’’افکارِ شگفتہ‘‘ بہت دنوں سے میرے سامنے رکھی ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج کا محبت بھرا اصرار اور پھر میری افتادِ طبع، دونوں متقاضی رہے کہ اس پر کچھ لکھوں۔ موضوعات کا تنوع اور دلچسپی مجھے اپنی طرف کھینچتے رہے مگر غمِ دوراں نے مہلت ہی نہ دی۔ آج افکار باقی ہیں مگر وہ شگفتہ چہرہ میری نظروں سے اوجھل ہو چکا، ہمیشہ کے لیے۔
ڈاکٹر فاروق خان کی شہادت کے بعد، یہ دوسرا گھاؤ ہے جو رگِ جاں میں اتر گیا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ ڈاکٹر شکیل اوج سے پہلی ملاقات کب ہوئی، لیکن یہ یاد ہے کہ برسوں سے ایک ہی ملاقات چلی آتی تھی۔ ۱۶ستمبر تک، جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ شاید اس کے بعد بھی کہ ان کا علمی کام اور محبت بھری یادیں، آنے والی مسافت کے لیے زادِ راہ بنی رہیں گی۔یہاں تک کہ داعیِ اجل اس طرف کا رخ کرے اور یہ سفر تمام ہو۔ یہ میرے جذبات ہیں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس زمین پر بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو یہی سوچ رہے ہیں۔ محبت جب بوئی جاتی ہے تو وہ دل کے ویرانوں کو وادئ گل میں بدل دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایسی بہت سی وادیاں آباد کر گئے ہیں جہاں ان کی یاد کے گلاب برسوں مہکتے رہیں گے۔علم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ایک بہتا دریا جس کی روانی دائمی ہے۔
ڈاکٹر شکیل اوج کی فکری آنکھ بریلوی مکتب فکر کی آغوش میں کھلی۔ درسِ نظامی سے فراغت ہوئی تو جدید تعلیم کی طرف رخ کیا اور مروجہ مفہوم میں اس کی چوٹی کو ہاتھ لگایا۔ پی۔ایچ۔ڈی تو تھے ہی، ’ڈی لیٹ ‘کی ڈگری بھی انہیں مل چکی تھی۔ پاکستان میں ان کے علاوہ ایک آدھ ہی اس اعزاز کا حامل ہوگا۔ علم کے اس سفر میں دیانت ان کے ہم رکاب رہی اور یوں وہ فکری ارتقاء کی منازل طے کرتے گئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بر صغیر میں کوئی دوسرا ایسا نہیں جس نے مولانا احمد رضا خان کا ان کی طرح بالاستعیاب اور دقتِ نظر کے ساتھ مطالعہ کیا ہو۔ ان کی کوئی تحریر ایسی نہیں جو منصہ ء شہود پر آ ئی ہو اور ان کی نظر سے نہ گزری ہو۔یہ مگر ان کے علمی سفر کا پہلا پڑاؤ تھا۔ اس وادی میں اترے تو ان پر تین باتیں واضح ہو تی چلی گئیں اور پھر یہ ان کے علمی کام کی پہچان بن گئیں۔ایک یہ کہ دین کے باب میں قرآن مجید فرقان ہے۔ اس کی حاکمیت، روایت اور قول سلف سمیت ہر شے پر قائم ہے۔ دوسرا یہ کہ علم کی دنیا میں تعصب اور کسی خاص مکتب فکر سے غیر مشروط وابستگی، دیانت کے خلاف اور نظری ارتقاء میں مانع ہے۔ ایک سکالر سب سے استفادہ کرتا ہے لیکن کسی رائے کے رد و قبولیت کا فیصلہ مسلکی تعصب کی بنیاد پر نہیں، دلیل اور استدلال کی اساس پر کرتا ہے۔ تیسرا یہ کہ علمی اختلاف باہمی احترام اور سماجی تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہوتا۔ ہم لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں،مکالمہ کرتے ہیں اور بایں ہمہ ان کی علمی جلالت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ اس باب میں وہ اسلاف کا نمونہ تھے۔
فکری ارتقاء کے سفر میں اب وہ اس منزل پر تھے کہ قرآن مجید ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔وہ حافظِ قرآن بھی تھے۔قرآن مجید کی آیات مستحضررہتیں۔ کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو قرآن مجید کے حوالے قابل رشک بے تکلفی سے دیتے چلے جاتے ۔ قرآن مجید سے یہ محبت انہیں مکتب فراہی کے بہت قریب لے آئی۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ کے تو وہ عاشق تھے۔ ان کی دو اہم اور آخری تصانیف ’’ تعبیرات‘‘ اور ’’نسائیات‘‘ اس کی شاہد ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ انگلیوں پر گنے جانے والے ان چند صاحبان علم میں سے تھے جو اپنی تحقیق میں قرآن مجید کی حاکمیت کا عملاً قبول کرتے تھے۔تاہم اس فکری ارتقا کے باوجود قدیم حلقے سے ان کا تعلق خاطر تادمِ آخر قائم رہا۔اپنی آخری کتاب بھی اپنے استاد مولانا محمد اعظم سعیدی کے نام معنون کی۔
چند ماہ پہلے انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیرت کانفرنس کا اہتمام کیا۔ مجھے بھی اس شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ پاک و ہند سے جید علما اور سکالرزمدعو تھے۔ انتخاب میں مسلک کا امتیاز تھا نہ فقہ کی تمیز۔ بھارت سے تشریف لانے والے ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے کلیدی خطبہ دیا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی وسعت قلبی کا اعتراف تھاکہ انہوں نے جسے شرکت کی دعوت دی، اس نے رد نہیں کیا۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہیں ڈاکٹر صاحب کی کئی آراء سے اتفاق نہیں تھا۔ تاہم وہ ان کے علم، محبت اور سماجی رکھ رکھاؤ کے معترف تھے۔ ان کے حلقۂ ارادت میں سب لوگ شامل تھے۔ چند روز پیشتر جب ڈاکٹر طاہر مسعود کی تصنیف’’ کوئے دلبراں‘‘ پر میرا کالم شائع ہوا تو ان کا فون آیا۔ اس وقت وہ مکرمی مفتی منیب الرحمن صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ اُن کے فون سے ازراہ شفقت مفتی صاحب نے بھی بات کی۔ دونوں نے کالم کے بارے میں اپنی رائے اور محبت کا اظہار کیا۔ میں جانتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کااسی طرح کے احترام کاتعلق دوسرے مسلک کے لوگوں کے ساتھ بھی تھا۔
ان کے ہاں تفرد ات یا شذوذعلمی آراء کی قبولیت میں مانع نہیں تھے۔ ان کی ادارت میں نکلنے والے شاندار علمی جریدے ’’التفسیر‘‘ کا ایک منفرد اور ضخیم ’’ تفردات نمبر‘‘ شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے مسلمانوں کی علمی تاریخ کی جلیل القدر شخصیات کے تفردات پر مبنی بہت سے علمی مقالات کو جمع کر دیا۔ چند روز پہلے ’’ التفسیر‘‘کا ایک اور شاندار نمبر’’ برصغیر کے مفسرین اور ان کی تفاسیر‘‘مو صول ہوا۔ ان کا محبت بھرا اصرار تھا کہ یہ دونوں نمبر میرے کالم کا موضوع بنیں۔ اس سے پہلے کہ میں ان کی خواہش کی تکمیل کرتا ، وہ آرزوؤں کی اس دنیا سے رخصت ہو کر جزا و سزا کے دروازے پر جا کھڑے ہوئے۔ شاید میں کبھی ان پر لکھوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے اب یہ بے معنی ہے کہ اب وہ تمناؤں کی اسیری سے رہا ہو چکے۔
ڈاکٹر صاحب طاہر مسعود اور ڈاکٹر آمنہ آفریں بھی ان کے ساتھ گاڑی میں تھے، جب ڈاکٹر شکیل اوج کو ہدف بنا کر مارا گیا۔ایک گولی ڈاکٹر آمنہ کے بازوکو گھائل کر گئی لیکن اﷲ نے ان کی جان بچائی اور طاہر مسعود کی بھی۔ اﷲ کے اس احسان پر ہم اس کے شکر گزار ہیں۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کے علمی کمالات اور شخصی اوصاف سے سب واقف ہیں۔ ڈاکٹر آمنہ آفرین ان کے ہونہار شاگردوں میں سے ہیں۔ ان کی نگرانی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی۔ ڈاکٹر صاحب ان کے علمی اوصاف اور ذہانت کے باعث انہیں عزیز رکھتے۔ چند ماہ پہلے ڈاکٹر فضل الرحمٰن مرحوم پر ڈاکٹر آمنہ کی کتاب شائع ہوئی۔
۱۴ ستمبر کی سہ پہر بی بی سی سے فون آیا کہ وہ ڈاکٹر شکیل اوج کے بارے میں میرے تاثرات ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں۔ چند منٹ ہی بات کر سکا۔مجھے اعتراف ہے کہ میں دریا کو کوزے میں بند نہیں کر سکا۔ کالم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ محض ۵۴ سال کے سفر حیات میں انہوں نے جو علمی سنگ ہائے میل عبور کیے، ان کا ذکر ایک کالم میں نہیں ہو سکتا اور یہ مقصود بھی نہیں۔ ’’افکار شگفتہ‘‘ کی دل کشی باقی رہے گی اور اہل علم ان کی طرف رجوع کرتے رہیں گے، یہ الگ بات کہ ڈاکٹر صاحب خود نہیں ہوں گے۔
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے