اسرائیل کے تحفظ کیلئے دفاعی میزائلی نظام

نصرت مرزا

(۱۹۹۸ء کی ایک تحریر حالیہ اسرائیل فلسطین جنگ کے تناظر میں ایک بار پھر شائع کی جا رہی ہے۔ ادارہ)


امریکی وزیر دفاع ولیم کوہن نے بحرین کے دورہ کے دوران ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو یہ تجویز دی کہ خلیجی ریاستوں کو،   ایران اور دوسری جگہوں میں بلاسٹک میزائل کی جو تیاری ہو رہی ہے، اس سے محفوظ ہونے کے لیے ایک میزائل نظام کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظام بہت مہنگا ہے اور طویل مدتی ہے۔ انہوں نے یہ تجویز بحرین کے مناط شہر میں دی ہے۔ بحرین کے حکمران ایران سے دفاع کے معاملہ میں کافی حساس ہیں، لیکن انہوں نے Elsewhere کا لفظ استعمال کیا۔ شاید یہ لفظ پاکستان کے لیے ہو، لیکن بحرین کو پاکستان سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ بحرین پاکستان سے میزائل خرید سکتا ہے جو زیادہ مہنگا سودا نہیں ہو گا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کے وزیردفاع یہ سب کچھ اسرائیل کے تحفظ کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ پیسہ تو نکلوائیں گے عربوں کا، دفاع کریں گے اسرائیل کا، اور ڈرائیں گے بھی عربوں کو۔

میرے خیال میں عربوں کو قطر کانفرنس کی طرح اس دفعہ بھی امریکہ کو جھنڈی دکھا دینا چاہیے کہ وہ کسی نظام کا حصہ نہیں بنیں گے، جب تک اسرائیل سے ان کو رعایتیں نہ مل جائیں۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں اور میزائل نظام کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کے بعد اسرائیلی یہ کہتے سنے گئے تھے کہ عربوں کی چال ڈھال بدل گئی ہے۔ میرے خیال میں ایران کو بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عربوں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں تاکہ امریکی منصوبہ ناکام بنایا جا سکے۔

امریکن تو اپنے ملک کی فوجی پیداوار کی فیکٹریاں چالو رکھنا چاہتے ہیں، وہ اپنا ریسرچ پروگرام عربوں کے پیسے جاری رکھنا چاہتے ہیں، اور پھر عربوں کے خلاف اسرائیل کی حمایت میں اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی وزیردفاع نے بحرین کے حکمرانوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ ایران نے حال ہی میں ’’شہاب ۳‘‘ کا تجربہ کیا، جبکہ دوسرے ممالک ایسے میزائل بنا رہے ہیں جو یا تو کیمیائی، بائیولوجیکل، یا ایٹمی ہتھیار لے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے اپنے ہزاروں کی تعداد میں فوجی اس علاقے میں موجود ہیں، اس صورتحال میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ ممالک آپس میں میزائل سے بچاؤ کا نظام تیار کریں۔

افغانستان پر امریکی کروز میزائلوں کے حملے کے بعد میں نے اپنے یکم ستمبر ۱۹۹۸ء کو شائع ہونے والے مضمون ’’پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملہ کا خطرہ‘‘ میں یہ تحریر کیا تھا کہ کراچی میں غوری میزائل فٹ کر دیے جائیں اور ان کا رخ امریکی جہازوں کی طرف ہو تاکہ وہ پھر افغانستان پر حملہ کی حرکت نہ کریں۔ اب امریکی وزیر دفاع اس تجویز کے ساتھ وارد ہو گئے ہیں جو خود عربوں کے خلاف ہے۔ میرا خیال ہے کہ قطر کانفرنس کی ناکامی کے بعد امریکیوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا کر دی تھی، لیکن پھر یہ جنگ ایٹمی جنگ کی خوفناکی میں تبدیل ہوتی دکھائی دی، تو انہوں نے پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا، جس کے اپنے مضمرات تھے۔ پھر عربوں سے پیسے نکلوانے کے لیے آ موجود ہوئے۔ میرے خیال میں پاکستان کی وزارت خارجہ کو چاہیے کہ وہ عربوں کو لوٹنے کے منصوبے سے آگاہ کرے۔ اسرائیل کو پاکستان اور ایران کے میزائلوں سے جو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، اس لیے عرب کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ رعایت حاصل کریں۔

پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت مسلمان ممالک کے لیے ایک نعمت ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اسرائیل کے دباؤ سے آزاد محسوس کر سکتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کی اس صلاحیت کی وجہ سے کتنا پریشان ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے پوری مسلم دنیا کے جھگڑوں کو ابھار دیا ہے۔ ایران اور افغانستان، ترکی اور شام کے درمیان جنگ کے بادل چھاتے نظر آ رہے ہیں۔

ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ اسرائیل کی دھمکی کا یہی جواب ہے کہ ایران پر کسی بھی حملہ کی صورت میں پاکستان جوابی حملہ کا حق محفوظ کرے۔ میں انتہائی ذمہ داری کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نے امریکہ کے دفاعی نظام کو مشرقِ وسطیٰ میں بے اثر کر دیا ہے۔ اسرائیل کی علاقے کے پولیس مین کی حیثیت متاثر ہوئی ہے، اور عرب اسرائیل کی طرف سے اپنے آپ کو زیادہ آزاد محسوس کر رہے ہیں۔ اس لیے اب شام اور ترکی کے درمیان لڑائی کرانے کا سوچا جا رہا ہے تاکہ اسرائیل کے معاملہ میں ان کی بارگیننگ پوزیشن متاثر نہ ہو۔

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس صورتحال سے فائدہ نہ اٹھایا تو امریکہ حالات کو ہمارے خلاف کرتا چلا جائے گا۔ امریکہ کے وزیر دفاع کا خلیج کے دفاعی نظام کے تصور کا مقصد دراصل پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے اثرات کو زائل کرنا ہے۔ پاکستان کو اس صلاحیت سے اپنی معیشت کی بہتری کے لیے کام لینے کا راستہ روکنا مقصود نظر آتا ہے، تاکہ مسلمان ممالک پاکستان کی طرف نہ دیکھیں، یا اپنے بھائی ملک سے مدد حاصل نہ کر سکیں۔ امریکن کسی صورت بھی یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی سینٹ سے پابندیوں میں نرمی کا بل پاس ہونے کے باوجود امریکی صدر بل کلنٹن نے اس بل کو ویٹو کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو امداد دینے کے لیے اپنے معاملے کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ وہ پاکستان میں انتشار کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں، اپنے مہروں کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ پاکستان کی حکومت گھٹنے ٹیک دے۔

میں اپنے اس مضمون میں ایرانی بھائیوں کو تدبر کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ امریکی وزیردفاع کے بیان کو دیکھیں کہ وہ کس قدر ایران کا ورد کر رہا ہے اور ایران افغانستان تصادم کی سوچ رہا ہے۔ امریکی انتظار کر رہے ہیں کہ ایران سرحد عبور کرے گا اور پھر وہ ایران پر پل پڑیں۔ سچ پوچھیں تو افغانستان پر کروز میزائلوں سے جو حملہ کیا گیا، اس کی ایک وجہ ایران کو آگے بڑھنے کی ترغیب دینا تھا۔

امریکی سفیر نے عربوں کو شام کے میزائل پروگرام سے بھی ڈرایا ہے، لیکن خلیجی ملکوں کو شام کے میزائلوں سے کیا خطرہ ہے؟ اس کے میزائلوں سے خطرہ تو اسرائیل کو ہو سکتا ہے۔

  1. جو خطرہ اسرائیل کو ہو گیا ہے وہ عربوں کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ عربوں کی دولت لوٹی جائے۔
  2. دوسرے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔

 سارا کھیل مسلمانوں کو باندھ کر رکھنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے، یہ مسلمانوں کی فراست پر منحصر ہے کہ وہ کس طور امریکہ کے داؤ سے بچ کر نکلتے ہیں۔


(ماہنامہ الشریعہ اکتوبر ۱۹۹۸ء بحوالہ روزنامہ نوائے وقت )

عالم اسلام اور مغرب

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۳

کیا عالمِ اسلام دنیا کی قیادت سنبھالنے کا اہل ہے؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۰)
ڈاکٹر محی الدین غازی

پاکستان میں مذہبی سیاست کو درپیش تحدیات
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مولانا مفتی محمودؒ
مجیب الرحمٰن شامی

قادیانی مسئلہ اور دستوری و قانونی ابہامات
قاضی ظفیر احمد عباسی

جسٹس غزالی کی شخصیت کے دو دلفریب رنگ
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

اسرائیل کا آئرن ڈوم میزائل سسٹم کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
بی_بی_سی

اسرائیل کے تحفظ کیلئے دفاعی میزائلی نظام
نصرت مرزا

فلسطین اور یہود: خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمیدؒ کا خط
ادارہ

امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرمانروا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابت
ادارہ

یہودیوں کی طوطا چشمی
طلال خان ناصر

رفح
ہلال خان ناصر

ایامِ حج و زیارتِ مدینہ کی یاد میں
سید سلمان گیلانی

’’صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر‘‘
مولانا حافظ کامران حیدر

Election 2002: Our Expectations from Muttahida Majlis-e-Amal
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter