شکنجہ سخت ہو رہا ہے۔ معاملہ صرف معیشت یا سیاست کا نہیں، تہذیب کا بھی ہے۔ عالمگیریت ایک سمندر ہے اور اس میں جزیرے نہیں بن سکتے۔ آنکھ کھول کے دیکھیے! ہمارے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے؟
چند روز پہلے یورپی یونین کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر تھا۔ آنے والے ایک ایسے ادارے سے متعلق تھے جس کا موضوع ’’ انسانی حقوق‘‘ ہیں۔ اس وقت دنیا کی غالب آبادی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سزائے موت انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ وفد ہمیں باور کرانے آیا تھا کہ اگر ہم یورپی یونین سے تجارتی مراعات(GSP_Plus status) چاہتے ہیں تو ہمیں سزائے موت کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اگلا قدم پابندیاں ہوگا اور یوں یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے 105 ارکان ممالک سزائے موت کے خاتمے کا فیصلہ کر چکے۔ ہم نے اگر ایسا نہ کیا تو ہم عالمی برادری سے بچھڑ جائیں گے۔
صدر زرداری ہی نہیں نواز شریف صاحب بھی جانتے ہیں کہ دنیا میں تنہا رہنا ممکن نہیں ۔ انسانی سمندرمیں اب کوئی جزیرہ آباد نہیں ہو سکتا۔زرداری صاحب نے پانچ سال تک سزائے موت کو معطل رکھا۔ میاں صاحب نے جون میں یہ پابندی اٹھا دی۔ اب عالمی برادری کے تیور دیکھے تو اسے ’’ عارضی‘‘ طور پر معطل کر دیا ہے۔ یورپی یونین نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔پاکستان میں ای یوکے سفیر نے اگرچہ اس کی تردیدکی ہے کہ مراعات کا سزائے موت سے کوئی تعلق ہے لیکن وفد کے خیالات غیر مبہم ہیں۔
سزائے موت ہونی چاہیے یا نہیں؟ اسلام کا نقطہ نظر، اس باب میں کیا ہے؟ میں ان سوالات سے دانستہ صرفِ نظر کر رہا ہوں۔ میرے سامنے اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو ہے اور میں اس سارے قضیے کو اس تناظرمیں دیکھ رہا ہوں۔ اس کا عنوان وہی ہے جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا۔۔۔عالمگیریت۔ یہ ایک نظامِ اقدار کا نام ہے جس پر ان قوتوں کا اتفاق ہے جن کے ہاتھ میں دنیا کا اقتدار ہے۔ وہ اس نظامِ اقدار کو ساری دنیا پر غالب دیکھنا چاہتی ہیں۔ جو اس سے انحراف کرے گا، اسے ’’ راہ راست‘‘ پر رکھنے کے بہت سے طریقے انہوں نے دریافت کرلیے ہیں۔ سب سے مؤثر تو اقتصادی طریقہ ہے۔ جو اس نظامِ اقدار کو قبول نہ کرے، اس پر معیشت کا دروازے بند کر دیے جائیں، یہاں تک کہ بھوک اور افلاس اسے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کردیں۔
’’انسانی حقوق ‘‘ اس نظام اقدار کا ایک جزو ہے۔ یہ نظامِ اقدار جن بنیادوں پر کھڑاہے، اس میں سب سے اہم ’’ انسانی آزادی‘‘ ہے۔ انسان اپنے معاملات کے تعین میں خود مختار ہے۔ کوئی مذہب ، کوئی الہام، کوئی اتھارٹی اس کی خود مختاری پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتی۔ جینے کا حق چونکہ اس تصور کے تحت بنیادی انسانی حق ہے، اس لیے قتل کا مجرم بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ان کے خیال میں سزائے موت بنیادی طور پر انسانی حقوق سے متصادم ہے اور اسے گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ جو ملک اس کا التزام نہیں کرے گا، وہ انسانی حقوق سے منحرف قرار پائے گا اور اس کے بعد عالمی برادری اسے سزا دینے کا حق رکھتی ہے۔ چین اس حوالہ سے ہمیشہ زیرِ عتاب رہا ہے۔اب وہ لوگ اس کا ہدف بنیں گے جہاں سزائے موت نافذ ہے۔ انسانی حقوق کے دائرے میں محض سزائے موت شامل نہیں ہے۔ خواتین کے حقوق، ازدواجی حقوق اور دوسرے بہت سے حقوق شامل ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ان حقوق کی وہی تعریف قابلِ قبول ہوگی جو اس غالب نظامِ اقدار کے تحت کی جائے گی۔ آپ خواتین کے حقوق کا کوئی ایسا تصور رکھتے ہیں جو اس غالب خیال سے مختلف ہے تو وہ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
میرے نزدیک آنے والے دنوں میں نظام ہائے اقدار کا تصادم مختلف معاشروں کے مابین ایک نئی معرکہ آرائی کی بنیاد بننے والا ہے۔ یہ کچھ بعید نہیں کہ نکاح کا روایتی ادارہ براہِ راست اس کی زدمیں ہو۔بعض ممالک میں ہم جنسی کو نکاح کی ایک صورت کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ جہاں جہاں اس کی مخالفت ہے وہاں وہاں اس کی مزاحمت میں شدت آرہی ہے۔ اسے بڑی حد تک بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ مان لیا گیا ہے۔ یہ دائرہ اگر وسیع تر ہوتا گیا تو ان نظام ہائے کی بقا خطرات میں گھر جائے گی جو غالب تصور سے مختلف ہیں۔
اس وقت عالمگیریت کا یہ نظام پوری طرح غالب نہیں آیا۔ اس کی بعض مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہ بہت سی باتیں گوارا کر رہا ہے۔ جمہوریت، مثال کے طور پر اس نظامِ اقدار کا اہم جزو ہے۔ جمہوریت کا یہ تصور سیکولرزم ہی کی سیاسی توسیع ہے۔آج مشرقِ وسطیٰ وغیرہ میں اس نظام نے شہنشاہیت کو اگر گوار کیا ہوا ہے تو یہ اس کی سیاسی مجبوریوں کے باعث ہے۔ جب یہ مجبوریاں کم ہوں گی، شہنشاہیت پر دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس طرح جہاں جمہوریت سیکولرزم کے تابع نہیں ہو جاتی وہاں بھی تصادم جاری رہے گا۔
پاکستان فکری پراگندگی میں مبتلا ایک سماج ہے۔ یہی نہیں، یہاں تضادات ہیں اور ابہام۔ ہم اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسا سماج ظاہر ہے کہ کسی دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتا۔ نہ اقتصادی نہ تہذیبی۔ اس میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ عالمی نظامِ اقدار کی مزاحمت کرے۔ سزائے موت کی معطلی سے یہ بات پوری طرح واضح ہے۔ میرے نزدیک یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے، بد قسمتی سے جو غورو فکر کا موضوع نہیں بن رہا۔ ہمیں اگر اپنی معاشی سیاسی آزادی عزیز ہے اور ہم اپنی تہذیبی شناخت کے بارے میں حساس ہیں تو اس پر غور کرنا ہوگا کہ اس تہذیبی دباؤ کا سامنا ہم کیسے کر سکتے ہیں؟
تصادم میرے نزدیک کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمیں مکالمے کے میدان میں اترنا ہوگا۔ خوش قسمتی سے اس نظامِ اقدارہی میں وہ جگہ(room) موجود ہے، جہاں سے ہم اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ نظام کثیرالمدنیت(pluralism) کی بات کرتا ہے۔تہذیبی غلبے کی کوشش اس تصور سے متصادم ہے۔یا پھر اس میں جمہوریت کا راگ الاپاجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی ملک کی اکثریت اس بات پر اتفاق کر لیتی ہے کہ وہ اپنی اجتماعیت کی تشکیل کے لیے وحی کو ماخذ مانے گی تو اکثریت کا یہ حق کیوں قابلِ قبول نہیں۔
ہمارے پاس اس وقت یہی راستہ ہے کہ ہم مکالمے کے میدان میں اتریں اور باہر کی دنیا میں اپنے ہم نوا تلاش کریں۔ میرا خیال ہے کہ خاندان کے ادارے اور ہم جنس پرستی جیسے بے شمار معاملات ایسے ہیں جن پر کلیسا بھی وہی بات کہہ رہا ہے جو ہمارے محراب و منبر سے کہی جا رہی ہے۔اسی طرح سنگاپور اور جاپان میں سزائے موت کی سزا مو جود ہے۔میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ سماج کے اہل الرائے ابھی تک معاملے کی سنگینی سے واقف نہیں ہیں۔ اگر کوئی آگاہی موجود ہے تو وہ محض سیاسی ہے اورتصادم کی آب یاری کر رہی ہے۔ بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ جنگ اس میدان میں لڑی جائے جہاں آپ مضبوط جگہ پر کھڑے ہوں۔ فکر و نظر کی دنیا ایسی ہے، جہاں ہماری فتح کا روشن امکان ہے۔ ہمارے مفاد میں یہ ہے کہ اقدار کا معرکہ علم و فکر کی وادی میں برپا ہو۔ سزائے موت کے حوالہ سے یورپی یونین کی تنبیہ ہمیں ایک نئی معرکہ آرائی کی جانب متوجہ کررہی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)