یہ حکمت عملی مسئلہ فلسطین کے پس منظر میں ہم مسلمانوں نے ہی متعارف کرائی تھی کہ قابض فوج کو ہی نہیں بلکہ قابض کی سویلین آبادی کو بھی نشانہ بناؤ۔ وہ ہمارے بچوں کو ماریں تو ہم بھی ان کے بچوں کو ماریں، وہ ہماری عورتوں کو ماریں تو ہم بھی ان کی عورتوں کو ماریں اور صرف ان کے ہی نہیں بلکہ ان کے سہولت کاروں کی عورتوں اور بچوں کو بھی ماریں۔ پھر اس مقصد کے لیے ہم نے جہاز بھی اغوا کرنے شروع کیے اور بازوروں کو بھی بموں کے نشانے پر رکھ لیا۔ یہ سب اسلام کے نام پر ہماری فخریہ پیشکش تھی اور کسی نے رک کر ایک لمحے کو بھی نہ سوچا کہ کیا اسلام اس کی اجازت بھی دیتا ہے ؟ کرنے والوں نے اس سوال پر غور کیا اور نہ ہی دیکھنے والوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ کہ ہم نے پھر وہ وقت بھی دیکھنا شروع کیا کہ وہی ہمارے بمبار خود ہمیں کافر قرار دے کر قتل کرنے لگے۔ اتنے بم پچھلے ستر سال میں پورے مغرب میں نہیں پھٹے جتنے صرف سات سال میں اکیلے پاکستان میں پھٹ پھٹ کر تباہی مچا چکے۔ کیا کسی کو اس بات کا علم بھی ہے کہ اسلام تو دشمن کے اس سپاہی پر بھی تلوار یا بندوق اٹھانے سے منع کرتا ہے جو بیشک میدان جنگ میں ہو مگر غیر مسلح ہو ؟ دشمن کے جن بچوں اور عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تحفظ فراہم کرکے رخصت ہوئے ہم مسلمان ہو کر ان سے یہ تحفظ چھین لیں تو کیا یہ بھی ایک درجے کی توہین رسالت نہیں؟ ہم دعویٰ یہ کریں کہ ہماری اس جدو جہد کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنا ہے اور پھر ہم ’’امت تلواتیہ‘‘ اللہ ہی کے احکامات کی دھجیاں اڑا کر خوش رہتے ہیں کہ ہمارے قرآنِ مجید کے نسخے پر گرد نہیں جمتی کیونکہ ہم اس کی خوب خوب تلاوت کرتے ہیں اور اسلام کے نفاذ کی جد و جہد کرتے ہیں۔
میں کہتا ہوں، دہشت گردی اور اس سے پیدا شدہ سوالات کو بھی ایک جانب رکھ دیجئے اور ایک بالکل مختلف سوال پر غور کیجئے ! سوچیے کیا وجہ ہے کہ اسلامی کنگڈم آف سعودی عربیہ یا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سال میں بمشکل ایک درجن لوگ بھی اسلام قبول نہیں کرتے جبکہ ’’ملت کفریہ عیسائیہ مغربیہ‘‘ میں اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے ؟ صرف امریکہ میں ہر سال بیس سے پچیس ہزار لوگ اسلام قبول کر ہیں، یورپ میں سب سے تیزی سے اسلام اسی فرانس میں پھیل رہا ہے جہاں گزشتہ روز حملے کیے گئے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جہاں مسلمان تھے ہی نہیں، وہاں تو اسلام تیزی سے فروغ پاتا جا رہا ہے جبکہ جہاں اسلام چاروں طرف پھیلا نظر آ رہا تھا، وہاں غیر مسلم تو کیا، عملاً خود مسلمان بھی اسلام کے قریب نہیں آتا؟
عزیزو ! ایک بات سمجھ لو اور اگر سمجھ آجائے تو خدا را اس پر غور کرو ! وہ قرون اولیٰ تھا کہ مسلمان جہاں پہنچتے، ان کے اخلاق اور کردار کی عظمت دیکھ کر پورے پورے ملک کلمہ پڑھ لیا کرتے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اخلاق سے پھیلا۔ اس زمانے میں قرآن صفحات پر نہیں بلکہ مسلمان کے قول فعل میں چلتا پھرتا نظر آتا تھا، جبکہ آج کی صورتحال یہ ہے کہ جہاں مسلمان موجود ہو، وہاں اسلام کے پھیلاؤ کو بریکیں لگ جاتی ہیں اور جہاں مسلمان نہ ہوں مگر قرآن کے صفحات ہوں تو وہاں اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن جاتا ہے۔ مغرب میں اسلام کے تیزی سے پھیلنے پر فخر کرنے والو ! یہ فخر نہیں بلکہ شرم کی گھڑی ہے۔ خدا کا شکر ادا کیجیے کہ میں اور آپ مغرب میں نہ تھے، ورنہ وہاں بھی اسلام کے پھیلنے کی رفتار وہی ہوتی جو پاکستان میں ہے۔ پیرس میں بم حملے کرنے والے خوش ہوں گے کہ انہوں نے ایک بڑی عیسائی ریاست کے دارالحکومت پر حملہ کیا، لیکن جہاں سے میں دیکھتا ہوں، وہاں سے صاف نظر آرہا ہے کہ یہ 17 لاکھ مسلم آبادی والے پیرس پر حملہ تھا۔ یہ اس فرانس پر حملہ تھا جہاں اسلام کو دوسرے بڑے مذہب کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک لمحے کے لیے تصور کیجیے ! جن لوگوں نے فرانس میں اسلام قبول کر رکھا ہے، وہ پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے اپنے کرسچین رشتے داروں سے نظریں بھی ملا پا رہے ہوں گے۔ پیرس میں موجود 17 لاکھ مسلمانوں کو ایک رات میں آپ نے آزمائش میں ڈال دیا اور خوش ہیں کہ جہاد کر رہے ہیں ۔ آپ جہاد نہیں کر رہے بلکہ اپنے بموں کے ذریعے مغرب میں اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیرس کے یہ حملے فرانس پر نہیں بلکہ وہاں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتے اسلام پر کیے گئے ! !
(http://inkishaf.tv/2015/11/15/1735)
(کراچی) وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ مولانا سلیم اللہ خان نے کہا ہے کہ پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی عالم اسلام نے جس طرح بیک آواز مذمت کی ہے یہ خوش آئند ہے اور عالمی برادری کو اس پر غور کرنا چاہئے۔ قیام امن کے لئے دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا ورنہ قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان حملوں کے کے ہمہ جہتی تحقیقات کے ذریعے پس پردہ مقاصد تک پہنچنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات پر اب ٹھنڈے دل کے ساتھ غور ہونا چاہئے کہ کس کے ہاتھ کی بوئی ہوئی فصل کا نتیجہ آج پوری انسانیت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے مسلم ممالک، اداروں اور شخصیات کی جانب سے فرانس میں ہونے والے حملے کی مذمت کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی تمام اقسام کی اسی طرح بلا تفریق مذمت ہونی چاہئے۔ ظلم کی ہر شکل قابل مذمت ہے اس میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے۔