(خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کا معزولی کے بعد اپنے روحانی پیشوا الشیخ محمود آفندی ابو الشاماتؒ کے نام تاریخی خط)
یا ہو —— بسم اللہ الرحمٰن الرحیم —— وبہ نستعین
حمد اس خدا کی جو سارے جہانوں کا پالن ہار ہے، اور افضل ترین درود اکمل ترین سلام نازل ہو ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو رب العالمین کے رسول ہیں، اور آپ کے تمام آل و اصحاب اور متبعین پر قیامت تک درود و سلام نازل ہو۔
میں اپنا یہ عریضہ سلسلہ شاذلیہ کے شیخ روح و حیات کو فیضان پہونچانے والے شیخِ وقت محمود آفندی ابوالشامات کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور دعواتِ صالحہ کا امیدوار ہو کر ان کے مبارک ہاتھوں کا بوسہ لیتا ہوں۔ آداب و احترام کے بعد عرض کرتا ہوں کہ آپ کا سالِ رواں کے ۲۲ مئی کا تحریر کردہ گرامی نامہ موصول ہوا، میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ جناب والا برابر صحت و سلامتی کے ساتھ ہیں۔ میرے آقا! میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سلسلہ شاذلیہ کے اورد و وظائف شب و روز پابندی سے پڑھ رہا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ دائمی طور پر آپ کی دلی دعاؤں کا محتاج ہوں۔
اس تمہید کے بعد میں آپ کی خدمت میں اور آپ جیسے دوسرے عقلِ سلیم رکھنے والوں کی خدمت میں ایک اہم مسئلہ پیش کرتا ہوں تاکہ یہ امانت تاریخ کی حفاظت میں آجائے۔
میں خلافتِ عثمانیہ سے صرف اس لیے الگ ہوا ہوں کہ مجھے جمعیت اتحاد و ترقی کی طرف سے بہت تنگ کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور خلافت ترک کرنے پر بالکل مجبور کر دیا گیا۔ سبب یہ ہوا کہ ان اتحادیوں نے مجھ سے بار بار اصرار کیا کہ ارضِ مقدس فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کی تاسیس پر اتفاق کروں۔ ان کے پیہم اصرار کے باوجود میں یہ بوجھ اٹھانے پر راضی نہ ہوا۔ اخیر میں ان لوگوں نے پندرہ کروڑ برطانوی لیرہ سونا دینے کا وعدہ کیا۔ میں نے قطعی طور پر اس تجویز کو ٹھکرا دیا اور انہیں مندرجہ ذیل دوٹوک جواب دیا کہ
’’اگر تم لوگ پندرہ کروڑ لیرہ سونے کی بجائے دنیا بھر کا سونا دو، تب بھی اس بوجھ کو نہیں اٹھاؤں گا۔ میں نے ملتِ اسلامیہ امتِ محمدیہؐ کی تیس سال سے زائد خدمت کی، اب میں اپنے آباؤ اجداد خلفاء و سلاطین کی تاریخ کو سیاہ نہیں کروں گا، میں یہ بوجھ قطعی طور پر قبول نہیں کر سکتا۔‘‘
میرے قطعی جواب کے بعد ان لوگوں نے مجھے معزول کرنے پر اتفاق کر لیا اور یہ پیغام پہونچایا کہ وہ مجھے شہر بدر کر کے سالونیکا بھیج دیں گے، میں نے یہ تکلیف گوارا کر لی۔ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں کہ میں نے ارضِ مقدس فلسطین میں یہودی حکومت کے قیام کو تسلیم کر کے دولتِ عثمانیہ اور عالمِ اسلام کو اس عیب و عار سے داغدار کرنا قبول نہیں کیا۔ اس لیے میں مکرر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ میں نے جو باتیں پیش کر دی ہیں وہ اس موضوع کے بارے میں کافی ہیں۔ اپنے اس اہم خط کو ختم کرتا ہوں۔ میں آپ کے مبارک ہاتھوں کو چومتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ آداب قبول فرمائیں اور تمام بھائیوں دوستوں کو سلام کہیں۔ میرے بزرگ استاد ! خط طویل ہو گیا لیکن آپ کو اور آپ کی جماعت کو مطلع کرنے کے لیے میں اس طوالت پر مجبور تھا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خادم المسلمین، عبد الحمید بن عبد المجید
۲۲ ستمبر ۱۹۲۹ء
(ماہنامہ الشریعہ اپریل ۱۹۹۶ء بحوالہ ماہنامہ الفرقان لکھنؤ)