مجلس تحفظ ختم نبوت نے سانحہ لاہور پر جوبیان جاری کیا ہے،اس میں کہی گئی ایک بات بطور خاص اہلِ مذہب اور ریا ست کی تو جہ چا ہتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ قادیانیت کے خلاف ہیں،قادیانیوں کے نہیں۔یہ جملہ اگر ہماری سمجھ میں آجا ئے تو شاید ہم اس آزمائش سے بخیر نکل سکیں،جس کا بطور قوم ہمیں اس وقت سامنا ہے۔ ۱۹۷۴ء سے پہلے قادیانیت ایک سماجی مسئلہ تھا۔جب ریاست نے اس گروہ کو غیر مسلم قرار دیا تواس کے بعد یہ ایک ریا ستی مسئلہ بھی ہے۔گویا اب اس کا ایک پہلو قا نو نی بھی ہے۔ضروری ہے کہ اس معا ملے کی ان دو جہتوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے سمجھاجا ئے۔جہاں اس کا تعلق سماج سے ہے وہاں یہ معا شرتی مسئلہ ہے،جہاں معا ملہ قانو ن کا ہے وہاں اس کا تعلق ریا ست سے ہے۔جب ہم اسے معاشرتی حوالے سے دیکھتے ہیں تو ہم پر علما کا کردار واضح ہو تاہے۔ریاست کی مداخلت وہاں ہو گی جہاں معا ملہ قانو نی ہو گا۔اس فرق کو اگر سمجھ لیا جائے تو شاید ہم اس پیچیدگی سے محفوظ ہو جا ئیں جس میں اس وقت الجھ گئے ہیں۔
مسلمانوں کے معا شرے میں علما کا ایک مستقل کر دار ہے جسے قرآن مجید انذار سے تعبیرکر تا ہے۔ (سورہ توبہ ۹:۱۲۲) اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر معاشرے میں کہیں اخلاقی فساد پیدا ہو تا ہے یا کسی گروہ یافرد کی طرف سے دین کی مخالفت ہو تی یا اس میں اضافے یا کمی کی جسارت کی جا تی ہے تو وہ اس باب میں لوگوں پر حق وا ضح کردیں۔واضح کر نے کا مطلب ہے،اپنی بات کا ابلا غ کر دینا۔یہ اگر چہ ایک مسلسل عمل ہے لیکن اس کا دا ئرہ یہی ہے یعنی ابلاغ۔یہی وہ کام ہے جو اس امت کی تا ریخ میں دعوت و تبلیغ کے عنوان سے جا ری ہے۔ہما ری پو ری تا ریخ میں جیدعلما کا یہی کر دار رہا۔انہوں نے اگر حکمرانوں کی طرف سے دینی انحراف دیکھا توانہیں متوجہ کیا۔اگر خود علما کے گروہ کی طرف سے دینی ضروریات کی خلاف ورزی ہو ئی تو انہیں متنبہ کیا۔اگر معاشرے میں کو ئی خلافِ دین تصور پھیلا تو اس پر عوام کی را ہنما ئی کی۔قرآن مجید کے مطا بق اس کام کی بنیاد ی شرط تفقہ فی الدین ہے۔یہ کام وہی کر سکتا ہے جو دین کاگہرا فہم رکھتا ہے۔یہ عام مسلمان کا کام نہیں ہے۔دعوت کے حوالے سے اس کا دائرہ عمل سورہ عصر میں بیان ہوا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کر تے رہیں۔اس طرف ایک مسلمان بیک وقت داعی ہے اور مدعو بھی۔البتہ معا شرے اور قوم کی سطح پر یہ کام وہی کرے جو دینی علم کا حامل ہو۔
قادیانیت کے باب میں بھی علما کا کر دار یہی ہے۔ وہ معاشرے کو بتا ئیں گے کہ یہ تعبیر کیسے دین کے بنیا دی مقد مات کے خلاف ہے اورکہاں یہ عقیدہ دینی مسلمات سے متصادم ہے۔یہ کام وہ تحریر ،تقریر اور ابلاغ کے دیگر میسر ذرائع کی مدد سے کریں گے۔اس حوالے سے ان کے مخاطب ایک طرف قادیانی ہوں گے اور دوسری طرف عام مسلمان۔دعوت کا یہ کام خیر خوا ہی کی بنیاد پر ہو تاہے۔اس میں وقار ہو تا ہے اور دردِ دل بھی۔اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مخاطب اپنی غلطی پر متنبہ ہو اور اس ضلالت سے نجات حاصل کرے جس میں وہ آپ کے خیال میں مبتلا ہے۔منا ظرہ نہ صرف دعوت سے مختلف بلکہ اس کی راہ میں ایک بڑی رکا وٹ ہے۔یہی سبب ہے کہ رسوخ فی العلم رکھنے والوں نے ہمیشہ اس سے گریز کیا ہے۔امام غزالی نے زند گی کا ایک حصہ اس کی نذر کیا لیکن بعد میں جب ان پر اس کے مضر اثرات واضح ہو ئے تو اس طرزِ عمل سے رجوع کر لیا۔قادیانی مسئلے میں جہاں یہ دردِ دل اور عالمانہ وقاربر قرار ہے وہاں ہمیں اس دعوے کا ثبوت ملتا ہے کہ کیسے لوگ قادیا نیوں اور قادیانیت میں فرق کر رہے ہیں۔میرے نزدیک ہماری روایت میں اس کی بہترین مثال مو لانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب’’قادیانیت‘‘ہے۔میرا مشورہ ہے کہ یہ کتاب ہر قادیا نی کو اس لیے پڑ ھنی چا ہیے کہ وہ جان سکے کہ اہلِ اسلام نے اس کے مسلک کے خلاف جو مقد مہ قائم کیا ہے ،اس کی علمی بنیادیں کیاہے۔اسلوب کی شا ئستگی اسے مجبور کرے گی کہ اس کا دھیان نفسِ مضمون پر رہے۔یہ کتاب ردِ قادیانیت پر کام کر نے والوں کو اس لیے پڑھنی چا ہیے کہ کیسے قادیانیوں اور قادیانیت میں فرق کیا جاتا ہے۔
یہ بات مجھے اس لیے کہنا پڑی ہے کہ ہما رے ہاں بد قسمتی سے قادیانیت اور قادیانیوں میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔اگر میری جسارت کو معاف کیا جائے تو میرے نزدیک اس کی وجہ مجلسِ احرارہے۔یہ قادیانیوں کے خلاف اٹھنے والی پہلی عوامی تحریک ہے۔اس کی قیادت خطیبوں کے ہاتھ میں تھی۔ خطیب کا مخاطب لو گوں کے جذبات ہو تے ہیں،ذھن اور فکر نہیں۔اس کی کا میا بی یہ ہے کہ وہ عوام سے دادِ تحسین وصول کرے۔سید عطا اللہ شاہ بخاری نے ایک مر تبہ اپنے سا معین کومخاطب کر تے ہو ئے یہ کہا تھا کہ تم کا نوں کے عیاش ہو۔کامیاب خطیب وہی ہے جو اس عیا شی کا اہتما م کر تا ہے۔میں یہ بات اپنے تجر بے کی بنیاد پر بھی کہہ سکتا ہوں۔میں نے بچپن میں تقریریں سننے کے لیے بارہا میلوں پیدل سفر کیا۔میں نے کئی مر تبہ سردیوں کی را تیں مسجد میں گزاریں کہ جلسہ ختم ہو نے کے بعد رات گئے گھر جا نا ممکن نہیں تھا۔کم و بیش تین عشروں کے اس تجربے کے بعد میں پورے اطمینان کے ساتھ شاہ صاحب کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ اس مشقت کا اصل محرک کانوں کی عیاشی تھا۔ اگر میرا رحجان مذہبی نہ ہو تا تو میں اپنے ذوقِ سماعت کی تسکین کے لیے گانوں کی مجا لس یا سینما گھروں کا رخ کر تا۔ہمارے ہاں خطیب مسلکی ہوتے ہیں یا سیاسی ۔ ان کی مقبولیت کا راز اس میں ہے کہ وہ دوسرے فریق کی تذلیل،تمسخر یا رد کا کتنا اہتمام کرتا ہے۔
احرار کا ہدف بد قسمتی سے قادیانیت کی بجا ئے قادیا نی بن گئے کیونکہ فنِ خطا بت کی ضرورت یہی تھی۔یہی اسلوب بعد میں بھی بر قرار رہا۔اب بجا ئے یہ بتانے کے کہ قادیانیت کیسے اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہے، سارا زور اس پر صرف ہو نے لگا کہ قادیانی کیسے اسلام، مسلمانوں اور پا کستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس اسلوب کے غلبے سے قادیا نیوں میں ایک ردِ عمل پیدا ہوا اور ان میں اصلاح کی بجا ئے دفاع کا جذبہ ابھرا۔ دوسری طرف ایک عام مسلمان پر یہ اثر ہوا کہ اس میں قادیانیوں سے نفرت اور نا پسندیدگی پیدا ہو ئی۔ ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ تشدد کی اساس بھی انتہا ئی نفرت ہو تی ہے۔ میر احساس ہے کہ اگر اس تحریک کی قیادت خطیبوں کے بجا ئے مو لا نا ابو الحسن علی ندوی جیسے کسی جید عالم کے پاس ہو تی ہو تی تو قادیانیوں کی دوسری یا تیسری نسل میں شاید ہی کو ئی ہو تا جو اپنی گمراہی پر اصرار کرتا۔
۱۹۷۴ء میں جب ریاست نے قادیا نیوں کو غیر مسلم قراردیا تو اس معا ملے کی نئی جہت سامنے آئی۔یہ ملک کے سب سے بڑے آئین ساز ادارے کا فیصلہ تھا۔اس میں قادیانیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا مرزا نا صر پارلیمان کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا دفاع کیا۔اس فیصلے کے چند قا نو نی مضمرات تھے۔مثال کے طور پر اگر وہ غیر مسلم ہیں تو انہیں ایسے مذہبی شعائر کے اعلا نیہ استعمال سے روک دینا چا ہیے جس سے عام آدمی کے لیے مغا لطے کا کو ئی امکا ن پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ضیا الحق صاحب کے دور میں بعض قوا نین بنے جن کے تحت انہیں مسجد اور اس نو عیت کے الفاظ کے استعما ل سے روک دیا گیا۔قادیانیوں نے اس فیصلے کو قبو ل نہیں کیا۔ان کے اس ردعمل سے اس معا ملے کی نو عیت ایک عام مذہبی یا مسلکی تنا زعے کی نہیں رہی۔اب یہ ریا ست اور ایک گروہ کے مابین ایک اختلاف تھا۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں سے آئین اور دستور کے تحت معا ملہ کرے اور انہیں قانون کا پا بند بنا ئے۔ اگر کو ئی گروہ یہ کہتا ہے کہ وہ آئین یا اس کے کسی ایک حصے کو نہیں ما نتا تو ریاست اس کا حق رکھتی ہے کہ وہ نفاذِ آئین کے لیے کو ئی اقدام کرے۔تا ہم حق حاصل ہو نے کا یہ مطلب کبھی نہیں ہو تا کہ اس کو لازماً استعمال کیا جائے۔اس کا نحصار حالات پرہے۔پاکستان میں ریاست نے عام طور پر ان کے خلاف کو ئی اقدام نہیں کیا۔مثال کے طور پر وہ قانو ناً مسجد کی طرح عبادت گاہ تعمیر نہیں کر سکتے لیکن ہم نے دیکھا کہ لا ہور میں جو عبادت گاہ دہشت گردی کا نشانہ بنی،وہ ایک عام مسجد کی طرح تھی۔
ریاست نے جب قادیانیوں کے خلاف فیصلہ سنایا تو اب ان کی نا راضی کا ہدف خود ریاست تھی۔یہ بات قا بلِ فہم ہے۔یہ فیصلہ کسی مذہبی گروہ کا نہیں بلکہ ایک ایسی حکومت کا تھا جس کو اپنے مذہبی تشخص پر کبھی اصرار نہیں تھا۔ اس سے انہیں یہ تاثر ملا کہ غیر قادیانی بحیثیت مجمو عی ان کے خلاف ہیں۔یہی وہ گرہ ہے جس کے نہ کھلنے سے شکوک کا ایک جنگل آباد ہوا اور قادیا نیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹا نے کا مطا لبہ سامنے آیا۔ لوگ جب قا ئد اعظم کی طرف سے سر ظفر اللہ خان کو وزیر خارجہ بنا نے کا ذکر کر تے ہیں تو وہ اس بڑی تبدیلی کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ۱۹۷۴ء میں آئی ہے۔اب ریاست نے ان کے خلاف ایک فیصلہ سنا یا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد ریاست کے ساتھ ان کے جذبات کی نو عیت اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ ریاست کے فیصلے کے بعد اب اس تنا زعے کے تین فریق ہیں: مذہبی گروہ با لخصوص جن کا ہدف قادیا نی ہیں، قادیانی اور ریاست۔اگر یہ تینوں مل کر یہ مسئلہ حل کر نا چا ہیں تو میرا خیال ہے کہ اس میں بڑی حد تک کمی آ سکتی ہے۔ مذہبی گروہ کے طرز عمل پر میں پچھلے کالم میں اپنی اصولی را ئے دے چکا۔قادیانیوں کو یہ بات سمجھنی چا ہیے کہ جب انہوں نے ایک مذہبی تعبیر کو اختیار کر لیا ہے تو اس کے کچھ نا گزیرمضمرات ہیں۔ایک یہ قا دیانیت کو اختیار کرنے کے بعد غیر قادیانی مسلمانوں کے ساتھ ان کا جو مذہبی اختلاف پیدا ہوا ہے ،اس کی نو عیت دیوبندی بریلوی اختلاف کی نہیں ہے۔قادیانیوں کے نزدیک غیر قادیا نی مسلمان نہیں ہیں۔غیر قادیانیوں کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرارد ینے سے بہت پہلے قادیانی بزرگ یہ فتویٰ دے چکے۔ اگر آج کسی قادیانی کو شک ہو تو اِس کے لیے اسے اپنے علما سے رجوع کر نا چا ہیے۔
خود مرزا صاحب نے پاکستانی ریاست کے فیصلے سے ۷۴ سال پہلے ،۱۹۰۰ء میں،یہ فیصلہ سنا دیا تھا۔وہ کہتے ہیں:’’مجھے الہام ہوا ہے کہ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہو گا،وہ خدا اور رسول کی نا فر مانی کر نے والا جہنمی ہوگا‘‘(معیار الاخبار)۔ایک اور جگہ لکھا:’’خدائے تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبو ل نہیں کیا ہے،وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘(ذکر الحکیم )۔ان کے ایک خلیفہ اور قادیانی جماعت کے مرکزی پیشوا مرزا بشیر الدین محمود نے ’’آئینہ صداقت ‘‘ میں لکھا؛’’کُل مسلمان جو حضرت مسیح مو عود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح مو عود کا نام بھی نہیں سنا،وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں‘‘۔اسی طرح جب ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے مرزا ناصر سے یہ پو چھا کہ وہ غیر قادیا نیوں کو کیا سمجھتے ہیں تو انہوں نے کسی ابہام کے بغیر جواب دیا ’’کافر‘‘۔ اس بنا پر قادیانیوں کو یہ بات سمجھنی چا ہیے کہ ان کے نزدیک جب غیر قادیانی مسلمان نہیں ہیں تو اس کا نا گزیر نتیجہ یہ ہے کہ غیر قادیانیوں کے نزدیک وہ غیر مسلم قرار پائیں۔ اب جس ریاست میں غیر قادیانیوں کے حکومت ہو گی، وہاں لا زماً ان کے بارے میں وہی فیصلہ ہوگا جو پاکستانی پارلیمان نے کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ملک کی باگ ڈور قادیانیوں کے پاس ہو گی تووہ غیر قادیانیوں کے بارے میں یہی فیصلہ دیں گے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ قادیانیوں کا اس بات کا ادراک کر نا چا ہیے۔جب انہوں نے ایک مذہبی تعبیر اختیار کی ہے تو اس کا یہ نا گزیر نتیجہ ہے جسے کسی طرح زیادتی نہیں کہا جا سکتا۔اگر وہ یہ مان لیں تو اس کے بعد وہ اس ریاست کے اسی طرح شہری ہیں جس طرح کو ئی دوسرا ہے۔
غلط یا صحیح کی تقسیم سے قطع نظر،یہ تاریخی حقیقت ہے کہ نئی نبوت کا دعویٰ لازماً ایک نئی امت کو جنم دیتا ہے اور اس امت کا حصہ بننے کا انحصار اس نبی کے اقرار پر ہو تا ہے۔یہ ایک سماجی حقیقت ہے جس کا تعلق کسی مذہبی عقیدے سے نہیں ہے۔جب مرزا صاحب نے نبی ہو نے کا دعویٰ کیا تو انہوں نے ایک امت کی بنیاد رکھ دی۔یہ پہلے سے مو جود امت سے علیحدگی کا اعلان ہے۔اس کے بعد پہلی امت کا حصہ بننے پر اصرار سماجی حقا ئق کا عدم فہم ہے۔یہ معاملہ صرف اسلام کے ساتھ نہیں ہے۔مسیحیت میں بھی ایسا ہی ہے۔کم و بیش اسی دور میں جب مسلمانوں میں مرزاصاحب کا ’’ظہور‘‘ ہوا،مسیحیت میں جوزف سمتھ نے دعویِٰ نبوت کیا۔اس نے کہا کہ وہ حضرت مسیح کا سچا پیرو کار ہے۔وہ عہد نامہ قدیم و جدید دونوں کو ما نتا تھا۔۱۸۳۰ء میں اس کی کتاب (Book of Mormon ) شائع ہوئی۔اس کا دعویٰ تھا کہ سنہری الواح (Golden Plates) پر لکھی یہ الہامی ہدایت تھی جو ایک فرشتے نے اس تک پہنچا ئی جسے اس نے الہیاتی صلاحیت سے ترجمہ کیا۔امریکا میں اس کے ما نے والوں کی ایک بڑی تعدار ہے جو ریاست یوٹا (Utah) میں آباد ہے۔سالٹ لیک سٹی ان کا مر کز ہے۔یوٹا کا شمار امریکا کی امیر ترین ریاستوں میں ہو تا ہے۔مجھے وہاں جانے اور مارمنز کے مراکز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔بہت آسودہ حال لوگ ہیں۔ان کا مرکز جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہے اور وہاں اتنا خوبصورت اور جدید ایڈیٹوریم ہے کہ امریکا میں شاید ہی کوئی دوسرا ایسا شاندار ایڈیٹوریم ہو۔مسیحی انہیں مرتد کہتے اور اپنی امت کا حصہ نہیں مانتے۔با لکل یہی معا ملہ اسلام اورقادیانیت کا ہے۔اگر وہ اپنے مسلمان تشخص پر اصرار نہ کریں تو ریاست کے ساتھ ان کا تنا زعہ ختم ہوجاتا ہے اور معا شرے کے ساتھ بھی۔
اس کے بعد ریاست کا کردار شروع ہو تا ہے۔ریاست نے عملاً یہ ثابت کر نا ہے کہ ان کی حیثیت ذمی کی نہیں، معاہد کی ہے۔ انہیں وہ سب حقوق حاصل ہوں گے جن کاوعدہ قائد اعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو اس ملک کے شہریوں سے کیا تھا۔ پوری قوم شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً پا بند ہے کہ اس وعدے کی پا سداری کرے۔ ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ اس کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ اس کے بعد کسی کو ان کی جان، مال، عبادت گاہوں اور املاک پر کسی تصرف کا حق نہیں ہوگا۔ان کا یہ حق مسلمہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزاریں۔ وہ ریاست کے اہم مناصب پر فائز رہ سکتے ہیں اور مذہبی حوالے سے ان کے ساتھ کوئی امتیاز جا ئز نہیں ہو گا۔
میری علما سے درخواست ہے کہ وہ اس پہلو سے عوام اور قادیانیت کو اپنا مخاطب بنائیں۔ قادیانی اس کا ادراک کریں اور ریاست آگے بڑھ کر ایسی صورت نکا لے کہ یہ معا ملہ قانون اور دستور کے مطابق اس طرح حل ہو کہ یہاں بلاامتیاز مذہب سب کی جانیں اور املاک محفوظ رہیں۔
(بشکریہ روزنامہ اوصاف)