مبارک ثانی کیس: عدالتِ عظمیٰ کے روبرو

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی


(مبارک ثانی کیس کے سلسلہ میں چیف جسٹس جناب فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے پینل کے روبرو مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی استنبول (ترکی) سے بذریعہ ویڈیو لنک ہونے والی یہ گفتگو یوٹیوب چینل ’’انور غازی پاڈکاسٹ‘‘ پر موجود ایک ویڈیو سے حاصل کی گئی ہے۔)



تقی عثمانی: ……… موقع دیا، آواز آ رہی ہے؟

فائز عیسیٰ: جی ذرا سا اگر آپ آواز بلند کر سکیں یا مائیک کے پاس آ جائیں، آ تو رہی ہے مگر تھوڑی سی اگر، سب لوگوں کو سنائی نہیں دے گی شاید۔

تقی عثمانی: میں دو باتوں کی معذرت چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ میں ملک سے باہر ہوں، ایک بین الاقوامی میٹنگ ہے جس سے میں اٹھ کر آیا ہوں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ میرے گلے کی تکلیف کی وجہ سے میری آواز ذرا بدلی ہوئی ہے، تو پتہ نہیں آپ حضرات کو سننے میں کوئی دشواری نہ ہو، میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا کہ بلند آواز سے آپ سے بات کروں۔ ذرا آپ مجھے بتا دیں کہ آواز سننے میں آ رہی ہے یا نہیں؟

فائز عیسیٰ: اب بالکل اچھی طرح سے آپ کی آواز آ رہی ہے۔

تقی عثمانی: جی بہت اچھا۔ دیکھیے اس فیصلے کے بارے میں جو چھ فروری کا فیصلہ تھا، اور جو نظر ثانی کی اس کا فیصلہ……

فائز عیسیٰ: آپ کے سامنے ہے؟

تقی عثمانی: جی اس وقت میں چونکہ باہر ہوں، سارے کاغذات میرے پاس نہیں ہیں لیکن فیصلے دونوں میں نے پڑھے ہیں اور اس کے اوپر اچھی طرح غور کیا ہے، اور دونوں فیصلوں کے بارے میں ہم نے مفصل تحریر بھیجی ہے۔ ایک تو چھ فروری کے فیصلے سے متعلق تھی، وہ آپ حضرات کو پہلے ہی پہنچ چکی تھی، آپ نے اس کا نظرثانی کے فیصلے میں بھی حوالہ دیا ہے۔ اور دوسری تحریر جو نظرثانی کے فیصلے میں جو آپ حضرات نے فیصلہ دیا، اس کے اوپر ایک مفصل تبصرہ وہ میں نے اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب وغیرہ نے لکھ کر دیا تھا، وہ شائع تو ہوا ہے لیکن آپ کے پاس نہیں پہنچا تھا۔ جن صاحب نے آج ویڈیو لنک پر خطاب کرنے کے بارے میں مجھ سے ذکر کیا ، تو میں نے ان کو بھیج دیا تھا کہ وہ عدالت میں پیش کر دیں کہ نظرثانی کے فیصلے کے متعلق جو کچھ ہمیں اشکالات ہیں یا جو ہمارے لحاظ سے اس میں جو غلطیاں ہوئی ہیں اس کی تفصیل اس تبصرے کے اندر موجود ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ آپ تک پہنچی ہے یا نہیں۔

فائز عیسیٰ: وہ منگوا لیں گے، میرے سامنے تو نہیں ہے، مگر آپ سے اگر سن لیں کیونکہ کبھی کبھی پڑھنے میں، پھر غلطی ہو جائے گی، بہتر ہے کہ ہم چاہ رہے تھے کہ ڈائریکٹ ہی آپ سے سنیں، آپ سب سے، کیونکہ پہلے بھی تو ہم نے منگوائے تھے، ہو سکتا ہماری سمجھ میں غلطی ہو، آپ جب کوئی بات کریں گے تو ہو سکتا اس سے ہمیں مزید وضاحت مل جائے۔ تو اگر آپ کو یاد ہیں چیدہ چیدہ باتیں اس میں سے یا تمام باتیں تو ہم ان کو نوٹ کرتے جائیں گے۔

تقی عثمانی: ٹھیک ہے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے یہ گزارش کی تھی کہ جب نظرثانی کے لیے اس کیس کو منظور کر لیا گیا اور اس منظور کرنے کے بعد آپ نے بہت سے لوگوں کو نوٹس دیے اور ان سے کہا کہ وہ اپنی آراء لکھ کر بھیجیں یا خود پیش ہوں۔ تو اس میں متعدد اطراف سے آپ کے پاس جوابات آئے۔ ان میں ہمارا وہ جواب بھی تھا جس پر شاید پانچ یا سات حضرات کے دستخط تھے۔ اس میں جو جو نکات اٹھائے گئے تھے، نظرثانی کے وقت میں ضروری تھا کہ ان سارے نکات کو ایک ایک کر کے ذکر کر کے اس کے اندر کوئی غلطی تھی یا اعتراض وہ درست نہیں تھا تو اس کے اوپر بحث کی جاتی۔ لیکن افسوس ہے کہ وہ سارے نکات آپ حضرات تک پہنچے، آپ نے اس کا بہت ہی سرسری ذکر کیا، اور سرسری ذکر کر کے ان باتوں کا جو دلائل اس میں دیے گئے تھے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جب کسی شخص کو آپ طلب کریں اور وہ اپنی رائے پیش کرے جو مقدمے کے اہم مسائل پر مشتمل ہو تو فیصلے میں ضروری ہوتا ہے کہ ان تمام نکات کو اور ان تمام دلائل کو مفصل زیر بحث لایا جائے، اور مفصل زیر بحث لایا جا کر اس کو بتایا جائے کہ اس میں جو تبصرہ کیا جا رہا ہے وہ اس کے ساتھ صحیح ہے یا غلط ہے۔

اب مثال کے طور پر سارے لوگوں نے سوائے ایک کے یہ آپ سے عرض کیا تھا کہ چھ فروری کے فیصلے میں آپ نے جو آیاتِ کریمہ درج کی تھیں، یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ فیصلوں میں قرآن و سنت کے حوالے دیتے ہیں، یہ ہمارے لیے ایک اچھی بات ہے، لیکن جب قرآن کریم کی آیات کو آؤٹ آف کانٹیکسٹ دیا جاتا ہے تو وہ اللہ بچائے تحریف تک بات پہنچ جاتی ہے۔ تو اس مقدمے کے تناظر میں جو مبارک ثانی کے کیس میں ہماری بالکل سمجھ سے باہر ہے۔ اور کوئی بھی آدمی جب اس کو پڑھے گا ان آیات کو اور اس کے بعد آپ کا یہ ریمارک پڑھے گا کہ اگر یہ آیات ذہن میں ہوتیں اور آئین کی دفعات موجود ہوتیں تو یہ مقدمہ درج ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یعنی ایک طرح سے آپ ان آیات کو بنیاد بنا رہے ہیں اس بات کی……

فائز عیسٰی: نہیں نہیں، تقی عثمانی صاحب! میں معذرت چاہتا ہوں آپ برا نہ مانیں (تقی عثمانی: نہیں نہیں برا نہیں مانتا) میں نے بیچ میں آپ کو روکا، اگر ذرا سی وضاحت یوں کر دوں، یقیناً‌ ہمیں بہت سارے وہ ملے کاغذات جن لوگوں کو ہم نے نوٹسیں دیں۔ اگر جتنے نکات ان میں تھے ان سب کو اگر ہم اٹینڈ نہیں کر پائے تو اس میں میری کوتاہی ہے۔ مگر پھر تو وہ فیصلہ نہیں ہوتا وہ تو ایک کتاب بن جاتی۔ اب ایک یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جی بہت لمبے ہو جاتے ہیں فیصلے۔ پتہ نہیں میں صحیح کرتا ہوں یا غلط کرتا ہوں مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ فیصلے اتنے لمبے نہ ہوں کہ کوئی پڑھے ہی نہیں۔ تو ہم جو سمجھ پائے، یقیناً‌ غلط سمجھے ہوں گے ناں، اسی لیے تو یہ درخواست دی گئی ہے سرکار کی طرف سے ۔

تو اب ہم اگر مزید آگے کی طرف بڑھیں تو بہتر ہو گا اگر آپ بنیاد بنائیں یہ جو فیصلہ ہے ۲۹ مئی والا ، ۲۰۲۴ء کا، کیونکہ اب تو پرانی بات (چھ فروری والی) تو ختم ہو گئی، وہ اس میں ضم ہو گئی ہے۔ تو اس میں جو آپ سمجھتے ہیں کہ نقائص ہیں، غلطیاں ہیں یا آپ کے اعتراضات ہیں، جو آپ بہتر سمجھنا چاہیں تو آپ براہ کرم تجاویز دیجیے ، ہماری راہنمائی فرمائیے، اور اگر ہمیں سمجھ نہیں آئی تو ہم آپ سے سوال پوچھ لیں گے اور پھر کوشش کریں گے کہ بہتری کی طرف چلیں۔ تو آگے کو دیکھنا چاہیے اس لیے آپ کی بات بھی بالکل صحیح ہے۔

میں پتہ نہیں صحیح کرتا ہوں یا غلط کرتا ہوں ابھی سے نہیں بلکہ چیف جسٹس بلوچستان کے وقت سے بھی میں، جہاں تک میری کم علمی ہے، تو میں قرآن شریف و حدیث مبارکہ و فقہاء کا حوالہ دیتا ہوں فیصلوں میں کیونکہ ہم آخر کار اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہے ہیں (تقی عثمانی: بے شک، بہت اچھی بات ہے) ۔ اگر دوسرے ملک اپنے ملکوں کے حوالے دیتے ہیں تو ہماری جو تاریخ اتنی زبردست تاریخ ہے تو ہم اپنے حوالے بالکل نہیں دیتے ہیں۔ ہم اپنے فیصلوں میں امریکہ، برطانیہ ، وہاں بھی کرنا چاہیے مگر بہت ساری باتیں …… اس میں یقیناً‌ غلطی بھی ہو گی، وہ شخص سب سے بہتر ہے جو کہ کوئی کام نہ کرے تو اس سے غلطی بھی نہیں ہو گی (تقی عثمانی: صحیح بات ہے) میٹرک کا ایگزیم نہ دو تو میٹرک میں فیل ہونے کا چانس ہی نہیں ہے۔ تو یہ میں کبھی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا ہوں کہ میں غلطی سے بالاتر ہوں (تقی عثمانی: ما شاء اللہ) اسی لیے آپ کو زحمت دی اور ہم بہت مشکور ہیں کہ آپ کانفرنس اٹینڈ کر رہے ہیں، اور اس کو چھوڑ کر کے آئے ہماری رہنمائی کی ہے۔

تو براہ کرم ۲۹ مئی کے فیصلے میں اگر آپ ہمیں صرف بتا دیں کہ یہ جگہ غلط ہے، یہ پیراگراف غلط ہے تو ہم اگر سمجھتے ہیں کہ آپ کی بات میں آپ کے دلائل میں ہم ایگری کریں تو ما شاء اللہ آپ تو ہمارے ساتھ رہ چکے ہیں، ہم تو آپ کی بڑی قدر کرتے ہیں آپ تو شریعت کورٹ کے ممبر بھی تھے، اور میں بتا رہا تھا کہ ابھی واپس شریعت کورٹ فعال ہو چکی ہے۔

تو اگر ہم وہاں سے آغاز شروع کریں ۲۹ مئی سے …… آپ ساتھ ساتھ اپنی تجاویز بھی دیتے جائیں تو ہم ان کو نوٹ کرتے جائیں گے۔ آپ برا نہ مانیں وہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ جو آپ کے سارے نکات جو پہلے کے تھے وہ ہم نے ضم نہیں کیے اپنے فیصلے میں، تو اس کا میں قصوروار ٹھہرا۔ مگر جیسے میں نے بات کی کہ وہ کتاب بن جاتی، کیونکہ نہ صرف آپ کے تھے بلکہ بہت سارے اور بھی تھے۔

