امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرمانروا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابت

ادارہ

(مالیر کوٹلہ بھارت کے دینی جریدہ ماہنامہ ’’دار السلام‘‘ نے نومبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز آل سعود کے نام امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین کے ۱۰ فروری ۱۹۴۸ء کے تحریر کردہ ایک خط اور ملک عبد العزیز آل سعود کی طرف سے اس کے جواب کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس سے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان، کشمیر، فلسطین کے حوالے سے امریکہ جو کردار اب ادا کر رہا ہے، وہ کسی حادثہ کا نتیجہ نہیں بلکہ بہت پہلے سے طے شدہ پالیسی اور پروگرام کا ایک تسلسل ہے اور اس امر کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ہمارے مسلم حکمران امریکہ کے ان عزائم اور پروگرام کے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ابھی تک زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے اور انہوں نے عالم اسلام کے وسائل اور دولت امریکہ کے قدموں پر ڈھیر کر کے ذاتی، خاندانی اور طبقاتی سطح پر مفادات حاصل کرنے کے سوا عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے کسی مشترکہ منصوبہ بندی اور پیشرفت کی آج تک ضرورت محسوس نہیں کی۔ ادارہ)



صدر ٹرومین کی جانب سے شاہ عبد العزیز کے نام خط

حضور جلالت ملک عبد العزیز آل سعود، فرماں روائے مملکت سعودی عرب

قابل قدر بادشاہ!

جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک باہمی طور پر ایسی دیرینہ محبت اور مودت کے تعلقات میں مربوط ہیں جس کی بنیاد عدل وانصاف، آزادی، عالمی سطح پر امن وسلامتی کے قیام کی رغبت اور ساری انسانیت کی بھلائی پر قائم ہے، نیز ہماری باہمی اقتصادی مصلحتوں نے ان تعلقات کو اس وقت مزید مضبوط اور گہرا بنا دیا جب آپ نے اپنے ملک سعودی عرب میں دریافت کیے جانے والے تیل کے کنووں سے تیل نکالنے کا معاہدہ ہمارے ملک کی کمپنیوں سے کیا۔ اس طرح ہمیں وہاں تیل نکالنے والے وسیع وعریض پلانٹ قائم کرنے کے مواقع دستیاب ہوئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے تعلقات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ دونوں میں کسی ایک ملک میں ہونے والے ہر خوشگوار وناخوشگوار واقعہ کی صدائے بازگشت دوسرے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک مشرق وسطیٰ میں امن وسلامتی کا قیام نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس علاقے سے آپ کا ملک دینی، تاریخی اور لسانی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ اس علاقے کے تمام ملکوں کو عرب لیگ جیسے ادارے نے باہم مربوط کر رکھا ہے۔ چونکہ عرب لیگ اور ساری عرب قوم کے دلوں میں آپ کے ملک کا ایک اونچا مقام ہے لہذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ عالمی سلامتی اور ایک ستائی ہوئی مظلوم قوم کے نام پر آپ سے مدد طلب کروں تاکہ آپ مقدس سرزمین پر اس کے باشندوں، عرب اور یہود کے درمیان برپا خانہ جنگ کو روکنے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکیں اور عرب قوم کو اپنے ہم وطن یہودیوں کے ساتھ مصالحت پر آمادہ کر لیں۔ ہٹلر کے دور میں یہودیوں نے جو عذاب جھیلے، کیا وہ ان کے لیے کافی نہیں کہ اب بھی وہ ستائے جاتے ہیں؟ آپ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ یہودی اب بھی عذاب وتکلیف میں گرفتار رہیں چہ جائیکہ آپ ان عربوں کا ساتھ دیں جو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد (جو ارض مقدس کو دونوں قوموں کے درمیان تقسیم کرنے سے متعلق ہے) کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ عربوں کا یہ انداز اقوام متحدہ میں شامل تمام ملکوں کے خلاف جس میں سرفہرست آپ کا ملک آتا ہے، سرکشی اور زیادتی کے مترادف ہے۔

جس بات کا مجھے ڈر ہے، وہ یہ کہ کہیں مختلف ممالک متحدہ طور پر ان بغاوت کرنے والوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر درست کرنے کے لیے ان پر فوج کشی نہ کر دیں جس سے آپ کی قوم کی ہزاروں جانوں کے تلف ہو جانے کا خدشہ ہے۔ یقیناًیہ امر ہمارے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی باعث رنج وتکلیف ہوگا۔ میں اس امر کو بھی آپ سے مخفی رکھنا نہیں چاہتا کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ چیز ہمارے خوشگوار تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں کیونکہ امریکہ قوم مظلوم یہودیوں کے لیے اپنے اندر عطف وکرم کا شدید جذبہ رکھتی ہے۔ ان یہودیوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوں کا توں قبول کر لیا ہے جبکہ یہ قرارداد ان کے تمام مطالب کی تکمیل بھی نہیں کر رہی لہذا عرب قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کریں اور یہودی قوم سے اس معاملے میں پیچھے رہ جائیں۔

جلالۃ الملک! تاریخ آپ کا انتظار کر رہی ہے تاکہ آپ کا نام اس انداز میں رقم کیاجائے کہ شاہ عبد العزیز وہ بادشاہ ہے جنہوں نے اپنی حکمت اور اثر ورسوخ کے ذریعے سے اراضی مقدسہ میں امن وسلامتی کو قائم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ لہذا اپنی قوم کے لوگوں کو عالمی بائیکاٹ کی تکالیف سے بچا لیجیے اور مجبور ومظلوم اسرائیلی قوم کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیجیے۔

میری جانب سے سلام، نیک تمنائیں اور پیشگی پرخلوص شکریہ۔

آپ کا مخلص

ہیری ٹرومین

ملک عبد العزیز آل سعود کی جانب سے جواب

شاہی محل، ریاض

۱۰ ربیع الثانی ۱۳۶۷ھ

عزت مآب جناب ہیری ٹرومین، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ

معزز صدر!

آپ کا۱۰ فروری کو تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ نے میرے متعلق محبت اور الفت کے جو جملے اپنے خط میں تحریر کیے ہیں، ان پر میں آپ کا شکر گزار ہوں مگر اس بات کی صراحت بھی ضروری سمجھتا ہوں (کیونکہ صراحت اور کھری بات کرنا ہمارے آداب میں شامل ہے) کہ جوں جوں میں آپ کے خط کی عبارت سنتا رہا، اسی طرح میری حیرت اور استعجاب میں اضافہ ہوتا رہا کہ آپ نے کس طرح یہودی قوم کے باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش میں مجھ جیسے عربی بادشاہ کے بارے میں یوں بد گمانی کر لی جس کی اسلام اور عرب کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور آپ نے یہ تصور کر لیا کہ میں اپنی قوم کے حق کے مقابلے میں یہودیوں کے ساتھ ان کے باطل پر تعاون کروں گا۔ ہمارے دلوں میں فلسطین کا ایک مقام ہے۔ اس کی وضاحت میں ایک مثال کے ذریعے سے کروں گا۔

اگر کوئی ملک آپ کی کسی اسٹیٹ پر قبضہ کر لے اور اس کے دروازے دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والوں کے لیے کھول دے تاکہ وہ اس کو اپنا ملک بنا کر اس میں مقیم ہو جائیں اور جب امریکی عوام اس جبری قبضے کو ختم کرنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہم آپ سے دوستی اور سلامتی کے نام پر اس معاملہ میں مدد کے خواہاں ہو جائیں اور کہیں کہ امریکی قوم کے نزدیک آ پ اپنے مقام اور اثر ورسوخ کو استعمال کر کے امریکی قوم کو غیر ملکیوں کے ساتھ مقابلہ سے روکیں تاکہ یہ اجنبی قوم اپنا ملک قائم کر سکے اس طرح تاریخ بھی آپ صدر ٹرومین کو اپنے روشن صفحات میں امریکہ میں اپنی حکمت اور نفوذ کے ذریعے سے امن قائم کرنے والا کہے، اس وقت آپ کے دل میں ہمارے اس مطالبہ کا کیا رد عمل ہوگا؟

جناب صدر! عرب قوم میں میرے جس مقام ومرتبہ کا ذکر آپ نے کیا ہے، مجھے وہ مقام محض عرب اور اسلام سے شدید دلی وابستگی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ لہذا آپ مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں جو کسی ذمہ دار عرب کے لیے ناممکن ہے اور پھر فلسطین میں جاری جنگ کوئی داخلی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے بلکہ یہ اس کے اصل حق دار عرب قوم اور ان صہیونی جنگ جوؤں کے درمیان جاری لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے علی الرغم عالمی سلامتی کے قیام کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظور کردہ قرارداد جس کو مختلف ملکوں سے منظور کروانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے، محض ظلم وناانصافی پر مبنی ایسی قرارداد ہے جس کو ابتدا ہی سے تمام عرب ملکوں نے نیز ان ملکوں نے بھی رد کر دیا جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں لہذا حالیہ نتائج کے ذمہ دار عرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لیے انتہائی محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جو فلسطین میں صہیونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے نذرانہ شہادت پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم عرب لوگ اس کو ایسا شرف سمجھتے ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر ہے۔ ہم کسی بھی قیمت پر ان فلسطینی بھائیوں کی تائید سے دست بردار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ صہیونی حملہ آوروں کے خوابوں کو چکنا چور نہ کر دیں۔ جہاں تک آپ نے باہمی اقتصادی مصلحتوں کا ذکر کیا ہے جن سے میرا اور آپ کا ملک جڑا ہوا ہے، تو یاد رکھیے کہ یہ اقتصادی مفادات میرے نزدیک پرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ میں ان اقتصادی مفادات کو قربان کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ منظور نہیں کہ اس کے بدلے میں فلسطین کی ایک بالشت زمین بھی مجرم یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کر دوں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ میں تیل کے ان کنووں کو بند کر سکتا ہوں۔ تیل کے یہ کنویں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے آج ہم پر جاری فرمائی ہیں لہٰذا ہم ان کو کبھی عذاب الٰہی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے اس سے قبل کئی دفعہ ساری دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں اپنے تمام بیٹوں سمیت فلسطین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوں۔ پھر اس کے باوجود میرے لیے تیل کے یہ کنویں میری اپنی جان اور میری اولاد سے کیسے عزیز تر ہو سکتے ہیں؟

