نومبر ۲۰۱۱ء
اکابر علماء دیوبند کی علمی دیانت اور فقہی توسع
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اکابر علماء دیوبند کی خصوصیات اور امتیازات میں جہاں دین کے تمام شعبوں میں ان کی خدمات کی جامعیت ہے کہ انھوں نے وقت کی ضروریات اور امت کے معروضی مسائل کو سامنے رکھ کر دین کے ہر شعبہ میں محنت کی ہے، وہاں علمی دیانت اور فقہی توسع بھی ان کے امتیازات کا اہم حصہ ہے۔ انھوں نے جس موقف کو علمی طور پر درست سمجھا ہے، کسی گروہی عصبیت میں پڑے بغیر اس کی حمایت کی ہے اور مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات کے حوالے سے جہاں بھی فقہی احکام میں توسع اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے، انھوں نے اس سے گریز نہیں کیا۔ علماء دیوبند کو بحمد اللہ تعالیٰ اہل سنت او رحنفیت کی علمی...
مشترکہ دینی تحریکات اور حضرت امام اہل سنتؒ
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تحریک ختم نبوت، تحریک تحفظ ناموس رسالت اور تحریک نفاذ شریعت کے لیے مشترکہ دینی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت پر ہمارے بعض دوستوں کو اعتراض ہے۔ یہ اعتراض ان کا حق ہے اور اس کے لیے کسی بھی سطح پر کام کرنا بھی ان کا حق ہے۔ اسی طرح اعتراض کو قبول نہ کرنا ہمارا بھی حق ہے جس کے بارے میں ہم نے مختلف مواقع پر اپنے موقف کا تفصیل کے ساتھ اظہار کیا ہے اور ضرورت کے مطابق آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس سلسلے میں ہمارے والد گرامی امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام کثرت سے استعمال کیا جا رہا ہے جو محل نظر ہے اور اس حوالے...
قومی سلامتی۔ نئے حقائق، نئے تقاضے
― سلیم صافی
عید الفطر کے موقع پر طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر مجاہد اور حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار کے جاری کردہ تفصیلی پیغامات نظروں کے سامنے ہیں۔ اس طرح کے مواقع پر ان کے یہ پیغامات دراصل پالیسی بیانات ہوتے ہیں جن میں افغان قضیے کے تمام پہلووں کا احاطہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اب کی بار دونوں کے پیغامات کا لب ولہجہ ماضی کے لب ولہجے سے بہت مختلف اور بنیادی سوچ بڑی حد تک یکساں ہے۔ دونوں کے پیغامات میں کسی بھی شکل میں افغانستان کے اندر غیر ملکی افواج یا پھر ان کے اڈوں کی موجودگی کو ناقابل برداشت قرار دیا گیا ہے۔ جہاں غیر ملکیوں کے بارے میں لہجہ بے لچک اور...
ہم ۔ دنیا بھر کے تنازعات کے امپورٹر!
― مولانا مفتی محمد زاہد
عالمِ عرب میں اس وقت جو عوامی تحریکیں چل رہی ہیں، وہ جہاں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں، وہیں پاکستان سمیت عالم اسلام کی ان سے دلچسپی ایک فطری امر ہے۔ تاہم ان تحریکوں نے خلیجی ریاستوں میں پہنچ کر کسی قدر فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کرلیاہے یا یہ رنگ انہیں دے دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر اس مسئلے کے حوالے سے کسی قدر کشیدگی کا عنصر بھی آرہا ہے۔ پہلے تو بحرین اور سعودی عرب کے بعض واقعات یا مسائل کی وجہ سے ایک فریق نے سعودی عرب کے فرماں روا خاندان کے خلاف نفرت آمیز بینرز لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے جواب میں دوسرے فریق نے نہ صرف یہ...
’’حیات سدید‘‘ کے چند ناسدید پہلو (۱)
― چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
(ہمارا تبصرہ کتاب ’’حیات سدید‘‘ پر ہے، زیر بحث شخصیت پر نہیں۔ کتاب میں زیر بحث شخصیت کا ہمیں پورا احترام ہے۔ البتہ سوانحی کتاب کے عنوان اور پھر اس پر تبصرہ کے لیے ہمارے عنوان سے شبہہ ہو سکتا ہے کہ ہم چوہدری نیاز علی کی حیات سے نا سدید پہلو پیش کر رہے ہیں۔ خاکم بدہن ایسا کیسے ممکن ہے۔البتہ کتاب کے مولف نے کتاب میں جو ناسدید سمت اختیار کی ہے، ہم نے اس پر گرفت کی ہلکی سی کوشش کی ہے۔ متوقع شبہہ کے ازالے کے لیے شروع ہی میں وضاحت لکھ دی ہے۔ مصنف)۔ ابتدائیہ۔ حیات سدید چوہدری نیاز علی خان کی سوانح ہے۔ یہ کتاب، حال ہی میں نشریات، ۴۰۔اردو بازار لاہور...
علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ (۱۹۲۳ء۔۲۰۰۵ء)
― ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
صدیاں ہوتی ہیں، وقت کے ایک عظیم عالم (ابن تیمیہؒ ) کی وفات پر دمشق کے میناروں سے آواز بلند ہو ئی تھی: الصلاۃ علی ترجمان القرآن (ترجمان قرآن کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی)۔ ۲۴؍ جنوری ۲۰۰۵ء کو ہندوستان کو بھی حق تھا کہ اس کے گوشہ گوشہ سے بھی یہی آواز بلند ہوتی کہ وقت کے ابن تیمیہ، ترجمان قرآن وسنت، محدث عصر علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ نے اسی دن دنیا کو خیر باد کہا۔ ان کی وفات پر ایک عظیم علمی روایت کا خاتمہ ہوا۔ یہ کو ئی معمولی حادثہ نہ تھا کہ اس پریوں ہی گزر جایاجائے، لیکن مسلمانان ہند اپنے علمی وفکری زوال وانحطاط کے جس مقام پر ہیں، وہاں یہ کوئی تعجب...
میری علمی و مطالعاتی زندگی (پروفیسر عبد القدیر سلیم سے انٹرویو)
― عرفان احمد
اﷲ کے فضل وکرم سے میری پیدائش ایک دین دار،علمی گھرانے میں ہوئی۔والد محمد سلیم عبداﷲؒ روایتی دین دار یا مولوی نہیں تھے۔ ان کاتعلق غازی پورسے تھا اوروہ میرے دادامرحوم کے ساتھ وہاں سے ہجرت کرکے غیر منقسم ہندوستان کے صوبے سی پی (Central province) کے شہرامراؤتی میں بس گئے تھے۔ یہاں اکثریت ہندؤوں کی تھی، مسلمانوں کی آبادی ۴فی صد کے لگ بھگ تھی۔ہندوستان کی زبان مراٹھی تھی،لیکن مسلمان جنوبی ہند/حیدرآباد دکن جیسی اُردو بولتے تھے۔تاہم ہمارے گھرانے پریوپی کی اُردو ہی کے اثرات رہے اور ہماری مقامی اُردو سے کچھ مختلف رہی۔ میرے ننھیال کے بزرگ قاضی تھے اوردہلی...
کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں
― محمد اظہار الحق
(۱) یہ ریاست ہاے متحدہ امریکہ کے شمال کا ایک شہر تھا جہاں اسے ملازمت ملی۔ ہجرت کر کے آنے کے بعد تارکین وطن کے سامنے یوں بھی امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ جہاں بھی روزگار مل جائے، وہیں سے آغاز کرنا پڑتا ہے۔ چند ہفتوں کے اندر ہی اسے احساس ہو گیا کہ پاکستانیوں کی تعداد وہاں کم ہے، بہت ہی کم۔ اور ان میں سے بھی زیادہ تر وہ قادیانی تھے جو مذہبی بنیادوں پر پناہ (Asylum) لے کر آباد ہوئے تھے۔ اس کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ ان کا مقاطعہ کرے، کسی تقریب میں جائے نہ ان سے میل ملاپ کرے۔ دوسرا یہ کہ وہ ان لوگوں سے ملے اور جہاں، جب بھی موقع ہو، بات چیت کرے۔ اس نے دوسرا...
چند بزرگ علماء کا انتقال
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
گزشتہ دنوں چند محترم دوست اور بزرگ علمائے کرام انتقال کر گئے جن کی جدائی کا صدمہ ہمارے دینی وعلمی حلقوں میں مسلسل محسوس کیا جارہا ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ملک کے علمی ودینی حلقوں کے لیے صدمہ ورنج کا باعث بنا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا قاضی نور محمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ ہمارے اکابر بزرگوں میں سے تھے جنھوں نے پون صدی قبل گوجرانوالہ میں توحید وسنت کے پرچار اور علماء دیوبند کے مسلک کے فروغ وتعارف میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحبؒ نے ۸۰ برس...
مکاتیب
― ادارہ
(۱) بخدمت حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ الشریعہ کے اکتوبر ۲۰۱۱ کے شمارے میں ’’توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ ۔ چند گزارشات‘‘ کے عنوان کے تحت آپ نے مجلہ صفدر شمارہ ۶ میں شائع شدہ میرے تبصرے پر بھی کچھ اظہار خیال کیا ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ کم از کم میرے مضمون کو بالکل نہیں سمجھ پائے۔ ’’توہین رسالت کا مسئلہ‘‘ کے نام سے عمار خان صاحب نے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے اپنا موقف یہ ظاہر کیا کہ توہین رسالت کے جاری کردہ قانون کو جو کہ سزاے موت ہے، جب ذمی پرمنطبق کریں تو وہ قانون فقہ اسلامی سے مطابقت...
الشریعہ اکادمی میں تعزیتی نشست
― ادارہ
۱۵ اکتوبر کو الشریعہ اکادمی میں مولانا سید عبد المالک شاہؒ ، مولانا میاں عبدالرحمنؒ اور مولانا قاری خلیل احمد نعمانی ؒ کی وفات پر ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی اور اس سے مولانا مفتی محمد اویس، مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی اور الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے خطاب کیا، جبکہ شہر کے علماء کرام اور دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے مرحومین کو خراج عقیدت پیش کرتے...
اگر جسم کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے!
― حکیم محمد عمران مغل
دیگر ملکوں کی طرح ہمارے ملک کے بڑے شہر بھی حادثات کی زد میں آ چکے ہیں۔ لڑائی مار کٹائی، دنگا فساد اور کسی اونچی جگہ سے گرنے کے علاوہ ٹریفک کے حادثات بھی بے تحاشا بڑھتے جا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو آبادی اور ٹریفک دونوں بے ہنگم ہو چکے ہیں جس سے عام آدمی کا بازاروں میں حفاظت سے چلنا دشوار ہو چکا ہے۔ کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں حادثہ پیش آ ہی جاتا ہے۔ پھر ہماری مصروفیات اور دوڑ دھوپ میں مزید تیزی آ رہی ہے۔ ہر شخص، کیا مرد کیا عورت، آگے دوڑ پیچھے چھوڑ کی راہ پر گامزن ہے۔ کراچی کی طرح لاہور میں بھی آبادی کا دریا چاروں طرف بہہ نکلا ہے جو سنبھلنے میں نہیں...
نومبر ۲۰۱۱ء
جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱۱
اکابر علماء دیوبند کی علمی دیانت اور فقہی توسع
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مشترکہ دینی تحریکات اور حضرت امام اہل سنتؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قومی سلامتی۔ نئے حقائق، نئے تقاضے
سلیم صافی
ہم ۔ دنیا بھر کے تنازعات کے امپورٹر!
مولانا مفتی محمد زاہد
’’حیات سدید‘‘ کے چند ناسدید پہلو (۱)
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ (۱۹۲۳ء۔۲۰۰۵ء)
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
میری علمی و مطالعاتی زندگی (پروفیسر عبد القدیر سلیم سے انٹرویو)
عرفان احمد
کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں
محمد اظہار الحق
چند بزرگ علماء کا انتقال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیب
ادارہ
الشریعہ اکادمی میں تعزیتی نشست
ادارہ
اگر جسم کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے!
حکیم محمد عمران مغل