اکابر علماء دیوبند کی خصوصیات اور امتیازات میں جہاں دین کے تمام شعبوں میں ان کی خدمات کی جامعیت ہے کہ انھوں نے وقت کی ضروریات اور امت کے معروضی مسائل کو سامنے رکھ کر دین کے ہر شعبہ میں محنت کی ہے، وہاں علمی دیانت اور فقہی توسع بھی ان کے امتیازات کا اہم حصہ ہے۔ انھوں نے جس موقف کو علمی طور پر درست سمجھا ہے، کسی گروہی عصبیت میں پڑے بغیر اس کی حمایت کی ہے اور مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات کے حوالے سے جہاں بھی فقہی احکام میں توسع اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے، انھوں نے اس سے گریز نہیں کیا۔
علماء دیوبند کو بحمد اللہ تعالیٰ اہل سنت او رحنفیت کی علمی اور شعوری ترجمانی کا شرف حاصل ہے جس کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جاتا ہے اور ان کے علمی تعارف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اکابر علماء دیوبند کو ایک طرف فقہ کی اہمیت وضرورت سے انکار کی صورت حال کا سامنا تھا اور دوسری طرف ان کا واسطہ اس فقہی جمود سے تھا جس میں جزئیات وفروعات کو بھی کفر واسلام کا مدار سمجھ لیا جاتا تھا۔ علماء دیوبند نے ان دونوں کے درمیان اعتدال وتوازن کا راستہ اختیار کیا اور اہل السنۃ اور احناف کے تاریخی علمی تسلسل کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھا۔
اس بات پر چند واقعاتی شہادتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے اکابر علماء دیوبند کے اعتدال، توازن، توسع اور علمی دیانت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
امام الطائفہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس اللہ سرہ العزیز اور مولانا احمد رضا خانؒ اپنے دور کی دو بڑی شخصیات ہیں جن کی طرف دیوبندیت اور بریلویت کی علمی روایت منسوب ہے اور عقائد واحکام دونوں میں ان دو شخصیات کی تعبیرات وتشریحات پر ان دو اہم مسلکی گروہوں کے علمی تشخص کا مدار ہے۔ ان کے دور میں ایک مسئلہ پیش آیا کہ ایک سید لڑکی نے جو عاقلہ بالغہ تھی، ایک ایسے شخص سے نکاح کر لیا جس نے خود کو سید ظاہر کیا اور حلف اٹھا کر اس کا یقین دلایا، مگر نکاح کے بعد ظاہر ہو گیا کہ وہ سید نہیں ہے۔ اس پر لڑکی کے اولیا کو اعتراض ہوا کہ یہ بات ان کے لیے معاشرے میں باعث عار ہے، اس لیے وہ اس نکاح کو قبول نہیں کرتے۔سوال یہ ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دھوکہ دینے کے بعد اولیا کے اعتراض کی صورت میں اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور اگر نکاح فسخ کیا جائے تو اس کی عملی صورت کیا ہوگی؟
اس سوال کے جواب میں مفتی محمد عبد الرحمن برسانی صاحب نے لکھا کہ:
’’صورت مذکورہ میں ہندہ کو اور اولیا کو اختیار فسخ کا ہے۔ اس زمانہ میں اگرچہ قاضی نہیں ہے، جب بھی شہر کے مفتی سے حکم لے کر فسخ کر سکتا ہے کہ قائم مقام قاضی کا مفتی ہے۔‘‘
جبکہ مولانا احمد رضا خانؒ نے اس کا جواب یہ دیا کہ:
’’یہاں جبکہ وہ کفو نہیں اور ولی کو دھوکہ دیا گیا، دونوں امر سے کچھ متحقق نہیں ہوا۔ نکاح باطل محض رہا۔بعد ظہور حال زید کی قسم اور تحریر سب مہمل ہے۔‘‘
مگر یہ استفتاء اور اس کے جوابات حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں پیش کیے گئے تو انھوں نے یہ جواب تحریر فرمایا کہ:
’’صورت مندرجہ میں اولیا کو حق فسخ نکاح کا ہے اور وہ کسی حاکم یا قاضی مسلمان سے رجوع کریں کہ وہ فسخ کرے۔ مفتی کو حنفیہ کے نزدیک بغیر تحکیم طرفین اختیار فسخ نہیں ہے۔‘‘
اس پر حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اور حضرت مولانا محمد منفعت علیؒ کے بھی دستخط ہیں۔ یہ سب فتاویٰ جب دار العلوم دیوبند کے اس وقت کے صدر مفتی حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ کے سامنے رکھے گئے تو انھوں نے اس پر تحریر فرمایا کہ: ’’جواب مجیب اول صحیح ہے۔ اولیا کو اختیار فسخ نکاح ہے۔‘‘
یہ علمی دیانت کی بات ہے کہ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ کو خود اپنے مشائخ اور اساتذہ کی راے پر اطمینان نہیں ہوا تو انھوں نے دوسرے فریق کے موقف کی حمایت کر دی اورمزید دیانت کی بات یہ ہے کہ جب فتاویٰ رشیدیہ مرتب کیا گیا تو اس میں یہ سارے جوابات من وعن شامل کر دیے گئے اور اب بھی یہ سوال وجواب ’’فتاویٰ رشیدیہ‘‘ کا حصہ ہیں۔
میں نے جب یہ فتویٰ پڑھا تو میرے ذہن میں حضرت امام بخاریؒ کے ایک واقعہ کی یاد تازہ ہو گئی جو کسی زمانے میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی قدس اللہ سرہ العزیز کی کتاب ’’قواعد علوم الحدیث‘‘ کے حاشیہ میں حضرت الاستاذ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے قلم سے نظر سے گزرا تھا۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے معتزلہ کے مقابلے میں اہل سنت کی ترجمانی کرتے ہوئے ’’القرآن کلام اللہ غیر مخلوق‘‘ کے عقیدہ پر سختیاں برداشت کی تھیں اور قید اور کوڑوں کی سزائیں جھیلی تھیں، مگر ان کے بعد بعض حنابلہ نے اس عقیدہ کی تعبیر وتشریح میں غلو اختیار کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ قرآن کریم کے جو الفاظ ہماری زبانوں پر تلاوت میں آتے ہیں، یہ بھی مخلوق نہیں ہیں تو حضرت امام بخاریؒ نے اس سے اختلاف کیا اور فرمایا کہ ’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘۔ اس پر حضرت امام بخاریؒ کے استاذ محترم امام محمد بن یحییٰ نیساپوریؒ نے امام بخاریؒ کے گمراہ ہونے کا فتویٰ دے دیا اور فرمایا کہ:
’’من زعم لفظی بالقرآن مخلوق فہو مبتدع ولا یجالس ولا یکلم ومن ذہب بعد ہذا الی محمد بن اسماعیل البخاری فاتہموہ فانہ لایحضر مجلسہ الا من کان علی مذہبہ‘‘
’’جو شخص یہ کہتا ہے کہ ’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘ وہ بدعتی ہے۔ اس کی مجلس میں نہ بیٹھا جائے اور اس سے کلام نہ کیا جائے اور جو شخص اس کے بعد محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی مجلس میں جائے، اسے متہم سمجھا جائے، کیونکہ اس کی مجلس میں وہی جاتا ہے جواس کے مذہب پر ہوتا ہے۔‘‘
حضرت امام بخاریؒ نے بھی اپنے استاذ حضرت امام محمد بن یحییٰ ذہلیؒ کے شہر میں اپنا حلقہ درس قائم کیا تھا، مگر جب امام ذہلیؒ نے یہ فتویٰ صادر کر دیا: ’’لا یساکننی محمد بن اسماعیل فی البلد‘‘ کہ محمد بن اسماعیل اس شہر میں میرے ساتھ نہ رہے تو امام بخاریؒ کو نیشاپور چھوڑنا پڑا اور وہ اپنے وطن بخارا چلے گئے جہاں کے گورنر خالد کے ساتھ ان کا اختلاف ہو گیا اور وہ وہاں سے بھی نکل گئے او رمسافرت کی حالت میں ’’خرتنگ‘‘ کے مقام پر یہ دعا کرنے کے بعد وفات پا گئے کہ ’’اللہم ضاقت علی الارض بما رحبت فاقبضنی الیک‘‘، یا اللہ، یہ زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود مجھ پر تنگ پڑ گئی ہے، اس لیے اب مجھے اپنے پاس بلا لے۔‘‘ مجھے علماء کرام کے ایک وفد کے ساتھ خرتنگ جانے اور امام بخاریؒ کی قبر پر فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ فالحمد للہ علی ذالک۔
اس واقعہ کے حوالے سے عام طور پر میں دو باتیں عرض کیا کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ اہل سنت کے ہاں عقائد میں بھی تعبیرات وتشریحات کے تنوع اور توسع کی یہ کیفیت ہے کہ امام ذہلی اور ان کے متبعین الفاظ قرآن کے مخلوق ہونے کو ’’القرآن کلام اللہ غیر مخلوق‘‘ کے عقیدے کے خلاف اور بدعت قرار دے ہیں، جبکہ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کو ’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘ کہنے پر نیشاپور سے جلاوطن ہونا پڑا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں طبقوں اور ان کے نمائندہ بزرگوں کو اہل سنت کے مسلمہ اماموں کا درجہ حاصل ہے اور امت دونوں کے ساتھ نسبت پر فخر کرتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ الاستاذ ابو غدہؒ نے اس کے ساتھ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ امام بخاری نے اپنے استاذ محترم امام ذہلیؒ کے اس سخت رویے اور ان کی طرف سے گمراہی کے فتوے اور جلا وطنی کے حکم کے باوجود ان سے روایت ترک نہیں کی اور بخاری شریف میں ان سے تیس کے لگ بھگ روایات درج کی ہیں۔ یہ علمی دیانت ہے جو ہمارے پرانے اسلاف کی روایات کا حصہ ہے اور اکابر علماء دیوبند نے اس کا تسلسل قائم رکھا ہے۔
اس سلسلے میں دوسرا واقعہ یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں نے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحد قدس اللہ سرہ العزیز کے معاون اور نائب کے طور پر ذمہ داریاں ۱۹۷۰ء میں سنبھالی تھیں، لیکن اس سے قبل بھی ان کی غیر موجودگی میں جامع مسجد میں جمعہ پڑھانے کا متعدد بار اعزاز حاصل ہو چکا تھا۔ یہاں میں نے اپنے عمومی ماحول سے ایک مختلف بات یہ دیکھی کہ جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر خطب کے سامنے لاؤڈ اسپیکر پر نہیں دی جاتی، بلکہ مسجد کی حدود سے باہر امام کے سامنے حوض پر کھڑے ہو کر بغیر لاؤڈ اسپیکر کے دی جاتی ہے، جبکہ گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ اور مدرسہ نصرۃ العلوم میں حضرت صوفی صاحبؒ کا معمول یہ تھا کہ موذن جمعہ کی اذان ثانی لاؤڈ اسپیکر پر امام صاحب کے سامنے کھڑے ہو کر دیتا تھا۔
مجھے اس پر الجھن ہوئی تو میں نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ سے دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک جمعہ کی اذان ثانی مسجد کی حدود سے باہر دینا بہتر ہے اور ہم اسی پر عمل کرتے ہیں۔ مسجد کے صحن کے آخر میں جو حوض ہے، وہ مسجد کا حصہ نہیں ہے، اس لیے ہم اعتکاف کرنے والوں کو وہاں تک جانے سے منع کرتے ہیں اور ہمارا موذن جمعہ کی اذان ثانی حوض پر امام کے سامنے کھڑے ہو کر دیتا ہے۔ میں نے اس کے بعد مزید اس مسئلہ کی کرید کی ضرورت محسوس نہیں کی، اس لیے کہ اس قسم کے جزوی اور فروعی مسائل میں میرا ذوق او رمعمول یہ ہے کہ جہاں کسی ذمہ دار بزرگ کے فتویٰ پر عمل ہو رہا ہو، میں وہاں اسی پر عمل کرتا ہوں اور اسے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔
حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ ہمارے اکابرمیں سے تھے، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدرؒ کے استاذ تھے اور میں نے کئی بار حضرت والد محترمؒ کو بعض مسائل میں ان سے رجوع کرتے دیکھ رکھا تھا، اس لیے میں بھی کم وبیش بیالیس سال سے ان کے فتویٰ پر عمل کرتا آ رہا ہوں اور اب بھی اس پر کسی نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، لیکن اس کا پس منظر کافی عرصہ کے بعد اس وقت میر ے علم میں آیا جب حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ العالی کی کتاب ’’مطالعہ بریلویت‘‘ سامنے آئی جس میں انھوں نے اس مسئلے کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ فتویٰ دراصل مولانا احمد رضا خان کا تھاکہ جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر نہیں بلکہ مسجد کی حدود سے باہر ہونی چاہیے۔ اس مسئلہ پر مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کا اپنے بہت سے معاصر علماء کرام سے تحریری مباحثہ بھی ہوتا رہا اور ان کے معاصر علماء کرام نے، جن میں دیوبندی اور بریلوی دونوں شامل ہیں، ان کے اس فتویٰ سے اتفاق نہیں کیا تھا، مگر ہمارے ہاں مرکزی جامع گوجرانوالہ میں جمعہ کی اذان ثانی مسجد کی حدود سے باہر حوض پر دیے جانے کا معمول چلا آ رہا ہے۔
تیسری بات اس حوالے سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ مزارعت یعنی بٹائی کا مسئلہ ائمہ احناف میں مختلف فیہ رہا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ اسے جائز نہیں سمجھتے اور صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ مفتیٰ بہ قول ہر دو ر میں صاحبین کے قول کو قرار دیا جاتا رہا ہے او ر آج بھی احناف کے ہاں اسی فتویٰ پر عمل جاری ہے، لیکن پاکستان میں جب بڑی زمین داریوں اور جاگیرداریوں کو عوامی مفادات اور ضروریات کے لیے کنٹرول کرنے کا مسئلہ چلا تو ۷۰ء میں علماء دیوبند کی سب سے بڑی جماعت جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے یہ موقف اختیار کیا کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کا قول اگرچہ مفتیٰ بہ نہیں ہے، لیکن امت کی اجتماعی ضرورت اور مفاد کے لیے اس مرجوح فتویٰ پر عمل کی ضرورت پڑ جائے تو ایسا بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس موقف کا تذکرہ جمعیۃ علماء اسلام کے ۱۹۷۰ء کے انتخابی منشور میں موجود ہے اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے مختلف مواقع پر اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحب کے سوانح نگار مولانا ڈاکٹر عبد الحکیم اکبری کی تصنیف ’’مولانا مفتی محمود کی علمی، دینی وسیاسی خدمات‘‘ (صفحہ ۵۰۰) سے اس سلسلے میں ایک اقتباس یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔
حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے کراچی میں علما کی مجلس کا ذکر کرتے ہوئے اس میں بیان کردہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے موقف کا یوں تذکرہ فرمایا ہے:
’’مزارعت کا مسئلہ زیر بحث آیا تو حضرت مفتی صاحبؒ نے بڑی فاضلانہ تقریر فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اس زمانہ میں مزارعت کی وجہ سے بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں۔ ہاریوں کو زمیندار غلام سمجھتے ہیں اور چونکہ مسئلہ اختلافی ہے، ائمہ کبار میں سے حضرت امام ابوحنیفہؒ اس کے خلاف ہیں، اس لیے ان کے قول پر فتویٰ دیتے ہوئے اگر مزارعت کی ممانعت کر دی جائے اور مالکان زمین سے کہا جائے کہ وہ ملازم رکھ کر کاشت کرائیں یا خود کاشت کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
یہ سب باتیں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اکابر علماء دیوبند کا طرز عمل جزئیات وفروعات پر اڑے رہنے اورچند مخصوص فتاویٰ پر جمود اختیار کرنے کا نہیں رہا، بلکہ حالات وزمانہ کے تقاضوں اور امت کی معروضی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے پوری علمی دیانت،اعتدال اور فقہی توسع کے ساتھ امت کے لیے سہولتیں پیدا کرنے اور اصول کے دائرے میں رہتے ہوئے حالات کی ضروریات کو ایڈجسٹ کرنے کا رہا ہے اور آج بھی اکابر علماء دیوبند کی یہی روایت ہم سب کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