صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۱)

عبد اللہ صغیر آسیؔ


اگر رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ ایک داعیِ اسلام کی حیثیت سے کیا جائے تو یہ بات بڑی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ آپ ﷺ نے دعوت کے فریضے کو ادا کرتے ہوئے ان اصولوں سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا اور اسی طرح آپ ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ؓو صحابیاتؓ کے دعوتی کردار میں بھی انہی اصولوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ دعوت کی کامیابی میں مرکزی کردار ایک داعی کا ہے۔ داعی جس قدر تربیت یافتہ اور انسانی نفسیات کا عالم ہو گا، اس قدر اس کی دعوت مؤثر ہو گی، رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے مؤثر ہونے کی ایک اہم وجہ آپ ﷺ کا ذاتی کر دار تھا اور دوسری وجہ آپﷺ کا اسلوبِ دعوت تھا۔ آپﷺ نے ہمیشہ مخاطبین کی ذہنی استعداد، قلبی میلانات و رجحانات اور ان کے خاندانی و علاقائی پس منظر کو سامنے رکھ کر دعوت کا کام کیا۔

پیغمبر اسلامﷺ کی صحابیاتؓ بھی دعوت و تبلیغ میں ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت اور طرز عمل کو پیش نظر رکھتی تھیں، انہوں نے دعوت و تبلیغ کے اس منصب کو احسن انداز سے نبھایا اور جس طرح انسانی نفسیات کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت دی، اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ عصر حاضر میں چونکہ دعوت دین کا کام اپنے زور و شور پر ہے، جس طرح مرد حضرات دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے ہیں، اسی طرح خواتین بھی اس میدان میں پیش پیش ہیں لیکن موجودہ دور میں دعوت و تبلیغ کا طریقہ کار جس پر صحابیاتؓ کار بند تھیں، اس کا کافی حد تک فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ صحابیاتؓ کا وہ اسلوب جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھا تھا کہ مخاطب کی ذہنی سطح اور نفسیاتی پہلو کو سامنے رکھ کر اس سے گفتگو کی جائے، بہت سی عصر حاضر کی داعیہ اس سے ناآشنا ہیں۔ موجودہ دور میں دعوت ِدین کے وہی آداب و اصول کارگر ثابت ہوں گے رسول اللہﷺ، صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ نے اختیار کیے۔

صحابیاتؓ کے اسی اسلوبِ دعوت کی عصر حاضر میں کیسے تطبیق کی جائے اور انسانی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے دعوت دینے کا کیا لائحہ عمل بنایا جائے کہ دعوت مخاطب کے دل میں اثر انداز ہو جائے، اس سلسلے میں چند اسالیب ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں جن کو اپنا کر ہماری خواتین ان تمام تر خوبیوں کو جان سکتی ہیں جو ایک بہترین داعیہ میں ہونا بہت ضروری ہیں اور جن کے بغیر وہ اپنے دعوت کے اہداف کو پوری طرح حاصل نہیں کر سکتیں، صحابیاتؓ کی زندگی انہی خوبیوں سے بھری پڑی تھی، یہی وجہ تھی کہ اسلام کی تبلیغ میں وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ ان اسالیب میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

۱۔ اُصولِ تدریج کا لحاظ رکھنا

عصر حاضر کی داعیات کا فرض ہے کہ دعوتِ دین میں اصولِ تدریج کا پہلو سامنے رکھیں۔ تدریج کا مطلب یہ ہے کہ داعی ایک ہی بار میں شریعت کے تمام احکامات کو بیان نہ کر دے کہ سامع کے لئے ان کو سننا اور سمجھنا ناممکن ہو جائے بلکہ آہستہ آہستہ اس کے سامنے سارے احکام پیش کرے۔ اگر اس نظام کو حکیمانہ ترتیب سے پیش نہ کیا جائے تو مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے بلکہ الٹا اس کا شدید نقصان ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا حضرت یوسف بن ماہک بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں حضرت عائشہؓ کے پاس موجود تھا تو ایک عراقی نے آکر سوال کیا کہ: اي الكفن خير؟ قالت: ويحك، وما يضرك؟ قال: يا ام المؤمنين، اريني مصحفك، قالت: لم؟ قال: لعلي اولف القرآن عليه فإنه يقرا غير مؤلف، قالت: وما يضرك ايه قرات قبل، إنما نزل اول ما نزل منه سورة من المفصل، فيها ذكر الجنة والنار، حتى إذا ثاب الناس إلى الإسلام نزل الحلال والحرام، ولو نزل اول شيء لا تشربوا الخمر، لقالوا: لا ندع الخمر ابدا ولو نزل لا تزنوا، لقالوا: لا ندع الزنا ابدا، لقد نزل بمكة على محمد صلى الله عليه وسلم، وإني لجارية العب بل الساعة موعدهم والساعة ادهى وامر سورة القمر آية 46، وما نزلت سورة البقرة والنساء إلا وانا عنده، قال: فاخرجت له المصحف فاملت عليه آي السورة۔1 (کفن کیسا ہونا چاہئے؟ ام المؤمنین نے کہا: افسوس اس سے مطلب! کسی طرح کا بھی کفن ہو تجھے کیا نقصان ہو گا۔ پھر اس شخص نے کہا ام المؤمنین مجھے اپنے مصحف دکھا دیجئے۔ انہوں نے کہا کیوں؟ (کیا ضرورت ہے) اس نے کہا تاکہ میں بھی قرآن مجید اس ترتیب کے مطابق پڑھوں کیونکہ لوگ بغیر ترتیب کے پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا پھر اس میں کیا قباحت ہے جونسی سورت تو چاہے پہلے پڑھ لے (جونسی سورت چاہے بعد میں پڑھ لے اگر اترنے کی ترتیب دیکھتا ہے) تو پہلے مفصل کی ایک سورت، اتری (اقرا باسم ربك) جس میں جنت و دوزخ کا ذکر ہے۔ جب لوگوں کا دل اسلام کی طرف راغب ہو گیا (اعتقاد پختہ ہو گئے) اس کے بعد حلال و حرام کے احکام اترے، اگر کہیں شروع شروع ہی میں یہ اترتا کہ شراب نہ پینا تو لوگ کہتے ہم تو کبھی شراب پینا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے ہم تو زنا نہیں چھوڑیں گے اس کے بجائے مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت جب میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی یہ آیت نازل ہوئی (بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر‏) لیکن سورۃ البقرہ اور سورۃ نساء اس وقت نازل ہوئیں، جب میں ( مدینہ میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے اس عراقی کے لیے اپنا مصحف نکالا اور ہر سورت کی آیات کی تفصیل لکھوائی۔)

گو حضرت عائشہؓ کا اس انداز سے سمجھانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس طرح اسلامی تعلیمات تدریجاً نازل ہوئی ہیں اسی طرح ایک داعی کو بھی تدریجاً اسلام کی دعوت پیش کرنی چاہیے تاکہ مخاطب تھوڑی تھوڑی چیزوں کو اچھے طریقے سے سمجھ لے اور ان پر عمل شروع کر دے۔ دعوت کے تدریجی اسلوب کی اہمیت و افادیت کا ذکر کرتے ہوئے مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں کہ: دعوت و تبلیغ میں تدریج کے اصول کا لحاظ رکھا جائے تو صحیح اور درست نتائج پیدا ہوں گے، اگر اسے نظر انداز کیا جائے تو نتائج بھی حوصلہ افزا نہیں ہوں گے1۔ شریعت اسلام نے تمام احکام کے اندر انسانی طبائع اور جذبات کی بڑی حد تک رعایت فرمائی ہے تاکہ انسان کو ان پر عمل کرتے ہوئے کسی قسم کی کوئی تکلیف اور پریشانی نہ ہو۔ لہذا عصر حاضر کی داعیات کے لیے ضروری ہے کہ اصول تدریج کے پہلو کو نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کو ہر جگہ اور ہر لمحہ اسے موقع کے مطابق نافذ کریں۔

۲۔ ترغیب و ترہیب کے ذریعے دعوت دینا

عصر حاضر کی داعیات کے لیے لازم ہے کہ وہ دعوت میں وعدے اور وعیدوں والے مضامین کو اچھے اور سہل انداز میں بیان کریں جیسا کہ صحابیاتؓ لوگوں کو دین حق کی طرف آنے کی نا صرف ترغیب دیتیں بلکہ دین حق کی طرف نہ آنے کے برے نتائج سے بھی آگاہ کرتی تھیں۔ یہ امر اس لئے ضروری ہے کہ ترغیب و ترہیب سے مخاطب کے دل میں احکام کے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، پھر عمل کرنے کی توفیق ہو جائے گی، کیونکہ شروع شروع میں طبیعت کے خلاف کام کرنے سے طبعیت مکدر ہوتی ہے اور طبیعت پر اس کا کرنا گراں گزرتا ہے لہٰذا اگر کوئی اس امر پر آمادہ کرنے والا اور ابھار نے والا ہو تو طبیعت اس کی طرف مائل ہوتی ہے۔ ورنہ طبیعت کے خلاف کوئی بھی کام بغیر لالچ یا بغیر خوف کے نہیں ہوتا، پھر عادت ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ: ترغیب و ترہیب ایک حیثیت سے احکام ہی میں سے ہیں۔ مثلاً جنت اور دوزخ کا مضمون عقیدہ کے درجہ میں تو احکام میں ہی داخل ہے اور عقائد میں سے ہے اور دوسری حیثیت سے ترغیب و ترہیب ہے۔ یعنی جہاں احکام سنانا اور جنت و دوزخ کا مقصد بتانا مقصود نہ ہو، وہاں ترغیب و ترہیب ہے2۔ یعنی بیک وقت ایک داعیہ کو اپنے مخاطبین کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے جبار و قہار ہونے کی صفات سے متنبہ کروانا چاہیے اور خوف اور امید کے درمیان کی ایک فضا میں دعوت کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔

۳۔ مخاطب کی آسانی اور سہولت کو مد نظر رکھنا

عصر حاضر میں ایک داعیہ کے لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ وہ مخاطب کی سہولت اور آسانی کو پیش نظر رکھے، دین کو مشکل نہ بنائے، یہی دعوتی عمل اس کی قبولیت کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے عام مسلمانوں کے لیے ہمیشہ آسانی اور سہولت کے پہلو کو پیش نظر رکھا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نبی کریمﷺ کے اس طرز عمل کے متعلق ارشاد فرماتی ہیں: مَا خُيِّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَأْثَمْ فَإِذَا كَانَ الْإِثْمُ كَانَ أَبْعَدَهُمَا مِنْهُ وَاللَّهِ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ قَطُّ حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللَّهِ فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ4۔ (نبی ﷺ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا حکم دیا جاتا تو آپﷺ ان میں سے آسان کو اختیار کرتے، بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہوتا۔ اگر اس میں گناہ ہوتا تو آپﷺ اس سے بہت دور رہتے، اللہ کی قسم! آپ ﷺ نے کبھی اپنے ذاتی معاملے میں کسی سے بدلہ نہ لیا، البتہ (جب) اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو آپﷺ اللہ کے لیے ضرور انتقام لیتے تھے۔) کیونکہ انسان فطرتاً سہولت پسند ہے اس لئے عصر حاضر کی داعیہ کا فرض ہے کہ وہ دین کو مشکلات کا مجموعہ نہ بنائے بلکہ جہاں تک ممکن ہو، دین کو لوگوں کے لیے آسان بنا کر پیش کرے۔ دینی معاملات میں تشدد پسندی اور سختی سے حتی الوسع پرہیز کرے اور اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو جو حل سب سے آسان ہو، اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

