فضلائے مدارس کا معاشی مستقبل ۔ چند تاثرات اور تجاویز

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

(فضلاء مدارس کے معاشی مستقبل کے حوالے سے جناب ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی (ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز، ہائی ٹیک یونیورسٹی، ٹیکسلا) نے گزشتہ دنوں فیس بک پر اپنے صفحے پر بعض تبصرے پیش کیے جنھیں موضوع کی مناسبت سے یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔)


دینی مدارس کے فضلاء پچھلے کچھ عرصے سے بڑی تعداد میں ایم فل پی ایچ ڈی کرنے آرہے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کی بڑی تعداد بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں آتی ہے جس کے پس منظر میں اس احساس کی تلخی کم و بیش موجود ہوتی ہے کہ دینی نظام تعلیم نے ان کی معاشی ضروریات سے مکمل صرف نظر کیے رکھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ یونیورسٹی ایجوکیشن کے بلاشبہ کچھ سائیڈ ایفکٹس ہوتے ہیں جن میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ مدارس کی پیدا کردہ عقیدت طبقہ کے بجائے میرٹ سے وابستہ ہو جاتی ہے اور درس نظامی سے باہر کی کتابیں پڑھنے اور افراد سے ملنے جلنے کے باعث نہ صرف تعصبات دم توڑ دیتے ہیں بلکہ نئی وابستگیاں بھی وجود میں آنے لگتی ہیں اور سابقہ تعلق یا عقیدت میں وہ لا انفصام لھا کی کیفیت باقی نہیں رہتی۔ اس کے نتیجے میں بعض ادارے یا شخصیات ایسے شاگردوں کو ضال و مضل یا ملحد و زندیق قرار دینے میں بھی کو تاہی نہیں کرتے جس کے بعد دوریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اگر دینی حلقے ان افراد کو Disown نہ کریں تو یہ تعلق دو طرفہ مفید ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے تھوڑی وسعت نظر کی اور حساسیت کا درجہ کم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ بصورت دیگر اگلے پانچ سات سال میں اس طبقہ کی تعداد معتد بہا ہو جائے گی اور اگر یہ افراد بکھر نہ گئے تو ان کی جدید قیادت سامنے آجائے گی جس کا روایتی مذہبی طبقے سے براہ راست تصادم ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔


دینی مدارس کے وہ طلبہ جو میٹرک کرنا چاہتے ہیں، ان کو بورڈز کے درس نظامی گروپ سے متعارف کروایا جائے، ان کو مختلف بورڈز، ان کے محل وقوع اور ان کے طریق کار سے آگاہ کیا جائے، لازمی اور اختیاری مضامین کا فرق بتایا جائے اور ان کے لیے جو کورسز مشکل ہوں، مثلاً انگلش ریاضی اور جنرل سائنس، ان کی آڈیو ویڈیو ان کے لیے تیار کر دی جائیں، لیکن یہ ساری سہولت صرف ان طلبہ کو دی جائے جو اس پروگرام میں رجسٹرڈ ہوں کیونکہ اس نوعیت کی بے شمار چیزیں Net پر موجود ہوتی ہیں، لیکن جب تک کسی فرد کو جبر کی زنجیر میں جکڑا نہ جائے وہ اختیار کو استعمال نہیں کرتا۔پھر On Line ان کے ٹیسٹ رکھے جائیں تاکہ امتحان کے لئے تیار ہو جائیں۔

دینی مدارس کے طلبہ کی اکثریت میٹرک ہوتی ہے لیکن وہ مدارس کے بعض اساتذہ کے رویوں سے ما سبق سے قطع تعلق کر لیتے ہیں۔ ایسے طلبہ کو ایف اے اور بی اے کروانا بہت آسان ہے۔ان کے لیے انگریزی کے اسباق تیار کر دیے جائیں تو بآسانی ایف اے کر لیں گے۔ یا انہیں اوپن یونیورسٹی کے سسٹم سے متعارف کروا کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو بھی مثبت نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔

بی اے کرنا اور بھی آسان ہے، صرف انگریزی کی تیاری کروانا ہوگی۔عربی پڑھے ہوئے طلبہ صرف و نحو سے خاصے واقف ہوتے ہیں۔ تدریس و تعلم زبان میں ایک زبان کی گرامر دوسری زبان کی گرامر میں فائدہ دیتی ہے۔ یوں بھی دینی مدارس والوں سے میں کہا کرتا ہوں کہ دعا یدعو کی گردان اور اس کی تعلیلات میں جتنی محنت آپ نے کی ہے، اس کا دسواں حصہ انگریزی پر محنت کریں تو بسہولت بی اے ہو جائیں۔


درس نظامی کے وہ فضلاء جو وفاق کی ڈگری کے حامل ہیں، ان سے کہا جائے کہ وہ اولین فرصت میں اپنی سند کا معادلہEquivalence کرواکر ایم فل میں داخلے کی تیاری کریں۔ اس کے لیے ان طلبہ کے لیے کچھ اعدادی کورس اور Reading مقررکی جائیں تاکہ آگے جاکر انہیں دقت پیش نہ آئے۔ نیز ان کے لیے ایک گائیڈ تیار کی جائے جس سے وہ معلوم کر سکیں کہ وہ کہاں کہاں کن شرائط کے تحت داخلہ لے سکتے ہیں۔مختلف یونیورسٹیز کے کورسز کے پیش نظر ان کے لیے کتابوں کی ایک فہرست اور ان کے لنک مہیا کر دیے جائیں تاکہ ان کو تعلیمی رفتار میں سہولت میسر رے۔ نیز ایسے عنوانات کی ایک فہرست تیار کی جائے جو ان کی ریسرچ کا موضوع بن سکیں اور مسلم اور انسانی سماج کے لیے مفید نیز ان کی اپنی Credibility کی ضمانت ہوں۔ان موضوعات کے لیے مآخذ و مصادر کی ایک Tentative فہرست بھی تیار کی جائے۔ ریسرچ سکھانے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ ریسرچ پیپرز پڑھنے پر آمادہ یا مجبور کیا جائے۔اس پہلو سے کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔نیز ملک کے بعض نامور سکالرز کے لیکچرز اپ لوڈ کر کے طلبہ کو مہیا کیے جائیں۔


دینی مدارس کے طلبہ فارغ ہوتے ہی بالعموم معاشی مسائل سے دو چار ہو جاتے ہیں۔مدارس میں انہیں مسلسل توکل کی افیون کھلائی جاتی ہے اور فارغ ہوتے ہی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے قدرت نے جو اصول وضع کیے ہیں، ان سے صرف نظر کرنا ذات خداوندی کی توہین ہے۔ تاہم اس امر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دینی مدارس کے طلبہ و فضلاء کے معاشی پہلو کو نظر انداز کرنا ایک قومی و ملی بے اعتدالی ہے۔

جس پروگرام پر ہم بات کر رہے ہیں، اس کے لیے ایسے مخلص تجربہ کار اور درددل رکھنے والے احباب کی ضرورت ہے جن کے علم و تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ ایسے پروفیشنز کی نشان دہی اور ان کی تربیت کا اہتمام کیا جائے جو کم خرچ ہوں اور بآسانی سیکھے جاسکتے ہوں، مثلاً الیکٹرونکس سے وابستہ کام، ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر سے متعلق، ہومیو، طب، پریس، پبلی کیشنز سے متعلق، صنعتوں کو سپورٹ کرنے والی گھریلو صنعتیں وغیرہ۔ نیز بعض چھوٹی صنعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ تھوڑے سے سرمایے سے کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ بینظیر حکومت کے پہلے دور میں پاکستان T V نے ایسے بہت سے پراجیکٹ متعارف کروائے تھے جو اس زمانے میں پندرہ بیس ہزار روپے سے شروع کیے جاسکتے تھے۔

میرا یہ فیلڈ نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ فیلڈ میں موجود احباب کے پاس ایسے بہت سے پراجیکٹس ہوں گے جن کی بنا پر درس نظامی کے فضلاء تھوڑی سی توجہ اور محنت سے با عزت معاشی زندگی گزار سکتے ہیں۔دینی مدارس کے طلبہ بہت محنت کے عادی ہوتے ہیں لیکن انہیں دوران تعلیم Misguide کر دیا جاتا ہے جس کے نتائج افراد قوم اور ملک کے لیے نا قابل افتخار نکلتے ہیں۔


ایسے فضلاء جو تعلیمی ادارہ بنانے میں دلچسپی رکھتے ہوں، خالص درس نظامی کا مدرسہ بنانے کے بجائے اسلامی سکول بنانے پر توجہ دیں جو آسان عربی گرامر، ترجمہ قرآن، ریاض الصالحین اور قدوری کی دینی تعلیم کے ساتھ سکول کی ایسی تعلیم دیں کہ میٹرک کے بعد ان کا طالب علم کسی بھی دینی جامعہ یا عصری کالج میں اپنی تعلیم مکمل کر سکے۔ سکول فیس کی اساس پر چلایا جائے البتہ یتیم اور ضرورت مند بچوں کے داخلے کی ایک شرح مقرر کرلی جائے اور ان کے لیے سرکاری اور نجی تعاون حاصل کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔

تحقیق کر لیں، درس نظامی کا تھوڑا سا حصہ دینی تعلیم پر مشتمل ہے۔ باقی نصاب اس زمانے کی سول سروس کا نصاب تھا۔ ایک ہی نصاب کے فارغ مجدد و مجتہد اور دوسری طرف حکومت کے پرنسپل سکریٹری ہوتے تھے۔ اسی لیے نصاب کا بڑا حصہ ادبیات منطق وفلسفہ پر مشتمل تھا۔

درس نظامی کا انفرا سٹرکچر مسلمانوں کا کوئی متبرک ورثہ نہیں کہ اس کے شاکلہ کی حفاظت کرنا باعث نجات ہو۔بات صرف یہ ہوئی کہ مسلم اشرافیہ سے ان کی جائیدادیں، جاگیریں، نظام تعلیم، سرکاری عہدے بلکہ ذریعہ تعلیم بھی انگریزوں نے چھین لیا۔ ان نا گفتہ بہ حالات میں اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے چندوں، معمولی مشاہروں اور طلبہ کی کفالت کی اسکیم شروع کی گئی جو اضطراری حالت میں ایک مخلص Way outتھا۔ اسے ہرگز کوئی تقدس حاصل نہیں تھا۔ تاہم یہ امر واقعہ ہے کہ انہیں قربانیوں کی وجہ سے بر صغیر میں اسلام زندہ رہا، لیکن اب اسلام خوش حال ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ اس خوش حالی کا اثر نظر آئے۔


جو لوگ اسلام کی دعوت و تعلیم سے وابستہ ہیں، انہیں مبارک ہو کہ ان کے میدان عمل میں کبھی Saturation point نہیں آتا یعنی یہ ممکن نہیں کہ ایسا مرحلہ آجائے کہ اس پروفیشن میں مزید افراد کی ضرورت یا گنجائش نہ رہے۔ کیونکہ جب تک اس دھرتی پر کفر وشرک گمراہی اور جہالت باقی ہے، اسلامی تعلیم و تربیت سے وابستہ افراد کی ضرورت باقی ہے۔

پاکستان بڑی تعداد میں بلکہ فاضل تعداد میں دینی نظام تعلیم کے فضلاء تیار کرتا ہے جب کہ دنیا کے بے شمار ممالک کے ان گنت معاشرے ایسے افراد کے محتاج ہیں اور وہ دنیا کی ہر سہولت فراہم کرنے کو تیار ہیں۔گویا اس پیشے سے وابستہ لوگ خوش قسمت ترین لوگ ہیں کہ ان کے رزق کی فراوانی تعلیم دین سے وابستہ کر دی گئی ہے۔ بس اس کے لیے معمولی درجے کے دو چار کام کرنے کی ضرورت ہے:

1۔ فرقہ واریت سے اس طرح الگ ہوجانا کہ جیسے صحابہ کا کسی فرقے سے تعلق نہیں تھا ۔

2۔ اصل دین اور زوائد میں فرق کی اہلیت پیدا کرنا۔

3۔ جس علاقے یا ملک میں کام کرنے کی خواہش ہو، اس کی زبان مذہب اور کلچر سے آگاہی حاصل کرنا۔

4۔کار دعوت سے وابستہ افراد کی معیت میں رہ کر دعوت دین کی بنیادی تربیت حاصل کرنا۔

5۔ علم دین اور مطالعہ قرآن وسنت میں آفاقی سطح کی مہارت بہم پہنچانا۔

آخری جملہ کا تعلق صرف بین الاقوامی شخصیات دعوت سے ہے۔ زبان کلچر سے آگاہی اور بین الاقوامی معلومات NET کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(دسمبر ۲۰۱۵ء)

دسمبر ۲۰۱۵ء

جلد ۲۶ ۔ شمارہ ۱۲

دینی قوتوں کے باہمی انتشار کو کم کرنے کی ضرورت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۳)
ڈاکٹر محی الدین غازی

عدالتِ عالیہ لاہور کے ایک فیصلے کا تنقیدی جائزہ
محمد مشتاق احمد

حجۃ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہ کا منہج و اسلوب (۲)
غازی عبد الرحمن قاسمی

فرانس نہیں، اسلام پر حملہ
رعایت اللہ فاروقی

ممتاز قادری کی سزا ۔ تحفظِ شریعت کا نفرنس کے فیصلے پر ایک نظر
ڈاکٹر محمد شہباز منج

سید احمد شہید کی تحریکِ جہاد: ایک مطالعہ
ڈاکٹر عرفان شہزاد

عسکریت پسند گروہ اور ہماری قومی پالیسی
محمد عامر رانا

شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ ۔ مولانا عبد اللطیف انورؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجلس مذاکرہ ۔ ’’فضلاء مدارس دینیہ کا معاشی مستقبل‘‘
مولانا محمد عبد اللہ راتھر

فضلائے مدارس کا معاشی مستقبل ۔ چند تاثرات اور تجاویز
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

ایک سفر کی روداد
محمد بلال فاروقی

پاکستان شریعت کونسل کا اجلاس
ادارہ

گوجرانوالہ کی دینی جماعتوں اور تاجر برادری کا اجلاس
ادارہ

تلاش

Flag Counter