تقی عثمانی: نہیں نہیں میں دیکھیے آپ کی مشکلات کو سمجھتا ہوں، میں خود جج رہا ہوں، اور جج کے اوپر کتنا بوجھ ہوتا ہے فیصلوں کو لکھنے کا، یہ میں جانتا ہوں۔ اور اسی لیے خود میں بھی حتی الامکان کوشش یہ کرتا تھا کہ بہت زیادہ تفصیلی فیصلے نہ ہوں تاکہ لوگوں کی سمجھ میں آ سکیں۔ لیکن بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں بہت لمبے لمبے فیصلے بھی لکھنے پڑ جاتے ہیں، جب معاملہ کوئی بہت حساس نوعیت کا ہو تو بہت لمبے فیصلے بھی لکھنے پڑ جاتے ہیں۔

اب آپ نے جب نظرثانی کا فیصلہ لکھا، اس میں جو پہلا حصہ ہے نا، وہ تو بڑا قابلِ استقبال ہے کہ آپ نے ختمِ نبوت کے دلائل دیے، لیکن اس کی ضرورت نہیں تھی، ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ یہ معاملہ مسلّمہ ہے، تمام مسلمانوں کے درمیان، آئین کی رو سے بھی، قوانین کی رو سے بھی، اس کے اوپر مزید رائے کی ضرورت نہیں تھی، جتنا وقت آپ نے اس پر لگایا اگر آپ ان نکات پر لگاتے تو شاید یہ شکایات پیدا نہ ہوتیں۔ لیکن بہرحال جو ہو گیا سو ہو گیا۔ جو اصل ہمارے لیے تشویش کی بات ہے جس کے لیے میں چھ فروری کے فیصلے کا بھی حوالہ دے رہا ہوں ۔

فائز عیسٰی: نہیں، اس کو چھوڑ دیجیے، ۲۹ مئی سے آپ بات کیجیے، اب وہ ختم ہو گیا نا، چھ فروری گیا، اب اس کی کوئی ریلیونس رہی نہیں۔ اب کوئی درخواست آئی ۲۹ مئی کو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، قانونی حیثیت نہیں ہے۔

تقی عثمانی: صحیح ہے۔ تو اب اگر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے تو اس طرف جانے کی ہمیں ضرورت بھی نہیں، بس مجھے اس کا خطرہ ہے کہ وہ اپنی جگہ intact رہے وہ فیصلہ۔

فائز عیسیٰ: جی میں وہ وضاحت کر دوں کہ جب ریویو ہو جائے تو پھر وہ ختم ہو جاتا ہے۔

تقی عثمانی: اب ہم اس کو بھول جاتے ہیں، ٹھیک ہے؟

عدالت سے نئی آواز: جی مفتی صاحب! جب ۶ فروری کے فیصلے پر نظرثانی کا فیصلہ آ گیا ۲۹ مئی کو، تو ۶ فروری کے فیصلے کا وجود ختم ہو گیا، اور ہم نے نگرانی کو تسلیم کر لیا اور ۶ فروری کا فیصلہ ختم کر دیا۔ آپ تو ماشاء اللہ جج رہے ہیں، اس بات کو سمجھیں گے، اب فیلڈ میں ۲۹ مئی ۲۰۲۴ء کا حکم ہے، اب اس پر کوئی ابہام پیدا ہو رہا ہے جسے آپ سمجھتے ہیں، میں نے آپ کی ایک ویڈیو دیکھی …… تو اب اس میں تھوڑی سی آپ ہمیں رہنمائی کر دیں کہ نظرثانی شدہ فیصلے میں جو جو آپ سمجھتے ہیں، سقم ہے، یا جس سے کوئی پیچیدگی پیدا ہو رہی ہے یا اس کا کوئی احتمال ہے، اس کی وضاحت فرما دیں تاکہ ہم اس کو دیکھ سکیں۔

تقی عثمانی: دیکھیے، اس میں جو سب سے زیادہ سنگین بات ہے اس فیصلے کے اندر وہ پیرا گراف نمبر ۷ اور پیراگراف نمبر ۴۲ ہے۔

۷ میں آپ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ احمدی اپنے ایک نجی ادارے میں تعلیم دے رہے تھے۔ جس سے آپ نے یہ گویا assume (فرض) کر لیا کہ قادیانی لوگ جو ہیں وہ اپنے نجی ادارے بنا سکتے ہیں اور اس میں تعلیم و تبلیغ کر سکتے ہیں۔

اسی طرح نمبر ۴۲ میں آپ نے باقاعدہ تبلیغ کا لفظ استعمال کر کے فرمایا کہ یہ اگر اپنے مذہب کی تبلیغ کریں تو یہ ان کی، ایک عجیب اصطلاح استعمال فرمائی آپ نے، تو ان کے گھر کی تنہائی میں شامل ہو گی۔ گھر کی تنہائی سے آپ نے غالباً‌ ترجمہ کیا ہے ان کی پرائیویسی کا شاید، تو اس میں تبلیغ کی آپ نے غیر مشروط اجازت دے دی ہے۔ غیر مشروط کے ساتھ آپ نے ایک لفظ اور بڑھایا ہے کہ قانون کے مطابق۔

اس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جو پی پی سی کا ۲۹۸سی ہے، اس میں دو لفظ الگ الگ بیان کیے ہیں، ہم نے اپنی تحریر میں وہ بات واضح کی ہے۔ یعنی جس چیز سے قادیانی حضرات کو منع کیا گیا ہے وہ دو حصوں میں منقسم ہے ۲۹۸سی میں:

(۱) ایک حصہ ہے preaches or propagates ایک تو یہ ہے،

(۲) اور پھر آگے ہے or invites others to their faith

تو ظاہر ہے کہ قانون میں کوئی لفظ redundant (فاضل) نہیں ہوتا۔ تو اگر ہم preaches کو اور propagation کو دوسروں کے متعلق قرار دیں گے تو invites others to their faith کا جملہ redundant ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا کوئی اور مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے نہ تبلیغ کر سکتے ہیں نہ پریچنگ کر سکتے ہیں۔ ۲۹۸سی اگر آپ براہ کرم نکالیں، میرے پاس اس وقت مواد پورا موجود نہیں ہے۔

فائز عیسیٰ: جی میرے سامنے ہے، میں پڑھ دوں آپ کے لیے یا اس کی ضرورت نہیں؟

تقی عثمانی: جی ضرور پڑھ دیں، تھوڑا اچھا ہو گا۔

فائز عیسیٰ: جی میں پڑھ دیتا ہوں، انگریزی میں ہے تو انگریزی میں پڑھوں گا۔

تقی عثمانی: ظاہر ہے، انگریزی میں پڑھیں آپ۔

فائز عیسیٰ:

Any person of the Qadiani group or the Lahori group (who call themselves “Ahmadis” or by any other name) who directly or indirectly poses himself as a Muslim or calls, or refers to his faith as Islam, or preaches or propagates his faith, or invites others to accept his faith, by words, either spoken or written or by visible representation or in any manner whatsoever outrages the religious feelings of Muslims shall be punished with imprisonment for either description for a term which may extend to three years and shall also be liable to a fine.

فائز عیسیٰ: میں آپ کا پوائنٹ سمجھ رہا ہوں، جی میں بالکل سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ مطلب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ دو پیراگرافس اس میں ابہام ظاہر کر رہے ہیں کہ کہیں یہ ۲۹۸سی کے برعکس ہیں، یہ آپ کا پوائنٹ ہے؟

تقی عثمانی: جی بالکل یہ میرا پوائنٹ ہے کہ جو قابل اعتراض پیراگرافس ہیں، in clear clash with law یعنی ۲۹۸سی کے بالکل مخالف ہے جو آپ نے پیراگراف ۴۲ لکھا ہے۔

فائز عیسیٰ: آپ کہہ رہے ہیں کہ ان دو پیراگرافس کو ختم کر دیں یا ……

تقی عثمانی: دیکھیے، اگر بات کو مختصر کیا جائے تو میری گزارش یہ ہے کہ پیرا گراف نمبر ۷ یہ پورا حذف کیا جائے، اور پیراگراف نمبر ۴۲ اس کو مکمل حذف کیا جائے اور اس کے جو متعلقات ہیں یعنی کئی جگہ اس چیز کا حوالہ آیا ہے وہ اگرچہ ضمناً‌ آیا ہے، لیکن اگر آپ اس کو حذف کر دیں تو امید ہے کہ وہ خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ لیکن جو سب سے اہم چیز جو میں چاہتا ہوں، آپ کی خدمت میں اس کی تجویز پیش کرتا ہوں، وہ یہ ہے۔

فائز عیسیٰ: آپ مجھے شرمندہ نہ کریں، ہم آپ کی بڑی قدر کرتے ہیں۔

تقی عثمانی: بہت شکریہ، بہت شکریہ۔

فائز عیسیٰ: آپ میرے بڑے بزرگ ہیں، آپ بالکل بغیر جھجھک کے ہمیں بتائیے، انسان غلطی کا پتلا ہے اور میں تو (تقی عثمانی: ما شاء اللہ یہ آپ کا) یہ آپ نے بڑی اچھی بات کی کہ یہ دو پیرا گرافس ہیں اور اس کے متعلقات جو آپ کہہ رہیں کہ آٹومیٹیکلی ختم ہو جائیں گے۔

تقی عثمانی: اب میں تھوڑا سا آگے بڑھتا ہوں …… آپ نے دیکھا کہ یہ مسئلہ کتنا حساس ہے، اس کا اندازہ تو آپ کو ہوا ہو گا، اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہ ہمارے ایمان کا بہت بڑا اہم عقیدہ ہے۔ اور اس کے اوپر آپ نے دیکھا کہ کتنا بڑا فیصلہ آئینِ پاکستان نے کیا، کس طرح ترمیم دستور کے اندر کی گئی۔ تو اس میں ہم جب کسی مسئلے میں الجھ گئے ہیں کہیں تو ہمیں محض technicalities کی بنیاد پر بات کو بے دلی سے نہیں کرنا چاہیے بلکہ جب نظرثانی کریں یا کسی غلطی کی کریکشن کریں تو کھلے دل کے ساتھ کریں۔ اور اس کے لیے میں کہتا ہوں کہ ان دو پیراگرافس کو حذف کرنے کے بعد ان کے متعلقات خودبخود حذف ہو جائیں گے۔

(اور) میں یہ چاہتا ہوں کہ (پیراگراف) ۴۹ جیم جو آخری آرڈر کے کلمات ہیں، جو ایک طرح سے آپ نے پورے فیصلے کا آرڈر نکالا ہے، وہ ذرا براہ کرم اپنے سامنے رکھیے۔

فائز عیسیٰ: جی رکھ لیا۔ جی فرمائیے۔

تقی عثمانی: میں نے اس کی جگہ ایک عبارت تجویز کی ہے وہ یہ ہے کہ:

’’جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کہ پیشِ نظر مقدمے کے ملزم پر مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵بی، ۲۹۵سی، ۲۹۸بی، ۲۹۸سی کا اطلاق ہوتا یا نہیں، ضمانت کے اس مقدمے میں جبکہ ملزم کا ٹرائیل ابھی باقی ہے، ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ اس پر کوئی فیصلہ دیں، کیونکہ ٹرائیل کورٹ میں ابھی مقدمہ چل رہا ہے۔ ٹرائیل کورٹ کو چاہیے کہ ہمارے فیصلے مؤرخہ چھ فروری سے متاثر ہوئے بغیر مقدمے کی کاروائی جاری رکھے اور تمام حالاتِ مقدمہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ ملزم پر مذکورہ دفعات کے تحت جرم بنتا ہے یا نہیں؟ خالص میرٹ پر اس کا فیصلہ کرے۔ اور اس طرح نظرثانی کی تمام درخواستیں جزوی طور پر منظور کی جاتی ہیں۔‘‘

