حماس کے مکتب کی جانب سے ’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے بک لیٹ شایع کی گئی جس میں طوفان اقصی کے اسباب، صہیونی ریاست کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کے جوابات، اور حماس کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ اردو قارئین کے لیے اس اہم دستاویز کا ترجمہ کیا گیا ہے:
اے ہماری بہادر فلسطینی قوم کے مجاہدو! عالم عرب و اسلام کے باسیو! دنیا کے باضمیر لوگو! جنہوں نے ہر جگہ حق کی نصرت اور ظالم کے چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے، حریت، عدل اور انسانی شرافت کے علم کو بلند کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ غزہ اور فلسطین کے مغربی کنارے پر اسرائیل کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، اس کے مقابلے میں اہلِ غزہ اسرائیل کے ظلم و جور سے آزادی حاصل کرنے کے لیے، اپنے دشمن کے سامنے جرات و بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ ہم نے اس مضمون میں اپنے عوام، امتِ مسلمہ، اور دنیا کے باضمیر لوگوں کو ’’طوفانِ اقصیٰ‘‘ کے اسباب، مسئلہ فلسطین کی حقیقت، صہیونیوں کی جانب سے اٹھائے جانے بے بنیاد اعتراضات کی حقیقت کو واضح کیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ حماس کی حقیقت اور اس معرکہ کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔
اول: طوفانِ اقصیٰ کے اسباب
❶ استعمار اور قابض اسرائیل کے ساتھ اہلِ فلسطین کی جنگ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے شروع نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس جنگ کو ۱۰۵ سال بیت چکے ہیں۔ ۳۰ سال برطانوی سامراج نے قبضہ جمائے رکھا، اور ۷۵ سالوں سے اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۱۸ء میں اہلِ فلسطین ۹۸.۵% زمین کے مالک تھے، جبکہ ۹۲% فلسطینی وہاں آباد تھے۔
اس کے بعد ۱۹۴۸ء سے قبل ایک مہم کے تحت برطانوی سامراج نے یہودیوں کو بسانے کے لیے فلسطین کے دروازے کھول دیے، اور صہیونی ریاست قائم کرنے کے لیے ماحول سازگار کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو ظلم و ستم سے دبانا شروع کیا، اور جبراً ۶% فیصد زمین پر قبضہ کر لیا جس پر ۳۱.۷% یہودی آباد ہوئے۔ اس طریقے سے انہوں نے فلسطینی عوام کو حقِ خود ارادیت سے محروم کر دیا۔
اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے صہیونیوں نے ۵۰۰ بستیوں کو تہس نہس کر کے ۷۷% زمین پر قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں ۵۷% فیصد فلسطینی ہجرت کرنے مجبور ہوئے۔ اس ناجائز طریقے سے ۱۹۴۸ء میں صہیونی ریاست کو قائم کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔
۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے فلسطین کی باقی زمین ہتھیانا شروع کر دی، جس کے لیے اس کے فوجیوں نے عرب کے دیگر علاقوں کے علاوہ فلسطین کے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مسجد اقصیٰ پر ظلم و ستم پہاڑ توڑ دیے۔
➋ اہلِ غزہ طویل عرصہ سے کس مپرسی اور سخت ظلم و ستم کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مختلف پالیسیوں کے ذریعے ان کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ۱۷ سال سے غزہ کا محاصرہ کر کے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس دوران ہم پانچ جنگوں سے گزر چکے ہیں، جس میں اسرائیل پہل کرتا رہا ہے۔ دشمن کے ظلم و ستم کا اندازہ اس امر سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ جب اہلِ غزہ نے ۲۰۱۸ء میں ’’مسیرات العودہ‘‘ (ہمیں اپنے علاقوں کی طرف واپس جانے دیا جائے) کے نام سے پرامن احتجاج و مظاہروں کا آغاز کیا تو اسرائیلی درندوں نے ان پرامن مظاہرین پر حملہ کرتے ہوئے ۳۶۰ فلسطینوں کو شہید کیا، جبکہ ۱۹ ہزار سے زائد لوگوں کو زخمی کر دیا، جس میں ۵ ہزار بچے بھی شامل تھے۔
➌ اعداد و شماریاتی ادارے کے مطابق سن ۲۰۰۰ء سے لے کر ستمبر ۲۰۲۳ء (۷ اکتوبر سے قبل) صہیونیوں نے ۱۱۲۹۹ فلسطینی قتل کیے ہیں، جبکہ ۱۵۶۷۶۸ زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت شہریوں کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں امریکہ اور اس کے اتحادی مظلوم فلسطینوں کی مدد و نصرت (اور اس ظلم کو روکنے کے بجائے) صہیونیوں کی درندگی پر پردہ ڈالتے رہے، اور جب (مجاہدین نے) ۷ اکتوبر کو معرکہ طوفانِ اقصیٰ شروع کیا تو انہوں نے اسرائیلیوں کی ہلاکت پر چیخنا شروع کر دیا اور حماس کے خلاف اور اہلِ غزہ خون کی ندیاں بہانے کے لیے مالی اور جنگی سازوسان سے معاونت سلسلہ تاحال جاری ہے۔
➍ اسرائیل کی جانب سے فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ پر کی جانے والی ہولناکیوں اور مقدس مقامات کی پامالیوں کو اقوام متحدہ کی تنظیموں، تحقیقاتی کمیٹیوں، عالمی انسانی حقوق کے اداروں (ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ) نے دستاویزات کی شکل میں مرتب کیا ہے۔ جس میں فلسطینی تنظیموں کے علاوہ اسرائیلی تنظیمیں بھی شامل ہیں، جن کو پورا عالم صلاحیت اور دیانتداری کے عنوان سے پہچانتا ہے۔ ان دستاویزات کو مرتب کرنے کے بعد اہلِ فلسطین پر جاری ظلم و ستم پر کسی نے آواز بلند نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ اسرائیلی نمائندے جعل اردان نے ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۱ کو اقوام متحدہ کے اسٹیج پر اقوام متحدہ کی تیار کردہ انسانی حقوق کی رپورٹ کو چاق کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اس چارٹر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کیا گیا اسی کو اگلے سال کے لیے اقوام متحدہ کا نائب صدر مقرر کر دیا گیا۔
➎ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اہلِ فلسطین پر زندگی تنگ کرتے ہوئے مقدس مقامات کی توہین اور ان کی زمین کو یہودی رنگ دینے کے لیے اسرائیل کے قیام ہی سے اس کے ممد و معاون بنے ہوئے ہیں۔ اہلِ فلسطین کے حق میں اقوام متحدہ کی جانب سے ۷۰۰ سے زائد قراردادیں پیش کی جا چکی ہیں۔ لیکن اسرائیل کسی ایک قرارداد کو بھی خاطر میں نہیں لایا، امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اس کی اس ضد اور ہٹ دھرمی، اہلِ فلسطین پر اس کے ظلم و ستم میں برابر کے شریک ہیں۔
➏ اہلِ غزہ پر ظلم و ستم کرتے ہوئے مغربی کنارے پر کثرت سے یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ۳۰ سال کے بعد اوسلو معاہدے کی راہ ہموار کرنے والوں کو معلوم ہوا کہ تباہی کا سامنا کر رہے ہیں، اور یہ فلسطین کے لیے تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
➐ اسرائیلی حکام اس بات پر مصر ہیں کہ اہلِ فلسطین اپنی ریاست قائم نہیں کر سکتے، یہی وجہ ہے کہ طوفانِ اقصیٰ سے قبل ستمبر ۲۰۲۳ء میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ فلسطین کے تاریخی نقشہ کو اسرائیل کا نقشہ بنا کر پیش کیا، جس میں غزہ اور فلسطین کا مغربی کنارہ بھی شامل تھا۔ اسرائیل کی جانب سے کی جانب والی سنگین بددیانتی، گھمنڈ اور اہلِ فلسطین کی خودارادیت کے سلب کیے جانے پر پورا عالم خاموش رہا۔
اوپر بیان کردہ صورتحال ۷۵ سال سے مسلسل قبضے اور مصائب، آزادی اور گھروں کو واپسی کی تمام امیدوں کے ٹوٹ جانے، اور پرامن تصفیے کے تمام امکانات ملیامیٹ ہو جانے کے بعد ساری دنیا فلسطینی قوم سے مندرجہ ذیل ظلم و ستم کے خلاف کن اقدامات کی امید رکھتی ہے:
✦ فلسطینی اس حالت میں کیا کریں کہ جب مسجد اقصیٰ کی زمانی و مکانی تقسیم کی دھمکی آمیز منصوبے بنائے جا رہے ہوں، اور مسجد اقصیٰ میں قابض اسرائیلی آبادکاروں کی دراندازیاں اور اشتعال انگیزیاں بڑھتی جا رہی ہوں۔
✦ فلسطینی اس حالت میں کیا کریں جب دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی مغربی کنارے کو کنٹرول کرنے اور اسے اپنے ساتھ ضم کرنے کا پورا منصوبہ رکھتے ہوں، اور مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدسات پر کنٹرول کا منصوبہ بنائے ہوئے ہوں، اور مغربی کنارے سے پوری فلسطینی قوم کو بے دخل کرنے اور ہجرت پر مجبور کرنے کا منصوبہ رکھتے ہوں۔
✦ فلسطینی اس حالت میں کیا کریں کہ جب اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینی قیدی جو اسرائیلی فاشسٹ وزیر Itamar Ben-Gvir کی براہ راست نگرانی میں اپنے بنیادی حقوق سے محرومی کے ساتھ ساتھ حملوں اور تذلیل کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔
✦ غزہ کی پٹی پر ۱۷ سالوں میں مسلط کردہ غیر منصفانہ فضائی، سمندری اور زمینی ناکہ بندی کے خلاف وہ کیا کریں کہ جب وہ ناکہ بندی انہیں آہستہ آہستہ موت کی طرف لے جا رہی ہو۔
✦ وہ کیا کریں جب مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو ایسی غیر معمولی توسیع دی جا رہی ہو جس کی ماضی میں کوئی مثال نہ ملتی ہو۔ اسی طرح وہاں فلسطینیوں اور ان کی املاک کے خلاف قابض آباد کاروں کی طرف سے تشدد اور جرائم اس قدر بڑھ گئے ہوں کہ ماضی میں ان کی مثال نہ ملتی ہو۔
✦ وہ کیا کریں کہ جب ۷۰ لاکھ فلسطینی ۷۵ سال بعد بھی اپنے گھروں کی واپسی سے مایوس ہوچکے ہوں اور انہیں ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھ دیا گیا ہو۔
✦ وہ کیا کریں جب ان سارے جرائم کے سامنے دنیا عاجز ہو چکی ہو، اور بعض بڑی طاقتیں فلسطین کے قیام کے راستے میں رکاوٹ ہوں، اور یہ دنیا کی واحد قوم ہو جو قابض طاقت کے تحت زندگی گزار رہی ہو۔
کیا اس (دردناک) صورتحال پر ۷۵ سال گزرنے کے باوجود ہماری عوام سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہے گا کہ ہم عدل و انصاف کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے بے بس اداروں پر بھروسہ کرتے رہیں؟ جبکہ آسمانی شریعتوں، انسانوں کے عرف اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہمیں حق حاصل ہے کہ اپنی خودمختاری، مقدس مقامات کی حفاظت، اور کے دفاع کے لیے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں۔ اسی بنیاد پر ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو طوفانِ اقصیٰ کا آغاز کیا گیا، کیوں کہ فطری و ضروری اقدام صرف یہی بچا تھا۔ جس کے ذریعے فلسطینی قضیے کو ختم کرنے کے اسرائیلی منصوبوں اور سرزمین فلسطین پر قبضے اور اسے یہودیانے، مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدسات کو کنٹرول کرنے، غزہ کی پٹی سے ظالمانہ حصار کو ختم کرنے، قابض قوت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیا جا سکے۔ اور صرف یہی اقدام تھا جس کے ذریعے یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ اہلِ فلسطین اپنے وطن کے حقوق کی واپسی، اہلِ فلسطین کا دیگر آزاد اقوام کی طرح آزادی و حریت کے ساتھ رہنے، حقِ خود ارادیت کے حصول اور فلسطینی ریاست، جس کا دارالخلافہ قدس ہو، قائم کر سکیں۔
دوم: ۷ / اکتوبر کے واقعات اور صہیونیت کے الزامات
اکتوبر ۲۰۲۳ء سے متعلق اسرائیل کی جانب سے جھوٹے پروپیگنڈے اور ان کی طوفانِ اقصیٰ سے متعلق غیر مصدقہ معلومات کے حوالے سے حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ (حماس) کی جانب سے ذیل میں چند امور کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ طوفانِ اقصی (۷ اکتوبر) کو صرف اسرائیل کے عسکری مقامات کو نشانہ بنایا، اور اسرائیل کی قید میں موجود ہزاروں فلسطینیوں کے تبادلے کے پیش نظر دشمن کے فوجیوں اور جنگجوؤں کو گرفتار کیا۔ اسی طرح اس حملے کو غزہ کے اردگرد اسرائیلی عسکری مقامات پر مرکوز رکھا، کیونکہ غزہ پر بمباری انہی مراکز سے کی جاتی ہے۔
➊ حماس اسلامی فکر کی حامل تحریک ہے، اس تحریک سے وابستہ افراد کی اسلامی فکر کے مطابق ذہن سازی کی جاتی ہے، جس میں جنگ کے دوران پرامن شہریوں، بالخصوص پرامن بچوں، بزرگوں، عورتوں کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ اس وقت کتائب القسام کے مجاہدین اسی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔ طوفانِ اقصیٰ کے آغاز کے وقت اگر کسی شہری کو نقصان پہنچا بھی تو وہ غیر ارادی طور پر پہنچا ہوگا۔ اس لیے کہ اس وقت ہم بھی ظالم دشمن سے دفاع کے ساتھ ساتھ اس کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں، اس لئے کہ وہ دن رات ہمارے بچوں، بزرگوں، عورتوں کو مہلک ۔۔۔
➋ صہیونی مجرم (باروخ جولدشتاین) نے خلیل شہر ’’ہیبرون‘‘ میں ابراہیم مسجد میں نمازیوں کا قتل عام کیا تو اس وقت بھی حماس اور دیگر جماعتوں نے اس امر پر زور دیا کہ لڑائی کی زد میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ لیکن قابض اسرائیل نے اس کا جواب دینا بھی گوارا نہ سمجھا، لیکن حماس شہریوں کو جانی و مالی نقصان سے بچانے کی صدا بلند کرتی رہی، لیکن صہیونی اپنی ضد پر قائم رہتے ہوئے اس جرم سے باز نہ آیا۔ طوفانِ اقصی کے آغاز کے وقت دونوں جانب سے فورسز کے نقل وحرکت، باڑ کی وسیع خلاف ورزیوں اور غزہ کی پٹی کو ہمارے آپریشن کے علاقوں سے الگ کے نتیجے میں شہریوں کو نقصان پہنچا ہوگا۔
➌ جن اسرائیلی شہریوں کو غزہ میں قید کیا گیا ان کے ساتھ حماس کے مجاہدین کا حسنِ سلوک دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ ان کو ہم نے جلد آزاد کرنے کی کوشش کی، جو عملاً ۷ دن کی عارضی جنگ بندی کے دوران ہو سکا۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل نے بین الاقوامی قانون، انسانی معاشرے کے عرف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انسان دشمنی پر مبنی سلوک کیا۔
➍ ۷ اکتوبر کے دن کتائب القسام کے اسرائیلی شہریوں کے نشانہ بنانے کے حوالے سے قابض اسرائیل کے بیانات صرف جھوٹ و بہتان پر مبنی ہیں، اس لیے اس امر کا دعویٰ اسرائیلی ذارئع نے کیا ہے، کسی آزاد اور مصدقہ ذرائع نے ان کی تصدیق نہیں کی۔ یہ امرِ معروف ہے کہ اکثر اسرائیلی ذرائع کے ادارے اپنی حکومت کے حقائق اور ان کی جعل سازی چھپانے کوشش کرتے ہیں، تاکہ اس کے جرائم کو صحیح ثابت کر کے حماس کا خاتمہ کیا جا سکے۔
اسرائیل کے کذب و بہتان کی حقیقت ذیل میں دی گئی اہم معلومات سے واضح ہو گی:
اس دن لیے گئے ویڈیو کلپس اور خود اسرائیلیوں کی گواہیوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ القسام کے جنگجوؤں نے عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ اسرائیلی فوج سے الجھنے کے باعث غلط فہمی کے نتیجے میں ان میں سے کئی پولیس فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔
یہ بات پورے یقین کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ چالیس شیر خوار بچوں کے قتل کا دعویٰ جھوٹا تھا، اور اس کا اعتراف اسرائیلی ذرائع نے بھی کیا ہے۔ یہ وہ پروپیگنڈہ ہے جو مغربی میڈیا میں بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے۔
یہ الزام کہ مزاحمتی جنگجوؤں نے اسرائیلی خواتین کی عصمت دری کی، جھوٹا ثابت ہوا اور حماس نے اس کی قطعی طور پر نفی کی تھی۔ مثال کے طور پر ایک تحقیق ملاحظہ کی جا سکتی ہے جو ایک ویب سائٹ پر جنوری ۲۰۲۴ء کو شائع کی گئی جس میں نے عصمت دری کے تمام الزامات اور ان کی تردید کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔
اسرائیلی اخبارات روزنامہ بدیعوت احرونوت (اشاعت ۱۵ اکتوبر ۲۰۲۳ء) اور روزنامہ ہارتس (اشاعت۱۸ نومبر ۲۰۲۳ء) کی رپورٹ کے مطابق (طوفان الاقصیٰ کے دن) یہودی اپنی عید عرش کی مناسبت سے مقام رعیم کے قریب محفل لگائے ہوئے تھے، جس سے مجاہدین لاعلم تھے۔ مجاہدین جب وہاں داخل ہوئے تو اسرائیل نے اباشی نامی طیاروں سے ۳۶۴ اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا۔ اسی طرح بدیعوت احرونوت اخبار کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹر سے حملے کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجاہدین کو قتل کر دیا جائے اور (محفل میں شریک یہودی) ان کے قیدی نہ بن سکیں۔
اسرائیلی اخبارات کی رپورٹس سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیلی فوج کے حملوں اور جنگی کاروائیوں کے نتیجے میں غزہ کے اطرف میں اسرائیلی قیدیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو چکی ہے۔ اسی طرح ان کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں اور تحریکِ حماس سے جھڑپوں کے نتیجے میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ اسرائیلی شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں، اور ان کے گھر مسمار کیے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی کا حماس کے پاس اسرائیلی قیدیوں کو قتل کرنے کے حوالے سے ’’ہانیبال‘‘ پروٹوکول کی روشنی میں اسرائیلی فوج کا واضح موقف ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کو قتل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اسی طرح قابض دشمن اپنی جارحیت کے ذریعے سے شہریوں، مجاہدین اور قیدیوں کو جانی نقصان پہنچانے پر کاربند ہے۔
ان کے مکروفریب، بہتان تراشی کی حقیقت کا اندازاہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ طوفانِ اقصیٰ کے آغاز میں اسرائیلی حکام نے یہ اعلامیہ جاری کیا کہ اسرائیلی مقتولین شہریوں کی تعداد ۱۴۰۰ ہو چکی ہے۔ پھر چند ہفتوں کے بعد اس تعداد میں خفت کرتے ہوئے کہا کہ ۱۲۰۰ اسرائیلی شہریوں کو جانی نقصان پہنچا ہے، جبکہ ۲۰۰ کتائب القسام کی نعشیں تھیں۔ یہاں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں: ایک یہ کہ کیا یہ قتل عام اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے فضائی کا نتیجہ نہیں ہے؟ دوم یہ کہ کیا اس خطے میں اسرائیل کے علاوہ کس کے پاس ایسی مہلک ہتھیار ہیں جو انسانوں کو جلا کر بھسم کر سکیں؟ لیکن اسرائیل کے مصدقہ ذرائع نے ان کے اس جھوٹ سے پردہ ہٹاتے ہوئے دنیا کے سامنے ان کے پروپیگنڈے کو واضح کر دیا ہے۔
قابض اسرائیل کے جرائم کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی جانب سے غزہ پر کیے جانے والے فضائی حملوں کے نتیجے میں ۶۰ اسرائیلی قیدی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دشمن کو اپنے فوجی اور (حماس) کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کی کتنی فکر ہے۔ مزید یہ ہے کہ وہ ان کی بھاری قیمت کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
➎ دوسری جانب غزہ کے اطراف میں مسلح آباد کاروں کی بڑی تعداد موجود تھی جو قابض فوج کی جانب سے حماس کے ساتھ جنگی کاروائیوں میں شریک رہے، اس دوران ان میں جو قتل ہوئے ان کو اسرائیل نے شہریوں کی لسٹ میں درج کر دیا۔
➏ یہ امر قابلِ تعجب ہے کہ (ممکن اکثر لوگ اس سے ناواقف ہوں) کہ جس اسرائیلی شہری کی عمر ۱۸ سال سے زیادہ ہے، ریاست کی جانب سے اس کے لیے ضروری ہے کہ فوجی کاروائیوں میں حصہ لے، جس میں مرد کے لیے ۳۲ ماہ اور عورت کے لیے ۲۴ ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے، جس میں وہ جنگی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس قانون کی روشنی میں اسرائیلی نظریۂ امن کے اعتبار سے وہ تمام ہی جنگی سپاہی ہیں نہ کہ عام شہری، اور وہ ’’مسلح قوم‘‘ کا تصور ہے۔ یہی تصور اسرائیلی مملکت کے وجود کو ’’مملکت برائے فوج‘‘ بناتا ہے نہ کہ ’’فوج برائے مملکت‘‘۔
➐ صیہونیوں نے اب تک بڑی تعداد میں بچوں، خواتین کو شہید کر کے اہلِ فلسطین کو ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
➑ الجزیرہ کی شایع کردہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے اوسطاً ۱۳۶ بچے یومیہ شہید ہوئے ہیں، جبکہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ کے دوران (جس کو دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے) اوسطاً ایک بچہ قتل ہوا ہے۔
➒ صہیونیوں کے تشدد کا دفاع کرنے والے اس جنگ میں ہونے والے بڑے نقصانات اور واقعات کا غیر جانبدارانہ مطالعہ نہیں کرتے، بلکہ وہ ان کے قتلِ عام کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف حماس کے خلاف ہر جھوٹے دعوے کے معاون بنے ہوئے ہیں۔
➓ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں جب منصفانہ اور آزادانہ تحقیق کی جائے گی تو ہمارا بیانیہ سچ ثابت ہوگا، جبکہ قابض اسرائیل کے من گھڑت الزامات کی تردید ہو گی۔ جس طرح غزہ پر جارحیت کے دوران اس کی جانب سے دیئے گئے اعدادوشمار جھوٹ اور فریب پر مبنی تھے، اسی طرح اس کی جانب سے حماس کی قیادت پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے الشفاء ہسپتال کو ہیڈکوارٹر بنایا ہوا ہے، جہاں عسکری آپریشن کے دفتر کے علاوہ قیدیوں کو رکھنے کا ٹھکانہ ہے (جس کی بنیاد پر اس نے اس پر بمباری کی)۔ اس الزام کے بعد جو کچھ حاصل ہوا وہ اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ قابض اسرائیل اپنے دعوے میں جھوٹا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس بات پر شرح صدر ہے کہ جب غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیق کی جائے گی تو اس سے فلسطینی (حماس) بیانیہ کی تصدیق ہو جائے گی۔
سوم: بین الاقوامی طور پر غیر جانبدرانہ کی تحقیق
➊ فلسطین نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شمولیت کرتے ہوئے روم کے قانون پر دستخط کیے۔ اور جب فلسطین نے اپنی زمین پر ہونے والے جرائم کی تحقیق کا مطالبہ کیا تو اسے جرائم کو مسترد نہ کرنے کی صورت اسرائیل کی دھمکیوں اور اس کی جانب سزا کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ قابض حکام نے اہلِ فلسطین پر جارحیت کا سلسلہ مزید بڑھا دیا۔
➋ ہم امریکہ، جرمنی، برطانیہ، اور کینیڈا کو اس امر کی دعوت دیتے ہیں کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو وہ فلسطین پر کی جانے والی اسرائیلی جارحیت کے جرائم کی تحقیق میں معاونت کا اعلان کریں ۔ اور اس کی کاروائی کو مؤثر بنانے میں عملاً معاون بنیں۔
➌ مندرجہ بالا کی روشنی میں، اور ہمارے پاس موجود شکوک و شبہات اور عدمِ اعتماد کے باوجود جن وجوہات کی ہم نے وضاحت کی ہے، ہم بین الاقوامی فوجداری عدالت، خاص طور پر پراسیکیوٹر، اس کی تفتیشی ٹیم اور اقوام متحدہ کی متعلقہ تحقیقاتی کمیٹیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اور فوری طور پر عدالت میں پیش ہوں، مقبوضہ فلسطین، جرائم کی تحقیقات کے لیے۔ اور تمام خلاف ورزیوں، اور دور دراز سے نگرانی اور غزہ کی پٹی کے کھنڈرات پر کھڑے ہونے، یا اسرائیلی پابندیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے مطمئن نہیں۔
➍ ہمارے عوام نے کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے مطالبہ کیا کہ وہ قانونی دائرہ اختیار میں قابض اسرائیل کی جارحیت کے تسلسل کو رکوانے کے حوالے سے بین الاقوامی ذمہ دار اداروں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے یہ فیصلہ صادر کرے، تو قابض اسرائیل کے سہولت کار ممالک نے اس جنگ کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اسی طرح اس سے قبل جب ہم یورپی ممالک میں مقامی عدالتوں میں، جن کو عالمی عدالتی ادارہ کی حیثیت حاصل ہے، قابض رہنماؤں کے جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ درج کیا تو ہم پر ہر طرف سے دروازے بند کر دیے گئے۔
➎ سات اکتوبر کے واقعہ کو استعمار اور غیر ملکیوں کے قبضہ، عصرِ حاضر میں نسل پرستی پر مبنی نظریہ سے نجات کے لیے آزادی کی تحریک کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ تمام حقائق (گزشتہ صفحات) سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قابض اسرائیل نے طاقت کے بل بوتے پر اہل فلسطین پر ظلم ڈھایا، جس کے نتیجے میں مظلوم فلسطینی عوام نے بھرپور قوت کے ساتھ قابض کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ اور یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ قابض کی جانب سے کیا جانے والا مسلسل ظلم و ستم عالمی استحکام و سلامتی کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہے ۔
➏ فلسطینی عوام اور پورے دنیا کے لوگ یہاں تک کہ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے ممالک بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اسرائیل کے بیانات کذب، دھوکہ دہی پر مبنی ہیں۔ لیکن اس کی ممد و معاون ممالک اس کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں تاکہ اس سے اتحاد و اتفاق برقرار رہے۔ اسی طرح پورا عالم اس امر سے واقف ہے کہ اس خونریزی کا اصل سبب قابض اسرائیل ہی ہے، جبکہ اہلِ فلسطین اپنی سر زمین پر آزادی سے سے زندگی بسر کرنے کے لیے اور اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت اہلِ فلسطین کے اس جائز حق میں یہ ممد و معاون بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
➐ ہم دنیا کے تمام ممالک کے باضمیر لوگوں کو سلام پیش کرتے ہیں، جن کا تعلق مختلف مذاہب، قومیتوں اور رجحانات سے ہے کہ انہوں نے قابض اسرائیل کے جرائم، وحشیانہ قتل کے خلاف اور اہلِ فلسطین کی آزادی اور ان کے حقوق کے لیے دنیا کے تمام دارالحکومتوں میں احتجاج کے لیے نکلے، جس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ مسئلہ فلسطین بالجبر قبضے، نسل پرستی کی پالیسی، اور اجتماعی نسل کشی سے نجات حاصل کرتے ہوئے آزادی، انصاف اور انسانی وقار سے زندگی گزارنے کا مسئلہ ہے۔
چہارم: حماس کی حقیقت
➊ حماس کی تحریک اسلامی فکر اور اعتدال پر مبنی ہے، اور یہ فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے جو حق، انصاف اور آزادی پر یقین رکھتی ہے جبکہ ظلم اور تشدد کی حرمت کی حامل ہے۔ اسی طرح یہ تحریک مذہبی آزادی، کثیر الثقافتی معاشرے پر یقین رکھتی ہے، اور ہر اس امر کے خلاف جو مذہبی آزادی اور کسی بھی انسان پر ظلم و جبر کر کے اور اس کے بنیادی قومی، دینی اور گروہی حق سے محروم کرے۔
➋ حماس صہیونی منصوبے کے خلاف اس لیے ہے کہ وہ ہماری عوام، زمین اور مقدس مقامات پر قابض ہے، نہ کہ اس بنیاد پر ہم ان کے مخالف ہیں کہ یہودیت ان کا مذہب ہے۔ اس کے برخلاف اسرائیل اپنے دینی دعوے کی بنیاد پر یہودی پس منظر رکھتے ہوئے فلسطینی عوام پر ظلم ڈھاتے ہوئے ان کو ان کے حقوق سے محروم کیے ہوئے ہے۔ نیز مذہبی بنیاد پر ان کی زمین اور مقدس مقامات کو یہودی بنانے کے درپے ہیں۔ اسرائیل دنیا میں واحد ملک ہے جس کی اساس اپنے دین پر ہے، ان کو پورے عالم میں شہریت دی جا سکتی ہے، جبکہ وہ خود اہلِ فلسطین کو ان کی سرزمین سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔
➌ اہل فلسطین ہمیشہ سے ہی شہریوں کے خلاف ظلم و جبر، قتلِ عام و ناانصافی کے خلاف رہے ہیں، چاہے اس کا ارتکاب کرنے والے کوئی بھی ہو، اگرچہ مظلوم کوئی بھی ہو۔ ہمارے دینی عقائد، انسانی اقدار اور اخلاق کی بنیاد پر ہم نے یہودیوں پر ظالم جرمنی کی جانب سے کیے جانے والے جرائم اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے پرزور مذمت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودیت کے جوہر میں اہل یورپ کی صفات شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں ہمارے عربی اور اسلامی ماحول میں ہمیشہ سے ہی یہودیوں اور ہر وہ شخص جو کسی بھی دین یا قوم کا حامل ہو ان کو پر امن ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ جو مذہبی آزادی، کثیر الثقافتی معاشرے کی ایک مثال تھا۔
➍ تحریک حماس بین الاقوامی قانون، چارٹر اور معاہدوں کے مطابق فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے۔ اس کے اہداف و غرض و غایت اور اس کے وسائل قابض اسرائیل سے مزاحمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو ان کا حق لوٹانے، آزاد اور خود مختار بنانے کے لیے ممد و معاون ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے قبضے کے خاتمے اور ان کو اپنے وطن لوٹانا حماس کا مقصد ہے۔ اس تحریک کے اغراض و مقاصد سے واضح ہے کہ فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے، اسی بنیاد پر اس کی تمام سرگرمیوں کا محور و مرکز مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کو بنایا ہوا۔ اس کے برخلاف صہیونیوں نے فلسطینی عوام پر مقبوضہ فلسطین کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اہلِ فلسطین پر ظلم و ستم کرتے ہوئے ان بھیانک طریقے سے قتل کے جرم کا ارتکاب کیا۔
➎ ہم اس حقیقت کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں دینی اور بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ حق حاصل ہے کہ مسلح ہو کر تمام وسائل کے ساتھ قابض اسرائیل کا مقابلہ کریں۔ سب سے اہم قرارداد (۳۲۳۶)اد اقوام متحدہ نے ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء صادر کی جس میں یہ فلسطینیوں کو واپس اپنے وطن ہجرت کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح اب تک جتنی بھی ممالک نے استعمار سے آزادی حاصل کی ہے اس کی بنیاد بھی انہی قوانین پر مبنی تھی، آج وہ آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
➏ اس وقت اہل فلسطین صبر و بہادری کے ساتھ اپنے سرزمین اور جائز حقوق کے لیے فلسطین سرزمین پر قابض کے خلاف میدان میں برسرپیکار ہیں، جن کا ظلم و ستم طویل عرصے سے جاری ہے، اور جس نے وحشیت برپا کرنے میں تمام حدود پامال کر دی ہیں۔ اس نے انسانوں کے ہدف بنانے کے ساتھ زندگی کی تمام سہولیات کو برباد کر دیا ہے۔ اس کی بربریت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے معصوم بچوں، پر امن بزرگوں اور خواتین کے خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ان کی جارحیت سے مساجد و مدراس، یونیورسٹیز، چرچ، ہاسپٹلز، یہاں تک ایمبولنسز بھی نہ بچ سکیں۔ یہ سب کچھ پورے عالم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ لیکن اسرائیلی کی پشت پناہی کرنے والے طاقتور ممالک نے بین الاقوامی قانون میں ان جرائم کی سزا کے باوجود سکوت اختیار کیا اور اس جرم و اجتماعی نسل کشی کو رکوانے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
➐ اسرائیل اپنے حق دفاع کی آڑ میں فلسطینی قوم کو مٹانے کے درپے ہے۔ درحقیقت یہ گمراہ کرنے، جھوٹ بولنے اور حقائق کو مسخ کرنے کا عمل ہے۔ قابض قوت کو اپنے قبضے اور اپنے جرائم کے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے، بلکہ فلسطینی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قابض کو غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے اور فلسطینی عوام کی جائز امنگوں کے حصول کے لیے مجبور کرنے کے لیے مزاحمت کریں۔ ہمیں یاد ہے کہ بین الاقوامی قانون، بشمول دیوار کے بارے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے (۲۰۰۴)، ’’اسرائیل‘‘ کے حق کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی، جیسا کہ یہ ہے۔ وحشیانہ قابض قوت جسے ’’خود کا دفاع‘‘ کہا جاتا ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت جو اپنے قانونی اور اخلاقی جواز اور جوہر کے بغیر بین الاقوامی قانون کے مطابق قبضے میں ہے۔
پنجم: مطلوب کیا ہے؟
قبضے کرنے والا قابض ہی کہلاتا ہیں چاہے وہ اپنے قبضے کو مختلف ناموں اور اوصاف سے متصف کر کے کوئی صورت دینا چاہے لیکن وہ قابض ہی کہلائے گا۔ قوموں کی آزادی سے یہ تجربات سامنے آتے ہیں کہ قابض اور استعمار سے آزادی کے لیے مزاحمت کرنا ہی واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے سے استعماری قوت ٹوٹ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دفاعی کوششوں، مزاحمت اور قربانیوں کے بغیر کوئی بھی قوم آزادی حاصل نہیں کر سکتی۔
تمام ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک کے ممد و معاون بنیں، نہ کہ اس کو ختم اور کچلنے کی سازش کریں۔ اسی طرح ان کا یہ بھی فرض ہے کہ قابض اسرائیل کے جرائم کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ اہلِ فلسطین آزادی اور خودمختاری کے ساتھ اپنے وطن میں زندگی بسر کر سکیں، جس طرح دیگر اقوام امن سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔
اس بنیاد پر ہم مطالبہ درج ذیل امور کا مطالبہ کرتے ہیں:
➊ اسرائیل غزہ سے اپنی دشمنی جلد ختم کرتے ہوئے اجتماعی نسل کشی کرنے سے باز آجائے جس میں ہمارے بچوں، بزرگوں، عورتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غزہ کی گزرگاہوں کو کھولا جائے، امدادی سامان کو لوگوں تک پہچانے کی سہولت فراہم کی جائے۔
➋ قابض اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں جو ظلم ڈھایا ہے، اس کے جرائم کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ اس سے شہریوں کے قتل کے جرم میں مالی جرمانہ وصول کیا جائے، اسی طرح اس کی فضائی، زمینی حملوں کے نتیجے میں عمارتیں، مدارس، جامعات، مساجد۔ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں مزاحمتی تحریک حماس کی تمام دستیاب ذرائع سے حمایت کرنا، اس لیے کہ وہ اس آسمانی ادیان اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے۔
➌ ہم پورے عالم کے باضمیر لوگوں بالخصوص عالمی جنوبی ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے دکھ اور تکلیف کو محسوس کریں، اور اسرائیل کی جانب ڈھائے جانے والے ظلم کی تردید کریں۔ اور اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ ایسا کردار ادا کیا جائے جو قابض اسرائیل کے دہرے معیارات کے خلاف ہوں۔ عالمی سطح پر ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جائے جو اہلِ فلسطین کو انصاف، آزادی اور عزت کے ساتھ جینے کا ذریعہ بن سکے۔
➍ طاقتور ممالک صہیونی ریاست کے جرائم پر پردہ ڈالنے سے گریز کریں، جن کی معاونت کے سبب وہ ۷۵ سال سے ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ اسی طرح ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کیے جانے فیصلوں کو نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں، تاکہ اہلِ فلسطین اپنا کامل حق حاصل کر سکیں۔
➎ بین الاقوامی ممالک اور اسرائیل غزہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔ اس لیے کہ اہلِ غزہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے حوالے سے خود کفیل ہیں۔ لہٰذا اس نوعیت کے منصوبوں کا انکار کیا جائے۔ اسی طرح اسرائیل کو اس امر سے روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے کہ وہ اہلِ غزہ کو ہجرت پر مجبور نہ کرے۔
➏ اہلِ فلسطین کو سینا، اردن اور دیگر ممالک کی جانب بالجبر ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۴۸ء میں جو اہلِ فلسطین بے گھر کر دئیے گئے تھے ان کو واپس فلسطین میں لانے کے لیے اقوام متحدہ ۱۵۰ سے زائد مرتبہ قرارداد صادر کر چکا ہے، لہٰذا اس کے لیے کوشش کی جائے۔
➐ اہلِ عرب، تمام مسلم ممالک اور دنیا کے باضمیر عوام قابض اسرائیل کے خاتمے کے لیے مظاہروں کے ذریعے دباؤ جاری رکھیں، اسرائیل کی ریاست قبول کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں رہیں، اسی طرح ان کے مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک جاری رکھیں۔
مترجم: مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد
نائب مدیر مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد
awaheedshahzad@gmail.com
923027286144