گزشتہ فروری میں سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کے حوالے سے اپنا فیصلہ جاری کیا تو مذہبی طبقے کے لیے یہ ایک بم پھٹنے جیسی صورت حال تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مذہبی طبقے نے آج تک احمدیوں کے بارے میں کی گئی قانون سازی سے متعلق ریاستی اور عدالتی زاویہ نظر کو ٹھیک طور پر سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور عدلیہ کی مسلسل تصریحات کے باوجود اپنی من مانی قانونی تشریحات میں مصروف رہا۔ زیر بحث مقدمے میں نجی حدود میں مذہبی آزادیوں کے اصول کا اطلاق بظاہر ایک نئے معاملے (یعنی احمدی کمیونٹی کے پیروکاروں کے لیے مذہبی لٹریچر کی اشاعت اور فراہمی) پر کیا گیا، لیکن یہ اصول عدالتی وقانونی سطح پر پہلے دن سے طے کر دیا گیا تھا۔ بہرحال مذہبی طبقے کے لیے عموماً اور دینی قیادت کے لیے خصوصاً اس صورت حال کی نوعیت ناگہانی آفت کی تھی اور دینی وسیاسی قیادت کا جو ابتدائی اور فوری ردعمل سامنے آیا، وہ جارحانہ اور مقدمے کی تفصیلات سے بے خبری پر مبنی تھا۔
اس تناظر میں مذہبی طبقوں کے پاس اس کے سوا کوئی فوری آپشن نہیں تھا کہ وہ احتجاج اور مذمت اور سازشوں کی دہائی دینے کا راستہ اختیار کر کے اپنی ساکھ کو بچانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ مارچ میں مقدمے پر نظر ثانی کی درخواست دائر ہونے کے بعد نچلی سطح کی قیادت، خصوصاً عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما مولانا اللہ وسایا صاحب نے چیف جسٹس اور ان کے سیکرٹری ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کے خلاف ایک منفی پراپیگنڈا مہم شروع کر دی اور فتوے بازی کا معروف اور آزمودہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے عدالت پر دباو ڈالنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ تاہم یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی اور جولائی کے آخر میں نظر ثانی شدہ فیصلہ زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ مذہبی موقف کے خلاف آ گیا۔
اس مرحلے پر مختلف دیوبندی تنظیموں نے شخصی الزام تراشی اور فتوے بازی کا پہلے سے بڑھ کر سنگین اسلوب اختیار کیا اور بعض دیوبندی تنظیموں کے ذمہ داران کی طرف سے یہ سرٹیفکیٹ تک جاری کر دیا گیا کہ چیف جسٹس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم قرار پا چکے ہیں، جیسے یہ حضرات آپ کی طرف سے شفاعت کے امیدواروں کی اسکروٹنی پر مامور ہوں۔ نعوذ باللہ۔ تاہم صورت حال اس پہلو سے زیادہ سنگین ہو گئی کہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے تحریک لبیک پاکستان اور اس کے ہم نوا عناصر بھی شامل ہو گئے اور چیف جسٹس کے قتل وارتداد کے فتوے جاری کر کے سارے معاملے کو اس رخ پر آگے بڑھانے کی کوشش کی جس پر سلمان تاثیر اور آسیہ کیس کو بڑھایا گیا تھا۔
اس ساری صورت حال میں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کے سامنے تین بڑے چیلنج تھے جن سے اسے بیک وقت نبرد آزما ہونا تھا:
۱۔ عدالت کے سامنے مذہبی موقف کی ترجمانی،
۲۔ ذیلی تنظیمی جتھوں کی طرف سے گولہ باری کے ماحول میں ریاستی اداروں کے ساتھ افہام وتفہیم کا راستہ نکالنا، اور
۳۔ اس پورے معاملے کو تحریک لبیک جیسے عناصر کے ہاتھوں ہائی جیک ہونے سے بچانا۔
چنانچہ دیوبندی قیادت نے قومی سطح پر مذہبی نقطہ نظر کی ترجمانی کو تدریجاً اپنے ہاتھ میں لیا، ایک نسبتاً متوازن موقف پیش کرنے کا اہتمام کیا اور الزام تراشی اور بدزبانی کے اسلوب پر غیر ذمہ دار عناصر کو مناسب انداز میں سرزنش کی۔ اس ضمن میں والد گرامی مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے ۲۹ جون کو روزنامہ اسلام میں ’’ریاست مدینہ کے کلمہ گو غیر مسلم شہری“ کے عنوان سے ایک اہم تحریر شائع ہوئی جس میں سیرت نبوی سے استشہاد کرتے ہوئے مصلحت اور حکمت کے مختلف پہلو واضح کیے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ ملک کی دینی قیادت اور ریاستی اداروں کو مصلحت کے ان پہلووں کا لحاظ رکھتے ہوئے باہمی مشاورت سے اس بحران کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔ اسی بحث کے دوران میں والد گرامی کی طرف سے ’’ایک تلخ تجربہ اور مشاہدہ“ کے عنوان سے درج ذیل تحریر بھی سوشل میڈیا پر شائع ہوئی:
’’۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دور کی بات ہے جب میں گوجرانوالہ شہر کی کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا سیکرٹری جنرل تھا۔ کسی قصبہ میں تحریک ختم نبوت کے جلسہ کی اجازت لینے کے لیے ایک ذمہ دار دینی راہنما مجھے ساتھ لے کر اے سی گوجرانوالہ کے پاس گئے اور درخواست پیش کی۔ انھوں نے کچھ دیر تامل کا اظہار کیا تو درخواست دہندہ نے جھٹ سے کہہ دیا کہ آپ مرزائی تو نہیں ہیں؟ اے سی صاحب نے کہا، مولوی صاحب! مجھے یہ گالی نہ دو، میں اجازت دے دیتا ہوں۔ دفتر سے باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کام کیا ہے؟ بولے کہ اس کے بغیر اجازت نہیں ملنا تھی۔ اس وقت تو میں نے اس کو ذاتی اور انفرادی مزاج سمجھ کر نظر انداز کر دیا، مگر نصف صدی کے مسلسل تجربہ اور مشاہدہ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بعض حلقوں میں اس کی شاید باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ ’’فن “ اب ایک تن آور درخت کی صورت میں پوری قوم کے لیے مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کے حال پر رحم فرمائیں۔ آمین ثم آمین“
سپریم کورٹ کے فیصلے پر مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء نے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی قیادت میں اپنا تفصیلی موقف پیش کیا جو قانونی نکات اور مذہبی استدلالات، دونوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے آخر میں بھی جذباتی اور غیر ذمہ دار عناصر کو یہ نصیحت کی گئی کہ :
’’ہم بصد ادب علمائے کرام اور خطبائے عظام سے گزارش کرتے ہیں: ختم نبوت اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے، اس پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا عدالتی فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں متانت، وقار اور اسلامی اخلاقیات کا پاس رکھنا چاہیے۔ تہذیب سے گری ہوئی گفتگو اور گالی گلوچ سے حاملین دین کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اور یہ ہمارے عظیم ترین مقصد کے لیے نقصان دہ ہے۔“
ان اقدامات سے افہام وتفہیم کے ماحول میں ریاستی اداروں کے ساتھ نتیجہ خیز مکالمے کا امکان پیدا ہوا اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۲ اگست کو سپریم کورٹ میں فیصلے میں تصحیح کے حوالے سے وفاق کی درخواست کی سماعت کے موقع پر نمایاں ترین کردار مولانا فضل الرحمٰن اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا رہا۔ کسی قسم کی بدتمیزی یا تلخ کلامی سے کام لیے بغیر خوش اسلوبی سے دیوبندی قیادت نے عدالت کو اپنے نقطہ نظر کے حق میں قائل کر لیا اور عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں سابقہ فیصلوں کے متنازعہ پیراگراف حذف کرنے کا اعلان کر دیا۔
فیصلے کے بعدبہت سے قانون دان حضرات نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کئی تحفظات ظاہر کیے ہیں جو تکنیکی طور پر درست ہوں گے، لیکن اس کا ایک پہلو بلکہ بنیادی پہلو سیاسی بھی ہے۔ سیاسی زاویے سے دیکھا جائے ریاستی اداروں اور دیوبندی قیادت نے سمجھ داری اور سیاسی پختگی کے ساتھ صورت حال کو ایک بڑے خلفشار میں بدلنے سے بظاہر روک دیا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ دیوبندی قیادت کو جو تینوں چیلنجز درپیش تھے، وہ حالیہ قضیے کی حد تک ان سب سے بیک وقت نبردآزما ہونے میں کامیاب رہی ہے۔
جہاں تک فیصلے کے قانونی مضمرات کا تعلق ہے تو مختصر حکم نامے میں چونکہ ان پیراگرافس کی تعیین نہیں کی گئی جو سابقہ فیصلوں سے حذف کیے گئے ہیں، اس لیے سردست اس پر کوئی رائے زنی بھی نہیں کی جا سکتی۔ بعض چینلز پر جو متعین پیراگرافس ذکر کیے گئے ہیں، ان کا حکم نامے میں تصریحاً کوئی ذکر نہیں اور اس کو فی الحال ایک قیاس ہی کہا جا سکتا ہے جو ممکن ہے، درست ہو۔ لیکن حقیقی صورت حال تفصیلی فیصلہ سامنے آنے پر ہی واضح ہوگی اور تبھی یہ دیکھا جا سکے گا کہ حذف شدہ پیراگرافس کے کے بعد قانون کی مجموعی تعبیر کیا بنتی ہے اور کیا وہ اعلیٰ عدلیہ کی اب تک کی تعبیر سے مختلف ہے یا اس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر عدالت میں موجود ذمہ دار علماء کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا گیا ہے تو مذہبی حلقوں کے اس بڑے اعتراض کا ازالہ یقیناً کر دیا جائے گا کہ کچھ پیراگرافس سے قادیانیوں کو اپنے گھروں کے اندر مسلمانوں کو تبلیغ کی اجازت دینے کا تاثر ملتا ہے جو ظاہر ہے، قانون کے خلاف ہے۔
البتہ اس مرحلے پر اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کی توجہ بعض ضروری أمور کی طرف مبذول کروانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنی ایک تحریر میں دیوبندی قیادت کی ایک خوبی اور صلاحیت کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:
’’کسی بھی طبقے کے لیے، معاشرے میں قائدانہ نوعیت کا کوئی کردار ادا کرنے کے لیے جن فکری وعملی اور مزاجی خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، ان میں دوسرے طبقوں کے ساتھ ، اختلاف کے باوجود، کسی نہ کسی سطح پر تعلق کو قائم رکھنے اور باہمی تعامل کے لیے ممکنہ مشترک بنیادوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی خصوصیت غالباً سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دیوبندی مزاج میں یہ خصوصیت، جیسا کہ بیان کی گئی مثالوں سے واضح ہوتا ہے، بدرجہ اتم موجود ہے اور دیوبندی روایت کو مذہبی فکر وعمل کے میدان میں حاصل امتیاز کے ایک بنیادی سبب کا درجہ رکھتی ہے۔“ (ماہنامہ الشریعہ، جنوری ۲۰۱۹ء)
اس ضمن میں ۷۴ء کے آئینی فیصلے کے تناظر میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے ایک مختصر خط کا حوالہ دینا یہاں برمحل ہوگا جو انھوں نے مولانا سمیع الحق مرحومؒ کے استفسار کے جواب میں لکھا تھا اور ماہنامہ ’’الحق “ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا۔ مولانا نے اس میں قادیانی مسئلے کے حوالے سے دینی طبقوں کو تین بنیادی مشورے دیے تھے:
۱۔ آئینی فیصلے کی صورت میں جو قدم اٹھایا گیا ہے، وہ کافی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس معاملے میں ریاست پر غیر ضروری بوجھ ڈالتے چلے جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
۲۔ ریاست کے کار پرداز طبقات کو دینی واعتقادی بنیاد پر طعن وتشنیع اور فتوے بازی کا نشانہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔
۳۔ اس مسئلے کو ’’وجاہت “ کا مسئلہ بنانے کا راستہ اختیار نہ کیا جائے جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اسے مذہبی سیاست کا موضوع بنا کر اپنی طاقت بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔
خط کا متن حسب ذیل ہے:
’’برادرم مولانا سمیع الحق صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ موصول ہوا۔ مرزائیت کا اللہ تعالیٰ نے خاتمہ کر دیا ہے۔ اب ان کا معاملہ دوسرے کافروں کی طرح ہے۔ یہ سکھ، پارسی، عیسائی اور ہندو کی طرح ہو چکے ہیں۔ نکاح وغیرہ کے مسائل حل ہو گئے۔ ہمارےٹکٹ پر یہ ممبر نہیں بن سکیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ باقی مسائل کے بارہ میں ہم کو امید رکھنی چاہیے کہ حل ہو جائیں گے۔ میں اس بات کے سخت خلاف ہوں کہ بعض خود غرض اور اقتدار پسند افراد کہتے پھرتے تھے کہ حکومت مرزائی ہو گئی ہے، مرزائی نواز ہے، یہ ٹال رہی ہے۔ میرے بھائی! یہ کافی ہے۔ باقی میں سمجھتا ہوں، مرزائیت کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔ کم از کم اس مسئلے کو ہم اپنی وجاہت کا مسئلہ نہیں بنا سکتے۔ جیسے دینی ضرورت پیش آئے گی، کریں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشے۔ فقط (۱۸ ۔ اکتوبر ۱۹۷۴ء) “
یہ تینوں نصیحتیں بہت برمحل اور اہم تھیں، لیکن افسوس ہے کہ تینوں پر ہی دینی طبقات نے کوئی توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ صورت حال اس وجہ سے بھی بگڑتی چلی گئی ہے کہ اعلیٰ سطحی دینی قیادت کی توجہ مرکوز نہ رہنے سے ذیلی سطح کے تنظیمی اسٹرکچر اپنی حکمت عملی کے اہداف اور سرگرمیوں کا رخ متعین کرنے میں ایک طرح سے خود مختار ہوتے چلے گئے ہیں ۔
اس مقدمے کے مختلف مراحل پر میں تسلسل سے اس پہلو کی طرف ذمہ دار دینی قیادت کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ چنانچہ ۲۵ اپریل کو سوشل میڈیا پر اپنی تحریر میں عرض کیا کہ:
’’ختم نبوت اور توہین مذہب کے ایشوز بنیادی طور پر اکابر اور ذمہ دار اہل علم کی نگرانی اور گرفت سے نکل کر تنظیمی سطح کے مہم جوؤں کے ہاتھ میں آ گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل یہ ہو رہا ہے کہ اپنے طور پر کوئی نہ کوئی جتھہ کوئی قانونی یا عدالتی "کارنامہ" انجام دے کر داد سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور ذمہ دار فورمز یا شخصیات کو مجبوراً ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
پچھلے سال قادیانیوں کو اپنے گھروں میں قرآن کے نسخے رکھنے سے روکنے کی کوشش کو عدالت عظمی نے غلط قرار دیا، وہ بھی ایسا ہی کیس تھا۔ ابھی جس کیس میں تفسیر صغیر کی تقسیم کو جرم قرار دلوانے کی کوشش کی گئی، اس کی نوعیت بھی یہی ہے۔ میں ذمہ داری سے بتا سکتا ہوں کہ جو جو اکابر اور بزرگان عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے نظر آئے، ان میں سے کوئی بھی اس مقدمے اور اس کی تفصیلات سے پہلے واقف نہیں تھا۔ … ذمہ دار قیادت سے گزارش ہے کہ وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں اور ایسے اقدامات پر مشاورت کا کوئی فورم بنا لیں تاکہ ہر چار چھ مہینے کے بعد پورے مذہبی طبقے کو کچھ افراد کی حماقتوں پر شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ “
سپریم کورٹ کی طرف سے نظر ثانی شدہ فیصلہ آنے سے پہلے، یکم جون کو سوشل میڈیا پر ایک تحریر میں، میں نے عرض کیا تھا کہ :
’’عدالتیں کئی دفعہ سیاسی صورت حال کو بھی مدنظر رکھتی ہیں۔ اس لیے کسی نہ کسی انداز کی فیس سیونگ ہمارے خیال میں مذہبی طبقوں کو دینی چاہیے تاکہ ہارجیت کی لڑائی میں مشغول ہو جانے کے بجائے انھیں ذرا توقف کر کے پوری صورت حال پر غور کرنے کا موقع مل سکے۔ مذہبی طبقوں میں صورت حال کا درست ادراک رکھنے والا عنصر بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے، لیکن جذباتیت اور تصادم کی فضا میں اس کے لیے کوئی کردار ادا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت اس بحران میں کچھ افاقہ ہونے پر نچلی سطح کی ’’نیم خود مختار“ تنظیموں کے لیے آئندہ کی حکمت عملی کا رخ طے کرنے اور کچھ قدغنین وغیرہ عائد کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر قیادت کو اس کی نزاکت یا سنگینی کا کچھ ادراک ہو تو امید ہے کہ اس نازک صورت حال سے، آگے بڑھنے کے کچھ مثبت راستے نکل آئیں گے۔ ان شاء اللہ“
ہمارے خیال میں مبارک ثانی کیس کے حالیہ تجربے کی روشنی میں اعلیٰ سطحی دینی قیادت کو اب سنجیدگی کے ساتھ اس پہلو کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
اس کے ساتھ مذہبی طبقات کے رویے اور طرز گفتگو میں اس امر واقعہ کا ادراک بھی جھلکنا چاہیے کہ ختم نبوت کے عقیدے پر تو تمام مسلمان متفق ہیں، لیکن منکرین ختم نبوت کے ساتھ سیاسی اور قانونی لحاظ سے کیا معاملہ کرنا ہے، اس میں ایک واضح اختلاف موجود ہے۔ مذہبی علماء یا تنظیمیں اس معاملے کی یک طرفہ طور پر اجارہ دار بن کر ریاست اور معاشرے پر اپنا موقف مسلط نہیں کر سکتیں۔ اس میں ریاست بھی فریق ہے، مذہبی علماء بھی ’’ایک “ فریق ہیں، معاشرے کے دیگر طبقات بھی فریق ہیں اور ملک کے شہری اور ایک اقلیتی گروہ ہونے کی حیثیت سے خود احمدی کمیونٹی بھی ایک فریق ہے۔ نزاع کے متوازن اور قابل عمل تصفیے میں ان سب فریقوں کے نقطہ نظر کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔
اس ضمن میں ہماری قومی تاریخ اور سیاست کا یہ سبق ہر وقت یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ خصوصاً ۸۰ء کی دہائی سے مختلف اقسام کی سیاسی یا مذہبی ریڈیکلائزیشن کو فروغ دینا اور اس عمل کو اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے استعمال کرنا ہماری مقتدرہ کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ مذہبی دائرے میں سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، سب کے سب طبقے کسی نہ کسی حوالے سے اس عمل سے گزر چکے ہیں اور ابھی امکانات محدود نہیں ہوئے۔ اس سارے عمل کی قیمت معاشرے کو دینی پڑتی ہے اور بعض صورتوں میں خود مقتدرہ بھی اس کی زد میں آتی ہے، لیکن وہ بھی مقصد کے لحاظ سے سازگار ہوتی ہے، یعنی جب تک کسی قوت کو استعمال کیا جا سکے، استعمال کیا جائے اور جب وہ حد سے کچھ متجاوز ہونے لگے تو ریاست کے تحفظ کے لیے مقتدرہ ہی نجات دہندہ کے طور پر موجود ہو۔
اس کی جو قیمت بطور ایک تہذیبی قوت کے، مذہب کو ادا کرنی پڑے گی بلکہ یہ ادائیگی شروع ہو چکی ہے، وہ معاشرے کی سطح پر مذہب سے لاتعلقی یا الحاد اور ریاست کی سطح پر سیکولرائزیشن ہے۔ مذہب ایک غضب ناک قوت کی شکل میں متحرک ہو تو فہیم اور تعمیری سوچ رکھنے والے عناصر کے لیے اس میں کشش نہیں رہتی۔ جب ایک کے بعد دوسرا مذہبی طبقہ ریڈیکلائز ہو کر کسی نہ کسی عنوان سے اپنی من مانی ریاست اور معاشرے سے منوانے کو ریت بنا لے گا تو ریاست کی برداشت کا پیمانہ بھی آخر بھر جائے گا اور نتیجتاً سیکولرائزیشن کا بیانیہ قوت پکڑے گا۔