مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ
انجمن سپاہِ صحابہؓ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ اور تحفظِ ناموس صحابہؓ کے بے باک نقیب مولانا حق نواز جھنگویؒ ۲۲ فروری ۱۹۹۰ء کو جھنگ صدر میں اپنی رہائش گاہ کے دروازے پر سفاک قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا شہیدؒ جامعہ مدنیہ شورکوٹ کے سالانہ جلسہ میں شرکت کے لیے روانگی کی تیاری کر رہے تھے جہاں انہوں نے رات کی نشست سے خطاب کرنا تھا، اچانک آٹھ بجے کے قریب کسی نے دروازے پر گھنٹی دی، مولانا جھنگویؒ باہر آئے، مبینہ طور پر دو آدمی تھے جن میں سے ایک نے مولاناؒ سے گفتگو شروع کی جبکہ دوسرے نے ریوالور سے پے در پے فائر کر دیے۔ مکان کے سامنے گراؤنڈ میں شادی کی ایک تقریب تھی، انہوں نے شور کوٹ جانے سے قبل اس شادی میں بھی شریک ہونا تھا، فائر کی آواز سے لوگوں نے سمجھا کہ شادی کی خوشی میں نوجوان فائرنگ کر رہے ہیں، یہی اشتباہ حملہ آوروں کے لیے غنیمت ثابت ہوا اور وہ موقع سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ گولیاں مولانا جھنگویؒ کے سر، گلے اور پیٹ میں لگیں، وہ وہیں گر گئے۔ انہیں گرتا دیکھ کر اردگرد کے لوگ متوجہ ہوئے، علاقہ میں کہرام مچ گیا، مولانا شہیدؒ کو فورًا ہسپتال لے جایا گیا مگر ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی وہ عروسِ شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔
راقم الحروف اس روز شورکوٹ میں تھا، ظہر کے بعد جامعہ مدنیہ شورکوٹ کینٹ میں سالانہ جلسہ سے خطاب کیا اور حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ کے ہمراہ مغرب کی نماز جامعہ عثمانیہ شورکوٹ شہر میں ادا کی۔ نماز کے بعد جامعہ عثمانیہ کے مہتمم مولانا بشیر احمد خاکی کے ساتھ ان کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ مولانا حق نواز جھنگویؒ کا فون آیا۔ مولانا خاکی کے علاوہ انہوں نے علامہ صاحب اور راقم الحروف سے بھی بات کی۔ کم و بیش سات بجے کا وقت تھا، یہ ہماری آخری گفتگو تھی جو فون پر ہوئی۔ مولانا جھنگویؒ نے جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے اتحاد اور سنی کاز کی جدوجہد کو سیاسی پلیٹ فارم پر منظم کرنے کے سلسلہ میں مشاورت کے لیے گوجرانوالہ تشریف آوری کی خواہش کا اظہار کیا اور ہمارے درمیان آئندہ ہفتہ کے دوران کسی وقت مل بیٹھنے کی بات طے ہوئی۔ وہاں سے فارغ ہو کر علامہ خالد محمود صاحب اور راقم الحروف واپسی کے لیے بس اسٹاپ پر پہنچے تو بہت سے نوجوان سپاہِ صحابہؓ کا پرچم اڑھائے مولانا حق نواز جھنگویؒ کے استقبال کے لیے ان کے انتظار میں کھڑے تھے۔ ان نوجوانوں نے ہی جھنگ جانے والی ایک ویگن روک کر ہمیں سوار کرایا اور جب ہم جھنگ پہنچے تو یہ روح فرسا خبر اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت ہماری منتظر تھی کہ عزیمت و استقامت کی شاہراہ کا یہ بلند حوصلہ مسافر شہادت کی منزل کو پہنچ چکا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
نماز جنازہ اگلے روز جمعہ کی نماز کے بعد اسلامیہ ہائی سکول کی گراؤنڈ میں ادا کی گئی۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی دامت برکاتہم نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جھنگ میں کرفیو کے اعلان اور چاروں طرف باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لیے پولیس کی ناکہ بندی کے باوجود ملک کے مختلف حصوں سے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اخبارات کی رپورٹ کے مطابق یہ جھنگ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ نمازِ جنازہ کے بعد مولانا حق نواز جھنگویؒ کے قائم کردہ جامعہ محمودیہ میں انہیں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
جھنگ کے احباب کے مطابق چند روز قبل مولانا جھنگویؒ کو دوبئی سے ایک ٹیلی فون کال کے ذریعہ خبر دی گئی کہ انہیں قتل کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور خفیہ ذرائع کے مطابق ۲۰ فروری سے ۲۵ فروری کے درمیان مولانا حق نواز جھنگویؒ، مولانا عبد الستار تونسویؒ اور مولانا منظور احمدؒ چنیوٹی کو قتل کرنے کے ایک منصوبہ کا انکشاف ہوا ہے۔ مولانا جھنگویؒ نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں اس کا ذکر بھی کر دیا اور انتظامیہ کے نوٹس میں بات آگئی لیکن تقدیر کے فیصلوں کو کون ٹال سکتا ہے۔
آج مولانا حق نواز جھنگویؒ ہم میں نہیں ہیں، وہ اپنے عظیم مشن کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کر کے خالقِ حقیقی کے حضور سرخرو ہو چکے ہیں۔ لیکن تحفظِ ناموسِ صحابہؓ کے جس مقدس مشن کی خاطر انہوں نے محنت کی اور قربانی و ایثار کی عظیم روایات کو زندہ کیا وہ مشن زندہ ہے اور جب تک یہ مشن زندہ ہے مولانا حق نواز جھنگویؒ کا نام، خدمت اور قربانی و ایثار کی روایات زندہ رہیں گی۔ ہم اس عظیم سانحہ پر انجمن سپاہِ صحابہؓ کے نوجوانوں، جھنگ کے شہریوں اور مولانا شہیدؒ کے اہلِ خاندان سے دلی تعزیت کرتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا شہیدؒ کے درجات بلند فرمائیں اور ان کے رفقاء، پسماندگان اور عقیدتمندوں کو صبر و حوصلہ کے ساتھ ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔
مولانا محمد رمضان علویؒ
گزشتہ دنوں راولپنڈی کے ایک بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ ٹریفک کے حادثہ میں زخمی ہونے کے بعد انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا علویؒ بھیرہ کے رہنے والے تھے، دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ باپ دادا سے قرآن کریم کی خدمت کا ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ ایک عرصہ سے راولپنڈی میں قیام پذیر تھے۔ امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا۔ مجلس احرارِ اسلام میں طویل عرصہ رہے اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ساتھ بھی کچھ عرصہ وابستگی رہی۔ ان دنوں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ خانقاہ سراجیہ شریف کندیاں کے ساتھ روحانی تعلق تھا اور جری، بے باک اور سرگرم عالم دین تھے۔ دینی اور قومی تحریکات میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی وفات سے ہم ایک شفیق، ہمدرد اور دردِ دل سے بہرہ ور مخلص بزرگ اور عالم دین سے محروم ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے فرزندان مولانا عزیز الرحمان خورشید، مولانا سعید الرحمان علوی، دیگر اہل خانہ اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