مورخہ ۱۲ جولائی ۲۰۲۳ء کو اوصاف اخبار میں مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ایک مضمون عنوان بالا کے تحت نظر سے گزرا جس میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی کی قادیانی گروہ سے متعلق تجویز کو آگے بڑھایا جس میں مفتی رویس صاحب نے قادیانیوں کی حالیہ سرگرمیوں کے بارے میں پائے جانے والے ابہامات کی وجہ سے دستوری تقاضوں اور بعض عدالتی فیصلوں میں ظاہری تضاد قرار دیا، اور ایک بیان میں تجویز دی کہ اس ابہام اور کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے دستوری اور قانونی طور پر قادیانی گروہ کو ایک مستقل امت کے طور پر تسلیم کرنے کے بجائے غیر قانونی قرار دیا جائے۔ یہ بات موجودہ حالات میں گہرے غور و خوض کے متقاضی ہے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ متذکرہ بالا تجویز راقم نے مولانا زاہد الراشدی صاحب کے الفاظ میں درج کر دی ہے جس پر انہوں نے تبصرہ کیا ہے اور چند سال پہلے بادشاہی مسجد لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیرِ اہتمام عظیم الشان کانفرنس میں اس نوع کی تجویز خود پیش کرنے کا ذکر کیا ہے۔
مولانا زاہد الراشدی صاحب اس فتنے کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں وہ اس محاذ پر پیش پیش رہے ہیں اور انہوں نے تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کی ہیں۔ مولانا کا اس تجویز پر دینی حلقوں کو نوائے محراب سے متوجہ کرنا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ نوائے وقت ہے، تمام مکاتبِ فکر کے ذمہ داروں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ جب تک امتِ مسلمہ قادیانی فتنہ کو دیگر تمام غیر مسلموں سے مختلف گروہ سمجھ نہ پائے گی اس وقت تک دستوری و قانونی ابہامات کی دلدل سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔ اس کے لیے وسیع پیمانے پر مہم و ازسرِنو دینی بیداری کی ضرورت ہے۔
ہمیں مغرب اور دیگر طاغوتی قوتوں سے کیا شکوہ، خود دنیائے اسلام میں اکثریت مسلمانوں کی ایسی ہے جو اس فتنے سے آگاہ نہیں ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ سمجھتے ہیں کہ قادیانی غیر مسلم ہیں جس طرح دیگر غیر مسلم ہیں ان کے پیچھے پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی وہ دھوکہ ہے جس نے قادیانیوں کی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، اور یہ گروہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے دیمک کا کام کر رہا ہے۔ قادیانی گروہ کی سرگرمیوں کو دیکھ کر اب یہ بات فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے کہ قادیانی گروہ کو ملک و دستور کا باغی قرار دے کر ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جائے جب تک یہ گروہ دستور کے مطابق اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتا۔ اور ان کی فنڈنگ پر نظر رکھتے ہوئے ان کے فنڈ منجمد کر دیے جائیں۔ مگر یہ بات قادیانی گروہ کے طاقتور ہونے کے باعث اتنی آسان بھی نہیں جب تک دنیا ان کی حقیقت سے آشنا نہیں ہو جاتی۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی تنظیمیں اور تمام مکاتبِ فکر ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کی طرح متحد اور متحرک نہیں ہوتے۔ اس کے لیے اکابرین امت کو ایک مرتبہ پھر مل بیٹھنا ہو گا اور حکمتِ عملی طے کرنی ہو گی۔
اس وقت تحفظ ختم نبوت کے لیے ملک کے اندر جو جدوجہد ہو رہی ہے اس کا انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب قوم کو اتنی بات بتانے سے قادیانیت پر کوئی ضرب کارگر ثابت نہیں ہو گی کہ قادیانی کافر ہیں، کیونکہ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں اور دنیا کو یہ سمجھانے میں مصروف ہیں کہ وہ بھی امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں۔ اور اسی وجہ سے بہت لوگ مرتد ہو رہے ہیں کیونکہ وہ شعارِ اسلام کے باعث قادیانیوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اور پھر جب کوئی مسلمان قادیانی ہو جاتا ہے تو یہ گروہ اسے زن و زر کا لالچ دے کر مکمل طور پر جال میں پھنسا دیتے ہیں۔
اس پر مجاہدِ ملت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول مبنی پر حقائق ہونے کے باعث قابل غور ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ پر بطور جنرل سیکرٹری یا صدر مجلس کئی کئی مہینے دن رات غور کیا کہ برصغیر میں انگریزوں کی حکومت ہونے کے باوجود لوگوں نے عیسائیت کو قبول نہیں کیا حالانکہ سرکاری سرپرستی میں لوگوں کو عیسائی بنانے کا مشن جاری تھا مگر انگریز کو اس میں ناکامی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ عیسائیت کو قبول کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا یا ہندو و سکھ مذہب اختیار کرنے پر مسلمان نہیں رہے گا، لیکن اگر وہ مرزائیت اختیار کر لیتا ہے تو وہ مسلمان ہی رہے گا۔ فرمایا یہی وہ دھوکہ ہے جس کی بنا پر لوگ مرتد ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ماضی میں اکابرین نے یہ مطالبہ بڑے واشگاف الفاظ میں پیش کیا کہ مرزائیوں کو مسلمانوں سے ایک علیحدہ گروہ دستوری و قانونی طور پر قرار دیا جائے تاکہ مسلمانوں کو اس سے دھوکہ نہ ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ مرزائیوں پر شعارِ اسلام کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی جائے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ بے شمار شہادتوں اور قربانیوں کے نتیجے میں الحمد للہ ملک پاکستان میں ۱۹۷۴ء میں مرزائی غیر مسلم اقلیت قرار پائے اور پھر ۱۹۸۴ء میں ان پر شعارِ اسلام استعمال کرنے پر پابندی بھی ہوئی، مگر عملی طور پر مرزائیوں کی سرگرمیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ جس کی بڑی وجہ خود مسلمانوں کے اس فتنہ سے کماحقہ آگاہی نہیں ہے۔ موجودہ دور میں اس فتنے کا جو نیٹ ورک ہے پوری امتِ مسلمہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ اور یہ ایک غیر معمولی عالمی مسئلہ ہے جس کے لیے او آئی سی پلیٹ فارم کو دو ٹوک مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ اگر ملک میں بعض تنظیموں کو مثلاً سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، جماعت الدعوہ، سنی فورس وغیرہ کو کالعدم و غیر قانونی قرار دے کر ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور ان کے فنڈز منجمند کیے جا سکتے ہیں اور ان کے نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جاتا ہے، حالانکہ ان تنظیموں کا معاملہ مرزائیوں کے معاملے سے بالکل مختلف ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ قادیانیوں کو کھلی چھٹی اور ان کے ساتھ نرم رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے؟ جبکہ یہ گروہ خود مملکتِ پاکستان اور پوری امتِ مسلمہ کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات ارباب حل و عقد، اسٹیبلشمنٹ و عدلیہ کے لیے قابل غور ہے اور اس بارے میں کنفیوژن کو دور کرنا ہو گا اور ایک متفقہ موقف اپنانا ہو گا تاکہ کسی بھی ادارے کو ابہامات کی آڑ میں راہِ فرار حاصل نہ ہو سکے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دستوری و قانونی و عدالتی فیصلوں کے منشا کے مطابق قادیانیوں کو آئین کا باغی قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے جو حقوق ہیں ان کا اطلاق ایسی صورت میں قادیانیوں پر نہیں ہوتا جب تک ہندوؤں سکھوں کی طرح یہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کر لیتے۔ لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ قادیانیوں کو امتِ مسلمہ سے علیحدہ ایک غیر مسلم گروہ قرار دیا جائے اور حکومت کو ایسی پالیسی اور اقدامات پر مجبور کیا جائے کہ جس کے باعث اس فتنے سے امتِ مسلمہ کی جان چھوٹ جائے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
قاضی ظفیر احمد عباسی
نیلہ بٹ، آزاد جموں و کشمیر
فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی
ریٹائرڈ ضلع قاضی عدلیہ آزاد کشمیر