حضرت شیخ الہندؒ کے خادم خاص، انتہائی خطرناک اور جوکھم کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے سے طبعًا مناسبت رکھنے والے، صوبہ سرحد اور آزاد علاقہ یاغستان میں وطنِ عزیز کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے، رازداری اور بلند ہمتی کے پیکر جلیل، دوسروں کے لیے خدمت گزاری کا جذبہ رکھنے والے، دوسروں کو راحت اور خود تکلیف اٹھانے میں مسرت محسوس کرنے والے، حق رفاقت کے آداب نبھانے والے، ملکوتی شخصیتوں کے رازداں بننے کی پوری صلاحیت رکھنے والے، دورِ شباب میں ہی آزادیٔ وطن کی خاطر سر اور دھڑ کی بازی لگانے والے، انتہائی جری، بہادر اور غیرت مند، سوجھ بوجھ کے سمندر کے تیراک، صاف گوئی اور بے باکی میں لاجواب انسان حضرت مولانا عزیر گلؒ نے تقریباً ایک سو دس سال کی زندگی گزار کر اس دارفانی سے کوچ کیا۔ آپ کا انتقال اپنے آبائی وطن ایجنسی مالاکنڈ پشاور میں ہوا۔
سی آئی ڈی کی رپورٹ کے مطابق آپ کا وطن درگئی ہے لیکن آپ کا آبائی وطن زیارت کاکا صاحب (پشاور) تھا، البتہ آپ کے والد بزرگوار نے درگئی میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کی اور اس کے بعد آپ کو دین کی تعلیم کے حصول کے لیے دنیا کی شہرہ آفاق یونیورسٹی ’’مدرسہ دارالعلوم دیوبند‘‘ میں بھیجا گیا۔ آپ کا ابتداء میں ہی رابطہ حضرت شیخ الہندؒ سے ہو گیا تھا اور پھر یہ رشتہ اتنا مضبوط ہوا کہ زندگی بھر نہ ٹوٹا۔ مولانا عزیرگلؒ اپنی سادگی طبع کی وجہ سے اساتذہ کے حلقہ میں بے حد مقبول تھے۔
آپ نے جس دور میں پرورش پائی وہ ہندوستان میں انگریزوں کی سامراجی پالیسی کے خلاف علماء ہند اور بالخصوص علماء دیوبند کی جدوجہد کا زمانہ تھا۔ حضرت شیخ مولانا محمود حسنؒ نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے اور آزادی سے ملک کو ہمکنار کرنے کا نعرہ ایسے وقت بلند کیا جبکہ یہاں اس بات کو سوچنا مصائب اور موت کو دعوت دینا تھا۔ یہ انگریزوں کی سلطنت کا عروج تھا اور اس دور میں زمیندار اور امراء انگریزوں کے ساتھ ہو گئے تھے۔ ایسے دور میں انگریزوں کی مخالفت کرنا اور ملک کی آزادی کے بارے میں سوچنا ایسے ہی سرپھرے لوگوں کا کام ہو سکتا تھا جو باطن کی نگاہ رکھتے ہوں اور جن کی ملی غیرت ان کو انگریزوں کا غلام بننے سے روکتی ہو۔ چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ سے درس حاصل کرنے کے دوران ان میں جذبۂ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھر چکا تھا، پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ آپ کو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ جیسا رفیق ملا۔ چنانچہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا عزیر گل صاحب، حضرت شیخ الہندؒ کے خادم خاص ہیں۔ مشن کے ابتدا سے ممبر رہے اور نہایت مہتم بالشان اور خطرناک کاموں کو انجام دیتے رہے۔ صوبہ سرحد اور آزاد علاقہ یاغستان میں سفارت کی خدمات عظیم انہوں نے انجام دیں۔ عمومًا شیخ الہندؒ ان کو پہاڑی علاقوں میں اپنے ہم خیال اور ہمنوا لوگوں کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ دشوار گزار اور خطرناک راستوں کو قطع کر کے نہایت رازادی اور ہمت و استقلال کے ساتھ بار بار آتے جاتے رہے۔ پہاڑی علاقوں اور ہولناک جنگلوں کو رات دن پیدل قطع کرتے رہے۔ حاجی ترنگ زئی اور علماء سرحد یاغستان اور دیگر خواتین کو آپ نے مشن کا ممبر بنایا۔ ان کے پاس پیغام اور خطوط پہنچانا، ان کو ہموار کرنا، ان کا اور مولانا عبید اللہ صاحب مرحوم کا فریضہ تھا جن کو ان دونوں حضرات نے اوقاتِ مختلفہ میں انجام دیا۔ باوجودیکہ سی آئی ڈی ان کے پیچھے لگی رہی مگر انہوں نے کبھی اس کا پتہ چلنے نہ دیا۔ باربار ان کو بھیس بدلنا پڑا اور انجان علاقوں سے گزرنا پڑا مگر نڈر ہو کر ان کو قطع کیا۔ ہر قسم کے خطرات میں بلاخوف و خطر اپنے آپ کو ڈالتے رہے۔‘‘
