ماہ صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
’’بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے‘‘ (القرآن)۔
قرآن و حدیث میں اس ماہ کی فضیلت سے متعلق کوئی حدیث مبارکہ وارد ہوئی ہے نہ ہی کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جس سے اس ماہ میں بے برکتی، نحوست، حلال و حرام یا کوئی رسم یا روایت ثابت ہو۔ صفر عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ تین حروف (ص،ف،ر) کا مرکب ہے۔ اس کے معنی ہیں خالی ہونا، پیلا ہونا۔ چنانچہ ان معانی کی رعایت رکھتے ہوئے اس سے بہت سی چیزیں موسوم ہیں چند ایک کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
(۱) ایک بیماری کو صفر کہا جاتا ہے، جس میں انسان کے پیٹ میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور چہرہ زرد پڑ جاتا ہے۔
(۲) ایک مہینے کا نام بھی صفر ہے اور یہ نام کئی وجوہ کی بنا پر رکھا گیا:
(ا) اس مہینے میں لوگ گھروں سے اناج اکٹھا کرنے کے لیے نکلتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہو جاتے۔
(ب) بعض اہلِ لغت کا خیال ہے اس ماہ اہلِ مکہ انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے مکہ سے باہر جاتے تھے، جس سے شہر مکہ خالی رہ ہو جاتا تھا۔
(ج) اہلِ مکہ زمانہ اسلام سے قبل چار مہینوں کا احترام کرتے تھے، ان میں کسی قسم کی لوٹ کھسوٹ قتل و غارت سے پرہیز کرتے تھے، ان میں سے ایک مہینہ محرم الحرام کا ہے، اس ماہ کے اختتام پذیر ہوتے ہی وہ قبائل سے جنگ کے لیے گھروں سے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ اس مناسبت سے اس ماہ کو صفر کہا گیا۔
ان لوگوں کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ صفر کا مہینہ منحوس اور رحمتوں اور برکتوں سے خالی ہوتا ہے۔ اس ماہ میں آسمان سے بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ یہ سب جاہلانہ و من گھڑت روایات ہیں۔ نحوست اور بدشگونی کو کسی ماہ یا کسی چیز کے ساتھ جوڑنا غیر شرعی اور بلا کسی دلیل کے ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں اس قسم کی خرافات پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ اس ماہ میں کوئی پر مسرت تقاریب، یا کسی کام کا افتتاح وغیرہ خصوصاً شادی بیاہ سے مکمل پرہیز کرتے ہیں اور یہ سوچ کر کہ اس ماہ کی نحوست اس کام میں بھی آجائے گی جس کی وجہ سے اس کام میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہ کی نحوست سے بچنے کے لئے طرح طرح کے کھانے بنا کر بانٹے جاتے ہیں خصوصاً اس ماہ میں ابلے ہوئے کالے چنے، حلوہ پوری اور چوری وغیرہ تقسیم کرتے ہیں تاکہ اس ماہ کی نحوست سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ تمام باتیں من گھڑت بے بنیاد اور غلط ہیں قرآن و حدیث، صحابہ کرامؓ و سلف صالحین، ائمہ مجتہدین کسی سے بھی یہ رسومات و نظریات ثابت نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب باطل عقائد کی تردید فرمائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مرض کا لگ جانا، الو اور صفر اور نحوست یہ سب باتیں بے حقیقت ہیں اور جزامی شخص سے ایسے بچو اور پرہیز کرو جس طرح شیر سے کرتے ہیں۔ (بخاری شریف)
زندگی میں نحوست کب آتی ہے؟ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کی مرضی کے بغیر کوئی پتا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔ جیسے خوشیاں من جانب اللہ ہوتی ہیں ایسے ہی دکھ و تکالیف بھی من جانب اللہ ہوتی ہیں، کسی ماہ و سال یا شب و روز سے نحوست نہیں آتی سب اللہ کی مشیت و حکم کے تابع ہیں۔
ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ (التغابن)
’’کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی۔‘‘
انسان کی زندگی میں نحوست اس وقت ڈیرے جما لیتی ہے جب وہ رب العالمین کی احکام کو بھلا کر اپنی من مانی کرنے لگتا ہے۔ اپنی صبح و شام گناہوں و نافرمانیوں کی چادر اوڑھے گزارتا ہے۔ کفر و شرک کرتا ہے، حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتا، جھوٹی گواہی دیتا ہے، نا انصافی کرتے ہے، بددیانتی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے، بے حیائی و فحاشی جیسے گناہوں میں ملوث ہوتا ہے نبی کی سنتوں کو چھوڑ کر بدعات کا راستہ اپناتا ہے۔ قرآن اس بات کو صاف لفظوں میں بیان کرتا ہے: "جو کوئی اچھا کام کرے گا اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جو کوئی خرابی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہو گا‘‘ (سورہ فصلت ۴۶) ایسی ہی سورہ یس کی آیت طائرکم معکم "تمھاری پریشانیاں تمھارے اعمال کی بدولت ہیں"۔
دین میں بدعات و اختراعات سے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (بخاری، مسلم)
"جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی، جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے"۔
یاد رکھیے کہ نحوست تو اس وقت آئے گی جب ہم دین میں پیدا کردہ رسومات و روایات پر عمل کریں گے۔ ایک دیہاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام شریعت سننے کے بعد اس جملے کا تکرار کر رہا ہے کہ لا ازید علی ھذا ولا انقص کہ ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات کو نہ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا‘‘۔ یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ ایک دیہاتی جو کہ عموماً موٹی عقل والے ہوتے ہیں، اسے یہ بات سمجھ آگئی کہ نبی کی بتائے ہوئے طریقوں میں کمی زیادتی درست نہیں مگر ہم جیسوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی؟ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہم دین میں پیدا کردہ غلط عقائد و نظریات اور نئی عبادات کو بلا سوچے سمجھے فوراً قبول کرتے ہیں لیکن جو باتیں ہمیں علماء کرام منبرِ رسول پر بیٹھ کر قرآن و سنت کی روشنی میں سناتے اور بتاتے ہیں ان احکامات سے طرح طرح کے حیلے بہانے بنا کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں، زندگی میں برکتیں ایسے آئیں گی؟
اسلام ایک کامل و مکمل دینِ مبین اور ضابطۂ حیات ہے لہٰذا عبادات وہی معتبر اور قابلِ تحسین ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسول کی قائم کردہ حدود کے اندر ہوں۔ زندگی میں برکتیں اور سکون و اطمینان لانے کا صرف ایک ہی نسخہ ہے: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے بعد تم میں سے جو بھی زندہ رہا وہ آپس میں بہت اختلاف دیکھے گا لہٰذا تم پر لازم ہے کہ میرے اور میرے خلفاء راشدین جو کہ ہدایت یافتہ ہیں ان کے طریقے کو مشعل راہ بناؤ اور انہیں داڑھوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔ دین میں نئی عبادات سے بچتے رہنا، اس لئے کہ نئی عبادت بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے" (الجامع الترمذی)
رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے برے عقائد و بدعات سے محفوظ فرمائے، قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا بنائے اور سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