قرآن مجید کہ جس پر ہمارا ایمان ہے، جو ہماری زندگی ہے اور جس پر ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں، اس کتاب نے تورات اور انجیل کی طرح یہود قوم پر لعنت کی ہے۔ یہی قرآن مجید ہم پر اس امر کو فرض قرار دیتا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے سے اس مقدس سرزمین کو یہودی دخل اندازی اور تسلط سے روکیں جس میں کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر امریکی عیسائیوں اور ان کے دیگر حواریوں کے دینی عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یہودیوں کو ان کے ناپاک قدموں کے ذریعے سے مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں تو ہمارے دل بھی آج اس ایمان سے معمور ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کو یہودیوں سے پاک وصاف کریں۔

جس قسم کے الفت اور محبت اور جانب دارانہ تعلقات آپ کی حکومت نے یہودیوں سے استوار کیے ہیں اور اس کے مقابلے میں عرب کے ساتھ جس طرح آپ نے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے، یہی ایک بات کافی ہے کہ ہم آ پ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات کو منقطع کر دیتے، امریکی کمپنیوں کے ہمارے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ قرار دے دیتے لیکن ہم نے اس لیے جلد بازی سے کام لینا مناسب نہیں سمجھا کہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کا ملک فلسطین کے موقف پر نظر ثانی کرے گا اور واضح باطل کی تائید سے کنارہ کش ہو کر واضح حق کا ساتھ دے گا۔ہم اس معاملہ میں آپ پر کوئی دباؤ ڈالنا نہیں چاہتے، نہ اس کے لیے تجارتی تعلقات کو ذریعہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم عربی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حق کو بذریعہ حق غالب کیا جائے نہ کہ ان یہودیوں کی طرح جو رشوت دے کر مختلف ملکوں کو اپنی تائید پر ابھارنے کی کوشش میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ حق کو کیوں پامال کیا جا رہا ہے تو ہم اس کے تحفظ کے لیے ہر وہ وسیلہ اختیار کریں گے جو اس میں موثر ثابت ہوگا۔ خصوصاً عرب لیگ قومیت اور اس کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو تجویز بھی منظور کرے گی، ہم اس کی تائید میں ہوں گے۔

یقیناًیہ بات میرے لیے باعث مسرت ہے کہ جو امریکی ہمارے ملک میں مقیم ہیں، وہ ہمارے مہمان ہیں۔ جب تک وہ ہماری سرزمین میں ہیں، انہیں ہماری جانب سے کوئی شکایت یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ اس بات کا اطمینان رکھیں۔ سب سے زیادہ اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے تو یہی کہ ہمارے ملک میں ان کے قیام کی مدت کو مختصر کر کے پوری عزت واکرام کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے ملک امریکہ واپس بھجوا دیں۔

اخیر میں صاحب صدر! میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ جن تجارتی اشیا کی بنیاد پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات قائم ہیں، یہ وہ مال ہے کہ دنیا کی مارکیٹ میں ا س کے فروخت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن اس کے خریدنے والے بہت زیادہ۔

صاحب صدر! میری نیک تمنائیں اور آداب قبول فرمائیں۔

مخلص عبد العزیز آل سعود

ملک المملکۃ العربیۃ السعودیۃ


(ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ جنوری ۲۰۰۲ء بحوالہ ماہنامہ ’’دارالسلام‘‘ مالیر کوٹلہ، بھارت)

عالم اسلام اور مغرب

فلسطین و اسرائیل

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۳

کیا عالمِ اسلام دنیا کی قیادت سنبھالنے کا اہل ہے؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۰)
ڈاکٹر محی الدین غازی

پاکستان میں مذہبی سیاست کو درپیش تحدیات
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مولانا مفتی محمودؒ
مجیب الرحمٰن شامی

قادیانی مسئلہ اور دستوری و قانونی ابہامات
قاضی ظفیر احمد عباسی

جسٹس غزالی کی شخصیت کے دو دلفریب رنگ
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

اسرائیل کا آئرن ڈوم میزائل سسٹم کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
بی_بی_سی

اسرائیل کے تحفظ کیلئے دفاعی میزائلی نظام
نصرت مرزا

فلسطین اور یہود: خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمیدؒ کا خط
ادارہ

امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرمانروا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابت
ادارہ

یہودیوں کی طوطا چشمی
طلال خان ناصر

رفح
ہلال خان ناصر

ایامِ حج و زیارتِ مدینہ کی یاد میں
سید سلمان گیلانی

’’صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر‘‘
مولانا حافظ کامران حیدر

Election 2002: Our Expectations from Muttahida Majlis-e-Amal
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter