(جامعہ دارالعلوم کراچی کے یو ٹیوب چینل پر نشر ہونے والی تین آڈیوز کی گفتگو)
اسماعیل ہنیہؒ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا
اسماعیل ہنیہؒ، ہمارا محبوب قائد، ہمارا محبوب مجاہد اور جانباز، اس نے اپنی جان دے کر اپنا خون دے کر آزادئ فلسطین کی تحریک کی شمع کو جلا دیا، اور جلا دیا، زیادہ جلا دیا، اس کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ قرآن کریم نے فرمایا ’’من المؤمنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ‘‘ (الاحزاب) مومنین میں ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا ہوتا ہے اس کو سچا کر دکھاتے ہیں۔ ’’فمنھم من قضیٰ نحبہ ومنھم من ینتظر‘‘ (الاحزاب) ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنی خواہش پوری کر لی یعنی اللہ کے راستے میں جان دینے کی شہادت کی خواہش پوری کر لی، اور بعض وہ ہیں جو اس انتظار میں ہیں کہ کب ہمیں اللہ کے راستے میں شہید ہونے کا موقع ملتا ہے۔
تو اسماعیل ہنیہؒ نے الحمد للہ جو عہد کیا تھا اللہ تعالیٰ سے۔ اور وہ اثر یہ تھا کہ جو ان کا نعرہ ہے ’’نصر او استشہاد‘‘ یا فتح ہو گی یا ہم شہید ہوں گے۔ تو انہوں نے اپنے اس عہد کو اللہ تعالیٰ کے بحضور پورا کر دکھایا۔ اس کے خاندان کے ستر افراد اس جہاد میں شہید ہو چکے ہیں۔ اس کے بیٹے اس کے پوتے اسی جہاد میں شہید ہوئے۔ اور جب ان بیٹوں پوتوں کی شہادت کے وقت میں نے ٹیلیفون پر اسماعیل ہنیہؒ کو تعزیت کی تو انہوں نے بالکل ایسے جیسے مبسوط اور نشاط والی آواز کے ساتھ یہ کہا کہ حضرت یہ تو میرے غزہ کے سارے شہداء ہی ایسے ہیں، میرے بیٹوں کی کوئی خصوصیت نہیں، وہ بھی غزہ کے شہداء کے ساتھ شامل ہو گئے، اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید ہو کر سرخرو ہو گئے۔ اس پر کسی غم کا اظہار نہیں، کسی تکلیف کا اظہار نہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر اور جہاد میں استقامت کا عزم ان کی باتوں سے واضح تھا۔
جب میں نے پرسوں اس واقعے پر وہاں کے جو ان کے دوسرے سربراہ ہیں خالد مشعل، ان سے ٹیلیفون پر بات کی تو ان کو بھی ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی تصویر، اور اس بات پر اعتماد کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور ان کو مقام عطا فرمایا شہادت کا، اور اس مقامِ شہادت کی وجہ سے ان شاء اللہ فلسطین کے جہاد کی تحریک دبے گی نہیں، اور زیادہ بڑھے گی اور ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔
اسماعیل ہنیہؒ کے قائدانہ اوصاف
