کچھ عرصہ سے ایڈز نامی بیماری نے دنیا بھر کے ڈاکٹروں اور مفکروں کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہر مفکر اس کے سدباب کے لیے کوشاں ہے اور تحقیق اور ریسرچ کے ذریعہ اس پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اس بیماری کے پیدا ہونے کی دوسری وجوہات سے قطع نظر تمام ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ یہی ہے کہ لواطت پرستی اور غیر فطری عمل اس بیماری کو پیدا کرنے کا سبب ہے، اسی لیے تمام ہسپتالوں اور ٹی وی کے اشتہاروں میں خبردار کیا جاتا ہے کہ غیر فطری عمل سے اجتناب کیا جائے۔
لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ دوسری جانب اس بیماری کو وسیع کرنے کے پروگرام بھی تیار کیے جاتے ہیں جس عمل کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا تھا۔ برطانوی معاشرہ کے یہ ناسور اسی عمل کے پھیلاؤ کے لیے نہ صرف کوشش کرتے ہیں بلکہ اسے قانونی بنا کر اس کی مالی امداد کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ ۱۶ سال کی عمر کو غیر فطری حرکت کے لیے موزوں قرار دے کر سابقہ قانون کو ختم کرنے کے لیے بل بھی پیش کیا جاتا ہے۔ روزنامہ مرر ۴ اکتوبر ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ:
’’برائیٹن میں لیبر پارٹی کی کانفرنس کے موقعہ پر یہ مطالبہ پیش کیا گیا کہ ہم جنس پرستی کے لیے ۲۱ سال کی عمر کی قید ختم کر کے ۱۶ سال کر دی جائے۔ تقریباً پونے چار لاکھ ووٹ کے ذریعے یہ بات تسلیم کی گئی کہ عمر کا یہ امتیاز ختم کر دیا جائے۔ اس مطالبہ کو برطانوی ایم پی مسٹر کرس اسمتھ نے پیش کیا ہے۔‘‘
اس کانفرنس کو ختم ہوئے چند ہفتے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ حزبِ اختلاف کے مشہور ایم پی ٹونی بین نے برطانوی دارالعوام میں بل بھی پیش کر دیا۔ مانچسٹر ایوننگ نیوز ۶ نومبر کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ:
’’لیبر پارٹی کے ایم پی مسٹر ٹونی بین نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا ہے جس کا مقصد ہم جنس پرستوں کے لیے عمر کی قید ختم کرنا ہے۔ لیبر پارٹی کی سالانہ کانفرنس کے موقع پر بھی تقریباً ۴ لاکھ لوگوں نے اس کے حق میں ووٹ دیے تھے اور یہ قانون پاس کیا تھا کہ جب لیبر پارٹی برسراقتدار آئے گی تو ایسا ہی کرے گی۔ لیبر پارٹی کے سربراہ حزب اختلاف کے قائد نیل کینک کو اس بل کے پیش کرنے کی وجہ سے سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ ٹونی بین نے بغیر کسی تبادلۂ خیال کے یہ بل پیش کر دیا تھا۔‘‘
ہمیں لیبر پارٹی کے سربراہ سے صرف یہ کہنا ہے کہ جب سالانہ کانفرنس کے موقع پر یہ مطالبہ پیش کیا تھا اور لاکھوں لوگوں نے اس کی حمایت کی تھی تو اب تبادلۂ خیال کیوں اور کیسا؟ اگر یہ موقف اور مطالبہ انتہائی بے حیا و فحش تھا تو اس وقت اس کے خلاف احتجاج کیا جاتا۔ انہیں چاہیئے کہ شرمندگی کے بجائے اعتراف و اقرار اور کھلے بندوں میدان میں آجائیں، اس لیے کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں کیا ایم پی اور کیا عوام۔
؏ بے شرموں کو شرم آئی خدا خیر کرے
لیبر پارٹی کے اس ذلیل موقف اور دوسرے بے حیاؤں کے مطالبات پر مانچسٹر شہر کی کونسل ایسے بدقماشوں کے لیے ایک عظیم ادارہ تعمیر کرنے میں مصروف ہو چکی ہے۔ مانچسٹر ایوننگ نیوز ۹ دسمبر ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں خبر دیتا ہے کہ:
’’مانچسٹر شہر کی کونسل نے ۳ لاکھ پونڈ کی مالیت سے ایک ایسی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو ہم جنس پرستوں کے لیے مخصوص ہو گا۔ کونسل کی ایک ہم جنس پرست کونسلر مس ایڈورڈ کا کہنا ہے کہ مانچسٹر میں ہر ۲۰ عورتوں میں سے ایک اسی گروہ سے ہے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ مالی کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ اس خطیر رقم سے بننے والے سنٹر کی وجہ سے ایسے لوگ خطرے میں نہ رہیں گے بلکہ آزاد ہوں گے۔‘‘
اس خبر پر سوائے دو چار کے کسی نے نہ تو تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی تنقید۔ اور جس نے تبصرہ کیا بھی تو صرف اسی بات پر کہ اتنی خطیر رقم سے ہسپتال اور سڑک، سکول اور اساتذہ کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیئے، بس اس سے زیادہ کسی نے تبصرہ کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس بات کا مطالبہ کیا کہ اس پر پابندی لگائی جائے۔ جس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ یورپی سوسائٹی میں شرم و حیا، عفت و عصمت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ یہ تہذیب عصر حاضر کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ نہیں تو اور کیا ہے؟ بدتہذیبی و بے حیائی کی حد تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سرکاری تحفظ دیا جاتا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق باقاعدہ ان کی شادیوں کو تسلیم کیا جانے لگا۔ برطانوی اخبار ٹائم ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۹ء کی یہ خبر پڑھیئے اور یورپی تہذیب کا تماشا دیکھئے۔ اخبار لکھتا ہے کہ:
’’ڈنمارک کی حکومت نے لواطت پرستوں کی شادی کو سرکاری تحفظ دینے کا اعلان کر دیا جو یکم اکتوبر ۱۹۸۹ء سے شروع ہو چکا ہے، اس تحفظ سے فائدہ اٹھا کر دو مردوں نے آپس میں شادی کی۔ اوف کارسن اور این لارسن نے جو ۴۲ سال کے ہیں نے بتایا کہ ہماری یہ شادی کوئی معمولی شادی نہ تھی بلکہ دنیا میں ہم پہلے دو ہیں جن کی شادی کو باقاعدہ حکومتی سطح پر تسلیم کیا گیا اور رجسٹرار کے دفتر سے شادی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا گیا۔ یہ شادی کوپن ہیگن کے ٹاؤن ہال میں مزید ۱۰ جوڑوں کے ساتھ رچائی گئی اور بڑے زور و شور سے اس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ آئندہ اس قسم کی شادی عبادت گاہوں میں بھی ہوا کرے گی اور چرچ بھی ایسی شادی کو تسلیم کرے گا۔ انہوں نے اخباری رپورٹر کو بتایا کہ آج کے بعد ہم اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب کو یہ کہہ سکیں گے کہ ہم دونوں قانونی طور پر شادی شدہ ہیں۔ اخبار کے مطابق یورپی ممالک کے تمام ہم جنس پرستوں نے اس خبر و قانون پر بے پناہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ و مطالبہ کیا کہ یورپ کے دوسرے ممالک بھی اسے تسلیم کریں اور اس سلسلے میں یورپی پارلیمنٹ کے دروازے بھی کھٹکھٹائے جائیں گے۔‘‘
یورپی ممالک کے مفکروں، کونسلروں اور ایم پی کی طرف سے غیر اخلاقی حرکت کے نفاذ پر یہ اصرار ان کی بیمار ذہنیت کا پتہ دے رہی ہیں اور پورا معاشرہ عفت و عصمت، شرم و حیا، طہارت و پاکبازی کے معانی و مفاہیم سے بالکلیہ محروم ہو چکا ہے۔ اسی معاشرہ ہی کے وہ افراد ہیں جو رشدی کی شیطانیت کی حمایت میں مصروف و مشغول ہیں کیونکہ یہ حرام کاری اور خلاف وضع فطری عمل دونوں کے دلدادہ ہیں اور ہر اخلاقی امور کی مخالفت ان کا وطیرۂ زندگی بن چکا ہے۔ یہ لوگ فطرتِ سلیمہ اور اخلاقِ عالیہ کے تمام ضوابط سے نہ صرف محروم بلکہ شدت سے ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسے شیطانی افراد سے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ فطرتِ سلیمہ اور اللہ کے دین کے معیار کو سامنے رکھیں گے۔
جب خدا کا تصور اور اس کے احکام کا پاس و لحاظ ختم ہو جائے، زندگی کو حیوانی بلکہ اس سے بھی بدتر طریقے پر گزارنے کا چلن عام ہو جائے تو پھر اخلاقی اقدار باقی نہیں رہتے۔ جب شہوات کی حکمرانی دل و دماغ پر مستحکم ہو جائے تو پھر شرافت، شرم و حیا کا دامن چھوٹ جاتا ہے اور بالآخر فطرت کی خلاف ورزی پر وہ سزا دی جاتی ہے جس سے بچنا ناممکن بن جاتا ہے۔ یہی وہ ایڈز ہے جو عذابِ الٰہی کی صورت میں ظاہر ہو کر ہر بے حیا پر اپنے پنجے گاڑ چکا ہے (العیاذ باللہ)۔
چرچ اور پادریوں کی اخلاقی زبوں حالی
مانچسٹر کے علاقہ برانزوک کے چرچ کی جانب سے یہ خبر ملی ہے کہ ہفتہ میں دو دن God and Sex کے عنوان پر درس دیا جائے گا۔ اس عنوان کے تحت زنا بالجبر، زنا بالرضا، ہم جنس پرستی، چھوٹے بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات اور طلاق جیسے اہم موضوعات ہوں گے۔ علاوہ ازیں ویڈیو فلم بھی دکھائی جائیں گی اور ایک ماہر جنسیات کو بطور خاص مدعو کیا جائے گا۔ مارٹن گوڈر کا کہنا ہے کہ یہ موضوعات ہماری زندگی کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ جب خدا نے شہوت پیدا کی تو اس نے کوئی غلطی نہیں کی۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم اس کی بنائی ہوئی قدرت سے خوب نفع لیں۔ اس کا کہنا ہے کہ جب مجھے اپنی گاڑی کے لیے بہتر سہولت حاصل کرنی ہو تو میں گاڑی بنانے والے کی ہینڈ بک دیکھوں گا۔ اسی طرح زندگی کا صحیح لطف حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس کی کتاب یعنی بائبل دیکھنی ہو گی۔ اخبار نے اس پر یہ سرخی جمائی ہے Church Guide to Good Sex (مانچسٹر ایوننگ نیوز)
پادری صاحب کی اس بات سے تو شاید ہی کسی کو اختلاف ہو گا کہ یورپی تہذیب میں Sex کا موضوع بہت ہی سستا اور عام ہے۔ یہاں کے سکولوں میں اس موضوع پر لیکچر کے علاوہ فلم بھی دکھائی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکی سکول جانے کی بجائے ہسپتال پہنچ جاتی ہے اور ’’کنواری ماں‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے کیونکہ اس تہذیب میں جو شخص جتنا بے حیا و بے شرم ہو گا اتنا ہی مہذب اور جدت پسند کہلاتا ہے اور کونسل سے لے کر حکومت تک اس کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہاں ایک عام آدمی سے لے کر ایم پی تک محبوبہ اور گرل فرینڈ رکھنے کو معیوب نہیں سمھجتا بلکہ بڑے بڑے ایم پی کے ناجائز تعلقات منظرِ عام پر آ چکے ہیں، اور برطانوی ٹیلی ویزن کی ایک مشہور و معروف خبرنامہ پڑھنے والی این دائمنڈ تو ناجائز بچے کی ماں بن کر بھی برطانوی ٹی وی پر پوری آن و بان سے موجود ہیں۔ مانچسٹر ایوننگ نیوز نے ۵ نومبر کی اشاعت میں بچوں کی اخلاقی حالت کا سروے کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب بچوں کا خیال ہے کہ ان کے والدین کو اس جنس پرستی کے موضوع پر بتانا چاہیئے، اس کے بعد ٹیچرز کو بتانا چاہیئے، یوں تو دوست احباب، لٹریچر، رسالے سے بہت سی معلومات مل جاتی ہیں۔
اس کا نتیجہ روزانہ سنتے اور پڑھتے ہیں کہ کس خطرناک صورت میں نکلتا ہے، ہزاروں لڑکیاں کنواری مائیں بن جاتی ہیں، بے شمار بچوں میں بیماریاں پھیل جاتی ہیں، راہ چلتی ہوئی عورت کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ایک ۸۰ سالہ بوڑھی عورت بھی ان کے ہوس کا شکار بن جاتی ہے، مگر حکومت اور برطانوی مفکرین مجبور اور بے بس ہیں کہ اس قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں پر پابندی لگا سکیں۔ پادری صاحب اچھی طرح اس بات کو بھی جانتے ہوں گے کہ چرچ اور گرجاگھروں میں کیا کچھ ہوتا رہا اور ہوتا ہے۔۔۔۔
پادری صاحب کی خدمت میں صرف اتنا عرض کریں گے کہ چرچوں اور گرجاگھروں کو غیر اخلاقی حرکات کی آماجگاہ نہ بنائیں۔ یہاں Sex کے موضوعات پر درس دینے کے بجائے اخلاق و شرافت کے اصول سمجھائیں اور برطانوی حکومت کو مجبور کریں کہ وہ اس قسم کی تمام مخرب اخلاق و حیا سوز رسائل و جرائد، کتاب و فلم پر کڑی پابندی عائد کر کے خلافِ قانون قرار دے اور اس کے مرتکب کا خدائی قانون کی روشنی میں فیصلہ کرے تاکہ صحیح معنوں میں ایک اچھی سوسائٹی کہی جائے۔