مشترکہ دینی تحریکات اور حضرت امام اہل سنتؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تحریک ختم نبوت، تحریک تحفظ ناموس رسالت اور تحریک نفاذ شریعت کے لیے مشترکہ دینی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت پر ہمارے بعض دوستوں کو اعتراض ہے۔ یہ اعتراض ان کا حق ہے اور اس کے لیے کسی بھی سطح پر کام کرنا بھی ان کا حق ہے۔ اسی طرح اعتراض کو قبول نہ کرنا ہمارا بھی حق ہے جس کے بارے میں ہم نے مختلف مواقع پر اپنے موقف کا تفصیل کے ساتھ اظہار کیا ہے اور ضرورت کے مطابق آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

اس سلسلے میں ہمارے والد گرامی امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام کثرت سے استعمال کیا جا رہا ہے جو محل نظر ہے اور اس حوالے سے حضرت امام اہل سنتؒ کی زندگی کے چند اہم مراحل کی طرف توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے:

  • قیام پاکستان سے قبل حضرت امام اہل سنتؒ مجلس احرار اسلام کے باقاعدہ کارکن رہے ہیں اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اس دور میں آل انڈیا مجلس احرار اسلام کے سیکرٹری جنرل معروف شیعہ عالم دین مولانا مظہر علی اظہر تھے۔
  • قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں حضرت امام اہل سنتؒ شریک رہے ہیں اور متعدد جلوسوں کی قیادت کی ہے بلکہ ازخود گرفتاری دے کر کم وبیش نو ماہ جیل میں رہے ہیں۔ اس تحریک کی قیادت میں اہل تشیع شریک تھے۔
  • ۱۹۵۱ء میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی صدارت میں تمام مکاتب فکر کے اکابر ۳۱؍ علماء کرام کے طے کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی حضرت امام اہل سنت نے ہمیشہ حمایت کی ہے اور وہ ملک میں ان کے نفاذ کا مسلسل مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ان ۲۲  نکات کی ترتیب وتدوین میں بھی اکابر شیعہ علما شریک تھے۔
  • ۱۹۷۷ء میں نظام مصطفی کے نفاذ کی تحریک میں حضرت امام اہل سنت نے بھرپور کردار ادا کردار ادا کیا ہے، عوامی جلوسوں کی قیادت کرتے رہے ہیں اور ایک جلوس کی قیادت کر کے ازخود گرفتاری پیش کی ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے فرزند مولانا عبد الحق خان بشیرکے ہمراہ ایک ماہ تک ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ میں قیدرہے ہیں۔ اس تحریک کی قیادت میں بھی اہل تشیع شریک تھے۔
  • ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں امام اہل سنتؒ نے حضرت السید مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی قیادت میں بھرپور کردار ادا کیا ہے اور اس تحریک کی مرکزی مجلس عمل میں اہل تشیع شریک تھے۔
  • مشترکہ دینی وسیاسی تحریکات میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی شمولیت کے مسئلہ پر اختلاف کے باعث حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ تعالیٰ، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ اور ان کے رفقا نے جمعیۃ سے الگ ہو کر جب تحریک خدام اہل سنت قائم کی تو حضرت امام اہل سنت نے اپنے ان بزرگ دوستوں کے تمام تر احترام اور ان کی دینی خدمات کے بھرپور اعتراف کے باوجود ان کا ساتھ نہیں دیا اور اس کے بعد بھی جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر مشترکہ دینی تحریکات میں انھوں نے ہمیشہ حصہ لیا ہے۔
  • حضرت امام اہل سنتؒ کی علالت کے دور میں جب متحدہ مجلس عمل تشکیل پائی تو انھوں نے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کی کھل کر حمایت کی اور اپنے ساتھیوں کو اس میں کام کرنے کی ہدایت کی، جبکہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت میں اہل تشیع موجود تھے اور اپنے حلقہ سے حضرت امام اہل سنتؒ نے قومی اسمبلی کے لیے متحدہ مجلس عمل کے جس امیدوار جناب قدرت اللہ بٹ کی حمایت کی، ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے بلکہ وہ اس وقت جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ کے امیر تھے۔

متحدہ مجلس عمل کے قیام کی تائید اور حمایت اس حوالے سے بطور خاص قابل توجہ ہے کہ بعض حضرات یہ استدلال پیش کر رہے ہیں کہ حضرت امام اہل سنت نے ’’ارشاد الشیعہ‘‘ تصنیف کر کے دینی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت کے حوالے سے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر لیا تھا، حالانکہ ارشاد الشیعہ کا سن تصنیف ۱۹۸۷ء ہے جبکہ متحدہ مجلس عمل کا قیام ان کی عمر کے آخری دور میں جنرل پرویزمشرف کے زمانے میں ہوا تھا۔ 

مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں اپنے ان دوستوں سے میری گزارش ہے کہ وہ دینی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت پر اپنے اعتراض کا حق ضرور استعمال کریں اور اس کے لیے جائز حدود میں مہم بھی چلائیں،لیکن مشترکہ دینی تحریکات کی حد تک اس سلسلے میں امام اہل سنتؒ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا نام استعمال نہ کریں، اس لیے کہ امام اہل سنتؒ خود زندگی بھر ایسی تحریکات کا حصہ رہے ہیں۔

شخصیات

(نومبر ۲۰۱۱ء)

تلاش

Flag Counter