(۱) وعظ و نصیحت کا پہلا رکن یہ ہے کہ واعظ سامعین کو ایسے عبرت انگیز واقعات سنائے جن کو سن کر دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجائے، دنیا کی ہوس رانیوں سے دل بیزار ہو جائے، اور توشۂ آخرت جمع کرنے کا خیال دل میں جم جائے، اور نفسانی خواہشات کے درپے رہنے سے دل ہٹ جائے۔ لیکن قصص بیان کرتے وقت یا ترغیب و ترہیب کی روایات سناتے وقت یہ احتیاط رہے کہ کوئی جعلی قصہ یا موضوع روایت ذکر نہ کی جائے جیسے کہ اس عصر کے واعظین کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ تو ہدایت و روشنی کی بجائے گمراہی و تاریکی سے زیادہ قریب ہے۔ یہ ترغیب و ترہیب اس انداز سے ہو کہ زمانہ کی گردش کی سرعت اور اس کے ایک نہج پر عدمِ ثبات کو اچھی طرح واضح کرے۔ اس طرح تذکیر و وعظ سے لوگوں کی جبروتی ذہنیت اور سرکشی پاش پاش ہو جاتی ہے۔
(۲) وعظ کا دوسرا رکن یہ ہے کہ واعظ لوگوں کو نظامِ شرعی کی پابندی کے فوائد اور اس کی خلاف ورزی کے مفاسد و نقصانات سمجھائے۔ معاشرتی زندگی میں نظام کے فوائد اور اس کی خلاف ورزی کے مفاسد بیان کرتے وقت ماوراء العقل کلیات بیان کرنے سے گریز کر کے زیادہ تر جزئیات اور فروعی باتوں کا ذکر کرے، اس طرز خطاب کا فائدہ زیادہ حاصل ہو گا۔
(۳) وعظ کا تیسرا رکن یہ ہے کہ اپنی تقریر و بیان میں دل نشین تشبیہات اور اثر آفرین استعارات اور اصنافِ سخن میں سے مجازات استعمال کرے، اور اپنے بیان میں ایسے بلند و عالی افکار و خیالات کو پیش کرے جو لوگوں کے دلوں کو تسلیم و رضا پر مجبور کریں۔ اسے چاہیئے کہ وہ مسلّمات اور مشہور روایات سے تمسک کرتا رہے۔
لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دینے والے کو چاہیئے کہ وہ وعظ و تذکیر میں لوگوں کی سطح فہم کے مطابق بات کرے اور کلام کے دقیق و باریک مسائل میں الجھنے سے گریز کرے کیونکہ اس صورت میں یا تو وہ لوگوں کو سمجھانے کے لیے غلط بیانی سے کام لے گا اور اس سے لوگوں کے اذہان و قلوب منتشر ہوں گے، یا اگر اپنے علم کے مطابق ٹھیک ٹھاک بات کرے گا تو اس کے علم کا فائدہ مخاطبین کو حاصل نہ ہو گا۔ بہرحال یہ مسلّمہ امر ہے کہ وعظ و تذکیر کے سلسلہ میں مؤثر ترین طریقہ اور عوام پر پوری طرح اثر انداز ہونے والا طرز بیان منطقی استدلال نہیں بلکہ خطابیات ہے۔
(البدور البازغہ مترجم (ص ۱۹۳)