فائز عیسیٰ: آپ یہ عبارت بھیج دیں گے ہمیں؟

تقی عثمانی: جو صاحب میرے رابطے میں ہیں، میں ان کو بھیج دیتا ہوں۔

فائز عیسیٰ: ٹھیک ہے، مزید کوئی بات؟

تقی عثمانی: جی میں یہ چاہتا ہوں، میری گزارش یہ ہے کہ اس معاملے کو، زیادہ لٹک گیا ہے یہ، اور اس کی وجہ سے اضطراب انتشار بھی پیدا ہوا۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے کہ آپ نے متعلقہ حضرات کو بلایا، ان کو سنا، اور اس کے بعد آپ نے کوئی فیصلہ کیا۔ اب یہ آخری بار ہو رہا ہے، اس آخری بار میں براہ کرم جتنے اشکالات پیدا ہوئے، اشکال کیا پیدا ہوا میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔

وہ یہ ہے کہ قادیانیوں کو تبلیغ کی اجازت دی گئی ہے جو ۲۹۸سی کے بالکل خلاف ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے جو اپنے فیصلے میں قومی اسمبلی کے اندر جو تقریریں ہوئی تھیں اس وقت اور اس میں یہ کہا گیا تھا۔ میں اس پہلو کو ذرا تھوڑی وضاحت سے عرض کرنا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو۔

فائز عیسیٰ: جی اجازت ہی اجازت ہے۔

تقی عثمانی: اچھا، تو وہ یہ ہے کہ اس اسمبلی میں جو تقریریں ہوئی تھیں اس میں یہ ضرور کہا گیا تھا کہ ہم ان کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے کر غیر مسلم اقلیت کے ان کو حقوق دیں گے۔ یہ بات جو تھی نا، یہ اسلام کی تاریخ کے تمام کیسز کے بالکل برعکس تھی۔ یعنی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر۔

فائز عیسیٰ: یہاں میں ذرا آپ کو، برا نہ مانیے، کیونکہ پارلیمان میں کیا ہوا؟ وہ تو ریکارڈ کا حصہ ہے نا، میں پارلیمان کو تو کوئی حکم نہیں دے سکتا ہوں کہ آپ یہ کریں یا وہ کریں، یا پارلیمان نے جو کہا وہ غلط ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔

تقی عثمانی: نہیں نہیں، بالکل ٹھیک ہے، میں اور بات کرنا چاہ رہا ہوں، ذرا پوری کر لوں، آپ اس کے بعد ذرا ……

فائز عیسیٰ: پھر میں غلط سمجھا، معاف کیجیے گا۔

تقی عثمانی: یعنی پوری اسلامی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی نبوت کا جھوٹا مدعی پیدا ہوا ہو، اور اس کے متبعین کی جماعت ہوئی ہو، اور اس کو دارالاسلام میں ذمی یا غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہو۔ بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ جنگ ہوئی، آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہوں گے، آپ نے تاریخ پڑھی ہے۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ کیا ہوا، طلیحہ بن خویلد کے ساتھ کیا ہوا، بعد میں کتنے جھوٹے مدعی اہلِ نبوت پیدا ہوئے، ان کے ساتھ کیا ہوا۔

فائز عیسیٰ: تقی عثمانی صاحب، آپ کی میں بہت عزت کرتا ہوں، اگر ذرا فیصلے پہ رہیں …… اس میں یہ نہیں کہ میں آپ سے ڈِس ایگری کر رہا ہوں مگر فیصلے میں تو ہم نے ایسی کوئی …… آپ نے جو باتیں کیں جو نشاندہی کی وہ میں نوٹ کر لیں، اب میں زیادہ اس ڈیبیٹ کو بڑھانا نہیں چاہتا ہوں کیونکہ اب پارلیمان میں جو کچھ ہوا ……

تقی عثمانی: نہیں نہیں، ہم پوری عزت کرتے ہیں پارلیمنٹ کی بھی عدالت کی بھی، میری بات پوری ہو جائے تو شاید آپ کا اشکال دور ہو جائے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ تاریخِ اسلام میں کہیں بھی کسی بھی مدعی نبوت یا اس کے پیروکاروں کو ذمی کی اصطلاح کے طور پر یعنی غیر مسلم اقلیت کے طور پر مانا نہیں گیا۔ لیکن پاکستان واحد ملک ہے کہ اس میں یہ کہا گیا کہ چونکہ پاکستان جنگ کے ذریعے نہیں حاصل کیا گیا بلکہ جمہوری طریقے پر اور انتخابات کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے، لہٰذا ہم غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کے پابند ہیں، اپنے اس معاہدے کے تحت جس کے تحت ہمارا پاکستان بنا تھا۔

لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ شروع سے، جب سے قادیانیوں کے خلاف کوئی تحریک مسلمانوں کی شروع ہوئی ہے، چاہے وہ علماء کی طرف سے ہو یا کسی اور طرف سے ہو، اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ شریعت کا اصل حکم ان پر نافذ کیا جائے، یہ زندیق ہیں۔ بلکہ یہ کہا گیا کہ ہم ان کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ یہ گویا ایک طرح سے رعایت دی گئی قادیانیوں کو کہ اگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کر لیں تو ہم ان کو غیر مسلم اقلیت کے تمام حقوق دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہی باتیں پارلیمنٹ میں کہی گئی تھیں اور یہی باتیں بعد میں بھی دہرائی گئی ہیں۔ ہمیں اس پر تنقید نہیں کرنی ہے، ہمیں ان کو ماننا ہے کہ ہم غیر مسلم اقلیت ان کو ماننے کو تیار ہیں۔ لیکن اس صورت میں جب کہ وہ خود اپنے آپ کو مانیں۔ اگر وہ خود غیر مسلم اقلیت ہو کر، اعتراف کر کے اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت کے طور پر رجسٹر کرائیں، اور اس میں کوئی ایسی علامت نہ رکھیں جس سے لوگوں کو یہ دھوکہ ہو کہ یہ مسلمانوں کی کوئی قسم ہے، تو آج بھی ہمارے پاس پارلیمنٹ کے اندر ان کے لیے اقلیتوں کی سیٹوں میں ایک سیٹ ان کی موجود ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہے، آپ زیادہ بہتر جانتے ہوں گے۔ ان میں ایک ہے نا سیٹ احمدیوں کے لیے؟

فائز عیسیٰ: جی ہوتی تو تھی، میں ابھی چیک کر کے بتاتا ہوں آپ کو۔

تقی عثمانی: تو ایک سیٹ ان کی موجود ہے۔ اسی طریقے سے اقلیتوں کا ایک بورڈ ہوتا ہے، اس کے اندر بھی ان کی سیٹ موجود ہے۔ اب وہ حضرات اپنا جو حق آئینی ہے کہ ایک سیٹ ان کی اسمبلی میں ہے، ایک سیٹ ان کی بورڈ میں ہے، لیکن اس کو حاصل کرنے کے لیے ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ جو ترمیم آئین کے اندر ہوئی ہے وہ درست ہوئی ہے اور ہم اس کو مانتے ہیں، ہم اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت قرار…

فائز عیسیٰ: میں ذرا اٹارنی جنرل صاحب سے معاونت اس پوائنٹ پر کر لوں۔

اٹارنی جنرل: سترہویں ترمیم سے پہلے تو مخصوص کی گئی تھیں اقلیتوں کے لیے ان کے مذہب (فائز عیسٰی: یہ قادیانیوں کی بات کر رہے ہیں) جی ۲۰۰۲ء تک (اسمبلی میں سیٹ) تھی، آخری اسمبلی ۱۹۹۷ء کی، اس میں تھی۔ احمدیوں کے لیے ایک سیٹ ہوتی تھی۔ اب ۲۰۰۲ء کے بعد سے وہ بس غیر مسلموں کے لیے ہے، اس میں یہ نہیں ہے کہ کس اقلیت کی کتنی ہو گی، اب دس سیٹیں ہیں وہ کسی کی بھی ہو سکتی ہیں، اب وہ والی تفریق نہیں ہے۔

فائز عیسیٰ: مفتی صاحب آپ نے سنا؟ انہوں نے کہا پہلے وہ specific سیٹ تھی مگر ۲۰۰۲ء کے بعد specificity ختم ہو گئی، اب باقی غیر مسلموں میں وہ ضم ہو گئے ہیں ……

تقی عثمانی: ٹھیک ہے، مگر بہرحال اگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم کے طور پر رجسٹر کرا لیں اب بھی تو جو سیٹیں مخصوص کی گئیں ہیں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے، اگر وہ غیر مسلم اقلیت ہونا تسلیم کر لیتے ہیں، اپنے آپ کو رجسٹر کرا لیتے ہیں، تو پھر ان کی سیٹ ہو سکتی ہے وہاں پر، اب بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں کی گئی۔

فائز عیسیٰ: جی اس پر تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔

تقی عثمانی: ٹھیک ہے نا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا باوجود ساری سہولیات … میں نے عرض کیا تھا کہ اصل مطلب وہ تھا جو مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہوا تھا، لیکن پاکستان چونکہ ایک معاہدے کے تحت بنا ہے، اس معاہدے کے تحت بننے کی وجہ سے علماء نے بھی یہ نہیں سوال اٹھایا کہ ان کے خلاف جنگ کرو ان کو مارو، بلکہ انہوں نے یہی کہا کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دو، اور غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کو جو حقوق حاصل ہیں وہ دیے جائیں۔ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کریں، غیر مسلم اقلیت کے طور پر اپنے آپ کو رجسٹر کرائیں۔ البتہ رجسٹر اس طرح کرائیں کہ اس میں مسلمان کا یا اسلام کے شعائر کا یا مسلمانوں کے کسی لفظ سے لوگوں کو دھوکہ نہ دیں۔ بلکہ کوئی اپنا الگ نام رکھیں، الگ ان کی اصطلاحات ہوں ، اور یہ تسلیم کریں کہ ہم غیر مسلم اقلیت ہیں۔ 

بلکہ ایک موقع پر جناب چیف جسٹس میں نے ایک تجویز پیش کی تھی جب ایک مسئلہ آیا تھا کہ اقلیتی بورڈ شاید کوئی ادارہ ہے ہمارے ہاں، کسی وقت اس میں یہ خیال آیا تھا کہ کسی احمدی کو بھی اس میں شریک کیا جائے، قادیانیوں … تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ مخالفت اس لیے کہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کیا ہی نہیں لہٰذا وہ اس سیٹ کے کیسے حقدار ہو سکتے ہیں؟

میں نے اس موقع پر ایک تجویز دی تھی اپنے دوستوں سے مشورہ کیے بغیر لیکن میرے خیال میں وہ بڑی منصفانہ تجویز تھی، وہ یہ کہ حکومت یا آپ اس وقت چیف جسٹس کے طور پر، جو اُن کے سربراہ ہیں اس وقت تیسرے خلیفہ ہیں یا چوتھے، ان کو آپ پیشکش کریں کہ ہمارے پاس اقلیتی سیٹیں موجود ہیں، اگر آپ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو براہ کرم اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت رجسٹر کرائیں اور آپ اقلیتوں کے حقوق کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ اپنے آپ کو صرف یہاں پاکستان میں نہیں بلکہ پورے عالمی بنیاد پر اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر راضی ہو جاتے ہیں تو وہ جتنے سارے حقوق غیر مسلموں کے آئین نے دیے ہیں یا بحیثیت اقلیت ان کو حاصل ہوتے ہیں وہ سارے حاصل ہوں گے، ہمیں اس میں کوئی اشکال نہیں ہو گا۔