جب سلطنتِ برطانیہ نے حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک سے واقفیت حاصل کی تو اس نے حضرت کو گرفتار کرنے کا پلان بنایا۔ جب اس طرح کی خبریں حضرت شیخ الہندؒ کو معلوم ہوئیں تو حضرت حجاز کے لیے روانہ ہو گئے۔ یہ وہ دور تھا کہ شریف حسین نے مکہ معظمہ میں سلاطین آل عثمان کی خلافت سے انکار کیا اور ترکی قوم کی تکفیر کا فتوٰی بہت سے علماء سے حاصل کیا۔ اس زمانے میں جب یہ فتوٰی حضرت شیخ الہندؒ کے پاس پیش کیا گیا تو آپ نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ ساری کارروائی انگریزوں کے ایماء پر ہوئی تھی اور اس کا ایک مقصد یہ تھا کہ شریف مکہ کو حضرت شیخ الہندؒ کے خلاف کھڑا کیا جا سکے اور پھر شریف حسین کے ذریعے حضرت شیخ الہندؒ کو گرفتار کیا جا سکے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے درمیان میں پڑ کر صلح صفائی کی کوشش فرمائی مگر یہ بے سود رہی۔ یہی نہیں سب سے پہلے حضرت حسین احمد مدنیؒ کو گرفتار کر لیا گیا۔ شریف مکہ کے پاس بہت سے تاجر پہنچے اور کہا کہ شیخ الہندؒ کی گرفتاری کا ارادہ ترک کر دیا جائے مگر شریف مکہ کے دل میں غبار تھا۔ اس نے کہا کہ انگریزوں سے دوستی قائم رکھنے کے لیے حضرت کی گرفتاری ضروری ہے۔ جب یہ معلوم ہوا تو حضرت شیخ الہندؒ کو چھپا دیا گیا مگر مولانا عزیر گلؒ سے، جو اس وقت شیخ الہندؒ کے ساتھ ہی وہاں گئے ہوئے تھے، حضرت شیخ الہندؒ کا پتہ دریافت کیا گیا اور یہ دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے پتہ نہ بتایا تو ان کو گولی سے اڑا دیا جائے گا۔ حضرت شیخ الہندؒ کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ خود ہی باہر آ گئے اور فرمایا کہ مجھے گوارا نہیں کہ میرے باعث میرے دوست کا بال بیکا ہو۔ احباب کے کہنے پر آپ نے احرام باندھا اور کہا کہ احرام باندھنے کی خاطر باہر گئے تھے مگر حضرت شیخ الہندؒ کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہاں سے یہ حضرات جدہ بھیج دیے گئے اور وہاں سے مصر کے لیے روانہ کر دیے گئے اور ۱۵ فروری ۱۹۱۷ء کو وہاں سے یہ حضرات مالٹا چلے گئے جو سیاسی اور جنگی قیدیوں کا مرکز تھا۔
ہندوستان سے مکہ معظمہ کی روانگی، وہاں قیام اور پھر وہاں سے مالٹا میں قیدی بنا کر بھیج دینے کے دوران مولانا عزیرگلؒ حضرت شیخ الہندؒ کے رفیق خاص تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا عزیر گل خادم خاص کو اپنے وطن جانا اور اپنے اکابر سے ملنا اور اجازت چاہنا ضروری تھا اس لیے ان کی واپسی کا انتظار فرمایا۔ قید کے دوران مولانا عزیر گل کا خیال تھا کہ ان کو پھانسی دی جائے گی۔۔۔۔۔ مولوی عزیر گل تو اپنی کوٹھڑی میں رہ کر اپنی گردن اور گلے کو پھانسی کے لیے ناپتے اور دباتے تھے کہ ذرا مہارت ہو جائے اور پھانسی کے وقت یکبارگی تکلیف سخت نہ پیش آئے اور تجربہ کرتے تھے کہ دیکھوں کس قسم کی تکلیف ہوتی ہے مگر سب کے دل مطمئن تھے گویا کہ نانی کے گھر میں آرام کر رہے ہوں۔‘‘
قید میں رہتے ہوئے مولانا عزیر گلؒ نے قرآن شریف حفظ کرنے کی کوشش کی اور ترکی زبان سیکھی۔ مولانا عزیر گل جس طرح دیوبند میں حضرت شیخ کے خادم خاص تھے، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، اور اسارتِ مالٹا میں بھی خادمِ خاص رہے۔ دیوبند واپس آئے تو آپ کا مسکن وہ مکان تھا جس میں اس وقت حضرت شیخ الہندؒ کی بھانجی کی اولاد رہتی ہے۔ آپ کی شادی دیوبند میں سابق صدر مدرس فارسی مولانا محمد شفیع حسین کی بہن سے ہوئی تھی اور ان سے دو لڑکے ہیں، ایک کا نام محمد زبیر ہے جنہیں عبد الرؤف بھی کہتے ہیں، دوسرے کا نام محمد زہیر ہے، دو لڑکیاں ہیں جو صاحبِ اولاد ہیں۔
مولانا عزیر گلؒ کی وفات سے نہ صرف ایک عظیم مجاہدِ آزادی اس دنیا سے چل بسا بلکہ حضرت شیخ الہندؒ کی یادگار کی آخری کڑی بھی الٹ گئی ؏
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
(بشکریہ دیوبند ٹائمز)