(بنوریہ میڈیا کے فکری مذاکرہ کی ایک نشست کا کچھ حصہ)
ڈاکٹر جہان یعقوب:
۱۹۷۴ء کو جو ایک فیصلہ دیا گیا جس کے تحت قادیانی، لاہوری، مرزائی، وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی شکل میں نبوت کے اجراء کو مانتے ہیں، ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ پھر ۱۹۸۴ء تک ان کو موقع دیا گیا، چوہتر سے لے کر چوراسی تک ان کو موقع دیا گیا کہ پاکستان کہ قانون کے مطابق یہ اپنی حیثیت کو تسلیم کر لیں، اپنے آپ کو اقلیتوں میں شمار کریں۔ لیکن انہوں نے جب اس قانون کو تسلیم نہیں کیا اور کھلے عام اس کے ساتھ بغاوت کا رویہ رکھا تو اسے کے بعد آرڈیننس کی شکل میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آیا ۱۹۸۴ء میں، جس کے ذریعے ان کو پابند کیا گیا کہ وہ اسلامی شعائر کو استعمال نہ کریں۔ یہ ایک بہت اہم فیصلہ تھا جو ہمارے کانسٹیٹیوشن کا حصہ بنا۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ۲۰۱۹ء میں ایک تحریف شدہ ترجمہ ’’تفسیرِ صغیر‘‘ کے نام سے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ کی کھلے عام توہین موجود ہے، اس ترجمے کو ایک کالج میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک تعلیمی ادارے میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور اس پر ایف آئی آر کٹوانے کے لیے قانون کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، لیکن ۲۰۱۹ء سے لے کر ۲۰۲۴ء تک اس پر جو بھی کاروائی ہوتی ہے وہ محض ایک ۔۔ جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی، کئی سال کے بعد تو جا کر ایف آئی آر کا اندراج ہوتا ہے۔ پھر اس آدمی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، ہائی کورٹ سے، سیشن کورٹ سے ضمانت اس کی مسترد ہو جاتی ہے۔ پھر اچانک سپریم کورٹ سے اس آدمی کو نہ صرف ضمانت ملتی ہے بلکہ ساتھ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس تفسیر کو بھی یہ لوگ اپنے حلقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ تو تحریفِ قرآن کی گویا کہ سپریم کورٹ سے جو ہماری عدالتِ عظمیٰ ہے وہاں سے اجازت دی جا رہی ہے۔
مفتی سید فصیح اللہ شاہ:
یہ تفسیر صرف ان کے حلقے میں تقسیم نہیں ہوئی بلکہ سنی نوجوانوں تک بھی گئی، میرے علم میں خود ذاتی طور پر ہے کہ یہاں کراچی کے بعض مدارس کے طلباء کے پاس بھی پائی گئی کہ بھئی مفت میں تقسیم ہو رہی ہے۔ اور دھوکہ یہ دیا گیا کہ بھئی یہ ’’تفسیر کبیر‘‘ کا خلاصہ ہے، تو تفسیرِ کبیر بھی انہی کی ہے ایک۔ اب امام رازیؒ کی جو تفسیر کبیر ہے، اب طلباء تو نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید امام رازیؒ کی تفسیرِ کبیر کا یہ خلاصہ مل گیا، اچھی تفسیر ہے۔