اسماعیل ہنیہؒ جن کی کنیت ابوالعبد ہے، وہ حافظِ قرآن تھے، اور غزہ کے علاقے میں انہوں نے قرآن کریم کی ترویج اور نشر و اشاعت کے لیے ایسا نظام بنایا تھا کہ وہاں بچہ بچہ حافظ ہو رہا تھا۔ میری بذاتِ خود ان سے ملاقات ہوئی، میں ان سے ملنے کے لیے دوحہ گیا، ان کی شخصیت میں مجھے ایک صحیح مسلمان قائد کے اوصاف نظر آئے۔ ایک طرف وہ متدیِّن انسان تھے، حافظِ قرآن تھے، قرآن کریم کی تلاوت جس بہترین اور اعلیٰ تجوید کے ساتھ وہ کرتے تھے اور اس کے ساتھ امامت بھی کرتے تھے، وہ غیر معمولی تھی۔ ان کے والد ایک مسجد میں مؤذن تھے۔ اور وہ بتلاتے ہیں کہ میرے بچپن سے میرے والد مجھے نمازِ فجر سے پہلے بیدار کر کے اپنے ساتھ لے کر جایا کرتے تھے فجر کی اذان کے لیے، اور انہوں نے میری دینی تربیت اس انداز سے کی کہ الحمد للہ اسلام میری رگ و پے میں سما گیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے بڑی خدمات لیں اور بالآخر حماس کی یہ جدوجہد، یہ جہاد جو دس مہینے سے فلسطین میں جاری ہے، اس کی قیادت بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے کرائی ہے۔ اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ذات میں جوش اور ہوش دونوں کا حسین امتزاج ہو۔ بعض اوقات لوگوں پر جوش غالب آجاتا ہے، وہ صرف جذباتی ہو جاتے ہیں، اور فکر و تدبر اور عقل سے کام کم لیتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فکری اور نظریاتی بحثوں میں الجھے رہتے ہیں، اور جب عمل کا وقت آتا ہے تو ان کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ میں نے اسماعیل ہنیہ رحمہ اللہ کی ذات میں جوش اور تدبر دونوں کا ایسا حسین امتزاج دیکھا جو بہت کم لوگوں میں نظر آتا ہے۔
اسماعیل ہنیہؒ کی ایران میں شہادت سے پیدا ہونے والے سوالات
ان کو ایران میں شہید کیا گیا۔ ایران بظاہر وہ واحد ملک ہے جو حماس کی سرکاری سطح پر حمایت بھی کر رہا ہے اور اس کو تھوڑی بہت امداد بھی دے رہا ہے۔ اور کوئی ملک سرکاری سطح پر حماس کا حامی نہیں، نہ کوئی مؤثر امداد جہاد کے سلسلہ میں فراہم کر رہا ہے۔ ایران واحد ملک تھا جس نے بہرحال زبانی طور پر اور تھوڑی بہت عملی طور پر مالی امداد حماس کو فراہم کی۔ لیکن یہ عجیب معمہ ہے کہ وہ عرصہ دراز سے دوحہ میں مقیم ہیں اور مختلف ملکوں میں جاتے آتے رہتے ہیں۔ وہ ترکی گئے، وہ روس گئے، وہ مصر گئے، اور مستقل طور پر دوحہ میں مقیم ہیں، لیکن ایران ہی میں ان کو دردناک قتل کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ کیا کوئی اتفاق ہے؟
اس میں ایک پہلو ایسا معمہ ہے جس کی کوئی توجیہ ابھی تک سمجھ میں نہیں آ رہی، وہ یہ کہ جب کبھی اس قسم کا عالمی سطح پر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس کی پوری تفصیلات میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل جاتی ہیں، دیکھایا جاتا ہے کہ کہاں وہ شہید ہوئے؟ دیکھایا جاتا ہے کہ جس جگہ وہ شہید ہوئے وہاں پر کیا تباہی مچی ہے؟ کہا جا رہا ہے کہ گائیڈڈ میزائل کے ذریعے ان کو شہید کیا گیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس عمارت کے اندر وہ مقیم تھے، اس گائیڈڈ میزائیل نے اگر کوئی عمارت کو نقصان پہنچایا، اگر گائیڈڈ میزائیل آ کر عمارت پر گرا تو ظاہر ہے کہ وہ میزائیل صرف آدمی کو ہلاک نہیں کرے گا، وہ عمارت کو بھی نقصان پہنچائے گا، وہ اس کے اندر اور کوئی عملہ ہو گا تو اس کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ لیکن یہ عجیب و غریب معمہ ہے کہ وہ گائیڈڈ میزائیل جاتا ہے اور جا کر صرف اسماعیل ہنیہؒ کو اور اس کے محافظ کو شہید کرتا ہے۔ اور نہ اس عمارت کی کوئی تصویر آ رہی ہے کہ اس حملے کے بعد اس عمارت کا کیا بنا؟ نہ یہ تصویر آ رہی ہے کہ اس گائیڈڈ میزائیل کے ذریعے اور کیا نقصان پہنچا؟ خبر صرف یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہؒ اور ان کے محافظ شہید کر دیے گئے۔ آخر کیوں ایسا؟
نیویارک ٹائمز کی خبر یہ ہے کہ جس جگہ اسماعیل ہنیہ رحمہ اللہ مقیم تھے اس جگہ دو ماہ پہلے سے لا کر بم رکھا ہوا تھا۔ یہ اطلاع بھی آ رہی ہے۔ وہ کیسے رکھا گیا تھا؟ اگر وہ بات صحیح ہے جو نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے تو وہ بم اگر دو مہینے پہلے سے رکھا ہوا تھا تو میزبانوں نے ان کو وہاں ٹھہرانے سے پہلے، ان تفتیشی اداروں کو کیوں حرکت میں نہیں لائے کہ جو ایسی جگہوں کی حفاظت کے لیے بموں کے ڈسپوزل والی ایجنسیاں ہوتی ہیں۔
اور یہ متضاد باتیں آ رہی ہیں کہ بم پہلے سے رکھا ہوا تھا یا گائیڈڈ میزائیل کے ذریعے ان کو ہلاک کیا گیا۔ ان متضاد باتوں کو واضح کرنا ایرانی حکومت کا فرض تھا کہ وہ ان تفصیلات کو سامنے لائے کہ حقیقت کیا ہے۔ اور صرف وہی کیوں ۔۔۔ شہید ہوئے؟ اور کیا ان کو تنہا چھوڑا ہوا تھا کہ صرف وہ اور ان کے محافظ ہی موجود تھے؟ اور جو کسی سرکاری مہمان کو رکھنے کے لیے جو حفاظتی انتظامات ہوتے ہیں، کیا اس کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے؟ وہ کہاں تھے اور وہ حفاظتی انتظامات، ان کو کیوں نقصان نہیں پہنچا؟
یہ سوالات ہیں جو ہر انسان کے دل میں اور دماغ میں اٹھ رہے ہیں۔ اور اس سے شبہات کو تقویت مل رہی ہے، اور ان شبہات کا ازالہ ایران کی حکومت کے ذمے ہے۔ اس کا واحد راستہ یہ تھا کہ وہ ساری صورتحال کی تفصیل دنیا کے سامنے رکھ دیتا، اس جگہ کی تصویریں دیتا جہاں پر یہ واقعہ رونما ہوا۔ اس کے ماحول کی تصویریں دیتا، اس عمارت کا کیا حال بنا جس عمارت پر حملہ ہوا یا بم پھٹا جو بھی صورت تھی، لیکن ایرانی خبر رساں ادارے بالکل خاموش ہیں۔ اس سے یہ شبہ کوئی محض وہم نہیں رہتا بلکہ شبہے کو بڑی تقویت ملتی ہے کہ ایرانی حکومت نے اس معاملے میں یا تو غفلت کا ثبوت دیا، یا دوسرے بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ضروری طور پر خود ایرانی حکومت اس میں ملوث تھی۔ جو بھی شبہات ہوں ایرانی حکومت کا فرض ہے اس کو تفصیل کے ساتھ وہ سارے واقعات دنیا کے سامنے لائے اور دنیا کے سامنے اس کی تصویریں پیش کرے کہ کس طرح اتنا بڑا واقعہ ہو گیا جس پر ساری دنیا ہل گئی ہے لیکن اس کی تفصیلات سامنے نہیں آ رہیں۔