لیکن اگر وہ یہ کہیں نہیں صاحب آپ نے تو فیصلہ ہی غلط کیا، آپ کا آئین غلط ہے، آپ نے ہمیں غیر مسلم قرار دیا تو ہم پر ظلم کیا، تو پھر اس صورت میں جب وہ اس کو نہیں مانیں گے تو آئین کی دی ہوئی وہ سہولتیں جو غیر مسلم اقلیتوں کے لیے ہیں وہ اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اور یہ بات ظہیر الدین بنام ریاست والے فیصلے میں بھی کہی گئی ہے۔ لہٰذا…

فائز عیسیٰ: میں سمجھ گیا آپ کی بات، میں ایک بات آپ کو ذرا بتا دوں ، آپ کو یقیناً‌ پتا ہو گی … آئین کی شق ۲۶۰ کی ذیلی شق ۳، وہ میں پڑھ دیتا ہوں۔

260(3) In the constitution and all enactments and other legal instruments unless there is anything repugnant in the subject or context
(a) "Muslim" means a person who believes in the unity and oneness of Almighty Allah, in the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him), the last of the prophets, and does not believe in, or recognize as a prophet or religious reformer, any person who claimed or claims to be a prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after Muhammad (peace be upon him); and
(b) "non-Muslim" means a person who is not a Muslim and includes a person belonging to the Christian, Hindu, Sikh, Buddhist or Parsi community, a person of the Quadiani Group or the Lahori Group who call themselves 'Ahmadis' or by any other name or a Bahai, and a person belonging to any of the Scheduled Castes.

تو آئین نے تو اس کی بالکل وضاحت کر دی ہے، ہماری رائے کیا ہے، ہم سب پابند ہیں اس کے، ہم تو حلف اٹھاتے ہیں، پابند کر دیا سب کو بلکہ پوری ریاست کو، جتنے شہری رہتے ہیں سب کو پابند کیا ہوا ہے، تو اس میں کوئی ابہام کی بات نہیں ہے، کہ ہے؟ میں نے دو شقیں پڑھیں۔

تقی عثمانی: اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ آئین میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ لیکن اس کی ایپلی کیشن اس معنیٰ میں کہ کونسی غیر مسلم اقلیت کو وہ حقوق حاصل ہوں گے؟

فائز عیسیٰ: جی یہ بات سمجھ گیا، مزید کوئی بات ہے تقی صاحب؟ کیونکہ مجھے پتہ ہے آپ کو سیمینار اٹینڈ کرنا ہے۔ آپ نے ہماری راہنمائی کی، بہت بہت شکریہ۔

تقی عثمانی: بس یہ جو آخری بات میں نے آپ سے کہی، آپ نے کہا تھا میں لکھ کر بھیج دوں کہ ایک تو ۴۲ کو حذف کرنا چاہتا ہوں اور ایک پیراگراف ۱۷ کو۔

فائز عیسیٰ: پیراگراف ۷۔

تقی عثمانی: ذرا معافی چاہتا ہوں میری گنتی ذرا کمزور ہے۔ پیراگراف ۷ اور پیراگراف ۴۲، اس کو تو میں نے عرض کیا کہ مکمل حذف کیا جائے، اور متعلقات۔

فائز عیسیٰ: (ظرافت کے ساتھ) ما شاء اللہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی عمر کیا ہے، یا نہیں پوچھ سکتا؟

تقی عثمانی: (مسکراتے ہوئے) جی ضرور پوچھیں۔ یہ اکتوبر آنے والا ہے اس میں شمسی حساب سے میں ۸۲ سال کا ہو جاؤں گا۔

فائز عیسیٰ: چلیں میری بھی سالگرہ اکتوبر میں ہوتی ہے، ما شاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کو مزید عمر دے اور تندرست رکھے، ہماری رہنمائی کرتے رہیے گا۔

تقی عثمانی: جی ہم تو حاضر ہیں جناب، ہم تو سترہ سال یہاں رہے ہیں آپ کے سپریم کورٹ میں۔

فائز عیسیٰ: …… اب عدالتی دروازہ تو کھلا رہتا ہے کسی کو کوئی بھی بات ہے، اب دیکھیں درخواست دی ہم نے فورً‌ا لگا دی، کوئی چھپائی نہیں کوئی دبائی نہیں، فورً‌ا لگا دی ( تقی عثمانی: ما شاء اللہ، بہت اچھا) پہلے بھی آئی تھی درخواست، اب یہ ضرور آپ کہہ سکتے ہیں کہ فیصلے میں تجویز آپ کا حق ہے، نہ صرف حق ہے بلکہ میرے خیال میں تو آپ رہنمائی کرتے … دیکھ لیں گے اس میں غلطی ہے، نہیں ہے۔ بہت بہت آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہماری رہنمائی فرمائی، اگر کوئی اور بات نہیں ہے تو پھر میں دوسرے ……

تقی عثمانی: بات کوئی اور نہیں ہے gist (مُخ) صرف جو ہے میری اس وقت کی گزارش کا وہ پیرا گراف ۷ اور پیراگراف ۴۲ اور آخری ۴۹ جیم۔

فائز عیسیٰ: جی وہ ٹیکسٹ آپ بھیجیے گا پھر ……

تقی عثمانی: میں آپ کو بھیجتا ہوں۔ دیکھیے میں صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اب اگر آپ کوئی فیصلہ دیں نا، تو وہ فیصلہ براہ کرم پورے دل سے دیں، اور اس میں کوئی ایسی چیز نہ رہنے دیجیے کہ جس کی وجہ سے یہ سمجھا جائے کہ یہ بے دلی سے بات کی گئی ہے۔

فائز عیسیٰ: دل اور دماغ، یا دل؟

تقی عثمانی: (ظرافت کے ساتھ) نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ ما شاء اللہ آپ نے خود ظاہر کیا کہ آپ کو اپنی کسی غلطی سے اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا، یہ اتنی اچھی صفت ہے کہ…

