الحمد للہ کہ ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء مطابق ۹ جمادی الاولیٰ ۱۳۸۵ء کے مبارک دن مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک جدید اور مقدس باب کا افتتاح ہوگیا، یہ تاریخ پاکستان کی قومی زندگی کی کتاب میں ایک نئے باب کا آغاز ہے، اور پاکستان کی عزت و مجد کے عنوانات میں ایک شاندار عنوان کا اضافہ ہے۔ مہاجر قوم کے بعد مجاہد قوم! اور ہجرت کے بعد جہاد! سبحان اللّٰہ، نور علیٰ نور۔ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قابلِ قدر اور لائقِ صد تشکُّر نعمت ہے۔
چند اہم حقیقتیں اور قابلِ عبرت بصیرتیں بھی اس مبارک افتتاح میں منظر عام پر آگئیں:
۱۔ ہندوستانی حکومت کی بدنیتی، مکاری، عیاری اور نفاق۔
۲۔ ان سے حسنِ معاشرت اور بہتر ہمسائیگی کے تعلقات کی توقعات سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔
خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم
۳۔ پاکستانی عساکر و افواجِ قاہرہ کے مجاہدانہ ولولے اور عزائم، سرفروشانہ جذبات اور احساسات، دین و وطن پر مر مٹنے کی پوری اہلیت و صلاحیت اور میدانِ کارزار میں استقلال و استقامت اور ذوق و شوقِ شہادت۔
۴۔ پاکستانی افواجِ منصورہ کی فنی مہارت، قابلیت، بحری، بری اور فضائی افواجِ قاہرہ کے فوق العادۃ حیرت انگیز کار نامے جن سے سلف صالحین کے محیر العقول کارناموں کی یاد تازہ ہو گئی اور اقوامِ عالم کے سامنے پہلی مرتبہ پاکستانی فوجوں کے جوہر اس طرح کھلے کہ دشمنانِ اسلام پر بھی سکتہ طاری ہوگیا اور آخر اُن کو بھی پاکستانی افواج کی برتری اور قابلیت، نیز سرفروشانہ و جاں نثارانہ خصوصیت کا اعتراف کرنا پڑا: والفضل ماشھدت بہ الأعداء ’’بزرگی وہ ہے جس کی دشمن بھی شہادت دیں۔‘‘
۵۔ دشمن قیدیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے بعد انتہائی ہمدردانہ، شریفانہ اور حوصلہ مندانہ، انسانیت نواز سلوک۔
۶۔ پاکستانی افواج اپنے ملکی دفاع کی پوری قابلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ حملہ آور دشمن کی چند در چند فوجی طاقت اور سامانِ جنگ کی فراوانی کے باوجود ہر محاذ پر منہ توڑ جو اب دے سکتی ہیں۔
۷۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں أیدہ اللّٰہ بنصرہٖ کے حسنِ تدبر، مجاہدانہ عزیمت، اہلیت، قیادت اور شجاعت و جواں ہمتی کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی تدبر کے جوہر بھی اس طرح منظر عام پر آگئے کہ دنیائے اسلام کو اس کا یقین ہوگیا کہ موصوف دنیائے اسلام کی قیادت کی صلاحیت کے مالک ہیں۔
۸۔ پاکستانی قوم بھی اس قدر باشعور اور سمجھدار ہے کہ ملکی دفاع کے نازک ترین مرحلہ پر اپنے تمام باہمی اختلافات اور ذاتی منافع کو یکسر پسِ پشت ڈال کر اپنے حکمرانوں کی ہر آواز پر لبیک کہنے، تعاون کر نے اور تن، من، دھن سب کچھ قربان کر نے کے لیے تیار ہو گئی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اتحاد اور تنظیم کا مکمل مظاہرہ کیا اور اس قدر حوصلہ مند ہے کہ دشمن کی تباہ کن بمباریوں سے شکستہ خاطر اور ہراساں ہونے کے بجائے اس کے جوش و خروش اور ذوق و شوقِ شہادت میں چند در چند اضافہ ہوتا ہے، و الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
قابلِ عبرت نتائج و حقائق
ان بصیرت افروز حقائق اور عبرت انگیز واقعات سے جو عظیم نتائج نکلے ہیں وہ بھی قوموں کی زندگی کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں:
۱۔ جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا فریضہ انجام دینے کے لیے پاکستانی قوم میں ایک نئی روح پیدا ہو گئی۔
۲۔ دشمنانِ اسلام کے دلوں پر پاکستانیوں کا رعب چھا گیا تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ ’’تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر اس سے ہیبت اور رعب طاری کر دو‘‘ کی تفسیر سامنے آگئی۔
۳۔ مسلمان اگر اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد و توکل سے بہرہ ور ہوں تو ان کی امداد و نصرت کے لیے ابھی اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد نو بنو انداز میں ضرور آتی ہے۔
۴۔ امریکہ ہو یا روس، برطانیہ ہو یا فرانس یہ سب کفر کی طاغوتی طاقتیں ہیں، ان سے کسی بھی خیر کی توقع رکھنا خالص حماقت ہے اور اُخروی سے پہلے دُنیوی خسران کا موجب ہے۔
۵۔ پاکستان کو صرف اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے اور زندگی کے ہر شعبہ میں جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی پوری پوری جدوجہد کرنی چاہیے، اور ارشادِ خداوندی: وَأَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ (الانفال ۶۰) ’’اور جو بھی طاقت و قوت تم ان کے مقابلہ کے لیے مہیا کر سکتے ہو اس کی تیاری کرو۔‘‘ پر مکمل طور سے عمل کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی تقصیر یا تغافل ہرگز روا نہ رکھنا چاہیے۔
بہرحال ہندوستانی حکومت نے تمام بین الاقوامی اُصول پسِ پشت ڈال کر بغیر کسی سابقہ اعلانِ جنگ کے رہزنوں کی طرح پوری فوجی طاقت و قوت اور تیاری کے ساتھ پاکستان پر چو طرفی حملہ کر دیا اور اپنی بربریت اور بہیمانہ سلوک میں بھی اصلاً کوتاہی نہیں کی، لیکن احکم الحاکمین کے قانونِ قدرت نے کمزوروں کا ساتھ دیا اور آیتِ کریمہ کی:
وَنُرِیْدُ أَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ أَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوَارِثِیْنَ۔ (القصص ۵)
’’اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو روئے زمین پر کمزور سمجھ لیا گیا ہے ان پر احسان فرمائیں اور انہی کو مقتدیٰ (بین الا قوامی قائد) بنا دیں اور انہی کو ان کے ملک و سلطنت کا وارث بنا دیں۔‘‘
تفسیر و تشریح ایک بار پھر دنیا کے سامنے آگئی کہ مٹھی بھر، ناتواں اور (ہر لحاظ سے) کمزور افراد کو اللہ تعالیٰ نے وہ قوت و طاقت بخشی کہ دشمن کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے اور آج دشمن کے ۱۶ سو سے زیادہ مربع میل رقبہ پر پاکستانی فوجیں قابض ہیں اور پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے۔ صدرِ مملکت سے لے کر چپڑاسی تک اور تاجر و صنعت کار سے لے کر معمولی مزدور اور آجر تک خواص و عوام ساری قوم میں حیرت انگیز اور بے مثل اتحاد و تعاون کی روح پورے طور پر کار فرما ہے اور پوری قوم دشمن کے سامنے بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ (آہنی دیوار) بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔
نعمتِ خداوندی اور اس کا شکریہ
۱۔ اللہ تعالیٰ کی اس لائقِ فخر نعمتِ عظمیٰ کا شکر یہی ہے کہ ہم صلاح و تقویٰ کی اسی پاکیزہ زندگی کو مستقل طور پر اختیار کر لیں جو اس وقت ہنگامۂ رزم و حرب نے پوری قوم کے اندر پیدا کر دی ہے، اور خوف و خشیتِ خداوندی اور ذکرِ الٰہی کو اپنا شعار بنا لیں۔ اور منکرات و فواحش کو جو اس اسلامی ملک میں غیر ملکی تہذیب و تمدن کے تسلُّط اور ان یورپین خدا ناشناس قوموں کی قابلِ شرم نقالی کی بنا پر رائج ہوچکے ہیں، یک قلم ترک کر دیں۔ اور مغرب کی گندی، مہنگی اور بزدل بنا دینے والی معاشرت کے بجائے سیدھی سادی اور سستی اسلامی معاشرت کو مستقل طور پر اپنا لیں۔ اجتماعی زندگی میں فوق العادت طبقاتی تفاوت کو جہاں تک ممکن ہو ختم کر دیں۔ شجاعت و بہادری کے احساسات کو بیدار کر نے والے خصائل، ایثار و مروت، جفا کشی و سخت کوشی، جواں مردی و حوصلہ مندی کو اختیار کر لیں۔ راحت پسندی و تن پروری، بے روح نام و نمود اور نمائش پسندی کو خیر باد کہہ دیں۔ خصوصاً غریبوں اور کمزوروں پر ترحم و شفقت کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ بیدار کریں، ہر نوجوان فوجی بنے اور مجاہدانہ احساسات سے سرشار ہو۔ الغرض ایک ایسے صالح معاشرہ کی تشکیل کی جائے جو باللیل رھبان وبالنھار فرسان (رات میں تہجد گزار اور دن میں شہسوار) کی تفسیر ہو۔
کسی قوم کی موت
حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم میں دو مرض پیدا ہوجائیں: (۱) ایک دنیا کی محبت (۲) دوسرے موت کا ڈر، تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ قوم مر چکی۔ اور جب کسی قوم کو ان دونوں بیماریوں سے نجات نصیب ہو جاتی ہے تو وہ قوم حیاتِ ابدی سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث آئی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم پر دنیا کی قومیں اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس زمانہ میں ہم مسلمانوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہو گی؟ فرمایا: نہیں! تم اتنے زیادہ ہو گے کہ اس سے پہلے کبھی تمہاری اتنی تعداد نہ ہوئی ہوگی، مگر تمہاری مثال ایسی ہو گی جیسے سیلاب پر خس و خاشاک، دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا ہو جائے گا۔ پوچھا کہ: وہن کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے خوف۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام، ج:۲، ص:۵۹۰، ط:حقانیہ)
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی کا عددی اکثریت پر کبھی بھی مدار نہیں رہا ہے، نہ ہی عددی اکثریت میں اسلام کی قوت مضمر ہے، بلکہ مسلمانوں کی طاقت و قوت کا راز یہ ہے کہ اُن کے قلوب دنیا کی محبت سے پاک اور موت کے خوف سے اُن کے دل آزاد ہوں۔
آپ نے دیکھا کہ اس موجودہ معرکۂ حق و باطل میں مسلمانوں کا جو جوہر سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے وہ مسلمان نوجوانوں کے دلوں میں دنیوی زندگی کی بے وقعتی اور شہادت کی موت کو لبیک کہنے کا ذوق و شوق ہے۔ دنیا نے ایک بار پھر اسلامی روح اور اسلامی قوت و طاقت کا منظر دیکھ لیا اور مسلمان افواج کی بے نظیر شجاعت اور شوقِ شہادت نے تاریخ میں ایک نئے اور شاندار باب کا اضافہ کر دیا۔ یہ واقعہ دورِ حاضر کی تاریخ کا سنہرا باب ہے جس کو عصرِ حاضر کا مؤرخ زریں حروف میں لکھے گا۔ کاش! اگر ہماری قوم کی غالب اکثریت میں یہ ہی روح کار فرما ہو جائے تو دنیا اور اس کی قیادت کا نقشہ ہی بدل جائے، پر نہ دنیا پر امریکہ کی بالادستی نظر آئے نہ روس کی۔
مسلمانوں کی بنیادی قوت
یہ حقیقت بالکل ظاہر و عیاں ہے کہ موجودہ اسباب و وسائل کی مادی دنیا میں ہم مسلمان ان کفر کی طاغوتی طاقتوں اور اسلام دشمن قوموں کے مقابلہ پر خواہ روس ہو یا امریکہ، جرمنی ہو یا برطانیہ، بہت پسماندہ ہیں۔ مادی وسائل اور حیرت انگیز سائنسی ترقیات میں ہم ان سے بہت پیچھے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے عقلاً بھی ان کے مقابلہ کا یہی مختصر اور محکم راستہ ہے کہ ہم اس رب العالمین سے اپنا رشتہ مضبوط جوڑ لیں اور عبدیت کا تعلق اُستوار کر لیں جو اِن تمام مادی وسائل کا خالقِ حقیقی ہے اور اس کی قدرتِ کاملہ اور قوتِ قاہرہ کے سامنے ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ بھلا اس خالق کائنات کی قدرتِ کاملہ کے سامنے ان ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے جن کا وہ خود پیدا کرنے والا اور حقیقی موجد ہے!
اس کا یہ مقصد ہرگز نہ سمجھا جائے کہ ہم مادی اسباب و وسائل سے بے نیازی اختیار کر نے اور غفلت برتنے کا درس دے رہے ہیں۔ یہ تو خود خداوندی حکم ہے کہ جتنی بھی طاقت و قوت تمہاری استطاعت میں ہو، دشمنانِ اسلام کے مقابلہ کے لیے اس کو فراہم کرنے میں مطلق کوتاہی نہ کرو۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اعتماد کا اصل سرچشمہ وہ ذات قدسی صفات ہونی چاہیے، جس کے قبضۂ قدرت میں یہ تمام محیر العقول وسائل ہیں اور وہی اُن کا حقیقی مالک و متصرف ہے۔ آپ نے دیکھا چینی قوم جو اَب سے بیس سال پہلے تک دنیا کی پست ترین افیمی قوم سمجھی جاتی تھی آج وہ قوم اپنی ہمت و جرأت اور تنظیم و اتحاد، جفاکشی و سخت کوشی اور سرفروشی کی بدولت نہ صرف صنعت و حرفت میں بلکہ فنی و حربی قوت اور فوجی طاقت میں امریکہ اور روس کے لیے بھی وبالِ جان بنی ہوئی ہے اور وہ دنیا جو کچھ سرخ خطرہ سے لرزہ براندام ہوا کرتی تھی، اب زرد خطرہ سے پریشان اور حواس باختہ ہے، حتیٰ کہ اس نے اب امریکہ و روس کے ایوانِ سیاست و تدبیر کو بھی متزلزل کر دیا ہے۔ اگر ستر کروڑ چینی، امریکہ و روس کو مرعوب کر سکتے ہیں تو کیا دنیا کے ستر کروڑ مسلمان اگر آج تنظیم و اتحاد، ہمت و عزیمت، ایثار و محنت اور سرفروشی کی نعمت سے سرفراز ہو جائیں تو وہ ان طاغوتی طاقتوں کو مغلوب و مقہور نہیں کر سکتے؟
آج اگر دنیا کی مسلمان قومیں اور حکومتیں اغیار کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ و مامون ہو جاتیں اور جو قدرتی ذخائر ان بلادِ اسلامیہ میں قدرت نے پیدا کیے ہیں ان سے ان ’’عیار سفید فام‘‘ قوموں کے بجائے خود وہ مستفید ہونے لگیں تو دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور اور باعزت قوم مسلمان بن جائیں۔
الغرض وقت کا تقاضا ہے کہ مادی ترقیات میں بھی ہم زیادہ سے زیادہ اغیار سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں، مگر اس سے پہلے اللہ جل شانہٗ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور تعلُّق استوار کریں تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی نعمتوں سے بھی مسلمان ہی سرفراز ہوں گے۔ فَاعْتَبِرُ وْا یَا أُولِیْ الْأَبْصَارِ۔