اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام نے جہاں انسانی اخلاقیات، تہذیب و تمدن، عقیدۂ توحید اور حیات اخروی، انسانی جان و مال، عقیدہ و دین، عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے قوانین وضع کر کے ایک مکمل اسلامی ریاست کے خدوخال واضح کیے ہیں، وہیں پیروکارانِ اسلام نے قرآن کریم کے عمیق مطالعہ سے ایسے نئے نئے علوم دریافت کیے جو یورپ کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھے۔ ’’وَاَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِح‘‘ قرآن کریم نے سب سے پہلے یہ نقطۂ نظر علماءِ سائنس کے سامنے پیش کیا کہ درختوں میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ قائم ہے۔
اسلام چونکہ سب سے پہلے عربوں میں آیا اور اس کے اولین مخاطب عرب تھے اس لیے عربوں نے علمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ عربوں میں یوں تو جڑی بوٹیوں کی تحقیق کا سلسلہ عرصۂ دراز سے جاری تھا، وہ جڑی بوٹیوں سے علاج کرتے تھے اور انہیں جڑی بوٹیوں کے خواص معلوم تھے، باقاعدہ تحقیقی کام دوسری صدی ہجری میں شروع ہوا۔ مسلمان محققین نے علمِ نباتات کو باقاعدہ بنانے کے لیے باقاعدہ ڈکشنریاں مرتب کیں اور علمِ نباتات کے سلسلے میں مختلف درختوں، ان کی خصوصیات، جڑی بوٹیوں کی فہرست اور ان کے مختلف اسماء پرمشتمل نصاب مرتب کیں۔ان محققین میں ابو عبیدہ قاسم بن سلام (المتوفی ۸۳۷م)، سعید بن اوس انصاری (متوفی ۸۳۰م) اور عبد المالک الاصمعی (متوفی ۸۳۱م) قابل ذکر ہیں۔
آج کی نشست میں ہم قارئین کے لیے ان مشہور و معروف محققینِ نباتات کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کر رہے ہیں جن کی خدمات جلیلہ سے اہلِ یورپ نے فائدہ اٹھا کر دنیائے طب و علمِ نباتات میں نام پیدا کیا اور ہماری کتب چرا کر اپنے دیے جلائے اور مسلمانوں کا نام دنیا کی انسائیکلوپیڈیا سے غائب کر دیا۔
(۱) ابو العباس احمد بن محمد بن مفرج النباتی المعروف ابن الرومیہ
آپ ۱۱۶۵ میلادی میں اشبیلہ میں پیدا ہوئے۔ گھومنے پھرنے کا شوق ابتداء سے ہی تھا، اسی شوق نے انہیں مشرق و مغرب میں تحقیقی سفر اختیار کرنے پر مجبور کیا اور مختلف درختوں کا مشاہدہ کیا، ان کا خالص نباتاتی نقطۂ نظر سے مطالعہ کیا۔ اس طرح انہوں نے مختلف درختوں کی شاخوں، تنے، جڑوں، پھولوں کے خواص معلوم کیے۔ انہوں نے ہسپانیہ، شمالی افریقہ، مصر، حجاز، عراق اور شام کا سفر کیا اور ’’کتاب الرحلۃ‘‘ کے نام سے اپنا سفرنامہ تصنیف کیا جس میں ان درختوں کا ذکر اور خواص بیان کیے گئے ہیں جن کا انہوں نے دورانِ سفر مشاہدہ کیا۔ اس نے بحر قلزم کے کنارے اگنے والی بعض جڑی بوٹیوں کے خواص معلوم کیے جن کا اس وقت تک کسی کو علم نہ تھا۔ اختتامِ سفر پر اس نے اشبیلہ میں پنسار کی دکان کھولی۔ ابن ابار کہتے ہیں کہ وہ اپنے تمام ہم عصروں میں سب سے زیادہ لائق اور ماہر عالم تھا۔
تصانیف
احمد بن محمد نے علمی اثار میں اپنی حسب ذیل تصانیف چھوڑیں جو علم کا خزینہ ہیں:
(۱) کتاب الرحلۃ۔ سفرنامہ
(۲) تفسیر اسماء الادویۃ المفردۃ من کتاب دیستوریدس۔ اس کتاب میں مصنف نے مفرد جڑی بوٹیوں کے خواص بیان کیے ہیں۔
(۳) مکالمہ فی ترکیب الادویہ۔ مرکب ادویات بنانے کا طریقہ۔
(۴) ادویۃ جالینوس المستدرکۃ۔ یہ کتب بھی مختلف دواؤں کی خصوصیات سے متعلق ہیں۔
وفات
تاریخ اسلام کا یہ عظیم فرزند ۱۲۳۹م میں اشبیلہ میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا اور وہیں دفن ہوا۔
(۲) ابو جعفر احمد بن محمد الغافقی
ہسپانیہ کا یہ عظیم فرزند جس کے تفصیلی حالات معلوم نہیں ہو سکے، بہرحال یہ عظیم فرزند بھی نباتات کا عالم تھا، اس نے ’’الادویہ المفردہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں حروف تہجی کے اعتبار سے ادویہ کی خصوصیات تحریر کیں۔ اس نے اس تصنیف میں دیستوریدس اور جالینوس کی کتب سے استفادہ کیا۔ اس نے اپنی کتاب میں ادویہ کے نام عربی، لاطینی اور بربری زبان میں دیے۔ اس کی کتاب کی تلخیص ابوالفرج السوری ابن العربی نے ’’جامع المفردات‘‘ کے نام سے لکھی جو ۱۹۳۰م میں قاہرہ میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ غافقی نے بخار و تپ دق کے بارے میں بھی ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام ’’رسالۃ الحمیات والمروق‘‘ رکھا۔
وفات
اشبیلہ میں وفات پائی، صحیح تاریخ معلوم نہیں ہو سکی البتہ سنِ میلادی ۱۱۶۵ تھا۔
(جاری)