مبارک ثانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا اطمینان بخش فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی


مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم جناب قاضی فائز عیسیٰ نے ۲۴ اگست کو دوبارہ سماعت کے بعد سابقہ فیصلہ کے متنازعہ حصے حذف کر دیے ہیں جس پر ملک بھر میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے اور دینی قیادتوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے جو ہمارے خیال میں انتہائی خوش آئند ہے اور قومی و ملّی معاملات کو بہتر طریقہ سے حل کرنے کے جذبہ کا اظہار ہے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی طرف سے مجھے بھی حاضری کے لیے کہا گیا تھا جس پر میں نے خود حاضری کی بجائے چیف جسٹس محترم کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کے نام ایک مکتوب میں اپنے موقف اور جذبات و احساسات کا اظہار کر دیا اور اس کا انہوں نے جواب بھی مرحمت فرمایا ہے جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں۔ یہ خط و کتابت اگرچہ ذاتی نوعیت کی ہے مگر متعلقہ قومی و دینی مسائل کے حوالہ سے ہے اس لیے ’’الشریعہ‘‘ کے ذریعہ اسے تاریخ کے ریکارڈ میں شامل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، چنانچہ انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ابوعمار زاہد الراشدی)


باسمہ تعالیٰ

۱۹ اگست ۲۰۲۴ء

محترمی ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟

مجھے آج عدالتِ عظمیٰ کے رجسٹرار آفس سے ’’مبارک ثانی کیس‘‘ پر بائیس اگست کو ہونے والی بحث کے موقع پر سپریم کورٹ میں حاضری کا نوٹس موصول ہوا ہے، یاد آوری کا تہہ دل سے شکریہ!

 اس موقع پر حاضری بعض ذاتی وجوہ کی بنا پر میرے لیے مشکل ہو گی۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا پروفیسر ساجد میر اور محترم حافظ نعیم الرحمٰن کی موجودگی میں اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا کہ ان قائدین کا موقف ہی میرا موقف ہو گا۔ البتہ آپ کے ساتھ ذاتی طور پر ون ٹو ون بے تکلفانہ گفتگو کے طور پر کچھ باتیں کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

(۱) قادیانیوں نے ۱۹۷۴ء کے بعد سے اپنے بارے میں دستورِ پاکستان کا فیصلہ تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کر رکھا ہے بلکہ اس کے خلاف دنیا بھر میں لابنگ اور ذہن سازی کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے مگر کوئی ریاستی ادارہ اس کا نوٹس نہیں لے رہا اور دستورِ پاکستان اپنی عملداری کے لیے ریاستی اداروں کی مسلسل راہ تک رہا ہے۔ 

(۲) ۱۹۸۴ء کے بعد سے قادیانیت کے حوالہ سے تمام تر بحث و مباحثہ بین الاقوامی فورموں اور اداروں میں منتقل ہو چکا ہے جو دن بدن وسعت پذیر ہے مگر ریاست کے بارے میں بین الاقوامی ماحول میں ہونے والے اس بحث و مباحثہ میں کوئی ریاستی ادارہ سنجیدگی کے ساتھ ریاست اور دستور کی نمائندگی اور دفاع کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا بلکہ ریاستی اداروں سے ہٹ کر قومی و دینی حلقوں کی طرف سے بھی اس کا کوئی باقاعدہ نظم اور اہتمام دکھائی نہیں دے رہا جس کی وجہ سے یکطرفہ بریفنگ اور لابنگ کے نتیجہ میں بین الاقوامی فورموں میں ہونے والے یکطرفہ فیصلوں کو بین الاقوامی فیصلے قرار دے کر ان کی پابندی کو ضرور قرار دیا جا رہا ہے اور ان کی پابندی کے لیے یہ سارے پاپڑ بیلے جا رہے ہیں۔

(۳) صرف قادیانیت کا مسئلہ نہیں بلکہ دستورِ پاکستان کے تحت ملک میں نافذ ہونے والے شرعی قوانین کم و بیش سب کے سب اسی صورتحال سے دوچار ہیں جبکہ بین الاقوامی ماحول میں ریاست اور دستور کی نمائندگی اور دفاع کا کوئی نظم موجود نہ ہونے کے باعث (۱) ناموسِ رسالتؐ (۲) حدود و قصاص (۳) خاندانی قوانین اور دیگر دینی معاملات بھی اسی طرح یکطرفہ فیصلوں کے دباؤ کا شکار ہیں۔

(۴) ’’مبارک ثانی کیس‘‘ کا تسلسل دیکھ کر مجھے ’’جسٹس منیر انکوائری کمیشن‘‘ کا ماحول یاد آ رہا ہے کہ کس طرح معاملات و مسائل کو بلاوجہ پھیلا کر امت کے اجتماعی موقف کو کنفیوژن سے دوچار کر دیا گیا تھا اور پوری تحریک خلفشار کا شکار ہو گئی تھی، مجھے خدانخواستہ اب بھی اس کا خطرہ محسوس ہر رہا ہے۔ 

(۵) میرے خیال میں اس کیس کے مباحث کو مزید پھیلانے اور ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ کا ماحول بنانے کی بجائے دستوری، دینی اور قومی تقاضوں کے دائرے میں جلد از جلد سمیٹنا ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور جن پہلوؤں کی میں نے اس عریضہ کے آغاز میں نشاندہی کی ہے، ان کی طرف خصوصی توجہ درکار ہے۔ 

دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت عدالتِ عظمیٰ کو اس مرحلہ میں باوقار سرخروئی سے بہرہ ور فرمائیں اور ہم سب کو ملک کے نظریاتی، دستوری اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے بہتر خدمت سر انجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین۔

شکریہ!  والسلام

ابو عمار زاہد الراشدی

گوجرانوالہ


محترم المقام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔

آپ کے نوازش نامہ میں مذکور پہلے دو نکات پر میں سواے اس کے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا کہ آپ کی تشویش بجا ہے لیکن اس معاملے میں عدالت کچھ نہیں کر سکتی، اور کم از کم موجودہ مقدمے کے تناظر میں تو بالکل بھی نہیں کر سکتی۔ موجودہ مقدمے کا دائرہ پہلے ہی بہت زیادہ پھیل چکا ہے، جس کی نشاندہی آپ نے بھی کی ہے، اور پھر یہ مقدمہ تو درحقیقت ختم ہو چکا ہے، نظرثانی کا مرحلہ بھی گزر چکا ہے، اس وقت تو صرف عبارت کی تصحیح ہی کی جا سکتی ہے اور اس سے زیادہ کچھ کرنا عدالت کے لیے آئین و قانون کی رو سے ممکن ہی نہیں ہے۔

آخری تین نکات پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے چونکہ موقع عنایت کیا ہے، اور چونکہ میں نے آپ کو ہمیشہ ایک شفیق مرشد کے طور پر دیکھا ہے، اس لیے میں دل کی باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں (کوئی تو ہے جس کے سامنے دل کی باتیں رکھی جا سکتی ہیں)۔

تیسرے نکتے پر عرض ہے کہ یہ ناچیز خود بھی، موجودہ ملازمت سے قبل بھی اور ملازمت کے دوران میں بھی، مسلسل مختلف مواقع پر بار بار توجہ دلاتا رہا ہوں، اور الحمد للہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے چیف جسٹس بننے کے بعد قصاص و دیت اور حدود کے جرائم کے علاوہ بھی بہت سارے مقدمات میں قرآن و سنت سے سپریم کورٹ کے فیصلوں میں استدلال کا رجحان نظر آنے لگا ہے، یہاں تک کہ بظاہر جن قوانین کو سیکولر سمجھا جاتا ہے، ان کے تحت دائر مقدمات میں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں قوانین کی تعبیر کی بات ہونے لگی ہے۔

سب سے اہم مقدمہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ۲۰۲۳ء کے متعلق تھا جس میں چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ تمام قوانین کی ایسی تعبیر لازم ہے جو قرآن و سنت کے احکام سے ہم آہنگ ہو۔ اس فیصلے کو فُل کورٹ کی تائید حاصل ہے۔ یہی بات بعد میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے الیکشن ایکٹ ۲۰۱۷ء کے تحت ایک مقدمے کے فیصلے میں بھی لکھی۔

نیز شریعت اپیلیٹ بینچ جو سالہا سال سے غیر فعال تھا، اس میں نئے عالم حج کا تقرر کر کے ان مقدمات کی سماعت شروع کی جو ۳۵ سال سے زیر التوا تھے اور کوئی انھیں سماعت کے لیے مقرر کر ہی نہیں رہا تھا۔

