انتخاب و ترجمہ: مولانا سراج نعمانی، نوشہرہ صدر
(جناب ابو سلمان شاہجہانپوری کی کتاب ’’تحریکِ نظمِ جماعت‘‘ سے انتخاب)
اجتماعیت کا حکم
اسلام نے مسلمانوں کے تمام اعمالِ حیات کے لیے بنیادی حقیقت یہ قرار دی ہے کہ کسی حال میں بھی فرادٰی، متفرق، الگ الگ اور متشتت نہ ہوں، ہمیشہ موتلف، متحد اور کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ہو کر رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں جابجا اجتماع و وحدت پر زور دیا گیا ہے۔ اور کفر و شرک کے بعد کسی بدعمل سے بھی اس قدر اصرار و تاکید کے ساتھ نہیں روکا جس قدر تفرقہ و تشتت سے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کے تمام احکام و اعمال میں یہ حقیقت اجتماعیہ بمنزلہ مرکز و محور کے قرار پائی اور ۔۔۔۔اسی لیے نظمِ اقوامِ ملت کے لیے منصبِ خلافت کو ضروری قرار دیا گیا کہ تمام متفرق کڑیاں ایک زنجیر میں منسلک ہو جائیں۔ (ص ۲۴)
اعمال کی اقسام
اعمالِ شریعت دو قسم کے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی۔ انفرادی سے مقصود وہ اعمال ہیں جن کو الگ الگ ہر فرد انجام دے سکتا ہے جیسے نماز، روزہ۔ اجتماعی سے مقصود وہ اعمال ہیں جن کی انجام دہی کے لیے جماعت کا ہونا ضروری ہے، الگ الگ ہر فرد انجام نہیں دے سکتا جیسے جمعہ ۔۔۔ مثلاً جمعہ کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہ ہو گا کہ ادائے جمعہ کا طریقہ بتلا دیا جائے بلکہ جماعت کا انتظام بھی کرنا چاہیئے تاکہ جمعہ عملاً انجام پا سکے۔ گویا پہلی قسم کے (انفرادی) (ناقل) اعمال کی تبلیغ کے لیے اس قدر کافی ہے کہ ان کے وجوب و عمل کا حکم دے دی جائے اور بتلا دیا جائے کہ لوگ اس طرح انجام دیں۔ لیکن دوسری قسم کے لیے اتنا ہی کافی نہیں ہے، حصول و قیام کا بھی انتظام کرنا چاہیئے کیونکہ انفرادًا وہ اعمال انجام نہیں پا سکتے جب تک جماعت کا انتظام نہ ہو جائے مثلاً جمعہ۔۔۔ (ص ۲۹۱)
ہندوستانی مسلمانوں کی حالت
دس کروڑ مسلمان جو کرۂ ارض میں سب سے بڑی یکجا اسلامی جماعت ہے ہندوستان میں اس طرح زندگی بسر کر رہی ہے کہ نہ تو اس میں کوئی رشتہ انسلاک ہے نہ وحدتِ ملت کا کوئی رابطہ ہے نہ کوئی قائد و امیر ہے۔ ایک انبوہ ہے ایک گلہ ہے جو ہندوستان کی آبادیوں میں بکھرا ہوا ہے اور یقیناً ایک حیاتِ غیر شرعی و جاہلی ہے جس میں پوری اقلیم مبتلا ہو گئی ہے۔
بھیڑ اور جماعت میں فرق
پہلی چیز (بھیڑ) بازاروں میں نظر آتی ہے جب کوئی تماشا ہو رہا ہو۔ دوسری چیز جمعہ کے دن مسجدوں میں دیکھی جا سکتی ہے جب ہزاروں انسانوں کی منظم و مرتب صفیں ایک مقصد، ایک جہت، ایک حالت اور ایک ہی (امام) کے پیچھے جمع ہوتی ہیں ۔۔۔۔ شریعت نے مسلمانوں کے لیے جہاں انفرادی زندگی کے اعمال مقرر کیے ہیں وہاں ان کے لیے اجتماعی نظام بھی قرار دے دیا ہے۔ وہ کہتی ہے زندگی اجتماع کا نام ہے۔ افراد و اشخاص کوئی شے نہیں۔ جب کوئی اس نظام کو ترک کر دیتی ہے تو گو اس کے افراد فردًا فردًا کتنے ہی شخصی اعمال و طاعات میں سرگرم ہوں لیکن یہ سرگرمیاں اس بارے میں کچھ سودمند نہیں ہو سکتیں اور قوم ’’جماعتی معصیت‘‘ میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ قرآن و سنت نے بتلا دیا ہے کہ شخصی زندگی کے معاصی کسی قوم کو یکایک برباد نہیں کرتے۔ اشخاص کی معصیت کا زہر آہستہ آہستہ کام کرتا ہے لیکن جماعتی معصیت کا غم ایسا تخمِ ہلاکت ہے جو فورًا بربادی کا پھل لاتا ہے اور پوری کی پوری قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ شخصی اعمال کی اصلاح و درستگی بھی نظامِ اجتماعی کے قیام پر موقوف ہے۔ مسلمانانِ ہند جماعتی زندگی کی معصیت میں مبتلا ہیں اور جب جماعتی معصیت سب پر چھا گئی تو افراد کی اصلاح کیونکر ہو سکتی ہے؟ (ص ۳۰)
جماعتی زندگی کی معصیت
جماعتی زندگی کی معصیت سے مقصود یہ ہے کہ ان میں ایک جماعت بن کر رہنے کا شرعی نظام مفقود ہو گیا ہے۔ وہ بالکل اس گلے کی طرح ہیں جس کا انبوہ جنگل کی جھاڑیوں میں منتشر ہو کر گم ہو گیا ہو۔ وہ بسا اوقات یکجا ہو کر اپنی جماعتی زندگی کی نمائش کرنا چاہتے ہیں، کمیٹیاں بناتے ہیں، کانفرنسں منعقد کرتے ہیں لیکن یہ تمام اجتماعی نمائشیں شریعت کی نظر میں بھیڑ اور انبوہ کا حکم رکھتی ہیں، جماعت کا حکم نہیں رکھتی۔ (ص ۲۸)
دین کامل
اسلام کا اعلان ہے کہ دین کامل ہو چکا ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینْکَمُ‘ْ‘ اور دین کامل وہی ہے جو اپنے پیروؤں کی ہر عہد اور ہر حالت میں رہنمائی کر سکے۔ پس اگر اسلام مسلمانوں کو ایسے اہم اور بنیادی معاملے (اتفاق و اجتماعیت) میں یہ بھی نہیں بتلا سکتا کہ انہیں کیا کرنا چاہیئے؟ حتٰی کہ وہ مہینوں سرگرداں و حیران رہتے ہیں، پے در پے مشوروں کے جلسے کرتے ہیں، متحیر ہو کر ایک دوسرے کا منہ تکتے ہیں اور پھر مجبور ہوتے ہیں کہ کسی غیر شرعی تجویز پر کاربند ہونے کا اعتراف کر لیں تو اس سے بڑھ کر اسلام کی بے مائگی و تہی دستی اور نقصِ شریعت کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے؟ (ص ۲۹۳)
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اسلام مسلمانوں کو روزانہ ضروریات و اعمال کی چھوٹی چھوٹی باتیں تک بتلا دے لیکن یہ نہ بتلا سکے کہ چھ کروڑ انسان اپنا ایمان کیونکر محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ پس اگر خلافت کا مسئلہ دینی مسئلہ ہے تو اس کی جدوجہد کی ہر منزل کے لیے شریعت کے احکام کو بھی بالکل اسی طرح صاف اور واضح ہونا چاہیئے جیسے ’’اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ‘‘۔ اگر کہا جائے کہ احکام ہم کو معلوم ہیں مگر ہندوستان میں ہماری حالت ایسی مجبوری اور بے بسی کی ہے کہ ان پر عمل نہیں کر سکتے۔ تو یہ مجبوری دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا واقعی ہے یا غیر واقعی۔ اگر واقعی نہیں ہے تو وہ عذر ہی نہیں اور واقعی ہے تو خدا کی شریعت عادلہ انسان کی فلاح و صلاح کے لیے ہے ۔۔۔۔ اس نے ہر حالت کے لیے حکم دیے ہیں اور ہر طرح کے عذروں کی پذیرائی کی ہے اور ہر قسم کے حالات و مقتضیات کی راہیں باز رکھی ہیں۔ طہارت کے لیے وضو کا حکم دیا ہے لیکن اگر عذر پیش آجائے تو معذور کے لیے تیمم کا حکم بھی موجود ہے۔ معذور کے لیے تیمم کا عمل ویسا ہی صحیح و کامل ہے جیسے غیر معذور کے لیے وضو۔ پس اگر ہندوستان میں مسلمانوں کو واقعی عذرات درپیش ہیں تو عذرات کی صورت میں بھی مثلِ حکمِ تیمم کے کوئی حکم ہونا چاہیئے۔ وہ حکم کیا ہے؟ اس کو بتلایا جائے اور (اس پر) عمل کرنا چاہیئے۔
مسلمان حکومت و سلطنت سے تہی دست ہو جائیں لیکن خدا کے لیے اسلام کو راہنمائی و ہدایت سے تہی دست ثابت نہ کرو۔ چھ کروڑ مسلمانوں میں ایک بھی خدا کا بندہ ایسا نہ رہا جو اسلام کے نورِ علم و ہدایت سے اس ظلمت و کورئ ملت کو دور کر سکے اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر بلا سکے کہ ’’عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَبَعَنِیْ ‘‘۔ کیا اسلام کی قوتِ تعلیم و تربیت اب اس قدر نامراد ہو گئی ہے کہ نکموں کی اس پوری اقلیم میں ایک بھی کام کا انسان پیدا نہیں کر سکتی۔ کسی زمانے میں ہر دوسرا مسلمان راہنما ہوتا تھا، کیا اب پورے چھ کروڑ مسلمانوں میں ایک بھی ایسا شریعت دان نہیں جو ازروئے شریعت لوگوں کی راہنمائی کر سکے؟ ’’اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیْدٌ‘‘۔ (ص ۲۹۶)
وقت کا تقاضا
آج وقت کی سب سے بڑی اور ادائے فرضِ اسلامی کی سب سے نازک اور فیصلہ کن گھڑی ہے جو آزادیٔ ہند اور مسئلہ خلافت کی شکل میں ہمارے سامنے آ گئی ہے۔ ہندوستان میں دس کروڑ مسلمان ہیں۔۔۔فی الحقیقت احکامِ شرع کی رو سے مسلمانانِ ہند کے لیے صرف دو ہی راہیں تھیں اور اب بھی دو ہی راہیں ہیں۔ یا تو ہجرت کر جائیں یا نظامِ جماعت قائم کر کے ادائے فرضِ ملت کے لیے کوشاں ہوں۔ (ص ۲۸)
احکامِ شریعت پر کامل ۳۵ برس تک میں نے پوری طرح غور و خوض کیا اور اس ۳۵ سال کے عرصے میں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس کی کوئی صبح کوئی شام اس فکر سے خالی گزری ہو۔ بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ واضع شریعت کا منشا یہ ہے کہ اس کے احکام یک جماعتی نظام کے تحت اجراء پائیں، لیکن مسلمانوں نے اس جماعتی نظام کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ (ص ۹۴)