فائز عیسیٰ: نہیں، میں تو پھر گنہگار ٹھہرا کہ اگر میں یہ کہوں کہ ……

تقی عثمانی: تو جب خود آپ کا یہ ذہن ہے اور حدیث بھی موجود ہے اس کے اوپر، حضرت فاروق اعظمؓ کے فیصلے موجود ہیں اس بات کے اوپر کہ بھئی اگر کسی …

فائز عیسیٰ: اسی لیے پرانے زمانے میں لوگ قاضی بنتے نہیں تھے کہ یہ تلوار کی دھار کے اوپر بیٹھنے کے برابر ہے۔ پھر آپ کو پتہ ہے کہ منصور نے کیا کیا قاضی بننے کے لیے، وہ نہیں بننا چاہ رہے تھے، وہ تو خیر آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں وہ سارے واقعے ……

تقی عثمانی: یہ صحیح ہے بالکل، جناب فاضل چیف جسٹس صاحب آپ سینئر ہیں، میں تو بہت جونیئر تھا آپ کے ……

فائز عیسیٰ: نہیں آپ ہمارے بزرگ ہیں، میں آپ سے بہت کم عمر ہوں، علم میں بھی اور عمر میں بھی۔

تقی عثمانی: میں آپ سے صرف یہ گزارش کر رہا ہوں کہ آپ ما شاء اللہ اتنے کھلے دل کے آدمی ہیں کہ ہر غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہیں، اور یہی بڑے آدمی کی علامت ہوتی ہے کہ بڑی سے بڑی غلطی پر وہ ……

فائز عیسیٰ: بڑا نہیں ہوں مگر میں غلطی کا پتلا ہوں یہ اعتراف کرنے میں کوئی …

تقی عثمانی: لہٰذا میری گزارش جو ہے کہ (پیراگراف) ۴۹ والی ……

فائز عیسیٰ: وہ ذرا آپ نے لمبی بات کی مگر جب ہمیں ٹیکسٹ بھیجیں گے ……

تقی عثمانی: میں ابھی بھیجتا ہوں، اس پر آپ ضرور غور فرمائیے گا تو اس سے سارا اضطراب ختم ہو جائے گا۔

فائز عیسیٰ: ٹھیک ہے، ان شاء اللہ، جی آپ کی بات پر غور کریں گے ہم۔

تقی عثمانی، جی ضرور، میں ان کو جو مجھ سے رابطے میں تھے، ظفر اقبال صاحب، میں ان کو بھیج رہا ہوں۔

فائز عیسیٰ: بہت بہت شکریہ، ان کو فارورڈ کر دیں، وہ ہمیں پرنٹ آؤٹ دے دیں گے۔

تقی عثمانی: میں فورً‌ا بھیج رہا ہوں۔ مگر براہ کرم اس کو دیکھیے گا ضرور ، اس پر غور ضرور کیجیے گا۔

فائز عیسیٰ: جی جی ضرور دیکھیں گے، ان شاء اللہ۔ آپ کو زحمت دی ہے اسی لیے، اس لیے تو نہیں بلایا کہ بغیر غور کیے …… ایک دفعہ پھر میں اپنی طرف سے اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے وقت نکالا اور یقیناً‌ آپ کو کچھ دشواری ہوئی ہو گی آنے میں ادھر اور ہم سے ایڈریس کرنے میں۔

تقی عثمانی: یہاں میں انٹرنیشنل کانفرنس ہے جس کو میں چیئر کر رہا ہوں، ان سے میں…… ( فائز عیسیٰ: کون سے ……؟) یہ ہماری ایک کانفرنس ہے ’’شریعہ کونسلنگ فار دی اسلامک فائنانشل انسٹیٹیوشنز‘‘۔ تو وہ اسٹینڈرڈز تیار کر رہی ہے اسلامک فائنانس کے، تو اسٹینڈرڈز تیار کرنے میں بیس ملکوں کے علماء اس میں شریک ہیں، اور یہ تیس سال سے کر رہی ہے، اس کے اوپر یہ سمجھیے کہ تقریباً‌ دو ہزار صفحات کے اسٹینڈرڈز سارے اسلامک بینکس کے لیے کہ وہ کس طرح کام کریں گے وہ تیار کیے گئے ہیں اور تیار کیے جا رہے ہیں، بہت ہی دیدہ ریزی کا کام ہے تو وہ ……

فائز عیسیٰ: کون سے شہر میں ہیں آپ؟

تقی عثمانی: میں اس وقت استنبول میں ہوں، ترکی میں۔

فائز عیسیٰ: استنبول میں، اچھا ٹھیک ہے، ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔

تقی عثمانی: نہیں جناب، شکریہ آپ کا کہ آپ نے اس قابل سمجھا کہ اس موضوع کے اوپر ……

فائز عیسیٰ: آپ شرمندہ نہ کریں ہمیں۔

تقی عثمانی: جزاک اللہ، بہت بہت شکریہ۔

فائز عیسیٰ: چلیں بہت بہت شکریہ، تھینک یو۔


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۹

مبارک ثانی کیس: عدالتِ عظمیٰ کے روبرو
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مبارک ثانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا اطمینان بخش فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مبارک ثانی کیس کا فیصلہ : دیوبندی قیادت کے لیے قابل توجہ پہلو
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مبارک ثانی کیس ہے کیا اور اب تک اس میں کیا ہوا؟
انڈپینڈنٹ اردو

مبارک ثانی کیس کیا تھا اور نظر ثانی کیوں ضروری تھی؟
بنوریہ میڈیا

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۱)
عبد اللہ صغیر آسیؔ

پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء
علامہ سید یوسف بنوریؒ

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہؒ کی شہادت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۲)
محمود الحسن عالمیؔ

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دنیا کی مسلمان آبادی
میٹا اے آئی

ماہ صفر اور توہم پرستی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

نُکتہ یا نُقطہ؟
ڈاکٹر رؤف پاریکھ

The Two Viable Paths for the Qadiani Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter