یہودیوں کی طوطا چشمی

طلال خان ناصر

(مضمون نگار کی یونیورسٹی اسائنمنٹ کا ایک حصہ)



آج کے زمانے میں یورپ کی مسیحی اقوام اور یہودیوں کے درمیان موجودہ اتحاد کے پس منظر میں یہ بات دلچسپ ہے کہ پچھلے دو ہزار سال میں یہودیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں یورپ کی ہی مسیحی اقوام سب سے آگے تھیں۔ رومی دور میں یروشلم سے یہود کو جلاوطن کرنے سے لے کر صلیبی جنگوں میں یہود کا قتل عام کرنے والے عیسائی تھے۔ پھر مسلم اندلس کے زوال کے وقت ملکہ ازابیلا کی جبراً‌ عیسائی بنانے کی ریاستی مہم کا شکار ہونے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی بھی شامل تھے۔

’’یہودیوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ مسلمان ریاستیں ہوتی تھیں۔ خود یہودی مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں اچھی دو پناہ گاہیں میسر تھیں:

  1. اندلس میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی، وہ ہماری پناہ گاہ تھی، وہاں ہمیں خرچہ اور تحفظ بھی مل جاتا تھا۔
  2. اور اس کے بعد خلافت عثمانیہ کے بارے میں غیر جانبدار اور معتدل یہودی مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے پورے دور میں یہود کی پناہ گاہ تھی۔ عیسائی ان کو اٹلی، برطانیہ، فرانس میں مارتے اور یہ قسطنطنیہ، ترکی میں آ جاتے۔‘‘  (چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ۔ ص ۲۸۔ فروری ۲۰۲۴ء)

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ عیسائیوں کے ہاتھوں صدیوں ظلم سہنے اور مسلمانوں کے پاس پناہ گزین ہونے والے یہود نے کیسے طوطا چشمی کا مظاہرہ کر کے اپنے محسن مسلمانوں کے خلاف اپنے پرانے دشمن عیسائیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے خلافت عثمانیہ کے زوال کے دور یعنی بیسیوں صدی کے پہلے بیس سال کی تاریخ دیکھنا ضروری ہے۔ اس دور میں سلطان عبد الحمید ثانیؒ خلافت عثمانیہ حکمران تھے۔ فلسطین کے بارے میں عثمانیوں کا قانون یہ تھا کہ یہودیوں کو اپنے مقدس مقامات کی زیارت اور بیت المقدس میں عبادت کی اجازت تھی لیکن فلسطین میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ خلافت کے آخری چند سالوں میں یہود کی عالمی تنظیموں نے سلطان عبد الحمید سے بارہا فلسطین کے علاقے میں آباد ہونے کی اجازت مانگی۔

’’سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ یہودی کی عالمی تنظیم کے سربراہ ہر تزل نے متعدد بار ان سے خود ملاقات کر کے خواہش ظاہر کی کہ وہ فلسطین میں زمین خرید کر محدود تعداد میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں مگر سلطان مرحوم نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ ایک بار ہرتزل نے سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم کے سامنے چیک بک رکھ کر منہ مانگی رقم دینے کی پیشکش کی جس کے جواب میں سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے انتہائی تلخ لہجے میں ہرتزل کو ڈانٹ دیا اور اس سے کہا کہ میری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا اور اس کے بعد وہ ہرتزل سے ملاقات کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے ۔ سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم کے خلاف اس کے بعد تحریک چلی اور انہیں خلافت سے معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ان کے خلاف ترکی میں چلنے والی تحریک اور ان کی معزولی میں یہودیوں کا ہاتھ تھا اور انہیں خلافت سے معزولی کا پروانہ پہنچانے والوں میں ترکی کی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر بھی شامل تھا۔ ‘‘ (مولانا زاہد الراشدی۔ روزنامہ اسلام لاہور ۔ ۲۶ جون ۲۰۰۲ء)

جب سلطان عبد الحمید کے ساتھ مذاکرات میں یہود کو دال گلتی نظر نہ آئی تو یہود کی عالمی تنظیم نے برطانیہ کا رخ کیا اور ایک معاہدے کے تحت جنگ عظیم اول میں جرمنی اور عثمانی ترکوں کے خلاف برطانویوں کے ہونے والے مالی نقصان کی تلافی کا وعدہ کیا۔ جنگ میں عثمانیوں کی شکست کے بعد فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا اور یہود کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت ایک برطانوی یہودی کو فلسطین کا گورنر بنا کر پوری دنیا کے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اس معاہدے پر اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کے دستخط ہوئے جس بنا پر یہ معاہدہ بالفور ڈکلیریشن کہلاتا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں بالفور معاہدے سے لے کر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل بننے تک فلسطین ایک برطانوی نوآبادی رہا ہے۔

فلسطین و اسرائیل

(الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۳

کیا عالمِ اسلام دنیا کی قیادت سنبھالنے کا اہل ہے؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۰)
ڈاکٹر محی الدین غازی

پاکستان میں مذہبی سیاست کو درپیش تحدیات
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مولانا مفتی محمودؒ
مجیب الرحمٰن شامی

قادیانی مسئلہ اور دستوری و قانونی ابہامات
قاضی ظفیر احمد عباسی

جسٹس غزالی کی شخصیت کے دو دلفریب رنگ
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

اسرائیل کا آئرن ڈوم میزائل سسٹم کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
بی_بی_سی

اسرائیل کے تحفظ کیلئے دفاعی میزائلی نظام
نصرت مرزا

فلسطین اور یہود: خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمیدؒ کا خط
ادارہ

امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرمانروا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابت
ادارہ

یہودیوں کی طوطا چشمی
طلال خان ناصر

رفح
ہلال خان ناصر

ایامِ حج و زیارتِ مدینہ کی یاد میں
سید سلمان گیلانی

’’صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر‘‘
مولانا حافظ کامران حیدر

Election 2002: Our Expectations from Muttahida Majlis-e-Amal
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter