عبادت کا ایک طریقہ روزہ ہے۔ روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے معبود کے لیے شدید و ثقیل مشقت اٹھانے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان جب کسی سے سخت دل بستگی اور قلبی محبت کرتا ہے تو پھر اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کی اپنی زندگی اور مرافقِ حیات درست ہیں یا نہیں اور وہ عیش و آرام میں ہے یا تکلیف و رنج میں۔
محبوبِ حقیقی کی رضا حاصل کرنے کے لیے اقوامِ عالم نے مختلف مسلک اختیار کیے ہیں، بعض لوگوں نے سخت سے سخت جسمانی تکلیف اٹھانا موجبِ سعادت اور باعثِ رضائے الٰہی سمجھا اور ایسے متاعبِ شاقہ کو ضروری سمجھا ہے جن میں فطرتِ انسانی اور خلق اللہ کی تبدیلی نظر آتی ہے۔ مثلاً وہ کسی عضو شریف کو مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ کو ایک ہی حالت میں رکھ کر اس کو خشک کر لیتے ہیں، یا عمر بھر تجرد کی زندگی بسر کرتے ہیں بلکہ عضوِ تناسل کاٹ لیتے ہیں اور قوتِ مردمی کا کلی استیصال کرتے ہیں، یا اس قسم کی اور بے شمار دوسری باتیں جو سنتِ الٰہی کے خلاف ہیں۔
یہ یاد رکھو کہ یہ سب طریقے جاہلانہ طریقے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے والے عابدوں کو معبودِ حقیقی کی خوشنودی حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ ان سے خلق اللہ اور سنتِ الٰہی کی تغیر و تبدیلی آتی ہے۔ اس کی سب سے اچھی اور بہترین صورت وہی ہے جس میں بڑی بڑی نفسانی خواہشات و لذات مثلاً کھانا پینا اور جنسی تعلق کو اتنی دیر کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جو نہ تو بہت کم ہو جس کا کچھ اثر ظاہر و محسوس نہ ہو، اور نہ اتنی دیر تک خواہشات مذکورہ کو ترک کیا جائے کہ ریاضت کرنے والے کے جسم اور اس کے قوائے بدنیہ پر مضر اثر پڑے اور فساد مزاج کا باعث ہو۔
(البدور البازغہ مترجم ۔ ص ۳۰۶)