چاہِ یوسفؑ کی صدا

پروفیسر حافظ نذر احمد

آ رہی ہے چاہِ یوسفؑ سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

ارضِ مقدس (فلسطین) کا یہ کنواں ’’چاہِ یوسفؑ‘‘ اور ’’چاہِ کنعان‘‘ دو ناموں سے مشہور ہے۔ یہ تاریخی کنواں کبھی کا خشک ہو چکا ہے۔ توریت مقدس کا بیان ہے کہ جب ننھے یوسفؑ کو کنویں میں گرایا گیا اس میں پانی نہ تھا لیکن اس کنویں کی عظمت اس کے پانی سے نہیں بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ ایک گونہ نسبت کے سبب سے ہے۔ چاہِ یوسفؑؑ کے محل و وقوع اور حالات و کوائف کے مطالعہ سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات کا مطالعہ کر لیا جائے۔ چونکہ یہ کنواں انہی کی نسبت سے مشہور ہوا، ورنہ کنویں میں اور کوئی ایسی انفرادی خصوصیت نہیں جو اس کی شہرت کا باعث ہوتی۔

حضرت یوسف علیہ السلام

حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے، نبیؑ کے بیٹے تھے، نبیؑ کے پوتے اور نبیؑ کے پڑپوتے تھے۔ ان کے والد ماجد کا نام حضرت یعقوب علیہ السلام تھا، دادا کا نام حضرت اسحاق علیہ السلام، اور پڑدادا کا اسمِ مبارک حضرت ابراہیم علیہ السلام تھا۔ یہ خاندان ہی انبیاءؑ کا خاندان تھا۔ اس خاندان میں حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت موسٰیؑ اور حضرت عیسٰیؑ جیسے جلیل القدر نبی ہوئے ہیں، ان سب پر اللہ کا درود و سلام ہو۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے گرامیٔ قدر والد حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ’’اسرائیل‘‘ تھا۔ یہ عربانی لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں عبد اللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ ان کے اسی لقب کی نسبت سے ان کی اولاد کو ’’بنی اسرائیل‘‘ کہا جاتا ہے یعنی اولادِ یعقوب ؑ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا زمانہ ۱۸۰۰ تا ۱۹۰۰ قبل مسیح ؑ متعین کیا گیا ہے۔ وطن جدون تھا۔ اس قصبہ کا دوسرا نام ’’الخلیل‘‘ ہے، کیوں نہ ہو ’’خلیل اللہ‘‘ کی اولاد کی نگری ہے۔ یہ بستی ارضِ مقدس کے مشہور شہر بیت المقدس کے قریب ہی واقع ہے۔ چار ہزار سال پرانی یہ بستی آج موجود ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام اپنی پیاری عادات، موہنی صورت اور عمر میں سب سے چھوٹے ہونے کے سبب سب کے منظورِ نظر تھے۔ خصوصًا حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے اس بچہ سے بے پناہ محبت تھی۔ حضرت یوسفؑؑ کے بھائی ان سے جلنے لگے۔ یوں بھی بن یامین کے سوا ان کا کوئی حقیقی بھائی نہ تھا اور سوتیلے بہن بھائی اکثر رقابت کا شکار ہو جایا کرتے ہیں، پھر حضرت یوسفؑؑ کے خوابوں نے جلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔ انہوں نے ننھی عمر ہی میں کچھ خواب دیکھے جو اُن کے روشن مستقبل کا پتہ دے رہے تھے۔ ان کی تعبیر سے سوتیلے بھائیوں کے دلوں میں حسد کی آگ اور بھڑکی۔

برادرانِ یوسفؑؑ کی سازش

یوسف علیہ السلام جیسے معصوم پیارے بھائی کے خلاف ان لوگوں نے ایک خوفناک سازش کی، سب مل کر باپ کے پاس گئے اور یوسفؑؑ کو جنگل ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی۔ کہنے لگے ہم بھیڑ بکریاں چرائیں گے، شکار کریں گے، یوسفؑؑ ہمارے ساتھ کھیلیں گے، خوب تفریح رہے گی۔ حضرت یعقوبؑ کی دوربین نگاہیں گویا آنے والے حادثات کو دیکھ رہی تھیں، انہوں نے برادرانِ یوسفؑؑ کی درخواست قبول کرنے میں پس و پیش کیا لیکن بیٹوں کے مسلسل اصرار اور حفاظت کے پختہ وعدوں پر بادلِ نخواستہ راضی ہو گئے اور یوسفؑؑ کو ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔

گھر سے نکل کر یہ لوگ دریائے اردن کے کنارے پہنچے۔ جنگل میں ’’دوتین‘‘ شہر کے قریب انہوں نے حضرت یوسفؑؑ کے قتل کا منصوبہ بنانا چاہا، روبن نے سخت مخالفت کی، اس نے مشورہ دیا کہ یوسفؑؑ کے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگیں اور اس کا خون اپنے ذمہ نہ لیں بلکہ کنویں میں دھکا دے دیں، ہو سکتا ہے کوئی راہ چلتا مسافر نکال کر یہاں سے دور لے جائے، اس طرح یہ کانٹا راستہ سے ہٹ جائے گا اور اس کا خون بھی سر نہ چڑھے گا۔ روبن کی تجویز ان کی سمجھ میں آگئی، پہلے انہوں ’’بوقلمونی قبا‘‘ یوسفؑؑ کے جسم سے زبردستی، پھر کنویں میں دھکا دے دیا۔ یہ قبا حضرت یعقوبؑ نے خاص طور پر ان کے لیے تیار کروائی تھی۔ یوسفؑؑ کو کنویں میں گرا کر وہ اپنی جگہ بالکل مطمئن ہو گئے، انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ آج جسے اپنی راہ کا کانٹا سمجھ رہے ہیں کل وہی ان کا محسن ہو گا اور پورے خاندان کو فقر و فاقہ سے نجات دلائے گا۔

چاہِ یوسفؑؑ کی تحقیق

قرآن مجید میں اس کنویں کا ذکر موجود ہے۔ عربی زبان میں کنویں کو ’’بیئر‘‘ اور ’’جُب‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کنویں کے لیے لفظ ’’جُب‘‘ ہی آیا ہے، ارشاد ہے:

قال قائل منھم لا تقتلوا یوسف والقوہ فی غیابۃ الجب۔

’’ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا یوسفؑؑ کو قتل نہ کرو بلکہ اسے کنویں میں گرا دو۔ (سورہ یوسف ۱۰)

لفظ جُب کے دو معنی ہیں (۱) جڑ سے کاٹ دینا (۲) کنواں۔ یہاں یہ لفظ اپنے دوسرے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ دراصل جُب ایسے کنویں کو کہتے ہیں جس کی منڈیر اینٹوں وغیرہ سے باقاعدہ نہ بنائی گئی ہو اور اس کی گہرائی بہت زیادہ ہو۔ جس کنویں کی منڈیر اور دیواریں ہوں اسے عربی میں ’’بئیر‘‘ کہتے ہیں۔ (مفردات القرآن، راغب)

اس کنویں کا محل وقوع جاننے کے لیے ذرا اس کے گرد و پیش پر نظر ڈال لیجئے۔ بیت المقدس فلسطین کا مرکزی شہر ہے۔ ارضِ مقدس کے اس شہر سے کوئی پچیس میل کے فاصلے پر دریائے اردن بہتا ہے۔ یہ دریا اس قدر اہم ہے کہ اس کی نسبت سے پورے ملک کا نام ہی شرقِ اردن پڑ گیا۔ یہی وہ دریا ہے جس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے اصطباغ (بپتسمہ) لیا تھا۔ دریائے اردن کے کنارے طبریہ سے دمشق کو جاتے ہوئے تقریباً‌ بارہ میل کے فاصلے پر چاہِ یوسفؑؑ کا مقام آتا ہے۔ طبریہ فلسطین کا ایک تاریخی شہر ہے اور دمشق ملک شام کا دارالخلافہ ہے۔ طبریہ کے دوسری سمت فلسطین کی ایک دوسری قدیم ترین بستی ناصریہ واقع ہے اسے انگریزی میں Nazarath نزرات کہتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ اسی نسبت سے انہیں ’’مسیحِ ناصری‘‘ کہتے ہیں اور ان کے ماننے والے عیسائی اور مسیحی کے علاوہ ’’نصرانی‘‘ اور ’’نصارٰی‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔

یہ کنواں آبادی سے دور جنگل بیابان میں تھا جیسا کہ بائبل کے اس بیان سے واضح ہے:

’’اور ان سے کہا خونریزی نہ کرو لیکن اسے کنویں ڈال دو جو بیابان میں ہے‘‘۔ کتاب پیدائش ۳۷: ۱۹، ۲۰)

اسی کتاب پیدائش کے باب ۳۷ کی آیت ۲۴ کا بیان ہے:

’’اسے پکڑ کر کنویں میں ڈال دیا۔ وہ کنواں سوکھا تھا، اس میں پانی کی بوند نہ تھی۔‘‘

ہمارے اکثر مفسرین کرام نے اس بیان سے اختلاف کیا ہے۔ چاہِ یوسفؑؑ کا تذکرہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے بھی کیا ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنی سیاحت کے دوران اس کنویں کی زیارت کی تھی۔ ابن بطوطہ کے بیان کے مطابق یہ کنواں ایک رہگزر پر تھا اور اگلے وقتوں میں کنویں عام طور پر راستوں پر ہی بنائے جاتے تھے تاکہ مسافروں کو پانی کی سہولت رہے۔ چنانچہ قافلے عام طور پر کارواں سراؤں کے علاوہ کنویں پر ہی پڑاؤ ڈالتے تھے۔

مشہور مفسر امام النسفی نے اپنی کتاب ’’مدارک التنزیل‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ کنواں حضرت یعقوبؑ کے گھر سے تین فرسخ یعنی تقریباً‌ بارہ میل کے فاصلے پر تھا اور اس وقت کنویں میں پانی موجود تھا۔ چنانچہ بھائیوں نے جب حضرت یوسفؑؑ کو کنویں میں گرایا تو انہوں نے مینڈھ پر پناہ لی اور کنویں میں سیدھے کھڑے ہو گئے۔

حضرت یوسفؑؑ کنویں میں

جب بھائی یوسفؑؑ کو جنگل ساتھ لے کر چلے تھے انہوں نے باپ سے حفاظت کا وعدہ کیا تھا اور بڑی بڑی قسمیں کھائی تھیں لیکن نیت بد تھی اور ان کے وعدوں کی حیثیت ایک فریب سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ وہ حضرت یوسفؑؑ کو کھیل کود اور شکار کے بہانے ’’دوتین‘‘ کے جنگل میں لے آئے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، انہوں نے یہاں پہنچ کر قتل کر ڈالنے کا پختہ ارادہ کر لیا، خدا بھلا کرے روبن کا کہ اس نے انہیں اس ارادہ سے روکا، اس کے سمجھانے پر انہوں نے کنویں میں گرا دینے کا فیصلہ کیا جیسا کہ ہم ابتداء میں کہہ چکے ہیں، پہلے انہوں نے حضرت یوسفؑؑ کی بوقلمونی قبا اتاری پھر اس سے باندھ کر کنویں میں دھکا دے دیا۔

حضرت یوسفؑؑ کی عمر کا یہ ابتدائی حصہ تھا۔ بائبل کی روایت کے مطابق اس وقت ان کا سن سترہ برس کا تھا (ملاحظہ ہو ’’توراۃ مقدس‘‘ کتاب پیدائش باب ۳۷ آیت ۳)۔ معلوم نہیں معصوم اور بے گناہ یوسفؑؑ کے دل پر اس وقت کیا گزری ہو گی؟ اور ان کے من میں کیا کیا خیال آئے ہوں گے؟ عین اس مایوسی اور غم کے عالم میں اللہ پاک نے انہیں تسلی دی جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:

’’ہم نے یوسفؑؑ کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ہم ان بھائیوں کو یہ بات جتلائیں گے اس وقت ان کو پتہ بھی نہ ہو گا‘‘۔ (سورہ یوسف ۱۵)

چاہِ یوسفؑؑ پر قافلہ کا گزر

حضرت یوسفؑؑ کو کنویں سے نکالنے والا قافلہ کن لوگوں کا تھا؟ یہ مسافر کہاں سے آرہے تھے اور کدھر جا رہے تھے؟ یہ تمام سوال جواب طلب ہیں۔ ہو سکتا ہے اس وقت قافلہ کی آمد کو محض حسن اتفاق سمجھا جائے۔ نہیں، یہ اللہ کی مشیت تھی۔ قافلہ کو یہاں پہنچا کر یوسفؑؑ نبی کو بچانا مقصود تھا اور آگے چل کر ان کے ذریعے کئی قوموں کی تقدیر بدلنی تھی۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں اپنی قدرتِ کاملہ سے ایسے ’’حسنِ اتفاق‘‘ ظاہر کر دیا کرتے ہیں۔ اللہ کی رحمت سے انسان کو کسی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ اس سلسلہ میں بائبل کا بیان ہے کہ جب بھائیوں نے ایک قافلہ اس طرف آتے دیکھا تو یوسفؑؑ کو فروخت کرنے کی سازش کی اور آپس میں یوں کہنے لگے:

’’آؤ اسے اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالیں کہ ہمارا ہاتھ اس پر نہ اٹھے کیونکہ وہ ہمارا بھائی اور خون ہے (سبحان اللہ کس برادرانہ شفقت کا مظاہرہ ہے) اس کے بھائیوں نے اس کی بات نہ مانی۔ مدیانی سوداگر ادھر سے گزرے تب انہوں نے یوسفؑؑ کو گڑھے سے کھینچ کر باہر نکالا اور اسے اسماعیلیوں کے ہاتھوں بیس روپیہ میں فروخت کر ڈالا اور وہ قافلے والے یوسف کو مصر لے گئے۔ جب روبن گڑھے پر آیا تو اس نے دیکھا کہ یوسفؑؑ گڑھے میں نہیں ہے تو اس نے اپنا پیرہن چاک کر ڈالا‘‘۔ (کتاب پیدائش ۴۷: ۲۷ تا ۲۹)

بائبل کے مندرجہ بالا حوالے میں جن لوگوں کو ’’مدیانی سوداگر‘‘ کہا گیا ہے ان سے حجاز (عرب) کے اسماعیلی عرب مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ عبرانی زبان میں اسماعیلیوں کو مدیانی کہتے تھے۔ بعض اصحاب ’’مدیانی‘‘ کو ’’مدین‘‘ سے منسوب کرتے ہیں یعنی وہ علاقہ جو سعیر سے بحر احمر تک اور شام سے یمن تک پھیلا ہوا ہے۔ مدین کا علاقہ حجاز کہلاتا ہے (ملاحظہ ہو ’’ارض القرآن‘‘ ج ۲ ص ۴۷ تا ۴۹)۔ مختصر یہ کہ عرب تاجروں کا ایک قافلہ یمن کے دارالخلافہ صفا شہر سے مصر جا رہا تھا، قافلہ کے اونٹوں پر گرم مصالحہ اور ملبان وغیرہ لدا ہوا تھا، قافلہ والوں کی نظر جب خوبرو اور خوش اطوار یوسفؑؑ پر پڑی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کلام پاک میں آتا ہے کہ وہ بے ساختہ پکار اٹھے ’’یا بشرٰی ھذا غلام‘‘ ارے واہ واہ! یہ تو ایک لڑکا نکل آیا‘‘۔ (سورہ یوسف ۱۲: ۱۹)

حضرت یوسفؑؑ کنویں سے باہر

قافلے والے ننھے یوسفؑؑ کو یہاں سے مصر لے گئے اور منہ مانگی قیمت وصول کر لی۔ ان کا خوش قسمت خریدار مصر کا باوقار حکمران تھا، اسے فرعون کے دربار میں بڑا مقام حاصل تھا۔ قرآن مجید میں اسے ’’عزیز مصر‘‘ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے اور توراۃ مقدس میں اس کا نام فوطیفار بیان ہوا ہے، لکھا ہے:

’’مدیانیوں نے اسے مصر میں فوطیفار کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ وہ فرعون کا ایک امیر اور لشکر کمانڈر تھا‘‘۔ (کتاب پیدائش ۳۷: ۳۹)

یوسف کا خریدار عزیزِ مصر لاولد تھا۔ میاں بیوی دونوں کو بچہ کی بے حد خواہش تھی مگر ان کا یہ ارمان پورا نہیں ہو رہا تھا۔ اس حسین و جمیل بچہ سے ان کے گھر میں بہار آ گئی۔ عزیزِ مصر (فوطیفار) کی بیوی کا نام نہ قرآن مجید میں مذکور ہے نہ توراۃ میں۔ البتہ اسرائیلی روایات میں وہ زلیخا کے نام سے مشہور ہے۔ یوسفؑؑ اس کے گھر میں پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ زلیخا کو ان سے محبت ہو گئی، اس نے انہیں اپنے دامِ محبت میں پھنسانا چاہا مگر وہ اس کے دامِ تزویر میں نہ آئے۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کی کوئی بات انہیں اس طرف مائل نہیں کرتی تو اس نے کمرے کے دروازے بند کر لیے مگر پاکباز یوسفؑؑ پر اس کا یہ آخری داؤ بھی کارگر نہ ہوا، اللہ کریم نے ان کی حفاظت کی اور صاف بچا لیا۔

کنویں سے جیل کی کوٹھڑی تک

حضرت یوسفؑؑ کنویں سے ضرور نکل آئے تھے مگر قید و بند کی مزید سختیاں ابھی ان کے مقدر میں لکھی تھیں۔ ان کی پریشانیوں اور آزمائشوں کا دور ابھی باقی تھا۔ چنانچہ جب زلیخا اپنی کسی تدبیر کے ذریعے انہیں گناہ میں ملوث نہ کر سکی تو اس نے الٹا ان پر دست درازی کا الزام لگا دیا اور دھاندلی سے حضرت یوسفؑؑ کو جیل میں ڈلوا دیا۔ حضرت یوسفؑؑ پورے صبر و شکر کے ساتھ ایامِ اسیری بسر کرتے رہے، ان کی پُراثر شخصیت سے قیدی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ ان سے خوابوں کی تعبیریں پوچھتے اور حق و صداقت کا پیغام سنتے۔ اسی دوران بادشاہ نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا، کوئی درباری اس کی تعبیر نہ بتلا سکا، جیل کے آزاد شدہ ایک قیدی کو حضرت یوسفؑؑ کی یاد آ گئی۔ وہ ان کی بتلائی ہوئی کتنی ہی تعبیروں کی صداقت آزما چکا تھا، اس شخص نے بادشاہ کو یوسفؑؑ کا پتہ دیا۔

شاہی فرمان جاری ہوا کہ یوسفؑؑ کو رہا کر کے شاہی دربار میں بلایا جائے مگر انہوں نے جیل سے باہر آنے سے انکار کر دیا۔ فرمایا جب تک الزام سے بریت کا اعلان نہ ہو، رہائی کا کیا مطلب؟ لیکن الزام کی بنیاد ہی کیا تھی جس کی تحقیق کی جاتی۔ وہ تو محض دھاندلی تھی یا زیادہ سے زیادہ ملک کی ’’خاتون اول‘‘ کی عزت کو بچانے اور اس کی بات کو بالا رکھنے کی تدبیر تھی۔ بہرصورت حضرت یوسفؑؑ کی پاکدامنی اور پاکبازی کا اعلان کر دیا گیا اور وہ باعزت جیل سے باہر آگئے۔ اب یوسفؑؑ دربار کے ایک رکنِ رکین تھے۔ شاہی خزانے کی کنجیاں ان کی تحویل میں تھیں اور پورے ملک کی معاشی پالیسی ان کے ہاتھ میں تھی۔ ملک میں قحط پڑا تو غلہ کی فروخت اور تقسیم بھی انہی کے سپرد ہوئی۔

کنویں میں ڈالنے والے

کنعان میں قحط سے حالات بہت خراب ہو چکے تھے، لوگ فاقوں کے باعث بھوکے مر رہے تھے، مصری غلہ ان سب کی امیدوں کا سہارا تھا، یوسفؑؑ کو کنویں میں ڈالنے والے ’’برادرانِ یوسفؑؑ‘‘ بھی اس غلہ کی شہرت سن کر غلہ حاصل کرنے کے لیے چل پڑے۔ آج کا بھائی (جسے اپنے خیال میں) وہ ختم کر چکے تھے خزانوں کا مالک تھا اور نادانستہ اس کے سامنے سوالی بن کر آئے تھے۔ اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود وہ حضرت یوسفؑؑ کو نہ پہچان سکے۔ حضرت یوسفؑؑ نے انہیں پہچان لیا مگر حقیقی بھائی کو درمیان میں نہ پایا۔ یوسفؑؑ نے اپنے دشمنِ جان بھائیوں کو خوب خوب غلہ دیا اور ہدایت کی اگر کوئی اور بھائی گھر ہے تو آئندہ اسے بھی ساتھ لانا اور زیادہ غلہ ملے گا۔

یہ لوگ گھر لوٹے، باپ کو سارا ماجرا سنایا، جو نوازشات ہوئی تھیں انہیں بڑھ چڑھ کر بیان کیا اور چھوٹے بھائی بن یامین کو ساتھ بھیجنے کی درخواست کی، اس کی حفاظت کے پختہ وعدے کیے، حضرت یعقوبؑ ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھے چونکہ بن یامین کے بھائی یوسفؑؑ کے بارہ میں بھی یہ لوگ ایسے ہی وعدے کر چکے تھے اور پھر کنویں میں گرا کر بہانہ بنایا تھا کہ بھیڑیا کھا گیا، لیکن قحط کے حالات نے اور کچھ ان کے اصرار نے مجبور کر دیا اور حضرت یعقوبؑ نے اجازت دے دی، اس طرح سب گیارہ کے گیارہ بھائی مصر کو چل دیے۔

حضرت یوسفؑؑ نے پہلے سے زیادہ نوازشات کیں اور خوب غلہ دیا مگر ملازمین کو ہدایت کر دی کہ بن یامین کے بورے میں چپکے سے غلے کا پیمانہ چھپا دیں، انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب یہ لوگ چلنے لگے تو منادی ہو گئی کہ سرکاری پیمانہ گم ہو گیا ہے جس کسی کے پاس پیمانہ ہو وہ واپس کر دے۔ ان سب نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم چور نہیں ہیں کہ ایسا کرتے اور اگر ہم میں سے کسی سے پیمانہ برآمد ہو تو اسے قانون کے مطابق غلام بنا لیا جائے۔ تلاشی لی گئی اور بن یامین کے بورے سے پیمانہ برآمد ہو گیا۔ حضرت یوسفؑؑ نے قانون اور فیصلہ کے مطابق بن یامین کو روک لیا، اس طرح بھائی سے بھائی مل گیا۔ برادرانِ یوسفؑؑ بن یامین کے بغیر روتے دھوتے گھر کو لوٹے، باپ کی دنیا پہلے ہی سونی تھی، بن یامین کو نہ پا کر ان کے دل کی نگری بالکل ہی اجڑ گئی۔ انہوں نے بیٹوں کو دوبارہ مصر بھیجا، یہ لوگ حاضر ہوئے تو اس مرتبہ حضرت یوسفؑؑ نے راز سے پردہ اٹھایا، بولے، کچھ یاد ہے تم نے اس کے بھائی یوسفؑؑ کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ حضرت یوسفؑؑ کے ان لفظوں نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ جس بھائی کو وہ کنویں میں گرا کر دل سے بھلا چکے تھے وہ آج ان کے سامنے تختِ حکومت پر جلوہ افروز تھا اور بڑے اختیارات کا مالک تھا۔ اسے پہچان کر ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے مگر حضرت یوسفؑؑ نے بڑے اطمینان سے فرمایا:

’’نہیں، آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (سورہ یوسف ۲۹)

ایک تمثیل

حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک دوسرے سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔ دونوں کی داستانِ حیات کا آغاز مصائب سے ہوتا ہے، اپنوں کے ہاتھوں مصائب، قید و بند، جلاوطنی اور ہجرت دونوں کے ہاں مشترک ہیں۔ کامیابی اور عروج کا انداز بھی ایک جیسا ہے اور آخر دونوں کے دشمن دست بستہ حاضر ہوتے ہیں اور ’’لاتثریب علیکم الیوم‘‘ (سورہ یوسف ۹۲) کا مزدۂ جانفزا سنتے ہیں۔ غالباً‌ اسی لیے حضرت یوسفؑؑ کی داستانِ حیات کو قرآن مجید میں ’’احسن القصص‘‘ کہا گیا ہے ؎

قید میں یعقوب ؑ نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں

سیرت و تاریخ

(مارچ ۱۹۹۰ء)

مارچ ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۳

اسلامی بیداری کی لہر اور مسلم ممالک
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

احادیثِ رسول اللہؐ کی حفاظت و تدوین
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مولانا عزیر گلؒ
عادل صدیقی

مجھے قرآن میں روحانی سکون ملا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نظامِ خلافت کا احیاء
مولانا ابوالکلام آزاد

حرکۃ المجاہدین کا ترانہ
سید سلمان گیلانی

عیسائی مذہب کیسے وجود میں آیا؟
حافظ محمد عمار خان ناصر

اخلاص اور اس کی برکات
الاستاذ السید سابق

چاہِ یوسفؑ کی صدا
پروفیسر حافظ نذر احمد

شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

عصرِ حاضر کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ
حافظ محمد اقبال رنگونی

اسلامی نظامِ تعلیم کے خلاف فرنگی حکمرانوں کی سازش
شریف احمد طاہر

حدودِ شرعیہ کی مخالفت - فکری ارتداد کا دروازہ
مولانا سعید احمد عنایت اللہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

قافلۂ معاد
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

وعظ و نصیحت کے ضروری آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

قرآنی احکام کا نفاذ آج بھی ممکن ہے
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

شہیدِ اسلام مولانا سید شمس الدین شہیدؒ نے فرمایا
ادارہ

تلاش

Flag Counter