس وقت کے جو حالات ہیں، ان کا مطالعہ کرنا ہے اور پھر جدید حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شرعی احکام کا انطباق کرنا ہے۔ فقہا اس حوالے سے بہت ہی توسع کے قائل رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ ہماری راہ نمائی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقیہ کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ وہ بصیرا بزمانہ ہو، اپنے زمانے کے حالات سے پوری طرح آگاہ ہو۔ اگر وہ بصیر بالزمان نہیں ہے تو فقیہ کے لیے جو شرائط ہیں، ان شرائط میں سے وہ ایک بہت اہم شرط سے عاری ہے۔ 

مثلا خروج کا جو پرانا تصور ہے، وہ مسلح جدوجہد سے عبارت تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر آج کے دور میں خروج کی نوبت آئے تو پرامن خروج بھی بہت زبردست اور بہت موثر بن سکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ انکار کر دیں کہ ہم ٹیکس نہیں دیں گے اور راے عامہ آپ کے ساتھ ہو تو پوری حکومت بیٹھ سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۹۸۳ء میں جب میں برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں تھا تو وہاں دودھ دو پیسے مہنگا ہو گیا۔ وہاں صارفین کی انجمن نے نوٹس دے دیا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر دودھ کو واپس پہلی قیمت پر لے آیا جائے، لیکن دودھ بنانے والی فیکٹریوں نے معذرت کر لی۔ اس کے بعد انجمن صارفین نے تمام لوگوں سے کہا کہ وہ دودھ پینا بند کر دیں اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دو تین دن کے بعد دودھ کی بوتلیں اور دودھ کے ڈبے گل سڑ کر سڑکوں پر آگئے او رحکومت قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہو گئی۔ راتوں رات تمام فیکٹریوں نے اعلان کیا کہ ہم دودھ کو واپس پہلی قیمت پر لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اب یہ بہت پرامن طریقہ تھا، لیکن راے عامہ ہموار ہو گئی اور تمام لوگوں نے انکار کر دیا کہ ہم دودھ نہیں پئیں گے۔ اسی طرح ہمارے مثلاً چینی مہنگی ہو جاتی ہے اور حکومت کک بیک کی صورت میں کمیشن کھاتی ہے تو اگر ہم راے عامہ کو ہموار کر لیں اور لوگ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے دودھ نہیں پینا، ہم نے چینی نہیں لینی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے، لیکن راے عامہ کو ہموار کرنا ضروری ہے۔ تو فقہا کا کام ہے کہ وہ بصیر بالزمان ہوں۔ جب وہ بصیر بالزمان ہوں گے تو جس طرح ہمارے پرانے فقہا نے اپنے دور میں امت کی راہ نمائی کی ہے، اسی طرح نئے حالات میں بھی بہت جامع او ربہت موثر طریقے سے قوم کی راہ نمائی کے لیے فقہا آگے آ سکتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ رفتہ رفتہ ہماری بحث زیادہ نکھر کر سامنے آ رہی ہے۔ 

مفتی محمد ابراہیم قادری

آپ نے آئندہ ہونے والی علمی مجالس کا ایجنڈا ابھی سے بتا دیا جوبہت اچھی بات ہے۔ مزید یہ کہ جو منتظمین ہیں، ان کی کاوشوں کو خراج تحسین نہ پیش کرنا میں سمجھتا ہوں کہ بد اخلاقی کی بات ہوگی۔ انھوں نے بڑی کاوش کی ہے، لیکن میری گزارش یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر سیر حاصل بحث تب ہوتی ہے جب اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو سامنے آئیں اور ان دونوں پر گفتگو کی جائے۔ ہمارے علماے کلام نے علم کلام میں زیادہ تر خوارج اور معتزلہ کا رد کیا اور فلاسفہ یونان کا بھی رد کیا ہے۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ پہلے اپنا نظریہ پیش کر کے دلائل دیتے ہیں۔ پھر مخالف کے دلائل کو لے کر اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ شرح عقائد، شرح مقاصد، شرح مواقف، یہ سب کتابیں اس سے بھری ہوئی ہیں۔ تو ایک تو یہ کیا جائے۔ 

دوسرا یہ کہ اس علمی پینل کو تھوڑا سا وسیع بھی کیا جائے۔ یہ آپ کی پہلی کاوش ہے او ربارش کا پہلا قطرہ ہے اور یہ کوشش لائق صد آفرین ہے، لیکن آئندہ مجالس میں ملک کے وہ نامور علما جو اپنے اپنے مکاتب فکر کے نمائندہ کہلاتے ہیں، ان کو اگر مدعو کیا جائے اور ان کو بحث میں شامل کیا جائے تو یہ آپ کے جو علمی مباحث ہیں، یہ انتہائی موثر اور مفید بن جائیں گے۔

ہماری کتب میں لکھا ہے اور بعض لوگوں نے امام اعظم ابوحنیفہ کی طرف بھی اس کی نسبت کی ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی قابل اعتراض جملہ بولتا ہے اور اس میں سو احتمالات نکلتے ہیں جن میں سے ننانوے احتمال کفر کی طرف جاتے ہیں اور ایک احتمال اسلام کی طرف جاتا ہے تو ہمیں چونکہ اس مسلمان کی نیت کا علم نہیں ہے اور وہ جو عبارت ہے، نفیاً یا اثباتاً اس کی دونوں دلالتیں موجود ہیں تو جب تک اس کی طرف سے کفر کے پہلو کی صراحت سامنے نہیں آئے گی، ہم اسے کافر قرار نہیں دیں گے اور وہ جو ایک احتمال ایمان ہے، وہی غالب رہے گا اور ننانوے اس کے مقابلے میں مغلوب ہو جائیں گے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تکفیر اور کفر کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور ہم چھوٹتے ہی کسی کو کافر کہنے کی کوشش نہ کریں اور تکفیر نہ کریں۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان بھی ذہن نشین رہنا چاہیے۔ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف کفر کے معاملے میں نہیں فرمائی، شرک کے معاملے میں نہیں فرمائی، لعن کے بارے میں اور ہر اس برائی کے معاملے میں فرمائی ہے جو کسی کے سر تھوپی جائے تو اس کے ہوش اڑ جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی کسی کو کافر کہتا ہے اور اس میں کفر موجود نہیں تو کفر خود کہنے والے کی طرف لوٹے گا۔ اگر کوئی شخص کسی کو مشرک کہتا ہے اور وہ مشرک ہے نہیں، لیکن الزام لگانے والا اپنے مزعوم نظریات اور فاسد خیالات کی بنیاد پر کسی کو نشانہ بناتا ہے اور اسے مشرک بناتا ہے تو اگر اس میں شرک کی بات اللہ اور اس کے رسو ل کے ہاں نہیں پائی گئی تو شرک اس کی طرف نہیں جائے گا بلکہ جس نے اس پر الزام شرک لگایا اور فتویٰ لگایا، شرک اس کی طرف لوٹے گا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ایک مسلمان کو عام مسلمان کو بھی سوچنی چاہییں، اہل علم تو پھر اہل علم ہیں۔

ڈاکٹر صمدانی صاحب اور مولانا عمار ناصر نے بعض باتیں علمی اٹھائی ہیں۔ مثلاً یہ اصول کہ لا نکفر احدا من اہل القبلۃ کہ ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہیں گے، مولانا نے ایک توجیہ اس کی پیش کی ہے اور وہ توجیہ بھی صحیح ہے کہ کہ کسی گناہ کی بنیاد پر ہم کسی مسلمان کو کافر نہیں کہیں گے جیسا کہ ہمارے علماے کلام نے لکھا کہ یہ خوارج کا مذہب ہے کہ وہ کبائر کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں۔ البتہ ہمارے علما نے اسے عموم پر رکھ کر بھی اس کی توجیہات کی ہیں۔ یعنی ذنب کی قید نہ لگائیں اور اسے علی الاطلاق رکھا جائے، لا نکفر احدا من اہل القبلۃ، یہاں تک عبارت ہو تو بھی درست ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ یہاں اہل قبلہ سے مراد اس کا لغوی معنی نہیں ہے کہ جو لوگ قبلے کی طرف منہ کریں۔ یہ ایک خاص اصطلاح ہے۔ جیسے احادیث میں آیا ہے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا، اس کا یہ حکم ہے۔ تو لا الہ الا اللہ یہ ایک مخصوص اصطلاح ہے۔ اس سے مراد صرف لا الہ الا اللہ تک پڑھ لینا نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں لا الہ الا اللہ پڑھنے کے الفاظ ہیں تو ایمان تو قول کا نام نہیں ہے، ایمان تو تصدیق کا نام ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا یعنی جو مسلمان ہے، جو مومن ہے، جو اہل ایمان ہے۔ اسی طریقے سے لا نکفر احدا من اہل القبلۃ میں اہل قبلہ سے مراد لغوی معنی نہیں، بلکہ اہل قبلہ سے مراد وہی ہے جو مسلمان ہے، جو ضروریات دین کے قائل ہیں جن کی توضیح ہو چکی ہے۔ 

ایک آدمی کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا قول وعمل مسلمانوں والا ہے۔ وہ نمازیں پڑھتا ہے، مساجد میں آتا ہے، جنازوں میں شریک ہوتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ رکھتا ہے تو ایسے شخص کو ہم مسلمان ہی سمجھیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلم الذی لہ ذمۃ اللہ وذمۃ رسولہ۔ جس شخص نے ہمار ی نماز جیسی نما زپڑھی، ہمارے قبلے کی طرف منہ کیا، ہمارا ذبیحہ کھایا، وہ مسلمان ہے اور اس کو اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے۔ اب یہ اسلام کی متعارف علامات ہیں جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا۔اس کا معنی یہ ہیں کہ جو شخص اسلامی شعائر کا خیال رکھتا ہے اور اس میں اسلام کی مخصوص باتیں اور تشخصات ہم دیکھتے ہیں تو جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہوگی، ہم اس کو مسلمان ہی سمجھیں گے۔ 

اس کے علاوہ اگر آپ اجازت دیں تو خروج وبغاوت کی طرف اس گفتگو کا سلسلہ موڑا جائے۔ خروج کیا ہے؟ ہمارے علما نے اس پر بحثیں کی ہیں کہ خروج کیا ہے، اس لیے کہ احادیث میں بھی خروج اور بغاوت کے الفاظ آئے ہیں اور قرآن کریم میں بھی بغاوت کے الفاظ آئے ہیں۔ کتب فقہ کا یہ خاص موضوع ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر علی اکبر صاحب نے کہا کہ خروج کی ایک تاریخ ہے اور وہ تاریخ ایسی ہے جو احادیث طیبہ میں مرقوم ہے۔ ہر زمانے کے جو باغی لوگ تھے، جو مسلح کارروائیاں کرتے تھے، ان کے پاس جتھے تھے۔ ان کی اپنی فوج تھی اور وہ اسلامی ریاست کو للکارتے تھے تو اس کے پیچھے ان کا ایک خاص نقطہ نظر ہوتا تھا جس کی بنیاد پر وہ ہتھیار اٹھاتے تھے۔ وہ نقطہ نظر یہ ہوتا تھاکہ یہ جو ریاست ہے، اس کے جو حکمران ہیں، یہ مسلمان نہیں ہیں اور یہ جو عوام ہیں، یہ ان کے سپورٹر ہیں، اس لیے یہ سب مارے جانے کے لائق ہیں، چنانچہ اہل خروج وبغاوت کا جو تاریخ اسلام کے حوالے سے پہلا طبقہ ہے ، وہ وہ ہے جو کھل کر امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ کے دور میں آیا اوران لوگوں نے حضرت علی پر جو خلیفہ راشد تھے اور اس وقت روے زمین کے سب سے بہترین اور افضل انسان تھے، ان کے بارے میں یہ کہا کہ وہ مشرک ہیں اور مشرک اس لیے ہیں کہ انھوں نے انسانوں کو حکم بنایا ہے، جبکہ ان الحکم الا للہ، حکم تو اللہ کے لیے ہے اور یہاں پر حکم کسی اور کو بنایا جا رہا ہے۔ 

البحر الرائق میں خروج کی وضاحت میں لکھا ہے کہ خوارج ایک قوم ہے جن کا ایک جتھہ ہوتا ہے، ان کی ایک قوت ہوتی ہے اور وہ ایسی تاویل کی بنیاد پر خروج کرتے ہیں جس کی بنا پر وہ اپنے مد مقابل کو، ریاست کے حکمرانوں کو کافر کہتے ہیں یا انھیں ایسی معصیت میں گرفتار سمجھتے ہیں جو موجب قتال ہو تو تاویل سے وہ انھیں کافر سمجھتے ہیں اور تاویل سے ان پر جنگ کرنا او ر چڑھائی کرنا جائز سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد فاسد کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے خون کو اور ان کے مالوں کو حلال سمجھتے ہیں۔ 

فتح الباری میں ہے: الخوارج جمع خارجۃ ای طائفۃ وہم قوم مبتدعون سموا بذلک لخروجہم عن الدین وخروجہم علی خیار المسلمین۔ خوارج، خارجہ کی جمع ہے اور یہ وہ اہل بدعت کا اور بد مذہب لوگوں کا ایک گروہ ہے۔ انھیں خارجی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ دین سے نکل جاتے ہیں اور خیار مسلمین پر خروج کرتے ہیں۔

علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے، جن پر آج کل کے فقہا اور ماضی قریب کے فقہا بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں، لکھا ہے کہ اھل البغی کل فئۃ لہم منعۃ یتغلبون ویجتمعون ویقاتلون اہل العدل بتاویل یقولون الحق معنا ویدعون الولایۃ کہ اہل بغاوت وہ جماعت ہے کہ ان کے پاس قوت اور طاقت ہوتی ہے اور وہ اپنا تسلط جماتے ہیں، مجتمع ہوتے ہیں، اہل عدل سے وہ تاویل کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ حق تو ہمارے ساتھ ہے اور ولایت ، تدبیر اور امور ریاست کے استحقاق کے مدعی ہوتے ہیں۔

حضرت علی پر جو خروج کیا گیا، اس کی بھی یہی وجہ ہے۔ ہمارے فقہا نے لکھا ہے کہ اگر باغی اور خارجی لوگ تاویل کے ساتھ مسلمانوں کے مالوں کو لوٹیں اور ریاست کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان کے احکام یہ ہیں کہ پہلے ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں، انھیں سمجھایا جائے، ان کی باتوں کو سنا جائے، انھیں اطمینان دلایا جائے۔ قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے اور حضرت امیر المومنین کرم اللہ وجہہ کا بھی یہی عمل ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا: و ان طائفتان .....۔ اور حضرت علی کے خلاف جب خروج ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ لوگ کیوں خروج کر رہے ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ کہتے ہیں کہ آپ مشرک ہیں۔ فرمایا میں کیسے مشرک ہوا؟ انھوں نے کہا کہ آپ نے انسانوں کو حکم بنایا جبکہ قرآن میں آتا ہے کہ ان الحکم الا للہ، حکم تو اللہ کا ہے اور آپ نے اس میں بندوں کو شریک کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کلمۃ حق ارید بہا الباطل، جو آیت پڑھی گئی ہے وہ تو حق ہے، لیکن جو مراد لی ہے، جو تاویل کی ہے، وہ باطل ہے۔ حضرت علی نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے، جو ترجمان القرآن تھے، فرمایا کہ تم اہل بغی سے ملو، خارجیوں سے ملو اور دلائل کے ذریعے انھیں قائل کرنے کی کوشش کرو۔ حضرت عبد اللہ بن عباس گئے اور انھوں نے کہا کہ تم کیوں جھگڑا کرتے ہو؟ کہنے لگے کہ ان الحکم الا للہ اور انھوں نے حکم بنایا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ علی نے تو ایک حکم بنایا۔ قرآن پاک تو یہ فرماتا ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو تو فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلہا۔ ایک حکم عورت کے خاندان سے ہونا چاہیے اور ایک حکم مرد کے خاندان سے ہونا چاہیے۔ علی نے ایک حکم بنایا، قرآن تو دو حکم بنانے کا کہہ رہا ہے۔تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ پانچ ہزار خارجی تائب ہو گئے۔ جو باقی بچے، وہ نہیں سمجھے۔ پھر حضرت علی نے ان کے خلاف جنگ کی۔ 

تو ان بغاۃ کا حکم ہے کہ سب سے پہلے انھیں مذاکرات کی دعوت دی جائے، ان کی باتیں سنی جائیں، انھیں مطمئن کیا جائے۔ اور اگر یہ بات پھر نہ بنے تو پھر آخری جو پہلو ہے اور جو آخری بات ہے جس کے بعد کوئی بات نہیں بن سکتی، وہ ہے جنگ۔ پھر ان کے خلاف جنگ کی جائے۔ جیسے حضرت علی نے جنگ کی اور جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے واضح ہے۔

زاہد صدیق مغل ― (نیشنل یونیورسٹی فاسٹ، اسلام آباد)

مجھے افسوس ہے کہ میں پہلی نشست میں شامل نہیں ہو سکا۔ یقیناًاس میں بہت قابل قدر گفتگو ہو گئی ہوگی۔ پہلی بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں خود کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ اس محفل کے اندر کوئی تفصیلی گفتگو کروں جہاں بہت قابل احترام اور ذی علم لوگ بیٹھے ہیں تاکہ شریعت کے نقطہ نظر سے اس پر گفتگو کریں کہ ان تمام موضوعات پر شریعت کا مدعا کیاہے۔ میرے ذہن میں دو تین پوائنٹس ہیں جو ایک قسم کے سوالات ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اس پینل کے سامنے آنے چاہییں۔ میرا پس منظر یہ ہے کہ میں نے مغربی فکر اور فلسفہ کا کچھ طالب علمانہ مطالعہ کیا ہے۔ اس کی روشنی میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جو وہ موجود ہ نظام کے اندر خروج کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ مثلاً ابھی خوارج کی بات ہو رہی تھی تو اس میں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ خوارج وہ گروہ تھا جنھوں نے خلیفہ راشد کے خلاف خروج کیا، اس وجہ سے ہماری تاریخ میں انھیں خوارج کہا گیا۔ آج کے دور میں خوارج کے احکام کو کسی گروہ پر اگر ہم منطبق کرنا چاہتے ہیں تو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مد مقابل ریاست کیا خلافت راشدہ کا دعوے دار بننے کی کسی بھی طو رپر استحقاق رکھتی ہے یا نہیں؟ 

یہ بہت اہم سوال ہے اور میں اپنی گفتگو کو اسی نکتے پر مرکوز رکھنا چاہوں گا۔ ہمیں پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو موجودہ ریاستیں ہیں، وہ ہیں کیا؟ جب ہم خروج کی بحث اٹھاتے ہیں تو یہ pre-suppose کرتا ہے کہ اسلامی ریاست موجود ہے، یعنی اسلامی ریاست کہیں بنی ہوئی ہے، ریاست کے اسٹرکچر سارے اسلامی طریقے سے چل رہے ہیں، احکامات کا صدور اور ان کا نفاذ اسلامی شریعت کے مطابق ہو رہا ہے اور اب خرابی یہ پیدا ہو گئی ہے کہ کوئی ایسا شخص آ گیا ہے جو ان احکامات کے صدور اور نفاذ میں رخنہ اندازی کا باعث بن رہا ہے یا وہ کسی ایک ادارے کو صحیح طریقے پر، جیسا کہ اسلام چاہتا ہے، ویسے کام نہیں کرنے دے رہا۔ خروج کی بحث یہاں آتی ہے کہ اب ایسے آدمی کا کیا کریں۔ یعنی خروج ہمیشہ کسی آدمی کے خلاف ہوتا ہے، کسی فرد کے خلاف ہوتا ہے۔ یہاں میں واضح کر دوں کہ حکومت اور ریاست میں فرق ہوتا ہے۔ حکومت ریاست کا محض ایک چھوٹا سا ، گو کہ ایک اہم ادارہ ہے۔ تو جب خروج کی بحث اٹھائی جاتی ہے تو ہماری کلاسیکل فقہ میں ہمیشہ اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ حاکم یا حکمران طبقے کے خلاف بغاوت کی جائے۔ یعنی اگر حکمران ریاست کے باقی اداروں کے کام میں، جو اسلامی طریقے سے چل رہے ہیں، رخنہ اندازی کر تے ہیں تو ان کے خلاف خروج ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے۔

لیکن ایک ایسے تناظر میں جہاں خلافت ۱۹۲۴ء کے بعد دنیا سے ختم ہو گئی ہے، ایک ایسا تناظر جہاں دنیا پر لبرل ریاستی آرڈر نافذ ہے اور اس کو ہم گرافٹنگ کے ذریعے یعنی پیوند کاری کے ذریعے کسی طریقے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ یہ کسی معنی میں اسلامی ہے، اس میں پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا جو ریاستی اسٹرکچر ہے، وہ کوئی اسلامی ریاستی سٹرکچر ہے؟ کیا جمہوری اسٹرکچرز اسلامی ہوتے ہیں؟ مثال کے طور پر اگر ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ وہ اسلامی نہیں ہوتے تو پھر اس کے بعد خروج کی بحث ہی لایعنی ہے۔ خروج کی بحث تو تب آتی ہے جب آپ اسلامی حکومت کی موجودگی پہلے سے فرض کر لیں۔ پہلی بات تو یہ ہے۔ اگر یہ بات طے ہو جائے کہ جو موجودہ اسٹرکچرز ہیں، وہ کسی معنی میں اسلامی نہیں ہیں تو اب بات دوسری ہوگی۔ 

عام طور پر خروج کے حوالے سے جب گفتگو ہوتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل وقتال ہوگا، لوگوں کے اموال کا نقصان ہوگا، وغیرہ۔ اس سلسلے میں قرآن نے فرمایا ہے کہ والفتنۃ اشد من القتل۔ فتنے کا لفظ یہاں خاص سیاق میں آیا ہے یعنی ایسا نظام جو لوگوں کو آزمائش میں ڈال دے اور ایمان پرعمل کرنا ان کے لیے ناممکن ہوجائے، وہ ultimately انھیں جہنم میں پہنچا دے تو ایسے نظام فتنہ کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ یہ تو قتل وغارت سے بھی زیادہ خطرناک چیز ہے کہ لوگ پرامن طریقے سے مر کر جہنم میں پہنچ جائیں اور انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہو۔ اب بحث کا نکتہ یہ بن جاتا ہے کہ ایک ایسا نظام جو لوگوں کو مآل کار جہنم میں لے کر جائے گا اور ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں کہ یہاں جس شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے، جو معاشرت پنپتی ہے، جو ریاستی اسٹرکچر بنتا ہے، اس کا غیر اسلامی ہونا بالکل واضح ہے۔ یہ بحثیں تھوڑی عجیب اس لیے لگتی ہیں کہ اب دنیا کا تناظر بالکل بدل چکا ہے۔ ایک لبرل ریاست کیا ہوتی ہے؟ how does it function? اس کی بنیاد پر ہم اپنے ارد گرد کے جن معاشروں یا ریاستوں کو اسلامی سمجھتے ہیں، ان کو پرکھ کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس حد تک اسلامی کہلانے کی حق دار ہیں؟

تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ طے ہو جائے کہ ریاست اسلامی نہیں ہے تو پھر خروج کی بحث irrelevant ہو جاتی ہے۔ اب بحث یہ ہو جاتی ہے کہ ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟

دوسرا نکتہ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خروج کا مطلب ہمارے ہاں صرف تلوار اٹھانا اور لڑائی جھگڑا سمجھا جاتا ہے۔ خروج کا اصل مطلب ہے اطاعت سے نکل جانا۔ یعنی آپ جو ریاستی اسٹرکچرز ہیں، ان کا انکار کریں اور ایک دوسرا اطاعت کا نظام قائم کریں جس کو آپ state within the state کہتے ہیں۔ خروج کا مطلب ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ اب بحث صرف یہ رہ جاتی ہے کہ کیا ایک ایسے نظام کے اندر جس کے بارے میں ہم یہ طے کر لیں کہ جو اسٹیٹ اسٹرکچرز ہم پر مسلط ہیں، وہ اسلامی نہیں ہیں، کیا ان کے مدمقابل کوئی اور اسٹیٹ اسٹرکچرز بنانا شریعت میں جائز ہے یا ناجائز ہے؟ میرے خیال میں گفتگو کا محور یہ بننا چاہیے کہ کیا ریاست در ریاست اس مفہوم میں کہ متبادل ایسے اسٹرکچرز کھڑے کیے جائیں جہاں پر اطاعت کی بنیاد ہیومن رائٹس کے فلسفے یا اور موجودہ آئینی اسٹرکچرز کے علاوہ کوئی اور چیز ہو، کیا یہ جائز ہے یا ناجائز ہے؟ اس کو اگر علماء کرام اس تناظرمیں دیکھیں کہ الفتنۃ اشد من القتل تو میرا خیال ہے کہ شاید بحث زیادہ نکھر کر سامنے آئے گی۔ 

دراصل درست تناظر میں بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ خوارج کے احکام کو آج کل کے گروہوں پر منطبق کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اس وقت خلافت راشدہ تھی، مسلمانوں کا پورا ایک نظام تھا، صحابہ کرام کی جماعت تھی ، ان کے مدمقابل ایک چھوٹا سا گروہ نکل کھڑا ہوا۔ جبکہ ایک ایسی صورت جس میں خلافت راشدہ تو دور کی بات، خلافت ہی نہ ہو، اس سیاق میں پھر خروج کو کیسے دیکھا جائے گا؟ اگر اس پر غور وفکر کیا جائے تو شاید کچھ او رنتائج نکلیں یا کچھ اور پہلو واضح ہو سکیں۔ 

یہ چند سوالات ہیں کہ خوارج کے احکام کا کیا ہم آج کل انطباق کر سکتے ہیں؟ جبکہ ۱۹۲۴ء کے بعد یہ طے ہے کہ دنیا میں خلافت کہیں نہیں ہے۔ جہاں پر بھی ہم نے آزادی کی جدوجہد کی ہے، اس میں کہیں بھی خلافت کے ادارے کا احیا کرنے کی بات نہیں کی۔ ہم نے ہر جگہ جمہوری اسٹرکچرز کی بنیاد پر قومی ریاستیں بنائی ہیں۔ خلافت necessarily کبھی قومی ریاست نہیں ہوتی جیسا کہ بالکل واضح ہے، لیکن ہم نے جدوجہد کر کے جو بھی ملک بنایا ہے، وہ ایک نیشن اسٹیٹ کی صور ت میں قائم کیا ہے۔ تو ان سب نکات پر بحث ہونی چاہیے کہ لبرل ریاست کیا ہوتی ہے؟ کیا لبرل ریاست کی موجودگی میں ہم اسلام پر عمل کر سکتے ہیں؟ کیا فرد کی اور معاشرے کی ویسی تشکیل ممکن ہے جیسی اسلام چاہتا ہے؟ اگر یہ ناممکن ہے تو پھر خروج بمعنی ریاست در ریاست کی جدوجہد ایک دوسرے رنگ میں سامنے آئے گی جس میں ہو سکتا ہے کبھی وہ مقام بھی آ جائے کہ لڑنا بھی پڑ جائے۔ اس کا اگلا مرحلہ ہو سکتا ہے، جبکہ خروج سے ہمارے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ پہلے ہی دن ہتھیار اٹھا لیں اور لڑ پڑیں، حالانکہ یہ بالکل آخری اسٹیج ہوتی ہے۔ جو لوگ اس وقت خروج کر رہے ہیں، میرے خیال میں ان کی بھی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ خروج کا مطلب لڑنا ہی سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے جو لوگ خروج کا جواز پیش کرتے ہیں، کوئی واضح لائحہ عمل ان کے پاس بھی نہیں ہے اور انھیں اس کا ادراک نہیں کہ جو موجودہ ریاستیں کیا ہیں اور ہم کس کے خلاف لڑ رہے ہیں؟ کیا اداروں کے خلاف؟ کیا یہ اسٹیٹ اسٹرکچرز ہیں جن کو ہم نے replace کرنا ہے یا بس زرداری صاحب کی جگہ کسی اور آدمی کو لا کر بٹھا دینا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

زاہد صدیق مغل صاحب نے بہت اچھے سوالات اٹھائے ہیں۔ میں ایک بات کی یاد دہانی کرانا چاہوں گا کہ اس پوری محفل میں کوشش یہ ہوئی ہے کہ اسلامی حکومت کی اصطلاح کی جگہ ہم مسلم حکومت کا ذکر کریں، کیونکہ ظاہر ہے کہ حقیقی معنوں میں اسلامی حکومت موجود نہیں ہے، لیکن مسلم حکومتیں موجود ہیں۔ دوسری بات جو آپ نے کی، اس کو بھی ہم موضوع بحث بنا سکتے ہیں۔ بے شک ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلافت راشدہ کا دور تھا،لیکن اس کے بعد جو خلافتیں بنیں، مثلاً بنو امیہ کی یا بنو عباس کی یا مثلاً عثمانیوں کی خلافت جو ۱۹۲۴ء میں ختم ہوئی، کیا وہ واقعی خلافتیں تھیں یا ان کو بھی ہم اسی درجے میں رکھیں گے جو خلافت راشدہ کا تھا اور ان کے خلاف خروج اور بغاوت کو ہم وہی بغاوت اور وہی خروج سمجھیں گے جو خلافت راشدہ کے خلاف ہو؟ یہ بھی ہمارے علما کے لیے ایک قابل بحث سوال ہے، کیونکہ محض خلافت کا عنوان کافی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ خلافت کے لیے ایک معیار ہے، تو جو عباسی خلفا اور عثمانی خلفا تھے، آیا وہ اس معیار پر پورا اترتے تھے یا نہیں؟ ان سوالات کے حوالے سے ہم علما سے راہنمائی چاہیں گے۔ کیونکہ بہت سے اموی، عباسی اور عثمانی خلفا ایسے تھے جو حد درجہ فسق وفجور میں ملوث تھے او رکسی طریقے سے بھی ہم ان کو خلیفہ راشد کے معیار پر نہیں کہہ سکتے۔ تو ایسے حکمرانوں کی موجودگی میں اس پورے نظام کو خلافت کا نام دے دینا، یہ بھی ایک قابل بحث سوال ہے۔

مفتی محمد ابراہیم قادری

آپ نے بہت اچھی بحث چھیڑی ہے۔ اصل میں جب اسلامی تاریخ کے حوالے سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں خلافت کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد ہوتی ہے خلافت راشدہ اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ جو تسلسل کے ساتھ تیس سال قائم رہی۔ اس کے بعد بھی خلافت راشدہ کا عکس ہمیں بہت سے خلفا میں نظر آیا۔ علامہ علی قاری جو بہت بڑے محدث ہیں اور علماے احناف کے نمائندہ ہیں، انھوں نے شرح فقہ اکبر میں فرمایا ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ تو تیس سال رہی، اس کے بعد جو حکمران آئے، وہ خلفا نہیں بلکہ ملوک وامرا تھے۔ ہم اس میں سے عمر بن عبد العزیز اور آنے والے امام مہدی کو الگ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خلافت کا لفظ لغوی معنی یعنی جانشینی کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ امیر کو بھی خلیفہ کہہ دیتے ہیں۔ علامہ شامی نے امراے بنو امیہ اور بنو عباس کے بارے میں لکھا کہ لا یخفی ان اولئک کانوا ملوکا تغلبوا والملوک تصح منہ ہذہ الامور کہ یہ سب بادشاہ تھے اور تغلب وتسلط کی بنا پر انھوں نے حکمرانی حاصل کی تھی اور ہمارے نزدیک دفع فتنہ کے لیے اور خون ریزی سے بچنے کے لیے ان لوگوں کی ملوکیت کو یا ان کی بادشاہت کو صحیح تسلیم کیا جائے گا۔

حموی ایک حنفی عالم گزرے ہیں، انھوں نے ایک کتاب لکھی ہے الاشباہ والنظائر۔ اس میں انھوں نے امام ابوحنیفہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ قال الامام واصحابہ لا یشترط فی تولیۃ السلطان ان یکون قرشیا ولا مجتہدا ولا عدلا۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا ہے کہ بادشاہ کی بادشاہت اور اس کی تولیت کی صحت کے لیے نہ قرشی ہونا ضروری ہے (خلافت کے لیے تو قرشی ہونا ہمارے ہاں شرط ہے) نہ اجتہاد شرط ہے اور نہ ہی عدل اور تقویٰ شرط ہے۔ مطلب یہ کہ اگر یہ لوگ آ جاتے ہیں اور ہم پرمسلط ہو جاتے ہیں تو ہم ان کی تولیت کو مان لیں گے اور ان کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے۔

امام ابوحنیفہ کا نظریہ اور فکر متداول کتب فقہ میں موجود ہے۔ مثلاً فقہ حنفی کی ایک بڑی مقبول اور قدیم کتاب ہدایہ ہے۔ ہدایہ کے باب البغاۃ میں لکھا ہے کہ والمروی عن ابی حنیفۃ من لزوم البیت۔ امام ابوحنیفہ سے مروی یہ ہے کہ جب امت میں فتنہ برپا ہو جائے تو اس وقت لوگوں کو چاہیے کہ وہ گھر میں دبک کر بیٹھ جائیں۔ اس کے بارے میں صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ ھو محمول علی حال عدم الامام واما حالۃ امامۃ الامام الحق فمن الواجب عند الغنی والقدرۃ۔ امام ابوحنیفہ کا کہنا یہ ہے کہ جو امیر اور امام ریاست ہے، اگر اس کی حمایت کی طاقت اور قوت نہیں ہے تو گھر میں بیٹھ جائیں اور اگر قوت اور طاقت ہے تو اس کی حمایت کریں۔

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

یہاں طالبان کے حوالے سے یہ بات کی گئی کہ ان کو کسی قدر ابہام ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہماری اس مجلس میں اس واضح موقف کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ بے گناہ مسلمانوں کا قتل کرنا اور عوامی مقامات پر خود کش حملے کرنا اور اس کے بعد اس کی ذمہ دار قبول کر لینا، یہ سب کام وہ کسی ابہام کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ ابہام کوئی نہیں ہے، بڑی واضح بات ہے کہ وہ ایک کفریہ اور ناجائز عمل کر رہے ہیں۔ ہمیں اس پر متفق ہونا چاہیے اور کم از کم اس جیسے سنجیدہ فورم سے ہمیں اس طرح کی کسی بھی بات کی تائید نہیں کرنی چاہیے کہ خروج کی کوئی بھی شکل، حاکم چاہے جیسا بھی ہو، جائز ہو سکتی ہے۔ 

دوسری بات یہ کہ ہمارے نئے آنے والے دوست نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک نیا سوال سامنے رکھا ہے کہ کیا ہم خوارج کا حکم آج کے کسی گروہ پر لگا سکتے ہیں؟ کیونکہ خوارج نے تو خلیفہ راشد کے مقابلے خروج کیا تھا، لہٰذا اس کو ان کا بہت بڑا گناہ تصور گیا گیا، لیکن اس کے بعد چونکہ خلیفہ راشد نہیں ہے اور گناہ گار حکمران ہیں تو کیا ان کے مقابلے میں اٹھنے کا تقابل ہم خوارج کے خروج کے کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ اس کی وضاحت میں، میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی متعدد احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ بے شک وہ فاسق وفاجر ہوں، لیکن اگر وہ نماز پڑھتے ہوں تو پھر خروج جائز نہیں۔ کفر بواح کا بار بار اسی لیے تذکرہ ہو رہا ہے کہ حکمران کتنے ہی گناہ گار، بدعمل اور اسلام سے منحرف کیوں نہ ہوں، کفر بواح کے بغیر ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھایا جائے گا۔

میں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں عرض کیا تھا کہ اس موضوع کا ہماری تاریخ سے بھی براہ راست تعلق ہے اور ہمیں تاریخ سے واقعات کو دیکھنا چاہیے۔ اس کے لیے تاریخ سے صرف دو واضح مثالیں دینا چاہوں گا۔ ایک دور قدیم سے اور ایک جدید دور سے۔ 

پہلے میں امام احمد بن حنبل کی بات کروں گا۔ آپ کو معلوم ہے کہ فتنہ خلق قرآن میں بنو عباس کی جو خلافت تھی، ان کے بڑے بڑے لوگ اس فتنے سے متاثر ہوئے اور معتزلی ہو گئے۔ اس وقت اہل سنت کے ائمہ کی قیادت بغداد میں امام احمد بن حنبل کر رہے تھے۔ ان کے پاس ائمہ آئے، فقہا اور محدثین آئے۔ امام بخاری اور مسلم ان کے تلامذہ میں سے ہیں تو ان کی اپنی شان کس قدر ہوگی۔ تو علما آئے اور انھوں نے کہا کہ ایک حد ہوتی ہے زیادتی کی۔ خلیفہ چونکہ بدعقیدہ ہو گیا ہے، اس کی فتنہ پروری کی وجہ سے ہم بعض چیزیں تو برداشت کرتے ہیں، بعض برداشت نہیں کر سکتے، لہٰذا آپ قیادت کریں اور ہم اس خلافت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں یعنی خروج کرتے ہیں۔ وہاں امام احمد بن حنبل کے بڑے خوب صورت الفاظ ہیں۔ وہ ہمیں اپنے سامنے رکھنے چاہییں۔ آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ مجھے اپنی قیادت کے لیے کہہ رہے ہیں کہ میں ا س حکومت کے خلاف احتجاج کروں یا جہاد کروں۔ آپ نے سبحان اللہ سبحان اللہ کے الفاظ کہے اور فرمایا کہ جو کچھ آپ حکومت کے خلاف احتجاج سے حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اس سے بہت بدتر ہوگا۔ مسلمانوں کا خون گرے گا اور مسلمان مریں گے اور اس میں بے گناہ مسلمان بھی شامل ہوں گے اور جو اصلاح آپ چاہتے ہیں، اس کا دائرہ کم ہوگا اور جو بگاڑ ہوگا، اس کا دائرہ بہت بڑھ جائے گا۔لہٰذا آپ نے ان سب ائمہ کو، جن میں ظاہر ہے فقہا تھے، محدثین تھے، بڑ ے بڑے لوگ تھے، ان کو آپ نے منع کر دیا کہ یہ وقت گزر جائے گا او رہم بے گناہ مسلمانوں کے قتل میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ 

دوسری مثال میں ترکی سے دوں گا۔ یہ جو اس وقت ہمیں ترکی نظر آ رہا ہے، اس میں ترک قوم کا ایک revival دیکھ رہے ہیں۔ ان کی فارن پالیسی بدل رہی ہے، ان کے اسٹرکچر میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ابھی ایک مہینہ پہلے مجھے ترکی میں جا کر بعض ادارے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ چونکہ ہماری زبان مختلف ہے اور زیادہ تر ہم اہل عرب کے حالات کو ہی جانتے ہیں، ترکی کے بارے میں زبان کی وجہ سے یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ہم زیادہ نہیں جانتے۔ ترکی میں ایک مفکر دانش ور اور صوفی مجاہد ہوئے ہیں، سعیدنورسی۔ اس وقت جتنا بھی احیا کا کام ہو رہاہے، اس کی جڑیں اگر آپ تلاش کریں تو وہ انھی کی شخصیت میں آپ کو نظر آئیں گی۔ یہ علامہ اقبال کے ہم عصر ہیں اور بڑی ایمان افروز باتیں ان کے رسائل نور میں موجود ہیں۔ اگر آپ ان کا مطالعہ کریں تو اس وقت جن مسائل اور مصیبتوں کا ہم شکار ہیں، ان کا ذکر رسائل نور میں ملے گا۔ سعید نورسی نے اس وقت سیکولر ترکی کے علاج کے لیے جو لائحہ عمل سوچا، وہ ہمارے لیے بڑا ہی سبق آموز ہے۔

جب۱۹۲۴ء میں خلافت ختم کر دی گئی اور عثمانیوں کو دیس نکالا دے دیا گیا تو وہاں ایک سیکولر حکومت بن گئی۔ آپ کو پتہ ہے کہ مصطفی کمال اتاترک نے دھوکے سے ایک تو دار الخلافہ انقرہ سے استنبول منتقل کر دیا اور دوسرا لوگوں کو جہاد کے نام پر ساتھ ملا کر ایک نئی حکومت کا اعلان کیا اور اس کے فوراً بعد اس نے وہ کفر بواح کیا جس کا ہم بار بار ذکر کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ میں کفر بواح کی جو چند مثالیں ملتی ہیں، ان میں مصطفی کمال اتاترک کے اقدامات سرفہرست ہیں۔ اس نے کلمہ طیبہ پر پابندی لگائی، نماز اور مسجدوں کو تالے لگا دیے، شعائر اسلام ڈاڑھی اور برقعہ پر اس نے حکماً پابندی لگائی اور باقاعدہ حکومتی طاقت سے ان فیصلوں کو نافذ کرواتا رہا۔ جو بھی اس کے مقابلے میں آتا تھا، اس کو وہ پھانسی دے دیتا تھا، عارضی عدالتیں اس نے بنائی ہوئی تھیں۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح کچھ لوگ جمع ہو کر امام احمد بن حنبل کے پاس گئے تھے اور انھوں نے ان لوگوں کو سمجھایا تھا اور لوگوں کو مسلح بغاوت سے باز رہنے کی تلقین کی تھی، اسی طرح مشرقی ترکی سے بعض علما سعید نورسی کے پاس گئے۔ ان میں زیادہ تعداد نقشبندی مشائخ کی تھی۔ سعید نورسی چونکہ ایک دانشور آدمی تھے اور مغربی فلسفہ، سائنس اور کلاسیکل علوم کے ماہر تھے اور ان کا ایک سوسائٹی پر اثر تھا، اس لیے علما سمجھتے تھے کہ اگر یہ شخص ہمارا ساتھ دے گا تو مصطفی کمال کی بے دینی کے خلاف ہماری جو مزاحمتی تحریک ہے، اس میں طاقت آ جائے گی۔ تو یہ لوگ وفد بنا کر نورسی کے پاس گئے۔ یہ ۱۹۲۴ء یا ۲۵ کی بات ہے۔ علما نے ان سے کہا کہ آپ ہماری سرپرستی کریں، چونکہ حکومت کی طرف سے اتنے واضح کفر کا ارتکاب ہو رہا ہے توہم احتجاجی تحریک شروع کرتے ہیں۔ نورسی صاحب نے زیادہ توقف کیے بغیر آنے والوں سے کہا کہ بات یہ ہے کہ تم جو بات کہہ رہے ہو، وج اپنی جگہ درست ہے، لیکن تم احتجاج کی اور مسلح بغاوت کی جو اسکیم بنا کر آئے ہو، یہ کتنا عرصہ جاری رہے گی؟ ایک سال، دو سال، تین سال؟ تمھارے پاس جتنے وسائل ہیں، وہ ختم ہو جائیں گے اور جیسے وہ باقی لوگوں کو پھانسیاں دے رہا ہے، اسی طرح تمھیں بھی پھانسی دے دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خون خرابہ ہوگا اور مسلمانوں کا خون بہہ جائے گا۔ سعید نورسی نے کہا کہ میں آپ کے اس منصوبے کے ساتھ ہرگز متفق نہیں ہوں، حالانکہ سعید نورسی وہ آدمی ہے جس نے جنگ عظیم اول میں ترکوں کی باقاعدہ قیادت کی۔وہ کرنل کے عہدے پر فائز تھے اور روسیوں کے خلاف باقاعدہ لڑتے رہے۔ یہ باقاعدہ مجاہد اور عسکری میدان کے آدمی تھے، لیکن جب ترکی کے اندر مسلمانوں کی بغاوت کی بات ہوئی تو انھوں نے سختی سے اس سے منع کر دیا۔ 

اس کے بعد سعید نورسی نے ترکیوں کو ایجوکیٹ کرنے کے بارے میں ایک بالکل مختلف لائحہ عمل اختیار کیا۔ آپ کو پتہ ہے کہ ان کی زندگی کے دو حصے ہیں۔ ایک ۱۹۲۵ء سے پہلے کے سعید نورسی القدیم تھے اور ایک سعید نورسی الجدید تھے۔ اس کے بعد وہ گوشہ نشین ہو گئے اور ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جیلوں میں اور تنہائیوں میں گزرا۔ درختوں پر بیٹھ کر اور جیلوں میں بیٹھ کر انھوں نے قوم کی راہنمائی کے لیے رسائل لکھنے شروع کیے۔ یہ رسائل بہت قیمتی لٹریچر کی حیثیت رکھتے ہیں اور اب نو دس جلدوں میں چھپ گئے ہیں۔ وہ دانش ور تھا، ذہین آدمی تھا، اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ کام لینا تھا۔ اس نے اس عرصے میں علمی طریقہ پر دلائل سے سیکولرازم کا مقابلہ کیا، قرآن پر جو مغربی اعتراضات تھے، ان کا جواب دیا، انھوں نے عقلیت پسندی کو رد کیا، ایمان کو دلوں میں راسخ کیا۔ وہ اکیلا آدمی تھا اور بتایا جاتا ہے انھوں نے پورے ترکی میں جو رسائل لکھے، ان کی تعداد سات لاکھ تھی۔ ان کے رسائل لکھنے کا مطلب یہ تھاکہ جس آدمی کے پاس وہ خط جاتا تھا، اگر خط پکڑا جاتا تھا تو وہ سیدھا پھانسی گھاٹ پہنچ جاتا تھا۔ مصطفی کمال کے کارندے اس کو پھانسی چڑھا دیتے تھے۔ 

ترکی میں اگر اس وقت مسلح جدوجہد ہو جاتی اور نورسی اپنا کام نہ کرتے جس کے مثبت نتائج اب نکل رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اتنا بڑا احیا وہاں نہ آتا۔ یہ ان کی دانش اور ان کی تحمل مزاجی تھی۔ انھوں نے دیکھاکہ نوجوان جوش وخروش میں آکر لڑیں گے، مریں گے، خون خرابہ ہوگا، دو تین سال کے بعد یہ بات نسیا منسیا ہو جائے گی۔ اگر وہ اس وقت جوش میںآ کر ہتھیار اٹھا لیتے اور لوگوں کو موبلائز کرتے تو بظاہر ایک بڑا آسان طریقہ تھا اور ان کے سامنے جواز بھی موجود تھا، لیکن آپ دیکھیں کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سعید نورسی ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو جاتے تو اس وقت ترکی میں جو احیائی عمل ہو رہا ہے، وہ شاید نہ ہو سکتا۔ وہاں اب تعلیم کے ادارے کھل رہے ہیں، فوج اور صحافت سے سیکولر عنصر نکل رہا ہے، یعنی خود بخود ایک طہارت کا عمل ہے جو قدرت وہاں ترکی مسلمانوں سے کر وا رہی ہے اور وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں اور قدرت انھیں مسلمانوں کی قیادت کے لیے تیار کر رہی ہے۔ ابھی گزشتہ انتخابات میں طیب اردگان بھاری اکثریت کے ساتھ تیسری مرتبہ جیت گیا ہے۔ یہ ایران کے انقلاب سے بڑا انقلاب ہے،لیکن ان لوگوں کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اس کو کیش کروانے کے لیے نہ شور کیا ہے، نہ ہڑتال کی ہے، نہ نعرے لگائے ہیں اور نہ بڑے بڑ ے جلسے کیے ہیں۔ جو لوگ ان کاوشوں میں شامل ہیں، وہ بھی خاموشی سے کام کر رہے ہیں، اور جو فرنٹ پر ہیں، وہ بھی خاموشی سے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ خرابی ہے کہ ہم نعرے بہت لگاتے ہیں، کام نہیں کرتے۔ وہ کام ہی کام کرتے ہیں، نعرہ نہیں لگاتے۔

ہمارے ہاں ایک عام نقطہ نظر اب پھیل رہا ہے کہ اسلام کی ترویج کے لیے اور کلمہ طیبہ کے احقاق کے لیے ہم تلواریں، کلاشنکوفیں اور بمبار ی کر کے ہی کوئی خدمت کر سکتے ہیں، حالانکہ جیسا کہ آپ نے فرمایا، خروج کے اور بے شمار طریقے ہیں۔ ایجی ٹیشن ہے، دھرنے ہیں، صحافت اب آزاد ہے، جمہوری ادارے ہیں، پہلے بادشاہتیں تھیں، اب بادشاہتیں نہیں ہیں۔ اب ادارے ہیں۔ تو قوم کے لیے یہ راہ نمائی کم سے کم ہماری طرف سے ہرگز نہیں جانی چاہیے کہ کسی بھی صورت میں مسلح خروج کی کوئی بھی شکل جائز ہے، خواہ حکمران کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ 

دور زوال میں، خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد مسلمانوں میں جو مزاحمتی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، یہ دو طرح کی تھیں۔ ہمیں ان کا تجزیہ کرنا چاہیے اوران پر بڑا غور وخوض کرنا چاہیے۔ ایک مزاحمتی تحریکیں وہ ہیں جو خلیج میں ہوئیں۔ انگریز نے عرب نیشنل ازم کا ایک نعرہ دیا عربوں کو جس کی وجہ سے عثمانی خلافت کے خلاف مزاحمت اور خروج ہوا اور خاص طور پر حجاز میں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی جہاد ہوتے رہے ہیں، لیبیا میں، الجزائر میں، مصر میں، تیونس میں، خو د پاکستان میں، وہ جہادی تحریکیں تھیں۔ یہ جہادی تحریکیں استعمار کے خلاف ہیں۔ ان دونوں قسموں میں ہم بعض اوقات فرق نہیں کرتے اور ان کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ پچھلے پچاس، سو سال میں ان تحریکوں کا جو نقد نتیجہ ہم اس وقت دیکھتے ہیں، جتنی بھی ہماری جہادی کاوشیں مسلم ممالک کے اندر ہوئی ہیں، ان کا نتیجہ سوائے خون خرابے کے ہمارے سامنے کوئی بھی نہیں ہے۔ آئندہ بھی اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا سوائے فتنہ پروری اور خون خرابے کے۔ اصل میں اسلام کو جو مطلوب ہے، وہ معاشرے کا تحفظ ہے، اہل اسلام اور اہل ایمان کے خون کا تحفظ اور معاشرتی امن زیاد ہ مطلوب ہے۔ باقی پرامن احتجاج کی بے شمار صورتیں ہیں جنھیں اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اب تو میڈیا ہے، جمہوریت ہے، بے شمار چیزیں ہیں جو مقصد کے حصول میں معاون ہو سکتی ہیں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

ڈاکٹر علی اکبر صاحب کی طرف سے بڑے اچھے نکات سامنے آ گئے۔ مثلاً انھوں نے ایک قابل مطالعہ موضوع کی نشان دہی کی کہ ہماری جو مسلح تحریکات ہیں، ان تحریکات سے جو نتائج مرتب ہونے چاہیے تھے، وہ کیوں مرتب نہیں ہوئے؟ اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ مثال کے طو رپر ۱۸۲۳ء، ۱۸۲۶ء میں ایک بہت ہی پرخلوص تحریک سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید نے اٹھائی، لیکن ہم نے دیکھا کہ خیبر پختون خواہ کے علاقے میں، جو پشتونوں کا علاقہ تھا اور بے انتہا دین کے ساتھ محبت کرنے والے لوگ تھے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا انجام بہت ہی افسوس ناک ہوا۔ یا مثلاً ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی تھی جس میں دین دار طبقہ بھی شامل تھا، ہندو بھی شامل تھے، مسلمانوں کے دین دار طبقے کی قیادت تھی، لیکن وہ وجوہات کیا تھیں کہ جو نتیجہ مرتب ہونا چاہیے تھا، وہ مرتب نہیں ہوا۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ دین دار طبقے نے ایک بڑی تحریک شروع کی جس کو ہم یاغستانی جہاد کہتے ہیں۔ پورا قبائلی علاقہ کوہ سیاہ سے لے کر وزیر ستان تک، یہ انگریزی استعمار کے خلاف برسرپیکار تھا۔ پھر اس کے نتیجے میں ریشمی رومال کی تحریک چلی جس میں یہ کوشش یہ کی گئی کہ ترکی کی حکومت، افغانستان کی حکومت اور سعودی عر ب کی مدد سے، جو اس وقت عربوں کا علاقہ تھا حجاز کا، انگریز کو برصغیر سے نکال جائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بھی ناکام ہوئی۔ پھر ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۰ء میں علما پرامن تحریکات کی طرف آئے اور پھر حالات نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ دو عالمی جنگوں کے بعد انگریز کی گرفت کمزور ہونے لگے اور انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے استعماری مقبوضات سے دستبردار ہوا جائے اور محکوم قوموں کو آزادی دے دی جائے۔ تو یہ تمام حالات وواقعات ایسے کہ جن کا ہمیں سنجیدہ تجزیاتی مطالعہ کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ دو موضوعات ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ ہم آئندہ مباحث میں شامل کر سکتے ہیں۔ ہم نے پشاور یونیورسٹی میں ایک طالب علم کو کام دیا ہے کہ وہ ’’عصر حاضر میں استبدال اقتدار کے ممکنہ شرعی طرق‘‘ کے عنوان پر تحقیقی مقالہ لکھے۔ اس میں یہی نکتہ زیر بحث ہوگا کہ شرعی طریقوں سے regime change کی نئی صورتیں جدید دور میں کیا ہو سکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہم نے احتجاج، انذار اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے جو پرانے اصول ہیں، ان کو جدید دور میں منطبق کرنا ہے۔ تو اس کو ہم آئندہ آنے والے کسی مذاکرے کاموضوع بناسکتے ہیں۔

ایک دوسرا موضوع ہے جو اب علماء کرام کے درمیان زیر بحث آنا چاہیے۔ہماری فقہ میں ایک اصطلاح ہے حرابہ۔ قدیم دور میں حرابہ کے دائرے میں قطاع الطریق والے، السرقۃ الکبریٰ والے مجرموں کو شمار کیا جاتا تھا۔ فقہا نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے۔ جدید دور میں حرابہ کرائمز کیا ہو سکتے ہیں؟ میرے خیال میںآئندہ آنے والے پروگراموں میں یہ موضوع بھی علما کے سامنے رکھا جا سکتا ہے، کیونکہ اس موضوع پربھی ابھی تک کوئی ٹھوس علمی کام سامنے نہیں آیا۔ اگر اس بارے میں بھی ہم تحقیق کا عمل آگے بڑھانے کی کوشش کریں تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔

ڈاکٹر اعجاز صمدانی 

زاہد صدیق صاحب نے بڑی اچھی گفتگو فرمائی اور فورم کے سامنے ایک سوال رکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر غور کر لینا چاہیے۔ ان کی بات کا مطلب جو میں سمجھا ہوں، وہ یہ ہے کہ خروج کا تصور یہ ہے کہ خلافت کا پہلے ایک تصور ہو، پھر اس کی اطاعت سے نکلا جائے تو اس کو خروج کہتے ہیں۔ اگر ریاست پہلے سے ہی اسلامی ریاست نہیں ہے تو اگر کوئی اس کی اطاعت سے نکل رہا ہے تو اس کو خروج نہیں سکتے۔

مولانا محمد سلفی

دوسرے لفظوں میں آپ اس سوال کو یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ کیا خلافت اسلامیہ کے خلاف جانا خروج ہے یا خلافۃ المسلمین کے خلاف جانا بھی خروج ہے؟ کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے، لیکن یہ بہت بڑا فرق ہے۔ اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔

زاہد صدیق مغل

شاید صحیح طرح سے میری بات کی وضاحت نہیں ہو سکی۔ خلافت کے نظام کی اصل روح یہ ہے کہ فیصلے کرنے کا، فیصلوں کے صدور اور ان کے نفاذ کاجو عمل ہے، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی بنیاد پر ہو اور جو ادارے ہیں، وہ اس بنیاد پر کام کریں۔ اب خلافت کے بہت سے درجات ہیں۔ ایک وہ ہے جس کو ہم خلافت راشدہ کہتے ہیں۔ خلفاے راشدین کے بعد بھی اموی یا عباسی خلافتیں تھیں۔ آپ انھیں سلطنت کہہ لیں یا امارت کہہ لیں۔ یہ اصطلاح کا اختلاف ہے۔ ایک امارت عادلہ ہوتی ہے کہ حاکم بہت نیک ہے اور بہت اچھے طریقے سے چلا رہا ہے، لیکن وہ تقوے کے اس معیار پر نہیں ہے جس پر خلفاے راشدین تھے۔ چونکہ ان سے کم تر معیار کا ہے، لہٰذا خلیفہ عادل کہلائے گا۔ اس کے بعد خلیفہ جابر آئے گاکہ جو نظام کے اندر معمولی نوعیت کی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد ایک درجہ وہ آ جاتا ہے کہ خلیفہ بالکل گمراہ ہے جس کو خلافت ضالہ کہتے ہیں اور اس کے بعد ایک امارت کفریہ آ جاتی ہے۔ تو ہماری کلاسیکی فقہ میں خروج کی جو اصطلاح ہے، وہ خلافت عادلہ یا خلافت ضالہ کے تناظرمیں ہوتی ہے۔ ایسا خلیفہ ، ایسی خلافت جو گمراہ ہے اور حاکم کافسق وفجور بہت بڑھا ہوا ہے، اس کی اطاعت سے نکلنے کو خروج کہتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ تمام احادیث جن میں خلفا کے خلاف خروج سے منع کیا گیا ہے، ان کا تعلق یا توخلیفہ عادل کے ساتھ ہے یا خلیفہ جابر کے ساتھ۔ کفریہ ریاست کے تناظر میں خروج کی نہیں، بلکہ جہاد کی بحث ہوتی ہے۔

ڈاکٹر اعجاز صمدانی 

خروج ایسا لفظ نہیں ہے کہ اس کو ایک خاص حد تک محدود رکھا جائے۔ خلفاے راشدین کے بعد بھی اگر کوئی خروج کر رہا ہے تو اس کو بھی خروج کہا گیا ہے۔ ابھی میں فتح الباری کی عبارت کا ایک حصہ پڑھ رہا تھا۔اس میں یہ ہے کہ: وقد اجمع الفقہاء علی وجوب طاعۃ السلطان المتغلب والجہاد معہ، وان طاعتہ خیر من الخروج علیہ۔ تویہ عبارت مفہوم کو کافی حد تک واضح کرتی ہے کہ اگر ایک سلطان ہے اور ہے بھی متغلب، خود بن کر بیٹھ گیا ہے جس کو ہم جبری حکومت کہتے ہیں، تو اس طرح کا کوئی آدمی اگر حکمران بن کر بیٹھ جاتا ہے تو ا س کے بارے میں تمام فقہا کا اجماع ہے کہ اس کی اطاعت کر لی جائے، یہ اس کے خلاف خروج کرنے سے بہتر ہے۔ تو فقہا اور شراح حدیث کے کلام سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ خروج کا لفظ کافی عام ہے اور اس کے اندر بہت زیادہ وسعت ہے۔ جیسے آپ نے ابھی ایک عنوان بتایا استبدال اقتدار کا۔ استبدال اقتدار کے لیے جدوجہد کرنا کہ موجودہ حکومت کی جگہ ہم اسلامی طرز کی حکومت لانے کی کوشش کریں، یہی خروج ہے۔ لا مشاحۃ فی الاصطلاح، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس کے لیے خروج کا لفظ نہ کریں، کوئی اور کریں۔ اگر کر لیا جائے تو اسے لفظ کے عمومی مفہوم کے خلاف کہنا مشکل ہوگا۔

زاہد صدیق مغل

میں بالکل ان کی بات سے اختلاف نہیں کر رہا کہ خروج چاہے خلیفہ راشد کے خلاف کیا جائے یا خلافت ضالہ کے خلاف کیا جائے، اس پر خروج کی اصطلاح لاگو ہوتی ہے۔ بحث صرف یہ ہے کہ جائز خروج کون سا ہے اور ناجائز کون سا؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ میرا پوائنٹ یہ ہے کہ خروج کی جو بحث ہے، وہ اسلامی ریاست کے تناظر میں ہوتی ہے۔ جب اسلامی ریاست ہی نہ ہو تو پھر خروج کی بحث اٹھانا قبل از وقت ہے۔ اس میں پھر جہاد کی بحث متعلق ہوتی ہے نہ کہ خروج کی۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

اس بحث سے جو نکتہ سامنے آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ اب لفظ خروج جو ہمارا فقہی لفظ ہے، جدید تناظر میں اس میں مزید تعبیرات کی گنجائش بن گئی ہے کہ جدید سیاسی اصطلاحات میں اس کے لیے کیا لفظ استعمال کیا جائے؟ اب ہم دور جدید میں خروج کے لیے جو اصطلاح استعمال کر سکتے ہیں، وہ ہے collective rejection of state authority۔ اگر لوگ اجتماعی انداز میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں تو اس کو خروج کہا جا سکتا ہے۔

قدیم زمانے میں جو حالات تھے، اس زمانے میں جس طریقے سے استبدال اقتدار کی کوششیں ہوتی تھیں، اس کے لیے لفظ خروج عموماً حکومت کی طرف سے استعمال کیا جاتا تھا کہ یہ لوگ خروج کر چکے ہیں اور باغی ہیں، ان پر سزا کا نفاذ ہونا چاہیے۔ یہ سرکاری لفظ ہوا کرتا تھا۔ لیکن جو خروج کرنے والے لوگ تھے، وہ اس کو خروج نہیں سمجھتے تھے۔ وہ اس کو سلطان جائر کے خلاف ایک جہاد سمجھتے تھے۔ تو سرکا ر کے لیے وہ خروج ہوتا تھا جو ایک قابل سزا جرم ہے، لیکن استبدال اقتدار کی مساعی کرنے والے لوگوں کے لیے یہ جہاد تھا۔ مثلاً اس وقت صومالیہ میں جس جماعت کی حکومت ہے، اس کا نام ہے عدالت اسلامی، اور یہ وہ لوگ ہیں جو صومالیہ میں اسلامی تحریک کا ہراول دستہ رہے ہیں۔ انھوں نے بڑی جدوجہد کی جس کے نتیجے میں ان کی حکومت آئی، لیکن ان کے خلاف جو اب collective rejection of authority ہے، وہ شباب اسلامی کے لوگ ہیں جو اسی تحریک کاایک حصہ رہے ہیں۔ اب عدالت اسلامی کے لوگ ان کو خروج کا مرتکب قرار دہے ہیں جبکہ شباب اسلامی کے لوگ اپنی کوششوں کو جہاد قرار دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک قضیہ بن گیا ہے اور اس میں ہماری راہنمائی علماء کرام ہی کریں گے۔

مفتی محمد ابراہیم قادری

ریاست چاہے اسلامی ہو یعنی اس میں اسلامی نظام نافذ ہو، یا وہ ریاست مسلم ریاست ہو جہاں مسلمان رہتے ہیں اور اس کے حکمران مسلمان ہوں، جیسے بھی مسلمان ہوں، کسی بھی ریاست میں رہنے والا باشندہ اس ریاست میں رہ کر اس کا شہری بن کر اس کا عملاً اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ میں اس کی رٹ کو اور اس کی اتھارٹی کو، اس کی تولیت کو تسلیم کروں گا۔ دنیا میں جتنی ریاستیں قائم ہیں، ان میں رہنے والے جتنے باشندے ہیں، ان پر یہ لازم ہوتا ہے۔ کتب فقہ میں ہدایہ ہمارے ہاں معتبر کتاب ہے۔اس میں یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ویزا لے کر دار الحرب میں جاتا ہے، مثلاً اسرائیل میں جاتا ہے تو اس پر حرام ہے کہ وہ وہاں کے باشندوں کے جان ومال کو نقصان پہنچائے، کیونکہ ویزا لے کر جانے کے معنی یہ ہیں کہ آپ امان لے کر کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں اور اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ اس ملک کے لوگوں او راموال کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ جب ایک مسلمان دار الحرب میں امان لے کر جائے تو وہ عہد شکنی نہیں کر سکتا اور وہ درحقیقت وہ معاہد ہوتا ہے تو جو مسلمان ریاست میں رہے، پلے بڑھے، یہاں اس کا استحقاق ہو، یہاں اس کی تعلیم ہو، جینا مرنا ہو، اس کی نوکری یہاں ہو، اس کو فوائد اس مملکت سے حاصل ہوں تو یقیناًاس کا معاہدہ اس ریاست کے ساتھ ہوتا ہے، خواہ اس کے حاکم اور اہل اقتدار فاسق ہوں یا فاجر ہوں، وہ اس بات کا پابند ہے کہ ریاست کی رٹ کو اور ریاست کی اتھارٹی کو تسلیم کرے۔

رہا یہ معاملہ کہ وہ امرا جو ہم پر مسلط ہیں، اگر وہ فاسق وفاجر ہیں تو کیا ان کے مظالم کو اور فسق وفجور کو قبول کیا جائے، کیا خاموش رہا جائے تو ایسا تو نہیں ہے کہ خاموش رہا جائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ ..... وذالک اضعف الایمان۔ اور فرمایا کہ افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر۔ تو ایک ہے احتجاج اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، یہ جائز ہے اور ایک ہے مسلح جدوجہد کے ذریعے حکومت کو گرانا۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے، یہ جائز ہے یا نہیں ہے اوریہ خروج ہے یا نہیں ہے؟ تو یہ یقیناً خروج ہے۔ خروج کی تعریف صرف یہ نہیں ہے کہ خلافت حقہ راشدہ اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے خلاف ہتھیار اٹھانا بغاوت ہے۔ نہیں، عوام نے جن لوگوں کو منتخب کیا اور انھیں اپنا حاکم تسلیم کر لیا، ان کے خلاف بھی بغاوت کرنا او رمسلح جدوجہد کرنا یہ خروج ہے اور ہمارے ائمہ نے اسے خروج ہی کا نام دیا ہے۔ چنانچہ دیکھیں، میرے سامنے شرح العقیدۃ الطحاویہ پڑی ہے۔ اس میں متن کے الفاظ یہ ہیں: لا نر ی الخروج علی ائمتنا و ولاۃ امورنا۔اب علامہ طحاوی کے دور میں کوئی خلافت راشدہ تھی کیا؟ وہ اپنے زمانے کے ائمہ کی بات کر رہے ہیں کہ اپنے زمانے کے ائمہ اور ولاۃ امور اور ہمارے امرا او رارباب اقتدار کے خلاف خروج کو ہم جائز نہیں سمجھتے۔ شاید وہ نیک ائمہ کی بات کر رہے ہوں۔ فرمایا: وان جاروا۔ اگرچہ وہ حکومت، حکومت ظالمہ کیوں نہ ہو۔ ولا ندعو علیہم۔ ہم ان پر لعن طعن بھی نہیں کریں گے کہ فلاں پر لعنت اور ہم ان کے لیے بد دعا بھی نہیں کریں گے۔ ولا ننزع یدا عن طاعتہم۔ بس یہ جو طاعت سے ہاتھ کھینچنا ہے، اسی کو بغاوت اور خروج کہتے ہیں جس کو آپ نے اتھارٹی تسلیم نہ کرنے کا نام دیا ہے۔ فرمایا، یہ بھی ہم جائز نہیں سمجھتے۔ ونری طاعتہم من طاعۃ اللہ عز وجل فریضۃ۔ ہم ان کی اطاعت کو اللہ عز وجل کی اطاعت سمجھتے ہیں، فریضہ سمجھتے ہیں۔ ما لم یامروا بمعصیۃ۔ جب تک کہ وہ معصیت کا حکم نہ کرے۔ ندعوا لہم بالصلاح والمعافاۃ۔ ہم ان کے لیے صلاح اور معافاۃ کی دعا کریں گے۔ تو اگر ائمہ، ائمہ جائرین ہیں او روہ معصیت کا حکم دیتے ہیں تو لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ ہم جائز طریقے سے احتجاج کر سکتے ہیں، لیکن خروج جائز نہیں ہے۔

ڈاکٹر اعجاز صمدانی

یہ بات ایک حدیث سے ثابت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لا تشغلوا قلوبکم بسب الملوک، کہ اپنے دلوں کو بادشاہوں کی گالیوں سے مت بھرو، جیسے آج کل ہمارے ہاں کیا جاتاہے۔ ولکن تقربوا الی اللہ تعالی بالدعاء لہم، بلکہ تم ان کے لیے دعا کر کے اللہ کی قربت اختیار کرو۔ نتیجہ یہ نکلے گاکہ یعطف اللہ قلوبہم علیکم، اللہ ان کے دلوں کو تم پرنرم کر دیں گے۔ ہمارے ہاں ایک عام فیشن سا ہو گیا ہے کہ ہم نے اس کو گالی بنانا ہے۔ یہ جو کلچر ہے، اس سے بہتری نہیں ہوتی، مزید ظلمت پیدا ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مثبت نکات کو سوچا جائے، دعا کی جائے، اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ طریقہ زیادہ مفید ہے۔

مولانا محمد سلفی

آپ نے امراء ظالمین کے لیے دعا کا جو ذکر کیا ہے، اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل کا یہ قول ہے کہ اگر مجھے پتہ ہو کہ اللہ رب العزت میری کون سی دعا قبول فرمالیں گے تو میں اپنے ائمہ سلطنت کے لیے اس دعا کو مخصوص کر دوں کہ مولا، تو ان کو سیدھا چلا دے۔ اس لیے کہ رہبر کے سیدھا چلنے میں امت کی بھلائی ہے اور رہبر کے ٹیڑھا ہونے میں امت کی ہلاکت ہے۔

محمد ضیاء الحق 

یہاں خروج کی بات ہو رہی ہے اور ہم طالبان کے خلاف بولنے سے بڑا گریز کر رہے ہیں۔ ایک تو ہم انھیں خوارج کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں، گویا یہ بڑے پارسا لوگ ہیں کہ ہم ان کو تابعی کا درجہ دے رہے ہیں۔ ہم طرح طرح کے طریقوں اور بہانوں سے طالبان کو چھوٹ دے رہے ہیں اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ تو یہ کب تک یہ چلے گا؟ ٹھیک ہے کہ فوج ظالم ہوگی، پولیس ظالم ہوگی، لیکن ڈاکٹر سرفراز نعیمی بھی ظالم ہو گئے؟ کل کراچی میں ایس ایس پی کے گھر پر حملہ ہوا تو ایک خاتون بھی اس کا شکار ہو گئی جو اپنے چھوٹے بچے کو اسکول چھوڑنے جا رہی تھی، کیا وہ بھی ظالم ہو گئی؟ سوال یہ ہے کہ کب تک ہم ان کو قالین کے نیچے چھپائیں گے؟

دوسری بات یہ کہ سلفی صاحب نے فرمایا کہ یہاں کسی کو مفتی اعظم بنایا جائے۔ صورت حال یہ ہے کہ آٹھ نو مہینے قبل خانہ کعبہ کے امام نے ایک فتویٰ جاری کیا کہ ہیلو کہنا حرام ہے، کیونکہ ہیلو جہنم کو کہتے ہیں۔ جب ہم نے اس کی تحقیق کی تو ایسا نہیں تھا۔ ہم نے انگریزی کی ساری ڈکشنریوں کو چیک کیا، نہ تو وہ سپیلنگ تھے اور نہ جہنم اس کا مطلب بنتا تھا۔ ہم نے جامعہ نعیمیہ کی طرف سے فتویٰ دیا کہ خانہ کعبہ کے مفتی اعظم تھوڑا سا غور وفکر کریں۔ ہمارا جواب ٹھیک تھا،لیکن دوسری طرف سے چھوٹے چھوٹے بیانات آنا شروع ہو گئے کہ خانہ کعبہ کے امام کے خلاف بولا جا رہا ہے۔ جب ہمارے مرکز ہی ٹھیک نہیں ہوں گے اور خانہ کعبہ کے مفتی اعظم بھی ہیلو کے اوپر اس طرح کے فتوے دیں گے تو یہ کب تک چلے گا؟ اس پر علماء کرام کیا فرماتے ہیں؟

مولانا اعجاز صمدانی

میں نے یہ گزارش کی تھی کہ طالبان کے بارے میں گفتگو شاید ہمارے موضوع سے براہ راست متعلق نہیں ہے، اس لیے اس پر زیادہ گفتگو کرنا شاید زیادہ مفید بھی نہیں ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ یہ جو واقعات پیش آ رہے ہیں، ہم تو ان کی تائید نہیں کر رہے۔ اس کو غلط کہتے ہیں۔ طالبان کے معاملے کو اور ان کی پوری صورت حال کو ہم نے ڈسکس بھی نہیں کیا۔ خاص طور پر افغانستان کے طالبان کو کو خروج کے زمرے میں لانا اس لیے بھی مناسب نہیں ہوگا کہ پہلے ان کی ایک حکومت قائم ہو چکی تھی۔ پھر امریکہ نے حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ حکومت ٹوٹی۔ اب وہ لوگ اپنی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہاں اگر پاکستان کے طالبان مرادہیں تو ان کی حمایت ہمارے ہاں سے بالکل نہیں ہو رہی۔ یہ بات بالکل واضح ہے۔ پاکستان میں جو طالبان کے نام سے لوگ کام کر رہے ہیں، اس میں سب سے پہلا doubt تو یہ ہے کہ کیا یہ واقعتا طالبان وہ ہیں جن کا ان سے تعلق ہے؟ یہ بہت بڑا doubt ہے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ہمیں ان کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں، اس کی ہم ہرگز تائید نہیں کرتے، مذمت کرتے ہیں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

جہاں تک قاتلانہ حملوں، اداروں اور رینجرز پر حملوں کی کارروائیوں کا تعلق ہے، اس کی تو کوئی بھی حمایت نہیں کرتا۔ جہاں تک اس بات کا تعین کرنا ہے کہ یہ کون کر رہا ہے یا کرا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔

مفتی محمد ابراہیم قادری

مفتی اعظم سعودی عرب کی بات کی گئی تو میں یہ کہوں گا کہ یہ سوال میرے پاس بھی آیا تھا اور ایک معروف عالم دین ہیں، انھوں نے مجھ سے فون پر کہا کہ مفتی اعظم سعودی عرب کا فتویٰ آیا ہے کہ ہیلو کہنا حرام ہے، کیونکہ ہیلو جہنم کو کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے خلاف ہم لکھ رہے ہیں اور اخبار میں اس کی خبردینا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا نام بھی دے دیں۔ میں نے کہا کہ میرا نام آپ نہ دیں۔ انھوں نے کہا کہ وجہ؟ میں نے کہا کہ جب تک مجھے معلوم نہ ہو کہ مفتی اعظم سعودی عرب نے یہ فتویٰ دیا ہے، میں کوئی راے زنی نہیں کر سکتا۔ مجھے پتہ ہی نہیں تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں؟ اس کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ بات ہی غلط ہے اور یہاں کے اخبارات نے خواہ مخواہ کا ایک شوشہ چھوڑا ہے۔ ابھی مولانا محمد سلفی صاحب نے بھی مجھے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے، ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا گیا۔

محمد عمار خان ناصر

یہاں مختلف حوالوں سے یہ بات ہوئی کہ ائمہ کے خلاف خروج کو، چاہے وہ جائر ہوں، فاسق ہوں، فاجر ہوں، ہمارے سلف کس زاویے سے دیکھتے تھے۔ اس پر واقعات کی روشنی میں اور حوالہ جات کی مدد سے بات ہوئی۔ اس کا ایک ایک پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کو بھی سامنے آ جانا چاہیے کہ سلف اس معاملے کو کیسے دیکھتے ہیں۔ امام طحاوی کی جو عبارت مفتی محمد ابراہیم صاحب نے پڑھی، اس کی شرح کرتے ہوئے عقیدہ طحاویہ کے شارح قاضی علی بن علی بن محمد بن ابی العز الدمشقی نے اس کے وجوہ واضح کیے ہیں کہ کیوں یہ درست نہیں ہے کہ ائمہ جابر، ظالم، فاسق، فاجر ہوں تو پھر بھی ان کی اطاعت ہی لازم ہے۔ ایک تو انھوں نے وہی بات بیان کی جو سب حضرات بیان کر رہے ہیں کہ یترتب علی الخروج عن طاعتہم من المفاسد اضعاف ما یحصل من جورہم۔ ان کے ظلم اور جبر سے جو مفاسد پیدا ہو رہے ہیں، ان کی اطاعت سے دست کش ہونے کی صورت میں اس سے کئی گنا زیادہ مفاسد سامنے آئیں گے۔ دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے ظلم پر صبر کرنے سے ہمارے گناہ معاف ہوں گے اور ہمارا اجر بڑھے گا۔ مزید فرماتے ہیں کہ ان اللہ تعالی ما سلطہم علینا الا لفساد اعمالنا، اللہ نے جابر اور فاسق حکمران جو ہم پر مسلط کیے ہیں تو ہمارے ہی اعمال کے فساد کی وجہ سے کیے ہیں۔ والجزاء من جنس العمل۔ہمیں توجہ اس پر دینی چاہیے کہ ہم حکمرانوں کے ظلم وجبرسے خلاصی پانے کے لیے خود اپنے باہمی معاملات میں ظلم اور نا انصافی کو چھوڑ دیں۔ علینا الاجتہاد والاستغفار والتوبۃ واصلاح العمل فاذا اراد الرعیۃ ان یتخلصوا من ظلم الظالم فلیترکوا الظالم۔ تو اس معاملے کا یہ پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ یہی بات بعض روایتوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک قول میں منقول ہے۔ ان سے کسی نے پوچھاکہ ہمیں اس طرح کے حکمران میسر نہیں جس طرح کے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر تھے۔ تو حضرت علی نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی رعیت ہم لوگ تھے اور ہماری رعیت تم لوگ ہو۔ تو یہ بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے کہ سلف اس صورت حال کو یک رخے انداز میں صرف حکمرانوں کے بگاڑ کے حوالے سے نہیں دیکھتے، بلکہ پورے معاشرے کی جو صورت حال ہے، اس کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

بہت خوب صورت محفل ہو رہی ہے اور ہمیں بہت علمی فائدہ بھی ہو رہا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہوگی کہ ان محفلوں کو ہم تشنہ ہی رکھیں تاکہ آئندہ دوبارہ ملنے کی ایک طلب ہو اور تحقیق کی اور غور وفکر کی طلب اور آئندہ دوبارہ مل کر تبادلہ خیال کی طلب بیدا ررہے۔

مولانا عبدالحق ہاشمی

ہمیں اس بحث کے اندر نسبتاً توازن کو برقرار رکھنے کے لیے جس طرح توجہ کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ جب ہم خروج کی مختلف شکلوں کے ناجائز ہونے کی بات کرتے ہیں تو فطرتاً ذہن کے اندر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اپنے مدعا کے اظہار کے لیے، اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے، اپنے حقوق کے حصول کے لیے کون سے ایسے ذرائع ہیں کہ جن کو ہمیں اختیار کرنا چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر اسی مجلس کو کسی وقت غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک نصیحت کا فورم ہے۔ ہمارے پاس تنفیذی طاقت تو نہیں ہے، یہ تو وعظ اورتبلیغ اور لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا ایک فورم ہے۔ تو جہاں ہم خروج کا راستہ اختیار کرنے والوں کے سامنے نصیحت کا یہ پہلو اور فتوے کا یہ پہلو رکھتے ہیں کہ جو کام تم کر رہے ہو، وہ برا ہے، ناجائز ہے، اس کو ترک کر دو تو اس کے نتیجے میں فطرتاً ہمیں یہ بتانا چاہیے کہ وہ کون سی جائز چیز ہے جس کو تم اختیار کر سکتے ہو۔ اس میں سیاسی حوالے سے عوامی بیداری ہے، لوگوں سے رابطہ ہے، لوگوں کی ذہن سازی ہے، لوگوں کے اندر ایک شعور پیدا کرنا ہے کہ حقوق کے حصول کے لیے یہ جائز طریقے اختیارکیے جا سکتے ہیں، ان کا ذکر بھی آنا چاہیے۔

دوسری بات جو اس موضوع سے متعلق ہے، وہ یہ ہے کہ ایک تو بحث ہے خروج کے جائز یا ناجائز ہونے کی۔ دوسرا اسباب خروج کی بحث ہے۔ جب ہم نصیحت کرتے ہیں عوام کو تو جو حکمران ظلم کر رہے ہیں ، ان حکمرانوں کو نصیحت کا کوئی میکنزم بھی ہمارے ہی سامنے ہونا چاہیے جس پر ہم لوگوں کو مزید منظم کریں تاکہ ان ذرائع اور وہ اسباب کی روک تھام کی جا سکے جو حکومتوں کی جانب سے مسلسل سامنے آتے اور ان کے نتیجے میں رد عمل پیدا ہوتا ہے اور خروج تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ انسانی دنیا کے اندر دیکھا یہی گیا ہے اور تجربہ یہی ہے کہ جہاں بھی عدل وانصاف رہا ہے، وہاں کوئی خروج کی تحریک نمودار نہیں ہوئی۔ ہمیشہ ظلم وجور کے نتیجے میں اور تعدی کے نتیجے میں اس طرح کی تحریکیں پیدا ہوئی ہیں۔ توہماری نصیحت کا ایک مرکز تو عوام ہیں اور دوسرا محمل وہ حکمران بھی ہیں، ہمیں ان دونوں پہلووں پر اس طرح توجہ کرنی چاہیے کہ ہماری گفتگو یک طرفہ نہ ہو۔

ڈاکٹرقبلہ ایاز

میں نے ایک موضوع کی طرف اس محفل کی توجہ مبذول کرائی ہے ’’عصر حاضر میں استبدال اقتدار کے ممکنہ شرعی طرق۔‘‘ اگر ہم خروج کے خلاف باتیں کر رہے ہیں کہ خروج نامناسب ہے تو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ممکنہ شرعی متبادل کیا ہیں؟ میں نے اسی وجہ سے یہ تجویز رکھی تھی۔

محمد نواز کھرل

زاہد صدیق صاحب نے ایک سوال ایسا اٹھایا ہے کہ جو تشنہ رہ گیا ہے، کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ بتانا پڑے گاکہ کون سا خروج درست ہے او رکون سا غلط ہے؟ میرے خیال میں ائمہ کرام میں سے کسی نے کسی بھی خروج کو جائز قرار نہیں دیا۔ اس حوالے سے اگر شرکاے محفل وضاحت کر دیں تو بہتر ہے۔

مولانا اعجاز صمدانی

مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ’’جزل الکلام فی عزل الامام‘‘ میں خروج کی مختلف صورتوں کا ایک پورا ٹیبل بنایا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خروج یا مبنی علی الکفر ہوگا یا مبنی علی الفسق ہوگا۔ اگر مبنی علی الکفر البواح ہے تو خروج جائز ہے۔ اگرمبنی علی الفسق ہے تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں۔فسق متعدی ہوگا یا غیر متعدی ہوگا۔ غیر متعدی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنی حد تک فسق میں مبتلا ہے تو اس صورت میں بھی خروج جائز نہیں ہے۔ اگر فسق متعدی ہے تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں۔ متعدی بالاموال ہے یا متعدی بالاعراض۔ اگر مالوں پر ہے تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں۔ وہ جو مال ظلماً لے رہا ہے، اس کا کوئی شرعی جواز ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ظالمانہ ٹیکس ہے تو ٹیکس لینے پر بھی خروج جائز نہیں ہے۔ اور اگر ایسا ظالمانہ ہے کہ بہت زیادہ ہے اور اس کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے تو اس میں کہا ہے کہ اپنا دفاع کریں، خروج پھر بھی نہ کریں۔ پھر فسق متعدی کی بنیادی صورت ایک ہی ہے، اکراہ کہ حاکم دوسروں کو بھی گناہ پر مجبور کر دے۔اس کی میں نے وضاحت کی تھی کہ اس کی بھی صورتیں ہوں گی۔ اکراہ استخفاف کے ساتھ ہوگا یا نہیں۔ اگر بغیر استخفاف کے ہو تو اس میں بھی خروج جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر استخفاف کے ساتھ ہے تووہ دراصل کفر کی ایک صورت ہے جس کے خلاف خروج کی گنجائش ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

میں سمجھتا ہوں کہ علماء اور فقہا نے ان موضوعات پر ہماری بڑی جامع راہ نمائی کی ہے، لیکن یہ راہ نمائی اس وقت نہ ہمارے دینی طبقے کے پاس عام طور پر موجود ہے اور نہ یہ راہنمائی ہم عوام تک پہنچا رہے ہیں۔انگریزی مقولے کے ساتھ میں اس محفل کو اختتام تک پہنچانا چاہوں گاکہ

It is not for you to complete the task, but neither are you free to withdraw from it. 

آپ پایہ تکمیل تک تو اسے نہیں پہنچا سکتے، لیکن اس کی بھی آپ کو اجازت نہیں ہے کہ آپ اس کو درمیان میں چھوڑ دیں۔ تو ان شاء اللہ ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ امید ہے کہ نئے موضوعات بھی سامنے آئیں اور یہ موضوعات بہت تفصیل طلب ہیں، ان کی تفصیل کی طرف بھی ہم آئیں گے۔ ان شاء اللہ ان موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اسلام اور سیاست

(مارچ ۲۰۱۲ء)

مارچ ۲۰۱۲ء

جلد ۲۳ ۔ شمارہ ۳

ابتدائیہ ’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘
محمد عمار خان ناصر

اسلام کا تصور جہاد ۔ چند توضیحات
مولانا محمد یحیی نعمانی

جہاد ۔ ایک مطالعہ
محمد عمار خان ناصر

’’پر امن طریق کار‘‘ بمقابلہ ’’پر تشدد طریق کار‘‘
محمد رشید

حکمرانوں کی تکفیر اور خروج کی بحث
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (پہلی مجلس مذاکرہ)
ادارہ

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (دوسری مجلس مذاکرہ)
ادارہ

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (تیسری مجلس مذاکرہ)
ادارہ

پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست ہے
الشیخ ایمن الظواہری

عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ
محمد زاہد صدیق مغل

غلط نظام میں شرکت کی بنا پر تکفیر کا مسئلہ ۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں
مولانا مفتی محمد زاہد

تکفیر اور خروج : دستورِ پاکستان کے تناظر میں
محمد مشتاق احمد

کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہ
محمد عمار خان ناصر

پروفیسر مشتاق احمد کا مکتوب گرامی
محمد مشتاق احمد

خروج ۔ کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ، فکر اقبال کے تناظر میں
محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter