’’افسوس کہ آج ہمارا یہ خطہ جس میں مسلمان بستے ہیں اس میں ہمارا قانون، ہمارا آئین اور ہمارا دن بھر کا اٹھنا بیٹھنا سب کچھ وہی ہے جو انگریز ہمارے اوپر مسلط کر گئے تھے۔ ہم آج بھی ان کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ اگر ان کے نقش قدم پر بھی ہم صحیح طور پر چلتے تو آج کچھ نہ کچھ انصاف تو ہم میں ہوتا۔ ہم نے اپنے دین کو ترک کر دیا، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنا ترک کر دیا، اپنے قانون کو ترک کر دیا، ہم نے سب کچھ فراموش کر دیا۔’’
(۱۱ جنوری ۱۹۷۳ء کو بلوچستان اسمبلی سے خطاب)
’’وہ آئین اور دستور اور وہ قانون جو کہ اللہ تبارک و تعالٰی کی طرف سے ہمارے پاس آیا ہے مسلمانوں کے فرائض میں ہے کہ سب سے پہلے اس آئین کو دیکھیں اور عمل پیرا ہوں کیونکہ وہ ہمارا حقیقی آئین ہے۔ وہ دستور ہے جو رب العزت کی طرف سے آیا ہوا ہے۔ یہ ہمارا مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ مستقل آئین ہے، باقی دنیاوی آئین عارضی اور عبوری ہیں، یہ تو آتے جاتے ہیں۔‘‘
(۱۱ جنوری ۱۹۷۳ء کو بلوچستان اسمبلی سے خطاب)
’’جب دین کے نام پر لیے ہوئے پاکستان میں ہمارے حکمرانوں نے دین کو نافذ نہ کیا۔ اللہ تعالٰی سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کیا اور مسلسل ۲۵ برس تک اس کے حکموں کی نافرمانی کرتے رہے، تو پھر قوم و ملک پر اللہ تعالٰی کا عتاب نازل ہوا اور ہمارے ملک کا ایک بڑا حصہ بنگلہ دیش کے نام سے کٹ کر علیحدہ ہو گیا۔ بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان کا سب کچھ لوٹا یا تباہ و برباد کر دیا۔ اور سب سے بڑی رسوائی یہ ہوئی کہ ہماری فوج نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور نوے ہزار سے زائد سویلین اور فوجی بھارت کے قیدی بن گئے۔ اس کے بعد حالات سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے تاکہ دوبارہ ان سابقہ غلطیوں کا اعادہ نہ ہو جن کی وجہ سے ملک و قوم کو یہ دن دیکھنے پڑے۔‘‘
(۱۹ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو شیرانوالہ گیٹ لاہور میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب)
’’ہماری اکثریت کو توڑنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا گیا۔ خود مجھے چیف منسٹری کا عہدہ پیش کیا گیا۔ مگر الحمد للہ میں نے جماعتی منشور، جمہوری اقدار اور اکابر کے ناموس کے پیشِ نظر اس کرسی کو لات مار دی۔ ایک ملاقات میں بھٹو صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ لوگ بڑے اچھے ہیں، با اصول اور دیانتدار ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ جیسے لوگ میرے ساتھ آئیں اس لیے آپ نیپ کو چھوڑ کر میرے ساتھ تعاون کریں۔ میں نے جواب دیا کہ بھٹو صاحب! کیا ہم اقتدار کی خاطر نیپ سے معاہدہ توڑ کر بھی با اصول اور دیانتدار رہیں گے؟ اس پر بھٹو صاحب خاموش ہو گئے۔‘‘
(مدیر ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور سے خصوصی انٹرویو)
’’جس مقصد کے لیے ہم نے یہ پاکستان تعمیر کیا تھا اور جس مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا آج وہ مقصد ہم اس ملک میں نہیں چلا رہے بلکہ الٹا اس مقصد اور اس کتاب اور اس اسلام پر وہ مظالم ہم ڈھا رہے ہیں کہ مخالفین اور اسلام اور دین کے دشمنان سے بھی وہ توقع نہیں کی جا سکتی۔‘‘
(شہادت سے چند روز قبل رحیم یار خان میں آخری تقریر)