ان امور کی نہ صرف یہ کہ تحسین مذہبی طبقے اور علمائے کرام نے نہیں کی، بلکہ توجہ دلانے کے باوجود ان کی جانب سے مکمل خاموشی ہی رہی۔ اس لیے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دستور اور قانون کی اسلامیت کے معاملے میں کمزوری کی ذمہ داری کیا صرف عدالتوں پر عائد ہوتی ہے ، یا ہمارے علمائے کرام بھی اس میں کسی حد تک قصور وار ہیں؟ عدالتیں اگر بیرونی دباؤ کا شکار نظر آرہی ہیں، تو اس تاثر کی صحت یا عدم صحت سے قطع نظر کیا یہ علمائے کرام کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ عدالتوں کے اسلامی فیصلوں کی تائید کر کے اس نصرت فراہم کریں؟ ہمارا دینی طبقہ مسلسل بد گمانی میں کیوں مبتلا ہے اور اچھے کاموں کی تحسین کے بجاے ان میں بھی سازش کا جال کیوں تلاش کرنے پر تلا ہوتا ہے؟

اب چند معروضات چوتھے اور پانچویں نکات پر۔

مبارک ثانی کیس میں ’’تسلسل‘‘  تو خود مذہبی طبقے کے اصرار پر ہے اور اس وجہ سے اسے جسٹس منیر انکوائری کمیشن سے تشبیہ دینا، میری ناقص راے میں، درست نہیں ہے۔ جسٹس منیر تو مذہبی طبقے کو گھیر نا چاہتے تھے اور یہ دکھانا چاہتے تھے کہ یہ تو مسلمان کی تعریف پر ہی متفق نہیں ہیں۔ اس کے برعکس قاضی صاحب نے پوری صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ مسلمان کی جو تعریف آئین میں دی گئی ہے، یہ قرآن و سنت کے مطابق ہے، ختم نبوت پر کامل اور غیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا، اور یہ کہ غامدی صاحب کی راے کہ ہم کسی کو کافر یا غیر مسلم نہیں کہہ سکتے، آئین سے متصادم ہے۔ پھر یہ ہنگامہ، اے خدا، کیا ہے؟!

تاہم إمارة الصبیان کا نظارہ ہم نے بچشمِ سر دیکھا جب سوشل میڈیا پر اور منبر و محراب پر ایک طوفان کھڑا کیا گیا۔ عدالت نے پہلے ایک پریس ریلیز جاری کی۔ اس پریس ریلیز کا ہی ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جاتا، تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا؛ لیکن صبیان معاملہ ختم کرنے پر کہاں آمادہ تھے ؟ انھوں نے معاملہ آگے بڑھایا، تو عدالت نے نظر ثانی کا موقع دیا اور پھر نظر ثانی کے دائرے سے آگے جا کر ۸ دینی مدارس اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی نوٹس کیا، لیکن صبیان نے سوئی دسویں ادارے المورد پر ٹکا کر رکھ دی، حالانکہ جب اس کا نام لیا گیا، تو موقع پر موجود جسٹس (ر) شوکت صدیقی سمیت کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ پھر نظر ثانی کے موقع پر سب کو تفصیل سے سنا گیا، ان کی تحریرات دیکھی گئیں اور وہ سب کچھ ہوا جو نظر ثانی میں نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ بھی صبیان کو مطمئن نہیں کر سکا۔ ایک دفعہ پھر عدالت نے پریس ریلیز جاری کی، لیکن صبیان اس سے کہاں مطمئن ہوتے۔ اب عدالت نے عبارت کی تصحیح کا موقع عنایت کیا، تو صبیان سپریم کورٹ پر ہی چڑھ دوڑے، اور ہمارے بزرگ ابھی تک اس معاملے میں آگے بڑھ کر اپنا کر دار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

میری سوچی سمجھی راے ہے کہ اگر ہمارے بزرگ علمائے کرام خود اس معاملے کو ابتدا سے دیکھتے اور إمارۃ الصبیان کی زد میں نہ آتے، تو سرے سے نظر ثانی کی ہی ضرورت نہیں تھی۔ پچھلے چند سالوں سے بعض صبیان نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے کہ قادیانیوں جو افعال اپنے گھروں میں سر انجام دیتے ہیں، ان پر بھی توہین قرآن اور توہین رسالت کے مقدمات قائم کیے جائیں۔ ایسا پہلے نہیں تھا۔ دوسری آئینی ترمیم کے وقت اسمبلی اور خصوصی کمیٹی کی پوری کارروائی میں کہیں ایسا نہیں ہے۔ وہاں تو اس کے بر عکس یہ ہے کہ غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد انھیں دیگر اقلیتوں کی طرح مذہبی آزادی کا حق حاصل ہو گا (کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود کو غیر مسلم مانیں، اور جب تک وہ ایسا نہ مانیں، تب تک انھیں یہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے؟ اس پر اپنی معروضات آگے پیش کروں گا۔)

امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ۱۹۸۴ء کے ذریعے مجموعۂ تعزیرات میں اضافہ کی گئی دفعات ۲۹۸-بی اور ۲۹۸-سی کا اطلاق بھی ہمیشہ عوامی سطح پر کیے جانے والے افعال پر کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی تصریح وفاقی شرعی عدالت نے مجیب الرحمان کیس میں بھی کی ہے بلکہ اس کیس میں تو وفاقی شرعی عدالت نے یہاں تک کیا ہے کہ قادیانیوں کی عبادت گاہوں کے لیے وہی احکام ذکر کیے ہیں جو دار الاسلام میں ذمیوں کی عبادت گاہوں کے لیے ہیں۔ نیز اس فیصلے میں کہا گیا کہ غیر مسلم کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہے لیکن وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتا۔

۱۹۹۳ء کے ظہیر الدین کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں ایک رکن نے تو سرے سے مجموعۂ تعزیرات کی ان دفعات کو ہی مذہبی آزادی کے آئینی حق سے متصادم قرار دیا؛ تین ججوں نے کہا کہ یہ متصادم نہیں ہیں؛ ایک حج نے آدھی بات ایک فریق کی مانی اور آدھی دوسرے فریق کی۔ اہم بات یہ ہے کہ اکثریتی (تین جوں کے فیصلے میں بھی ساری بحث اس پر ہے کہ کون سے امور ” قادیانی مذہب‘‘ کے لازمی اجزا میں شامل ہیں اور کون سے نہیں، کیونکہ جو کام کسی مذہب کے لازمی اجزا میں شامل ہوں، ان کی اجازت (معقول قیود کے اندر ) دی جا سکتی ہے۔ نیز اس فیصلے میں قرار دیا گیا کہ قادیانیوں کو  ’’دیگر اقلیتوں کی طرح‘‘ اپنے مذہب پر عمل کا حق حاصل ہے اور کوئی قانون یا انتظامی حکم ان سے یہ حق نہیں چھین سکتا۔

ان دونوں مقدمات میں مسئلہ یہ اٹھایا گیا تھا کہ قادیانی دوسروں کے سامنے خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتے۔ ان میں یہ سوال سرے سے تھا ہی نہیں کہ قادیانیوں کے افعال بذاتِ خود توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت ہیں۔

۲۰۲۲ء کے طاہر نقاش کیس میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بات اٹھائی گئی کہ قادیانیوں کے اپنی عبادت گاہ کے اندر قرآن کا مصحف رکھنا توہینِ قرآن ہے اور کلمہ طیبہ لکھنا تو ہینِ رسالت ہے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہے جب تک کوئی توہین پر مبنی فعل انجام نہ دیا جائے۔

ہمارے علمائے کرام کو ان تین فیصلوں پر اعتراض نہیں ہے، لیکن موجودہ فیصلے پر اعتراض ہے، حالانکہ موجودہ فیصلے میں:

  • قادیانیوں کے عقائد کو ”مذہب ‘‘  نہیں کہا گیا؛
  • قادیانیوں کی عبادت گاہوں کے لیے ذمیوں کی عبادت گاہوں کے احکام ذکر نہیں کیے گئے؟
  • صراحت کی گئی کہ قادیانی خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتے، نہ ہی مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال کر سکتے ہیں؛
  • صراحت کی گئی کہ عوامی سطح پر مذہبی آزادی کا حق قانون، اخلاق اور امنِ عامہ کے تابع ہے؛
  • صراحت کی گئی کہ نجی سطح پر کیے جانے والے افعال پر بھی قانون کے تحت معقول قیود عائد کی جا سکتی ہیں۔

یہ آخری بات تو خصوصاً اہم ہے کیونکہ یہ بات تو مجیب الرحمان، ظہیر الدین اور طاہر نقاش کے فیصلوں سے زیادہ سخت ہو گئی ہے، لیکن پھر بھی تنقید اسی بات پر کی جا رہی ہے۔

ابھی پچھلے دنوں مولانا اعجاز مصطفیٰ صاحب نے لکھا تھا:

’’یہ بات تو ٹھیک ہے کہ قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے، لیکن ان آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ وہ اپنے مذہب کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر کر سکیں گے؟‘‘

شاید فاضل صاحبِ علم کی نظر اس پہلو کی طرف نہیں گئی کہ اگر ”اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر‘‘ بھی وہ ایک دوسرے کے سامنے اپنے مذہب کا اظہار یا ایک دوسرے کو اس کی تبلیغ نہیں کر سکیں گے، تو پھر ’’اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق‘‘ یکسر بے معنی ہو جاتا ہے۔ پھر ہمارے اکابر نے دوسری آئینی ترمیم کے وقت یہ کیوں کہا تھا کہ قادیانیوں کو بطور غیر مسلم اقلیت شہری حقوق میسر ہوں گے؟

اب رہا وہ سوال کہ کیا یہ حقوق اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ پہلے یہ خود کو غیر مسلم مان لیں، تو اس ناچیز کی رائے میں اسمبلی اور خصوصی کمیٹی کی کارروائی، آئینی ترمیم، امتناع قادیانیت آرڈی نینس اور وفاقی شرعی عدالت و سپریم کورٹ کے فیصلوں، کہیں سے بھی اس شرط کا وجود معلوم نہیں ہوتا۔ خود ہمارے علمائے کرام آئین کی دفعہ ۱۸۹ کو نہیں مان رہے جس کا کہنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننا سب پر لازم ہے؛ خود میری ناقص راے میں دفعہ ۴۵ میں حمل المطلق علی المقید ضروری ہے کیونکہ صدر ہر سزا کو معاف نہیں کر سکتا؛ یہی کچھ دفعہ ۲۴۸ کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ صدر، وزیر اعظم و غیر کو قانون سے استثنا مطلقاً حاصل نہیں ہے؛ اور بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں؛ لیکن اس سب کچھ کے باوجود میرے اور آپ کے شہری حقوق ہمیں میسر ہیں۔

اگر ہمارے علمائے کرام کے نزدیک قادیانی ریاست کے باغی ہیں، تو تاویل کے علاوہ منعہ بھی ثابت کرنا ہو گا، اور اس کے بعد بھی انھیں باغی قرار دینا حکومت کے دائرۂ کار میں آئے گا، نہ کہ عدالت کے اختیار میں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدالت تو آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اس لیے قانون میں کوئی سقم ہے، تو اس سقم کا دور کرنا پارلیمان کا کام ہے، نہ کہ عدالت کا۔ پارلیمان قرار داد پاس کرنے کے بجاے قانون میں ترمیم کیوں منظور نہیں کر لیتی؟

یہ چند باتیں بے ساختہ اور بے سوچے سمجھے لکھی گئیں۔ اگر کہیں میں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہو، تو آپ کی شفقت، رافت اور اصاغر نوازی سے امید یہی ہے کہ آپ نہ صرف نظر انداز کریں گے، بلکہ میرے حق میں دعا بھی کریں گے۔

اس وقت عدالت کے سامنے معاملہ ”عبارت کی تصحیح‘‘ کی حد تک ہے۔ اگر فقرہ ۴۲ کی تصحیح کی جائے، تو شاید معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے۔ اس لیے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ ضرور تشریف لائیں اور معاملہ اپنے ہاتھ میں لیں۔ عدالت کی رہنمائی اور اس ابتلا سے ملک و قوم کو نکالنے کا کام آپ جیسے بزرگ اصحابِ علم و تقوی ہی کر سکتے ہیں۔

والسلام عليكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ

نیاز مند

محمد مشتاق احمد

۱۴ صفر ۱۴۴۶ھ

(۲۰ اگست ۲۰۲۴ء)


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۹

مبارک ثانی کیس: عدالتِ عظمیٰ کے روبرو
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مبارک ثانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا اطمینان بخش فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مبارک ثانی کیس کا فیصلہ : دیوبندی قیادت کے لیے قابل توجہ پہلو
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مبارک ثانی کیس ہے کیا اور اب تک اس میں کیا ہوا؟
انڈپینڈنٹ اردو

مبارک ثانی کیس کیا تھا اور نظر ثانی کیوں ضروری تھی؟
بنوریہ میڈیا

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۱)
عبد اللہ صغیر آسیؔ

پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء
علامہ سید یوسف بنوریؒ

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہؒ کی شہادت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۲)
محمود الحسن عالمیؔ

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دنیا کی مسلمان آبادی
میٹا اے آئی

ماہ صفر اور توہم پرستی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

نُکتہ یا نُقطہ؟
ڈاکٹر رؤف پاریکھ

توہینِ مذہب کے مسائل کے حل کے لیے جذباتی ردعمل سے بالاتر ہو کر ایک متحدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز

The Two Viable Paths for the Qadiani Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter