اخلاص اور اس کی برکات

الاستاذ السید سابق

ترجمہ و ترتیب: حافظ مقصود احمد


اخلاص یہ ہے کہ انسان کا قول، عمل اور ہر کوشش صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، اس کی رضا کے لیے ہو، اس کے قول و عمل میں طلبِ جاہ و مال یا ریا نہ ہو۔

اسلام میں اخلاص کی اہمیت

قرآن میں متعدد بار اخلاص کی طرف دعوت دی گئی ہے، فرمایا:

وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین۔ (البینہ)

’’اور ان کو یہی حکم ہوا کہ صرف اللہ ہی کی بندگی کریں۔‘‘

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اعمال کی قبولیت کا مدار اخلاص ہی کو ٹھہرایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بروایت ابن ابی حاتم، عن طاووس ۔۔۔) ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں حج کرتا ہوں اور مناسک کی ادائیگی کے وقت میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ لوگوں کو میرا ان مناسک کو ادا کرنا معلوم ہو جائے، وہ دیکھیں کہ میں یہ نیک اعمال کر رہا ہوں ۔۔۔ آپؐ نے سن کر کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:

فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملًا صالحًا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدً‌ا (الکہف)

’’پھر جس کو اپنے رب سے ملنے کی امید ہو وہ نیک کام کرے اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘

اخلاص کمالِ ایمان کی دلیل ہے

ابوداؤدؒ اور ترمذیؒ نے سند حسن کے ساتھ روایت کی ہے:

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من احب اللہ و ابغض للہ و اعطٰی للہ و منع للہ فقد اتکمل الایمان۔

’’جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے بغض رکھا، اسی کے لیے دعا اور اسی کی خاطر روکا، تو اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا۔‘‘

اللہ سبحانہ دلوں کو دیکھتے ہیں مظاہر اور اشکال کو نہیں دیکھتے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے:

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان اللہ لا ینظر الیٰ اجسامکم ولا الی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم۔ (مسلم)

’’اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتے بلکہ وہ تمہارے دلوں (کی نیتوں) کو دیکھتے ہیں۔‘‘

ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، ایک آدمی اپنی بہادری کے اظہار کے لیے لڑتا ہے، ایک آدمی قومی حمیت کے تحت لڑتا ہے، ایک آدمی دکھاوے کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے کون شخص راہِ خدا میں لڑ رہا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، جو شخص اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے وہ جہاد فی سبیل اللہ کرتا ہے یعنی جس کا لڑنا کلمہ حق کی سربلندی کے لیے ہو وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہے۔ (بخاری و مسلم)

عمل کا معیار

کوئی عمل اس وقت تک عمل خیر نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اس کے کرنے میں نیت نیک نہ ہو اور خالص اللہ کے لیے نہ ہو کیونکہ ہر عمل کی ایک غایت ہوتی ہے اور غایت اولٰی ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ سوائے خیر کے کسی کام کا حکم نہیں کرتا اور سوائے خیر کے کسی چیز کو پسند نہیں فرماتا۔ لہٰذا انسان کی تمام زندگی کا مقصد اپنے لیے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے طلبِ خیر ہونا چاہیئے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول انما الاعمال بالنیات، وانما لکل امرئٍ ما نوی، فمن کانت ھجرتہ الی اللہ ورسولہ فھجرتہ الی اللہ ورسولہ ومن کانت ھجرتہ الی دنیا یصیبھا او امراۃ ینکحھا، فھجرتہ الی ما ھاجر الیہ۔ (بخاری و مسلم)

’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ ہر آدمی کو اسی کا اجر ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ لہٰذا جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی تو اس کا اسے ثواب ملے گا اور اگر کسی نے کسی دنیاوی غرض کے لیے ہجرت کی تو اسے وہی کچھ ملے گا اور اگر کسی عورت کے لیے ہجرت کی (تو ہو سکتا ہے کہ) اس سے نکاح کر لے لیکن آخرت میں ان کا اجر مرتب نہ ہو گا۔‘‘

اخلاص کی قیمت

اخلاص اور نیک نیت سے انسان کو رفعت و بلندی عطا ہوتی ہے اور اس کو ابرار کی منازل پر لے جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

طوبٰی للمخلصین: الذین اذا حضروا لم یعرفوا ۔۔۔ اذا غابوا لم یفتقدوا ۔۔۔ اولئک مصابیح الھدی تنجلی عنھم کل فتنۃ ظلماء۔ (رواہ البیہقی عن ثوبانؓ)

’’مخلصین کے لیے بشارت ہو، وہ لوگ کہ جب وہ کسی جگہ موجود ہوں تو کوئی انہیں جانتا نہ ہو، اور جب وہ کسی جگہ موجود نہ ہوں تو ان کی کمی محسوس نہ ہو، یہی لوگ ہدایت کے چراغ ہیں، انہی کی برکت سے انسان پر آئی ہوئی مصیبت ٹلتی ہے۔‘‘

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم سے پہلے لوگوں کا واقعہ ہے کہ تین آدمی سفر کے لیے نکلے، دورانِ سفر ایک غار میں پناہ کے لیے ٹھہر گئے، اچانک غار کے دہانے پر ایک بڑا پتھر گرا اور باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا (پتھر اتنا بڑا تھا کہ ان کے زور لگانے کے باوجود نہ ہلا) پھرآپس میں مشورہ کیا اور کہا کہ یہ پتھر خدا ہی ہٹائے تو ہٹے گا، لہٰذا اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر اس سے دعا کریں کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دے۔ ان میں سے ایک نے کہا، یا اللہ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے، میں کھانے پینے کی ہر چیز پہلے انہیں دیتا اور بعد میں اپنے بیوی بچوں کو کھلاتا، ایک دن ایسا ہوا کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کے لیے بہت دور نکل گیا، واپس لوٹا تو وہ سو چکے تھے، میں نے ان کے لیے دودھ دوہا اور لے کر ان کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں، انہیں جگانا میں نے مناسب نہ سمجھا اور ان سے پہلے اپنے بچوں کو دینا بھی مجھے گوارا نہ ہوا حالانکہ وہ میرے قدموں میں بھوک کے مارے بلبلاتے ہوئے سو گئے۔ پیالہ ہاتھ میں پکڑے میں اسی طرح کھڑا رہا اور میرے ماں باپ سوتے رہے حتٰی کہ صبح ہو گئی اور وہ ازخود اٹھے اور دودھ پیا ۔۔۔۔ یا اللہ! اگر میرا یہ عمل خالص تیری رضا کے لیے تھا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔ (قدرت خداوندی سے) پتھر تھوڑا سا سرک گیا لیکن نکلنے کی جگہ نہ بن سکی۔

دوسرا بولا، یا اللہ! میری ایک چچازاد بہن تھی جو مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب تھی (ایک روایت میں ہے کہ میں اس سے شدید محبت کرتا تھا جیسی ایک مرد کسی عورت سے کر سکتا ہے) میں نے اسے اپنے ڈھب پر لانا چاہا لیکن وہ ہر بار میری بات ٹال دیتی یہاں تک کہ اس پر قحط کی نوبت آ گئی۔ میں نے اسے ایک سو بیس دینار دیے اس شرط پر کہ وہ میری حاجت پوری کرے گی۔ وہ (بیچاری بامر مجبوری) میری بات مان گئی۔ یہاں تک کہ جب میں اس پر پوری طرح قادر ہو گیا تو کہنے لگی (اے اللہ کے بندے) خدا سے ڈر اور جس مہر کو اللہ تعالیٰ نے لگایا اس کو ناحق نہ توڑو (عقد شرعی کے بغیر ایسا مت کرو) میں فورً‌ا اس سے علیحدہ ہو گیا حالانکہ وہ مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب تھی اور جو سونا (بصورت دینار) اسے دیا تھا وہ بھی اسی کے پاس رہنے دیا۔ یا اللہ! اگر میرا یہ عمل خالص تیرے لیے تھا تو تو ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما، پتھر تھوڑا سا اور سرک گیا۔

تیسرے نے کہا، میں نے کچھ مزدور کام پر لگائے، سب کو میں نے مزدوری دے دی سوائے ایک مزدور کے جو مزدوری لیے بغیر ہی چلا گیا۔ میں نے اس کی رقم کاروبار پر لگا دی جس سے بہت زیادہ مال و دولت جمع ہو گیا، وہ کچھ عرصے کے بعد آیا اور اپنی مزدوری طلب کی۔ میں نے تمام اونٹ، گائے اور بھیڑ بکریاں اس کے سامنے کر دیں اور کہا کہ یہ سب تمہارے ہیں۔ اتنا مال دیکھ کر وہ کہنے لگا، اللہ کے بندے! میرے ساتھ مذاق مت کرو۔ میں نے کہا کہ یہ مذاق نہیں (بلکہ سب مال تمہارا ہے اور ساتھ ہی تمام ماجرا سنایا کہ میں نے تمہارا مال تجارت پر لگایا اور اس طرح یہ مال بڑھ گیا)۔ اس نے مال لیا اور چلا گیا اور کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔ یا اللہ! اگر میرا یہ عمل خالص تیری رضا کے لیے تھا تو تو ہمیں اس مصیبت سے نجات دے۔ چنانچہ وہ پتھر ہٹ گیا اور وہ (خوش خوش) نکل کر چلے گئے۔ (بخاری و مسلم)

جو شخص صفت اخلاص سے متصف ہو گا اسے کامیابی حاصل ہو گی۔ جس جماعت میں ایسے افراد ہوں گے اس جماعت میں خیر و برکات کا دور دورہ ہو گا، گھٹیا صفات اس میں معدوم ہوں گی۔ دنیاوی شہوات ان سے مرتفع ہوں گی۔ ملت میں اعلیٰ مقاصد کا حصول ان کا مطمع نظر ہو گا اور معاشرے میں امن و سلامتی عام ہو گی۔

یہ اخلاص ہی کی برکت تھی کہ صحابہؓ میں ریا، نفاق اور جھوٹ بالکل معدوم تھا۔ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کا حصول ہی ان کا مقصدِ حیات تھا۔ تمام صحابہؓ اقامتِ دین، اعلاء کلمۃ اللہ، عدل و انصاف کو عام کرنے اور رضائے خداوندی کو اصل مقصود سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکومت و شوکت عطا فرمائی، دنیا کا مقتدا بنایا اور وہ تمام عالم کے سردار بن گئے۔

عمل میں اگر کچھ کمی بشری کمزوری کی وجہ سے رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اخلاص کی برکت سے اس عمل کا پورا پورا اجر فرما دیتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے غزوۂ تبوک میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، آپؐ نے فرمایا (ہم تو یہاں جہاد کر رہے ہیں لیکن) مدینہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کوئی سفر نہیں کیا کوئی وادی طے نہیں کی مگر (ثواب میں) وہ تمہارے ساتھ ہیں، انہیں مرض نے گھیر لیا (ورنہ نیت ان کی بھی جہاد کی تھی) ۔ اور ایک روایت میں ہے ’’مگر ثواب میں وہ تمہارے ساتھ شریک ہیں‘‘ (ابوداؤد اور ترمذی)۔

حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص نیند کے غلبہ کی وجہ سے سحری کو اٹھ کر نماز نہ پڑھ سکے اسے اللہ تعالیٰ نماز کا ثواب دیتے ہیں اور نیند پر اس کو صدقے کا ثواب ملتا ہے۔

سہل بن حنیفؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:

من سأل اللہ الشھادۃ بصدق، بلغہ اللہ منازل الشھداء وان مات علی فراشہ۔

’’جو اللہ تعالیٰ سے شہادت کی دعا مانگے تو اللہ اسے شہداء کا مرتبہ عطا فرماتا ہے اگرچہ وہ اپنے بستر پر ہی کیوں نہ مرے۔‘‘

ریا اور بری نیت

جس طرح صفت اخلاص اور نیک نیت سے متصف ہونے سے انسان کو اعلیٰ مرتبہ نصیب ہوتا ہے اسی طرح سے ریاء سے متصف ہونے سے اور بری نیت کی وجہ سے انسان اسفل سافلین کے درجے میں جا گرتا ہے کیونکہ عمل کا اصل باعث اخلاقی عنصر ہے اور وہی رب تعالیٰ سبحانہ کی نظر کا محور ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اسی اخلاقی عنصر کو دیکھتے ہیں، عمل کا درجہ ثانوی ہے) جیسے ایک حدیث ہے کہ حضرت ابوبکرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں سونت کر آمنے سامنے آتے ہیں (اور نتیجے میں ایک قتل ہو جاتا ہے) تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل کا دوزخی ہونا تو سمجھ میں آ گیا لیکن مقتول کیونکر دوزخی ہوا؟ آپؐ نے فرمایا، مقتول بھی تو اپنے مدمقابل کو قتل کرنے پر حریص تھا۔ (بخاری و مسلم)

غرضیکہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ بھی اسے دوزخ میں لے گیا۔ اللہ سبحانہ حساب تو نیتوں پر لیں گے خواہ وہ ظاہر کرے یا اسے چھپائے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ (بقرہ ۲۸۴)

’’خواہ تم اپنے دل کی بات چھپاؤ یا اسے ظاہر کرو اللہ تعالیٰ تم سے حساب ضرور لیں گے۔‘‘

اسی فرمان باری تعالیٰ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث قدسی سے واضح فرمایا:

ان اللہ تعالیٰ کتب الحسنات والسیئات ثم بین ذلک۔ فمن ھم بحسنۃ فلم یعلمھا کتبھا اللہ عندہ حسنۃ کاملہ۔ وان ھم بھا فعملھاکتبھا اللہ عشر حسنات الی سبع مائۃ ضعف الی اضعاف کثیرہ۔ وان ھم بسیئۃفلم یعملھا کتبھا اللہ حسنۃ کاملۃ۔ وان ھم بھا فعملھا کتبھا اللہ سیئۃ واحدۃ۔ (رواہ البخاری و مسلم عن عبد اللہ بن عباس)

’’اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور بدیوں کو لکھا اور ہر ایک کو واضح کر دیا۔ پھر جس کسی نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس نیکی پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دیتے ہیں۔ اور اگر نیکی کا ارادہ کر کے وہ نیکی بھی کر گزرے تو اسے ایک نیکی کے بدلے دس سے لے کر سات سو گنا بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ اجر عطا فرماتے ہیں (یعنی اخلاص میں جتنی قوت ہو گی اتنا ہی اجر زیادہ ہو گا)۔ لیکن اگر برائی کا ارادہ کیا لیکن وہ برائی نہیں کی تو اس (اجتناب) پر بھی ایک کامل نیکی اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جائے گی۔ اور اگر بدی کا ارادہ کر کے وہ گناہ بھی کر لیا تو صرف ایک گناہ ہی لکھا جائے گا۔‘‘

یعنی اگر برائی کا ارادہ کر کے خوفِ خدا اور اس پر ایمان کی وجہ سے برائی سے باز رہا تو عند اللہ یہ ایک نیکی گنی جائے گی، لیکن اگر وہ گناہ کسی خارجی سبب سے نہ کر سکا تو یہ کوئی نیکی نہیں لیکن اس پر بھی اسے خدا کا شکر کرنا چاہیئے کہ اس نے گناہ سے بچا لیا۔ مزید براں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان اللہ تجاوز عن امتی عما حدثت بہ انفسھا۔

’’اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کے دلوں کے وسوسوں کو معاف فرما دیا ہے۔‘‘

ریا کی شان (اثر) یہ ہے کہ وہ بندے اور خدا کے درمیان حجاب بن جاتی ہے اور اسے حیوانوں کے زمرے میں لا شامل کرتی ہے، پھر اس کے نفس کا تزکیہ نہیں ہو پاتا۔ اس کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا کیونکہ دکھلاوے کے کام کرنے والے کی نہ کوئی رائے ہوتی ہے نہ اس کا کوئی عقیدہ ہوتا ہے بلکہ وہ ’’گرگٹ‘‘ کی طرح ہوتا ہے کہ رنگ بدلتا رہتا ہے اور ہوا کے رخ پر چلتا ہے، عمل کی پختگی اس سے زائل ہو جاتی ہے۔ ریا کا مطلب ہے عبادات کے ذریعے جاہ و منزلت کا طلب کرنا اور اللہ سبحانہ نے اس سے بچنے اور اسے ترک کرنے کا صریحًا حکم فرمایا ہے کیونکہ اس سے انفرادی اور اجتماعی برائیاں پھیلتی ہیں، اس لیے فرمایا:

والذین یمکرون السیئات لھم عذاب شدید و مکر اولئک ھو یبور (فاطر ۱۰)

’’اور جو لوگ برائیوں کے داؤ میں ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ان کا داؤ ہے ٹوٹے کا۔‘‘

اور جو لوگ برائی کے مکر کرتے ہیں یہی اہل الریاء ہیں اور ریاء منافقین کی صفت ہے جن کا مبداء و معاد پر ایمان نہیں اور نہ ہی وہ صالح عقیدہ پر یقین رکھتے ہیں۔ اللہ سبحانہ فرماتا ہے:

ان المنافقین یخادعون اللہ وھو خادعھم واذا قاموا الی الصلوٰۃ قاموا کسالیٰ یراءون الناس ولا یذکرون اللہ الا قلیلًا۔ (نساء ۱۴۲)

’’البتہ منافقین دغابازی کرتے ہیں اللہ سے اور وہی ان کو دغا دے گا اور جب نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے بددلی سے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت تھوڑا۔‘‘

اور عنقریب اللہ تعالیٰ اس دھوکہ دہی کا پردہ فاش کر دے گا اور یہ چھپانا اس آدمی کے لیے باعث ذلت و رسوائی بنے گا اور دکھلاوے کے لیے دھوکا دینے والے کی جگ ہنسائی ہو گی اور یہی اس کے دکھلاوے کی سزا ہو گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’من سمع سمع اللہ و من یائی یرائی اللہ بہ‘‘۔جس نے دکھلاوے کے لیے کام کیا اللہ تعالیٰ یہ کام اس کے لیے باعث رسوائی بنا دے گا اور جس نے کوئی نیک کام اس نیت سے کیا کہ لوگوں کو معلوم ہو تو وہ اس کی عزت کریں تو اللہ تعالیٰ ایسے اسباب فرما دیں گے کہ لوگوں پر واضح ہو جائے گا کہ اس کی اصل نیت کیا تھی۔

اور ریا شرک ہی کی ایک قسم ہے جس سے عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ محمود بن لبیدؓ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تمہارے بارے میں جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ شرک اصغر ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ شرک اصغر کیا ہوتا ہے؟ فرمایا، ریاء۔ جب قیامت کے روز لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے دیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ (دکھلاوے کے لیے کام کرنے والوں کو) فرمائے گا جن لوگوں کو تم دنیا میں دکھا کر کام کرتے تھے ان کے پاس جاؤ، ذرا دیکھو تو تمہیں ان کے ہاں سے کوئی بدلہ ملتا ہے!

اسلام انسان سے یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کا باطن اس کے ظاہر کی طرح ہو۔ اس کے رات کی سیاہی دن کی روشنی کی طرح ہو۔ جب ظاہر و باطن میں اختلاف ہو، قول اور فعل میں مطابقت نہ رہے، اور انسان خیر کی بجائے شر کو ترجیح دینے لگے تو سمجھ لو کہ یہ آدمی نفاق کی مرض میں مبتلا ہے۔ اب اس کے اندر حق کی علی الاعلان حمایت کا حوصلہ ختم ہو گیا ہے۔ جرأت و حوصلہ جو ایک مومن صادق کا طرۂ امتیاز ہے یہ اس سے یکسر محروم ہو جاتا ہے۔ امام بخاریؒ نے حضرت ابن عمرؓ کے بارے میں روایت کی ہے کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ جب ہم بادشاہوں کے پاس جاتے ہیں تو ان سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ہم آپس میں نہیں کرتے۔ سن کر انہوں نے فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں ہم اسی رویے کو نفاق سمجھتے تھے۔

بعض لوگ دکھلاوے کے لیے ایسے کام کرتے ہیں کہ لوگوں میں ان کا خوب چرچا ہوتا ہے لیکن ان کا کام چونکہ خلوص پر مبنی نہیں ہوتا اس لیے اس پر نیک اثر بھی مرتب نہیں ہوتا۔ امام مسلمؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث نقل کی ہے، فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے روز سب سے پہلے جس شخص کا فیصلہ ہو گا وہ شہید ہو گا۔ اسے دربارِ خداوندی میں حاضر کیا جائے گا پھر سے سوال ہو گا: تو نے دنیا میں کیا کیا؟ وہ جواب دے گا میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو نے جھوٹ بولا ہے، تو نے جنگ اس لیے لڑی کہ لوگ کہیں کہ فلاں بڑا بہادر تھا۔ چنانچہ لوگوں نے تیری تعریف کر دی (اب ہمارے ہاں تیرے لیے کچھ نہیں)۔ پھر اس کے متعلق فیصلہ صادر ہو گا اور وہ منہ کے بل دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر دوسرا شخص لایا جائے گا، اس نے علم سیکھا اور سکھایا ہو گا اور قرآن کا قاری ہو گا۔ اسے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلائی جائیں گی، وہ ان سب کا اعتراف کرے گا۔ پھر سوال ہو گا کہ ان نعمتوں کے بدلے میں تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا، میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے قرآن کی تلاوت کی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو نے جھوٹ بولا ہے۔ تو نے تو اس لیے علم سیکھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں، پس یہ کچھ کہا گیا اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں اور یہ بھی کہا گیا (اب ہمارے پاس اس کا کچھ اجر نہیں) پھر اس کو حسب الحکم منہ کے بل دوزخ میں جھونک دیا جائے گا۔ پھر تیسرا شخص لایا جائے گا، اسے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے رزق کی وسعت عطا فرمائی ہو گی۔ ہر قسم کا مال و دولت اسے میسر تھا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیں گے، وہ ان کا اعتراف بھی کرے گا، پھر سوال ہو گا، ان نعمتوں کے بدلے میں دنیا میں تو نے کیا کیا؟ وہ جواب دے گا، میں نے تیری رضا کے لیے ہر نیک کام کیا اور ان کاموں میں مال خرچ کیا۔ ارشاد ہو گا، تو جھوٹا ہے۔ تو نے خرچ اس لیے کیا تھا کہ لوگ کہیں کہ فلاں بڑا سخی ہے، پس یہ کچھ کہا گیا (اب تیرے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں) پھر اسے حسب الحکم منہ کے بل دوزخ میں جھونک دیا جائے گا (اعاذنا اللہ منھا)۔

حدیثِ مذکورہ سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اگر لوگ تعریف کریں گے تو عمل اکارت جائے گا بلکہ اگر کوئی کام نیک نیت اور اخلاص سے کیا جائے اور لوگوں کو اس کا علم ہو گا اور انہوں نے اس کی تعریف کی (اور اس تعریف پر اس کا اپنا مقصد نہیں تھا) تو اس کا عمل ضائع نہیں ہوگا خواہ ان کی یہ تعریف اسے بھلی ہی معلوم کیوں نہ ہو۔

ترمذیً‌ نے ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے، ایک شخص نے کہا ، یا رسول اللہ! ایک شخص لوگوں سے چھپا کر کوئی عمل کرتا ہے لیکن لوگوں کو اس کی اطلاع ہو جاتی ہے، اب وہ شخص اس بات پر خوش ہوتا ہے (تو کیا اس عمل کا اسے ثواب ملے گا؟) آپؐ نے فرمایا اسے دو ثواب ملیں گے، ایک تو چھپانے کا ثواب اور ایک ظاہر ہونے کا ثواب ’’لہ اجران، اجر السر و اجر العلانیۃ‘‘۔ بلکہ لوگوں کی یہ تعریف ایک قسم کی بشارت ہے جو دنیا میں اسے مل گئی۔ ’’کما قال صلی اللہ علیہ وسلم انتم شہداء اللہ علی الارض‘‘۔

امام مسلمؒ نے حضرت ابوذرؓ سے روایت کی ہے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ایک شخص نیک عمل کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا، یہ مومن کے لیے دنیا میں ہی بشارت ہے۔

ریاء سے خوف

حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو! اس شرک سے ڈرو کیونکہ یہ چیونٹی کے قدموں کی آہٹ سے بھی زیادہ خفی ہے۔ ایک شخص نے پوچھا، پھر اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ فرمایا یہ کہا کرو ’’اللھم انا نعوذ بک من ان نشرک بک شیئًا نعلمہ، ونستغفرک لما لا نعلمہ‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ریاء سے محفوظ فرمائے اور اخلاص کی نعمت سے نوازے، آمین۔

دین و حکمت

(مارچ ۱۹۹۰ء)

مارچ ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۳

اسلامی بیداری کی لہر اور مسلم ممالک
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

احادیثِ رسول اللہؐ کی حفاظت و تدوین
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مولانا عزیر گلؒ
عادل صدیقی

مجھے قرآن میں روحانی سکون ملا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نظامِ خلافت کا احیاء
مولانا ابوالکلام آزاد

حرکۃ المجاہدین کا ترانہ
سید سلمان گیلانی

عیسائی مذہب کیسے وجود میں آیا؟
حافظ محمد عمار خان ناصر

اخلاص اور اس کی برکات
الاستاذ السید سابق

چاہِ یوسفؑ کی صدا
پروفیسر حافظ نذر احمد

شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

عصرِ حاضر کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ
حافظ محمد اقبال رنگونی

اسلامی نظامِ تعلیم کے خلاف فرنگی حکمرانوں کی سازش
شریف احمد طاہر

حدودِ شرعیہ کی مخالفت - فکری ارتداد کا دروازہ
مولانا سعید احمد عنایت اللہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

قافلۂ معاد
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

وعظ و نصیحت کے ضروری آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

قرآنی احکام کا نفاذ آج بھی ممکن ہے
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

شہیدِ اسلام مولانا سید شمس الدین شہیدؒ نے فرمایا
ادارہ

تلاش

Flag Counter