۴۔ مخاطب کی ذہنی استعداد کا لحاظ رکھنا

دعوت و تبلیغ کے میدان میں حکمت کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ داعی مخاطب کی ذہنی استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی دعوت پیش کرے۔ عصر حاضر میں اس امر کی بہت ضرورت ہے کہ ایک داعی یا داعیہ مخاطب کی ذہنی استعداد کے مطابق دعوت دے، اگر داعی عام مخاطب کی ذہنی استعداد کو نظر انداز کرتے ہوئے منطقی استدلال اور فلسفیانہ انداز میں گفتگو شروع کر دے یا کسی صاحب علم اور دانشور شخص کو دعوت دیتے وقت گفتگو کا غیر علمی اور غیر عقلی اسلوب اختیار کرے تو اس صورت میں دعوت یقیناً غیر مؤثر ہو جاتی ہے، اس لئے داعی اور داعیہ کا فرض ہے کہ وہ مخاطب کی ذہنی استعداد اور کیفیات کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کا فریضہ بالکل اسی نہج پر اسی طرح ادا کرے جیسے صحابیاتؓ نے کیا۔ پیغمبر ِ اسلام ﷺ نے غارِ حرا کا واقع بیان کرتے ہوئے حضرت خدیجہؓ فرمایا: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ5۔ ( مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپﷺ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔) حضرت خدیجہؓ کی اس حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپﷺ میں دعوت ِ دین کا کام کرنے کا جذبہ بڑھ گیا، ان کی حوصلہ افزائی سے یہ بھی پہلو نکلتا ہے کہ داعی در حقیقت ایک بے مثال استاد اور مربی کی طرح ہوتا ہے جو سامع کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہوئے اس کے ذہنی پس منظر، اس کی استعداد اور اس کے مزاج کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے۔ وہ ایک بدوی اور شہری، پڑھے لکھے اور ان پڑھ اور عقل و تجربہ کے مختلف مدارج رکھنے والے انسانوں سے مختلف طریقوں اور اسالیب سے گفتگو کرتا ہے۔

۵۔ اعجاز و اختصار

ایک بہترین داعی یا داعیہ کے لیے عصر حاضر میں اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دعوت کی فضول تکرار اور بے فائدہ و طویل بیان کہیں لوگوں کو دعوت کے مضامین ہی سے متنفر نہ کر دے۔ نبیﷺ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے صحابیاتؓ بھی اپنی دعوت کو مختصرا ًمخاطب کے سامنے رکھتی تھیں۔ مثلاً حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا اپنی اولاد کو مختصراً نصیحت کرنا، آپؓ نے مفلسی میں زندگی بسر لی لیکن جب اللہ نے ان کی مالی حالت بہتر کر دی تو پھر کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے لگیں، بیماری کے بعد شفاء یاب ہو کر انہوں نے بہت سے غلام بھی آزاد کئے اور اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: انفقوا وتصدقوا ولا تنتظروا الفضل6۔ (خرچ کرو، صدقہ و خیرات دو اور فراوانی کا انتظار نہ کرو۔)۔ لہذا عصر حاضر کے داعی اور داعیہ کے لیے لازم ہے کہ اس کا کلام معقول اور دل کو لگنے والے دلائل ہوں۔ بلاشبہ فصاحت و بلاغت ایک ایسا وصف ہے کہ جو دعوت کو مؤثر بنا سکتا ہے، انسان کی زبان، اندازِ تخاطب اور طرزِ گفتگو کا اثر اس کے مخاطب پر بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس لئے ایک داعی کو چاہیے کہ اپنا لہجہ میٹھا اور الفاظ نرم رکھے۔ اسی عنوان پر کلام کرتے ہوئے قاری طیب صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’مبلغ اپنے کلام کو فصاحت و بلاغت سے آراستہ کرے، خواہ وہ حکمت سے کام لے یا موعظت اور مجادلہ کے میدان میں آئے، بہرحال بے تکلفانہ انداز سے فصاحت لسانی اس کا شعار ہو نا چاہیے، تاکہ مخاطب صحیح عنوان سے صحیح مقاصد ہی اخذ کر سکے۔ اگر کلام میں پیچیدگی اور بے ترتیبی ہو گی تو مخاطب صحیح اثر قبول نہ کر سکیں گے7۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے خطبے بھی نہایت مختصر ہوا کرتے تھے۔ بات جتنی مدلل اور مختصر ہوگی، سامع کو اسی قدر وہ متاثر کرے گی، عموماً لوگ لمبی گفتگو سے اکتا جاتے ہیں اور دعوت چاہے کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہو، اس کے قابل قدر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

۶۔ مخاطب کی تعریف یا حوصلہ افزائی کرنا

ایک داعی یا داعیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ دعوت میں سامعین کی تعریف یا حوصلہ افزائی کا بھی خصوصی طور پر خیال رکھے البتہ اس سلسلے میں مبالغہ آرائی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مناسب حد تک تعریف یا حوصلہ افزائی سامع کو فطری طور پر پسند آجاتی ہے اور وہ گفتگو میں غیر ارادی طور پر دلچسپی لیتا ہے، صحابیاتؓ کی سیرت سے بھی یہ اسلوبِ دعوت نظر آتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب لوگ دور دراز سے صحابیاتؓ کی خدمت میں طلب علم، مسائل دینیہ کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے آتے تو وہ نہایت کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے ان کا خیر مقدم کرتی تھیں۔ جیسا کہ ایک بار حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو ایک آپؓ سے مسئلہ پوچھنے میں حیا اور شرم مانع ہوئی تو آپؓ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا: لا تستحي أن تسألني أما كنت سائلا عنه أمك التي ولدتك فانما أنا أمك8۔ (تو اس بات کو پوچھنے میں شرم نہ کر جو تو اپنی سگی ماں سے پوچھ سکتا ہے جس نے تجھے جنا ہے، میں بھی تو تیری ماں ہوں۔) اگر حضرت عائشہؓ کی طرح آج کی داعیہ بھی مخاطب کی حوصلہ افزائی کرے گی تو مخاطب میں یہ ہمت پیدا ہو جائے گی کہ وہ دین کی بات کو سن بھی سکے اور پھر اس پر عمل بھی کر سکے۔

پاکستانی خواتین کی کردار سازی

عصرِ حاضر میں پاکستان کی خواتین اور بالخصوص داعیات کے لئے دعوت کے میدان میں بھی صحابیاتؓ کی زندگی عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ بنیادی طور پر ہم اگر آج کے ماڈرن اور جدید ترقی یافتہ دور کی بات کریں تو وقت کے تقاضے بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے معیار زندگی بھی بدل گئے ہیں، اب لوگ سوشل میڈیا کی زندگی میں رہتے ہیں لہذا داعیات کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس علمی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے جدید دور کے تقاضوں سے اچھی طرح باخبر ہوں اور ان تمام وسائل اور ذرائع کو اچھی طرح جان لیں جو اس دعوت کے میدان میں ان کے لئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

(جاری)

دین اور معاشرہ

(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۹

مبارک ثانی کیس: عدالتِ عظمیٰ کے روبرو
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مبارک ثانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا اطمینان بخش فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مبارک ثانی کیس کا فیصلہ : دیوبندی قیادت کے لیے قابل توجہ پہلو
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مبارک ثانی کیس ہے کیا اور اب تک اس میں کیا ہوا؟
انڈپینڈنٹ اردو

مبارک ثانی کیس کیا تھا اور نظر ثانی کیوں ضروری تھی؟
بنوریہ میڈیا

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۱)
عبد اللہ صغیر آسیؔ

پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء
علامہ سید یوسف بنوریؒ

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہؒ کی شہادت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۲)
محمود الحسن عالمیؔ

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دنیا کی مسلمان آبادی
میٹا اے آئی

ماہ صفر اور توہم پرستی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

نُکتہ یا نُقطہ؟
ڈاکٹر رؤف پاریکھ

توہینِ مذہب کے مسائل کے حل کے لیے جذباتی ردعمل سے بالاتر ہو کر ایک متحدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز

The Two Viable Paths for the Qadiani Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter