(۱۵ فروری ۲۰۰۹ ء کو الشریعہ اکادمی میں ’’عصر حاضر میں تدریس حدیث کے تقاضے‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں گفتگو۔)
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین۔ اما بعد!
الحمد للہ آج ہم جس سیمینار کے لیے جمع ہوئے ہیں، اس میں مخلصین اور ماہرین نے آپ کے سامنے کافی تفصیل سے کلام کیا۔ مجھے درس وتدریس کا اتنا طویل تجربہ نہیں جتناکہ مولانا زاہد الرشدی اور مولانامفتی محمد زاہد صاحب کو ہے۔ لیکن ایک پہلو سے حدیث کے ساتھ ممارست حاصل ہے، اس لیے میں ایک طالب علم کی حیثیت سے آپ کے سامنے حدیث شریف کے بعض دوسرے پہلووں پر بات کروں گا ۔ اب تک جتنی گفتگو ہوئی ہے، وہ درس نظامی میں تدریس کے نظام پر زیادہ مرکوز رہی ہے، حالانکہ جیساکہ اشارہ بھی کیاگیا، حدیث شریف کا تعلق عام معاشرے کے ساتھ بھی ہے، صرف علما اور متخصصین کے ساتھ ہی نہیںیا صرف مدرسہ کی چاردیواری تک محدود نہیں ہے۔ حدیث شریف کا استعمال منبر ومحراب اور جمعہ کے خطبوں میں اوروعظ وتقریر میں جتنا ہوتا ہے، وہ غالباً اس سے زیادہ ہے جو مدارس میں پڑھایا جاتا ہے اور یہی اس کی روح ہونی چاہیے۔ اس لیے میں گفتگو کا دائرہ تھوڑا سا وسیع کروں گا کہ ہمیں حدیث شریف کے درس اور اس کے ابلاغ کا، معاشرے کے مختلف افرادا پر اس کے اثرات کا اور مختلف میدانوں میں، مثلاً تعلیمی میدان میں اس کے استعمال کی ضروریات کا جائزہ لینا چاہیے۔ اس پر ماشاء اللہ عالم عرب میں کافی حکومتوں کے زیر نگرانی اور نجی سطح پر بھی کافی ریسرچ ہو چکی ہے کہ کس طرح تربیتی مقاصد کے لیے حدیث شریف کو استعما ل کیا جائے اور کیسے اس کے انتخاب، اس کی تشریح اور اس کی تحقیق کا کام ہو۔ ماشاء اللہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں بڑا اچھا کام ہو چکا ہے۔ لیکن امریکہ اور یورپ میں بچوں کی احادیث کے نام پر جو چیزیں چھپی ہیں، ان کو دیکھ کر ذرا تکلیف ہوتی ہے کہ سوحدیثیں اگر بچوں کے لیے منتخب کی گئی ہیں تو اس میں آدھی ایسی ہیں جو بچوں کی سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ رٹنے کے لیے تو ہیں لیکن ان میں مسائل اور موضوعات وہ ہیں جو بالغ لوگوں کے کام کے ہیں۔ بچوں کی نفسیات اور بچوں کی ذہنی سطح کو سامنے رکھتے ہوئے ابھی تک تعلیمی میدان میں کام نہیں ہوا، مثلاً سچ بولنا، جھوٹ نہ بولنا، امانت ، دیانت یہ سب چیزیں یا بچوں میں جو آپس میں چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ ایک ضرورت ہے عصر حاضر میں کہ حدیث کا استعمال کر کے ہم نے اپنے جو معاشرتی، سماجی، اسلامی مقاصد حاصل کرنے ہیں یا ارشادی وتربیتی جو مقاصد حاصل کرنے ہیں، ان تمام مقاصد کی روشنی میں حدیث کو بیان کرنے کا، اس کی تشریح کرنے کا اوراس کا انتخاب کرنے کا طریقہ سیکھنا چاہیے۔
اب تک جو بات ہوئی ہے، وہ متخصصین اور علما کے لیے ہے اور فقہی مباحث کا جو غلبہ ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ ہمیں مدارس کے تعلیمی نظام یعنی formal sector کے علاوہ جو غیر فارمل سیکٹر ہے، اس میں بھی جو احادیث کا استعمال ہونا چاہیے، اسے دیکھناہے۔ مثلاً اب تک یہ رہا ہے کہ آپ کوئی بھی وعظ کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، حوالے ندارد۔ بہت سی غلط فہمیاں اور جسے mythology کہتے ہیں، یعنی غیر مستند قسم کی باتیں ہمارے معاشرے میں رواج پا گئی ہیں یا کچھ اعمال اور وظائف رواج پا گئے ہیں، ان کا ماخذ بھی وہ غیر مستند کتابیں اور رسالے ہیں جو عامۃ الناس میں پھیل گئی ہیں۔ اور اب علما یا جو لوگ واقفین ہیں، وہ اس کی تردید کرنے میں بھی مشکل محسوس کرتے ہیں۔ اتنا لوگوں میں رواج ہے کہ اس سے روکنا مشکل ہے۔ چنانچہ یہ بدعت اور غیر بدعت کا میدان جنگ بن گیا ہے۔ ضعیف یا موضوع یا افسانہ قسم کی احادیث رواج پا گئی ہیں۔ لوگ اس کو سنت سمجھ کر یا وظیفہ سمجھ کر کرتے ہیں۔
اسی طرح میں خاص طور پر اپنی دلچسپی اور تخصص کے میدان یعنی کمپیوٹر کے حوالے سے ذرا تفصیل سے بات کرنا چاہوں گا۔ چھوٹے کمپیوٹر کی پیدایش، جو مائیکرو کمپیوٹر (PC) ہے، اس کی پیدایش ۱۹۸۰ء میں ہوئی ہے۔ اس سے پہلے یہ میوزیم کی طرح بڑے بڑے کمروں میں کئی ملین پاؤنڈز کے وزن میں ہوتا تھا۔ نہ ہم نے دیکھا تھا اور نہ اس تک رسائی تھی اور نہ وہ قابل عمل تھا۔ وہ میوزیم تھا۔ تو جب مائیکرو کمپیوٹر پید ا ہوا تو میں اس وقت B.Sc کر رہا تھا تو جیسے ہی دیکھا کہ یہ آلہ ایجاد ہو رہا ہے تو ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر اس آلے کو، اس وسیلہ علم کو اگر کہیں مفید طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے تو علم حدیث شریف سب سے مناسب اور اہم علم ہے۔ صرف اس کی تاریخی اہمیت نہیں، اس کے سائز کے لحاظ سے، اس کی complexity کے لحاظ سے۔ جو پیچیدگی علوم الحدیث میں ہے اور جو وسعت احادیث کے متون اور اسناد میں اور مراجع میں ہے، وہ ابھی تک انسانوں کی دسترس سے باہر ہے۔ کوئی ایک فرد جو یہ کہے کہ حدیث کی تمام کتابوں کا نام بھی معلوم ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا۔ حدیث کے جومجموعے ہیں، اگر ہمیں ان کے نام کا پتہ نہیں ہے توپھر جو ہزاروں حدیثیں ہیں، ان کے یاد رہنے کی بات تو ایک فرد کے احاطہ سے باہر ہی ہے۔ لہٰذا یہ جو ٹیکنالوجی کمپیوٹر کی ۸۰ کی دہائی میں شروع ہو رہی تھی، اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہوئے بہت سے لوگوں نے سوچا ۔ ادارے، افراد اور اکیڈمیاں متوجہ ہوئے۔ عربی اور انگلش میں بہت سی کوششیں ہوئیں اور ہوتی رہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں۔
میں مختصراً اس پر کچھ روشنی ڈال دوں کہ یہ وسائل کیوں اہم ہیں اور ان کی ضرورت کیسے ہے اور انھیں کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب نے اشارہ کیا کہ اب اس بات کا عذر نہیں رہا کہ یہ حدیث مجھے ملی نہیں، کیونکہ یہ ہماری اپنی کاہلی اور سستی کی دلیل ہے کہ ہم نے ڈھونڈا نہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ملی نہیں۔ پہلے حدیث کی معلومات اور تخریج کے لیے کتب خانہ کی موجودگی ضروری تھی۔ پھر کتب خانہ موجود ہوتو وقت نہیں یا وقت ہے، لیکن صلاحیت نہیں ہے کہ کہاں ڈھونڈیں اور کہاں سے نکالی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مظاہرالعلوم کے شیخ الحدیث مولانامحمد یونس صاحب کی ایک کتاب ’’الیواقیت الغالیہ‘‘ کے نام سے ابھی آئی ہے جس میں انھوں نے تقریباً ساٹھ ستر سا ل پرانے وہ استفسارات اور ان کے جوابات جمع کیے ہیں جو شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کے پاس حدیث سے متعلق بھیجے جاتے تھے۔ اس پر وہ ہفتوں مہینوں ریسرچ کر کے، کتابوں سے ڈھونڈ کر، حدیثوں کی تخریج کرتے اور بعض حدیثوں پر کلام کرتے۔ اب ’’الیواقیت الغالیہ‘‘ کے نام سے نئی شکل میں چھپا ہے۔ مولانا ایوب صاحب نے لپسٹر سے چھاپا ہے، یہاں بھی شاید کوئی مکتبہ چھاپے۔ بڑی قیمتی تحقیقات ہیں، لیکن آج اگر ہم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں دیکھیں، انسان کو پتہ ہو تو چند سیکنڈ میں بھی وہ تخریج کر سکتا ہے۔ پہلے دنوں اور ہفتوں اور مہینوں خلجان ہوتا تھا اور حدیث ذہن میں گھومتی رہتی تھی کہ کہیں نظر سے گزر جائے ، بلکہ حضرت مولانا یونس صاحب نے اس میں لکھاہے کہ کبھی بعض حدیثیں سال سال بھر ذہن میں گھومتی رہتی تھیں کہ یہ کہیں نظر سے گزرے۔ کسی نے سوال کر دیا یا کہیں سے ذہن میں بات آ گئی تو سال سال بھر تک ذہن میں اٹکی رہتی تھی کہ اس کا حوالہ کوئی تخریج کوئی اس کا اتا پتہ مل جائے۔ لیکن میں نے ۱۹۸۰ء میںیہ کام شروع کیا تو یہی شیخ الحدیث صاحب تشریف لائے دارالعلوم بری میں اور میرا امتحان لیا۔ انہوں نے کہا کہ دیکھیں کہ اس کمپیوٹر سے کوئی کام ہوتا ہے۔ اس وقت خاصہ مجموعہ تھا۔ انہوں نے مجھے کچھ الفاظ دیے۔ اسی طرح جدہ میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی کمپیوٹر کا امتحان لیا کہ ذرا دکھاؤ کہ یہ کمپیوٹر کیسا کام کرتا ہے۔ یہ ۱۹۸۶ء کی بات ہے۔ ۱۹۸۶ء میں، میں اسلام آباد بھی آیا تھا۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق مرحوم کو دکھایا تھا اور ٹی وی وغیرہ پر بھی اس زمانہ میں آیا تھا۔ مثلاً ایک حدیث ہے : المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ تو انگر یزی میں صر ف لسان ٹائپ کیا تو دس ہزار کے مجموعے سے وہ حدیث آدھے سیکنڈ میں نکل کر سامنے آگئی، حوالہ کے ساتھ، راوی، حدیث کا نمبر، کس کتا ب میں ہے اور پورے متن کے ساتھ۔ تو حدیث کے استناد کو جانچنے (authentication یا verification یا validation) یا اس کی تخریج یا تصحیحاً و تضعیفاً اس کا درجہ معلوم کرنے کے لیے اب اتنا کام میسر ہے کہ سوائے عدم علم، عدم وقت یا عدم فرصت کے اور کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ کسی حدیث کے بارے میں انسان کو پتہ نہ چل سکے اور وہ پوری طرح علیٰ وجہ البصیرت بات بیان نہ کر سکے۔
تو حدیث کے میدان میں بعض عملی مشکلات ایسی تھیں کہ ایک خاص سطح کے عملی تجربے اور اشتغال کے بغیر ان کا حل نکالنا مشکل تھا۔ مثلاً پورے معاشرے میں چند ہی حضرات ایسے کہے جا سکتے ہیں جو صحیح معنوں میں شیخ الحدیث کے لقب کے حقدار ہوں، یعنی احادیث ان کے گویا فنگر ٹپ پر ہوتی ہیں کہ اگر آپ پوچھیں تو وہ فوراً جواب دے سکیں۔ الحمدللہ ابھی بھی ایسے افراد ہیں، ان کی کمی نہیں ہے، لیکن یہ زمانہ mass media کا یا mass education کا زمانہ ہے۔ کہہ لیجیے کہ یہ mass information کا ہے۔ اب معلومات کی دستیابی یا کتب حدیث کی فراہمی کے بارے میں کوئی عذر پیش نہیں کر سکتا۔ جو لوگ کمپیوٹر جانتے ہیں، تو اس میں offline یا online دونوں ہی سورسز ہیں۔ میں مذاق میں کہا کرتا ہوں کہ اب تو سب سے بڑے محدث اور علامہ تو Google ہیں۔ Google جو سرچ انجن ہے ، آپ کوئی حدیث کہیے، وہ آپ کو نکال دے گا، صرف اگر آپ یہ جانتے ہیں کہ کس طرح آپ ٹائپ کر سکتے ہیں۔ عربی آپ ٹائپ کر یں تو اس حدیث کی پچیس تخریجیں آپ کے سامنے ہوں گی۔ اگر کسی انسان سے سوال کریں گے تو بولنے سے پہلے آپ کے سامنے ہوں گی۔ یہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ کتابوں سے پہلے مولانا’’Google‘‘ سے پوچھا جائے،یہاں تک کہ ’’Google‘‘ میں تو یہاں تک پتہ چل جائے گا کہ اس حدیث کا کس کس کتاب میں کس کس مصنف نے کہاں حوالہ دیاہے۔ متن میں یا حاشیہ میں۔ پھر اس کے معانی بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کس نے اس سے کیا استدلال کیا ہے۔ یہ توایسی بات ہے کہ جس کے پاس وقت ہو، وہ کر سکتا ہے۔ البتہ Google میں جب کوئی چیز ٹائپ کی جاتی ہے تو دو ملین جواب آتے ہیں اور وہیں ہماری بات ڈھیلی ہو جاتی ہے کہ اتنی تعداد میں کون دیکھے گا۔ دراصل یہ Google کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ آپ کے سوال کا ملین جواب آئے تو بے کار ہے۔ لیکن اس کی جو search techniques ہیں، وہ اگر پندرہ منٹ بھی کوئی کسی ماہر سے سیکھنے کے لیے صرف کرے تو ملین کی بجائے بیس یا دو سو جواب آئے گا۔ اس Google میں ایک گائیڈ ہے۔ اس پر لکھا ہے cheat sheet، یعنی Google کو بے وقوف بنا کر صحیح جواب نکلوانے کا طریقہ۔ کمپنی والوں نے دیا ہوا ہے۔ ایک صفحہ ہے۔ اگر آپ ایک لفظ دیں گے تو دس ملین جواب آئیں گے، اگر دو لفظ دیں گے تو پانچ ملین جواب آئیں گے، تین لفظ دے دیے تو ایک ملین جواب آئیں گے اور اگر کوٹیشن میں ڈال دیے تو بس سو جواب آئیں گے۔ کوٹیشن کا مطلب ہے کہ یہ جملہ تین الفاظ کا پورا دو ۔ اسی طرح اگر آ پ نے اسے کہاکہ مجھے صرف Word document کی فائل چاہیے تووہ آپ کو صرف کتابیں لا کر دے گا، یعنی ویب پر جو اناپ شناپ ہے، وہ سب نکال دے گا۔ اسی طرح اگر آپ کہیں کہ pdf فائل دے دو، presentation دو، تو جیسے آپ کسی لائبریری میں پوچھتے ہیں کہ مجھے فلاں مطبوعہ کتاب لادو، مخطوطہ مت لانا تو اسی طرح Google سے بھی یہ کہاجا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو سی ڈیز ہیں، چند ریالوں میں مثلا پانچ دس ریال میں دستیاب ہیں۔ پچیس تیس ریال سے زیادہ کوئی مہنگی نہیں ہے۔ حدیث شریف کی کتب تسعہ کا مجموعہ اس میں موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پر بھی وزارۃ مذہبی امور نے ڈال رکھاہے۔ اس کے علاوہ اوربھی سی ڈیز ملتی ہیں۔ پھر الموسوعۃ الذہبیہ یا مکتبۃ الالفیہ میں اور اسی طرح مرکزالتراث کی سی ڈیز میں ہزاروں کتابیں ہیں۔ یہ سب کمرشل پروگرام ہیں۔ ان کے علاوہ فری پروگرام بھی ملتے ہیں۔ المکتبہ الشاملۃ کے نام سے ایک مجموعے میں دو ہزار کے لگ بھگ کتابیں موجود ہیں۔ اسی طرح موسوعۃ المحدث ہے، اس میں تمام امہات الکتب ہیں۔ یہ بہت ہی sharp ہے۔ اگر فقہ یا تفسیر کی کسی کتاب میں حدیث موجود ہے تو اسی وقت سامنے آجاتی ہے۔ ان سی ڈیز سے حاصل ہونے والے مطلوبہ مواد کو آپ الگ فائلوں میں اپنے کمپیوٹر میں رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس انٹرنیٹ ہے تو آپ کسی تازہ بحث میں، کسی رسالہ میں، کسی کتاب میں یا کتابچہ میں جہاں بھی کوئی حدیث استعمال ہوئی ہو، اس کا پتہ چلا سکتے ہیں۔ مثلاً مجھے حسن بصریؒ کے ایک قول کا حوالہ درکار تھا جو میں نے مجاہد الاسلام قاسمی سے سنا تھا۔ اس میں انہوں نے فقیہ کی تعریف یہ کی تھی کہ اصل فقیہ تووہ ہے جو آپ کے لیے کوئی گنجایش صحیح معلومات کی روشنی میں نکال دے، ورنہ حرام کرنے والا تو ہر مفتی ہے۔ یہ حسن بصریؒ کا بہت مشہور مقولہ ہے۔ پہلے انہوں نے مفتی کی تعریف کی ہے کہ فقیہ وہ ہے جو لوگوں کی عزتوں سے نہ کھیلے، پرہیزگار ہو ،دیانت دار ہو، عالم ہو اور آپ کے لیے یہ کر سکے۔ یہ سن رکھا تھا لیکن انٹرنیٹ اور Google کے ذریعے مجھے صحیح کتاب کا حوالہ مل گیا اور مقولہ بھی مل گیا۔
یہ چند مثالیں ہیں جس سے سمجھ میں آتا ہے کہ اب ہمارے لیے وقت کی کمی کا کوئی عذر نہیں رہا اور ایسا بھی نہیں کہ وسائل بہت مہنگے ہوں۔ اگر ہمیں خود کمپیوٹر استعمال کرنا نہیں آتاتو اپنے شاگردوں اور مساعد ین کے ذریعے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ طالب علمی کے زمانہ میں حرکت میں برکت ہے۔ اگر سب کو اسائنمنٹ دے دی جائے یا کچھ ٹاسک دے دیاجائے اور وہ آسان بھی ہو تو لوگ خوشی سے کریں گے اور اس میں علمی اطمینان اور سکون ملے گا۔ مثلاً جو ہم سنا کرتے تھے کہ امام بخاریؒ نے سات لاکھ احادیث کے مجموعہ سے سات ہزار کا انتخاب کیا یا لاکھ احادیث کا جو تذکرہ سنتے تھے، اب سمجھ میں آگیا ہے کہ وہ کس طرح ہے۔ مثلاً سی ڈیز کے ایسے مجموعے ہیں جن میں اڑھائی اڑھائی لاکھ احادیث جمع ہیں۔ میرے پاس یہ عربی میں ایک ڈاکومنٹ ہے۔ اس میں ان تمام پروگراموں کا نام درج ہے اور یہ معلومات بھی درج ہیں کہ کس کس پروگرام میں کون کون سی کتابیں ہیں اور کتنی احادیث ہیں اور کتنے راویوں پر کلام ہے، کتنی تخریجات ہیں۔ مثلاً ایک میں لکھاہے کہ اڑھائی لاکھ حدیثیں ہیں اور تقریباً ایک لاکھ احادیث پر کسی نہ کسی محدث کا قول بھی ہے، یعنی ضعفہ فلان وصححہ فلان۔ یہ تصحیح وتضعیف بھی ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔ جیسے ہم فقہی اقوال محنت سے پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں، کیوں کہ ہمیں معاشرے میں جواب دینا ہوتا ہے، اسی طرح احادیث کی صحت اور ضعف کے اقوال بھی ہمیں معلوم ہونے چاہییں۔ تو جو لاکھوں حدیثوں کے بارے میں خیال تھا کہ یہ بس خیالی شکل ہے، اب وہ عملی شکل میں سامنے ہے۔ مثلاً آپ مکتبہ شاملہ میں کوئی حدیث ٹائپ کریں تو آپ کوتمام مختلف اطراف سے پہلی صدی ہجری سے لے کر تیرھویں اور چودہویں صدی تک جتنی کتابوں میں بھی اس کا تذکرہ آیاہے، وہ سب آپ کے سامنے آجائے گا۔ صر ف یہی نہیں کہ یہ حدیث کس کتاب میں ہے، بلکہ اس حدیث پر کس شارح نے کلام کیاہے یا ائمہ مذاہب میں سے کس نے اس سے کیا استنباط کیا ہے۔
میں نے جو کام کیاتھا، وہ تو انگریز ی میں تھا۔ عربی اس زمانہ میں نہیں تھی۔ عربی کمپیوٹر ۸۰ کی دہائی میں آئے۔ ۹۰ تک عربی میں کمپیوٹر آسانی سے available نہیں تھا۔ بہرحال انگریزی میں حدیث کے کتب ستہ کے مجموعے کمپیوٹر پر منتقل کرنے کا کام میں نے ۱۹۸۶ء میں مکمل کر لیاتھا۔ اس کے بعد جب اس میں وسعت ہوئی تو فقہ کی ہدایہ اور دوسری کتابیں نقل کیں۔ پھر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تفسیر کی بعض کتابیں مثلاً تفسیر عثمانی اور اصول تفسیر نقل کیے۔ میں نے تو یہ کام انگریزی میں اپنے ماحول کے لحاظ سے کیا، لیکن اس زمانے میں ریاض میں حدیث کے ایک بڑے استاذ مصطفی عظمی نے بھی تقریباً کئی ملین ریال خرچ کیے اور انہوں نے حدیث کی ریسرچ کو اتنا وسیع کیا کہ مخطوطات کو بھی شامل کر لیا، یعنی جو ڈیٹا بیس بنائی، اس میں صرف حدیث کی مطبوعہ کتابوں کو نہیں لیا بلکہ مخطوطات بھی اس میں ڈال دیے۔ مثلاً صحیح بخاری کے ہزاروں نسخے ہیں تواس میں انہوں نے قدیم سے قدیم نسخے جو ان کو ملے، ان کا عکس ڈال دیا۔آپ چاہیں تو بخاری شریف کا سب سے پرانا نسخہ دیکھ لیں ، ترمذی شریف کا پرانا نسخہ بھی دیکھ لیں۔
حدیث کی authentication معلوم کرنے کا بھی میں نے اہتمام کیا۔ کیمسٹری میں کسی chemical component کا جو سٹرکچر ہوتا ہے، احادیث نبویہ کی جو سندیں ہیں، وہ اس سے بھی زیادہ complexہیں۔ chemical component کا سٹرکچرتو چند محدود نمبر ہیں اور اس کے permutations محدود ہیں، لیکن الحمد للہ میں نے جب حدیث کی سندوں کو کمپیوٹرائز کرنے کا کام کیاتھا تو ہر حدیث کی سند کا ایک الگ کارڈ بنوالیا تھا۔ ہر صحابی کی جتنی سندیں ہیں، ہر ایک کے چارٹ بنوائے۔ یہ نہیں کہ صرف حضرت ابوہریرۃ جن کی ہزاروں حدیثیں ہیں، بلکہ بعض مقلین صحابہ بھی۔ انس بن مالکؓ ان کی بھی اگر حدیث کی سند بنائی جائی تو ایک پوری دیوار اس سے بھر جائے گی۔ نبی کریم سے سیدنا انس، پھر ان سے جتنے تابعین ہیں، پھر تبع تابعین ہیں، آج تک اگر ان کی سندوں کو لیا جائے تو یہ کمرہ ناکافی ہو جائے گا۔ میں یہ کہہ سکتاہوں کہ حدیث کی سند کی جو کیمسٹری ہے، وہ آج کے شیخ الحدیث سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اگر ایک نقشہ بنا دیا جائے تو یہ دیکھ کر انسان مبہوت ہو جائے گا۔ مسلمان کی بات نہیں کر رہا، غیر مسلم بھی دیکھ لے، منکرین اسلام بھی دیکھیں تو مبہوت ہو جائیں گے کہ ایک ایک حدیث کے لیے اتنا مضبوط سٹرکچر موجود ہے اور موثق ہے اور پوری چودہ سوسالہ تاریخ میں recorded ہے۔ اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجایش نہیں ہے۔
تو احادیث کی تلاش ا نٹرنیٹ کے ذریعے آسان تو ہو گئی ہے، لیکن ایسا ہے کہ انٹرنیٹ کو گھاس پھوس کا جنگل بھی کہا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ اسے کوڑا کرکٹ کا جنگل کہتے ہیں۔ دونوں ہی تعبیریں صحیح ہو سکتی ہیں۔ لیکن کوڑاکر کٹ سے یا گھاس پھوس کے جنگل سے صحیح جڑی بوٹیوں کاانتخاب کرنا یہ ہمارا صیادلہ یا اطبا کا کام ہے۔ میرے پاس تقریباً دس پندرہ جو انٹر نیٹ پربڑی بڑی سائٹس ہیں، وہ بھی جو اور سافٹ وئیر دستیاب ہیں، ان کی لسٹ موجود ہے۔
اس کے بعد میں یہ گزارش بھی کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اب ڈیٹا اور انفارمیشن کو جمع کرنے کے مرحلہ سے آگے بڑھ کر استنباط وتخریج اور تجزیے کے مرحلے پر جانا چاہیے، کیوں کہ آج کے معلوماتی دور میں وسائل علم اور ادوات علم کی موجودگی میں کسی بھی موضوع پر تمام اسانید ومتون کی کیمسٹری کا احاطہ کرنے کے بعد غور وفکر کرنے پر زیادہ وقت لگایا جا سکتاہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اس کو جمع کرنے میں مصروف رہیں اور اسی میں ہم ہفتوں، سالوں اور مہینوں حیران وسرگرداں رہیں، ہمیں اگلے مراحل کی طرف بھی بڑھنا چاہیے۔ اگرچہ علم لامحدود چیز ہے اور کبھی بھی علم کی تلاش کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا، لیکن اللہ تعالیٰ نے جیسے فرمایا ہے کہ’’ ویخلق مالاتعلمون‘‘، ہمارے لیے unknown challenges اور challenges unpredictable تو ہمیشہ ہیں۔ جس طرح ایک حدیث انما الاعمال بالنیات سے ہزاروں مسائل نکالے جا سکتے ہیں اور آئندہ بھی جو مسائل پیش آئیں گے، ان پر بھی اس سے روشنی پڑتی ہے اور پڑتی رہے گی۔ تو ان چیزوں کو سمجھنے کے لیے ذہن اور صلاحیت کے استعمال کا اب زیادہ وقت ہے۔ ذہن کے ساتھ ساتھ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا، اعداد وشمار پر مبنی اور معاون معلومات کا استعمال بھی استعمال ضروری ہے۔ مثلاً خمر کے بارے میں جو احادیث میں آیاہے اور جسے اب تک ہم ایمان بالغیب کے طور پر مانتے تھے، اب ایمان بالشہود کے طورپر ماننا پڑے گا۔ کیوں کہ اس وقت دنیا کے بہت سے دانشور اور ریسرچ کرنے والے اور طب والے ڈاکٹرز بھی متفق ہیں کہ یہ ام الخبائث ہے اور بہت سے جرائم کی جڑ ہے۔ اس طرح کے شواہد اور معلومات بہت وسیع پیمانے پر میسر ہیں۔ جس موضوع پر بھی ہم چاہیں، چاہے وہ کوئی نفسیاتی پہلو ہو ، چاہے معاشرتی ہو ، چاہے سیاسی ہو، چاہے سائنسی ہو۔ معلومات کی کمی نہیں ہے ۔ تو ان اضافی معلومات سے بھی مدد لینے کی ضرورت ہے جن سے حدیث کے سمجھنے میں یاحدیث کی تشریح میں آسانی ہوتی ہو، جیسا کہ حضرت مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے بخار کے سلسلے میں میڈیکل سائنس کی تحقیقات کا حوالہ دیا۔ اسی طرح ہمیں فقہی جزئیات اور قراء ت خلف الامام جیسے مسائل سے ہٹ کر سماجی، معاشرتی اور سوشالوجیکل مسائل میں بھی جانے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک حدیث کا استعمال ان عام ضروریات میں نہیں ہوا ہے۔ ذہنی مشق کے طورپر حدیث کے تحت ہم جو فقہی مباحث کرتے ہیں، ان میں، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ہم نے حدیث کو فقہ کا تابع بنا دیا ہے، کیونکہ ہمارامزاج فقہی ہو گیاہے۔ میں اپنے آپ کو بھی اس میں شامل کرتا ہوں۔ میں بھی اسی ترتیب کا پڑھا ہوا ہوں۔ تو حدیث کو آزادکرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے زاویے سے دیکھنے کی بجائے ہم دونوں آنکھوں سے دیکھیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں اور جو اس کے دوسرے پہلو ہیں، ان کو بھی سمجھنے اور سوچنے کے لیے وقت نکالیں، بجائے اس کے کہ اپنے مسلک کی کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے چند فقہی اختلافات میں الجھے رہیں۔ چند مسائل پر بطور نمونہ کے بحث کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن سال کا بیشتر حصہ اس پر لگادینا اور بقیہ جتنے مسائل ہیں، ان سب کو نظر انداز کر دینا، یہ علم حدیث اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ناانصافی ہے۔
الحمد للہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجاز سے جو سند حدیث لائے تھے، اس کا اب تک رواج ہے، یہاں تک شام میں، مصرمیں، بحرین اور سعودیہ میں، ہرجگہ شاہ ولی اللہ کی سند یں ہی سب سے عالی سندیں ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہ شاہ ولی اللہ صاحب صرف حدیث لائے اور اس پر ریسرچ کی، بلکہ ان کی خدمات کی بدولت ہم نے پچھلے دو ڈھائی سو سال میں برصغیر میں حدیث کو گویا ایک ایسی commodity بنایا جو اب برآمد کی جاتی ہے۔ ہماری سندیں عالی ہیں، بس یہ کہ ہمارے ہاں وسائل اور علمی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے تحقیق کا معیار بہت اعلیٰ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو تخصص کے شعبے ہیں، ان کو تھوڑاسا imaginative ہو کر موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے اور اسلوب علمی کا انتخاب اس طرح ہو کہ ہمارے معاشرتی، معاشی، سماجی، سیاسی اور اجتماعی مفادات کے لیے بھی حدیث کا استعمال ہو۔ مجھے تو معلوم نہیں کہ یہاں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم میں حدیث کا کتنا استعمال ہے اور کتنا نہیں ہے۔ ماہرین تعلیم ہی بتا سکتے سکتے ہیں کہ اسلامیات جو یہاں پڑھائی جاتی ہے، ایک مسلم معاشرہ کی تعمیر کے لیے اس میں حدیث کو کما حقہ جگہ دی گئی ہے یانہیں۔ یہ مسئلہ آپ لوگوں کے فکر کرنے کا ہے۔ میں تو صرف توجہ ہی دلا سکتا ہوں۔
آخر میں، میں چاہوں گاکہ ایک تجویز جو میرے ذہن میں تھی، وہ آپ کے سامنے بھی پیش کر دوں۔ ہم ایک ایسے زمانے میں رہ رہے ہیں جہاں ہر چیز کی ماشاء اللہ فراوانی ہی فراوانی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج ہم کسی چیز کیکمی کا شکار ہیں۔ نہ افرادی قوت کی قلت کا شکارہیں اورنہ مالی وسائل کی۔ مجموعی طورپر میں امت کی بات کر رہا ہوں اور مجموعی طور پر ہر ایک ملک کو بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے پاس چیلنجز اور مشکلات کی کمی بھی نہیں ہے۔ اس کی بھی فراوانی ہے ۔ تو ضرورت یہ ہے کہ ہم چیلنجز کو سمجھ کر ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا اضافہ کریں اور صلاحیت میں اضافہ کے لیے ہمارے پاس tools موجود ہیں، لیکن ہمیں ان کو صحیح اور بروقت استعمال کرنا آنا چاہیے جس کے لیے ہم غور وفکر کرنے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔ مثلاً ایک چیز جو شاید ابھی برصغیر میں اس طرح سے نہیں آئی، لیکن خلیج یعنی مکہ مکرمہ ہیءۃ الاعجاز العلمی فی الکتاب والسنۃ ایک مستقل نئی سائنس بن گئی ہے۔ قرآن وحدیث میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو معجزاتی طاقت رکھتی ہیں، ایسے statements یا حقائق اور بیانات ہیں جو scientifically proven ہیں اور اعجازی عنصر رکھتی ہیں۔ اس میں اتنے مسائل ہیں کہ میرا خیال ہے کہ شاید فقہی مسائل سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ آپ اس کو ان کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں رابطہ کے تحت بڑا منظم کا م ہو رہاہے اور ان کا ایک چینل ’’الاعجاز العلمی فی القرآن والسنۃ‘‘ بھی ہے۔ قرآن پر بھی کام ہو رہا ہے اور حدیث پربھی کام ہو رہا ہے۔ تو میں یہ چاہوں گا کہ آج کی نشست میں ہم نے بہت ساری چیزوں پر غور وفکر کرنا ہے اور ہم نے اس بات کی ضرورت کا اظہار کرنا ہے کہ
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
مطلب یہ ہے کہ شریف کے علوم میں، حدیث شریف کی ریسرچ میں اور حدیث شریف کی خدمت میں ہر چیز کا علاج ہے۔ یہ آج کی بات سے بالکل واضح ہے، لیکن ہم چند مسائل پر اور چند ہی پہلو ؤں پر توجہ مرکوز کر کے انہی پر قناعت کر رہے ہیں۔ تو میں اگر یہ تجویز دوں کہ اب اس وسائل کے زمانے میں جس طرح تعلیمی سپلیمنٹ کے طور پر دنیا میں میوزیم ہیں، سائنس کے میوزیم ہوتے ہیں، ہسٹری کے میوزیم ہوتے ہیں، نیچرل میوزیم ہوتے ہیں، اسی طرح علوم دینیہ کا اسلامی میوزیم کیوں نہیں ہے۔ تعلیمی مددگار کے طور پر، تفریح کے طور پر نہیں۔ الااعجاز العلمی فی القرآن والسنۃ یا صرف الاعجازالعلمی فی السنۃ کے تحت ایک حدیث کا ٹکڑا لیا جائے اور اس کی تشریح میں وہ معلومات درج کی جائیں جو آج کل کی سائنسی تحقیقات نے مہیا کی ہیں تو بلاتعصب کسی بھی مذہب کا ماننے والا دیکھے گا تو اس حدیث کی حقانیت کا موجود ہ علم کی روشنی میں قائل ہو جائے گا۔ آج کی general scientific knowledge اور معلومات انسان کے پاس ہیں، لیکن جب وہ ایک میوزیم میں اس کا ربط حدیث شریف سے دیکھے گا تو غیر مسلم بھی اس کا قائل ہو جائے گا کہ ہاں، یہ بات تو صحیح ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تھے مکہ مکرمہ میں تو خانہ کعبہ کے صحن میں آ پ نے فرمایا تھا کہ انکم لتعجلون واللہ لیتمن ہذاالامر، کہ یہ جو میں پیغام لے کر آیا ہوں، یہ تو ساری دنیا میں پھیلے گا اوریہ پورا ہو کر رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال دی تھی کہ طواف کرنے کے لیے تنہا عورت یمن سے آئے گی تواسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ یہ اس ماحول میں بات کی گئی کہ کوئی آدمی اپنے محلہ سے باہر جاتا تو اس کو جان کو خطرہ ہوتا تھا۔ اشہر حرم کے علاوہ کوئی بغیر امان اور حفاظت کے سفر نہیں کر سکتا تھا۔ وہاں یہ بات ہو رہی ہے کہ امن وامان اور سفر اتنا عام ہو جائے گا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام تھا کہ امن وامان، صلح اور عدل وانصاف جو آفاقی اقدار (universal values) ہیں اور جنھیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے طور پر مانتے ہیں، یہی اخلاقی اقدار human values ہو جائیں گی اور ایک ایک کر کے ہو رہی ہیں۔
اسی طرح احادیث شریفہ میں اعجاز علمی ہے۔scientific اور حکمت کی باتیں ہیں۔ خود قرآن مجید میں حدیث کو حکمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ’یعلمہم الکتاب والحکمۃ‘ ۔تعلیم الکتاب تو کتاب ہے، اور تعلیم حکمت کیا ہے؟ حدیث۔ اس میں حکمت کی جو باتیں ہیں، اتنی زیادہ ہیں اتنی complex ہیں اور اتنی پھیلی ہوئی ہیں کہ ہم صرف الفاظ سے انسانوں کو convey نہیں کر سکتے۔ اس کا visual presentation کرنا ہوگا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔ لکیریں کھینچ کھینچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلایا۔ یہاں Power Point کے ذریعے اور projector کے ذریعے اس کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ کیونکہ audio visual سے ہماری توجہ مرکوز رہتی ہے اور یہ سمجھنے سمجھانے میں، اور باتیں یاد رکھنے اور انہیں محفوظ رکھنے میں ایک حد تک انسانوں کو آسانی فراہم کرتے ہیں۔ تو یہ جو میوزیم کی میری تجویز ہے، بس ایک خاکہ ہی ہے ذہن میں کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے کسی کو، مجھے یا کسی او ر کو۔ حدیث شریف کا میوزیم ایک تو ہے اعجاز کے لحاظ سے، حکمت کے لحاظ سے، اور دوسرا میں کہتا ہوں کہ mechanically اگر احادیث کاچارٹ بنا لیا جائے کہ کتنے صحابہ ہیں جنھوں نے احادیث نقل کی ہیں تو نہ معلوم کتنے سو کمروں میں، صرف سندوں کے چارٹ ہی ہوں گے، متن تو دور کی با ت ہے۔ سند کا چارٹ دیکھ کر ہی انسان مبہوت ہو جائے گا، چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ تو میں آج کی گفتگو اس بات پر ختم کروں گا کہ اب یہ زمانہ علم کا ہے، وسائل کا ہے، کھلے ذہن کا ہے، اور مذہبی تعصب موجود ہے لیکن کم ہے۔ مثلاً آج کل جولوگ مسلمان ہو رہے ہیں مختلف نو مسلم طبقوں سے، ہندوؤں میں بھی ہیں، سکھوں میں بھی ہیں، گوروں اور کالوں میں بھی ہیں، مغرب میں بھی، معلو م ہوتا ہے کہ وہ ہماری خوبیوں کو دیکھ کر نہیں ہو رہے بلکہ وہ اسلام کی حقانیت کو دیکھ کر مسلمان ہو رہے ہیں۔ وہ حقانیت جو انہوں نے خود دریافت کی ہے، ہم نے انہیں نہیں بتایا۔ مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ کیوں اتنے لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور آپ لوگ کیا کر رہے ہیں تو ہم نے کہا کہ ہمارا خدا نخواستہ کوئی کردار نہیں ہے۔ وہ خود ہی اسلام کی حقانیت کو سمجھ کر آ رہے ہیں۔ اب تصور کیجیے کہ اگر ہم کم سے کم یہ کرسکیں کہ حقانیت اسلام کو معلومات کی حد تک موجود اور متوافر تو کر دیں، اب ایمان لانا یا نہ لانا اور کسی کا اس کو ماننا اور نہ ماننا، یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لیکن حدیث کو علمی وعقلی اسلوب میں پیش کرنے کے لحاظ سے کیا ہم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کماحقہ اس کا حق دے رہے ہیں؟
جیسا کہ حدیث ہے کہ ’نضر اللہ امرا سمع مقالتی فوعاھا فبلغہا فرب مبلغ اوعی من سامع‘۔ یہ قیامت تک کے لیے ہے۔ جو بیان کرنے والا ہے، جو سننے والا ہے،یعنی اگلی generation جو ہے، وہ بیان کرنے والی generation سے زیادہ سمجھ دار ہو سکتی ہے۔ یہ قیامت تک کے لیے تسلسل کے ساتھ ہے۔ یہ نہیں کہ پہلی صدی کے لیے کہا گیاہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے کہ آج کے محدث اور شیخ الحدیث سے زیادہ سمجھ دار اس کا شاگر د ہو سکتاہے۔ معاف کیجیے گا کہ گستاخی ہوئی، لیکن میں حدیث ہی کی بات کر رہا ہوں۔ حدیث میں ہے کہ فرب مبلغ اوعی من سامع۔ اور اس میں، میں غیر مسلم کو بھی شامل کر سکتا ہوں۔ کبھی کبھی ایک غیر مسلم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کو ہم سے زیادہ سمجھتاہے۔ ایک سائنٹسٹ ہم سے زیادہ سمجھ سکتا ہے۔ مورس بوکائی کی کتاب اٹھا کر دیکھیں۔ میںیہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ایمان میں کمی ہے۔ ہمارا ایمان بالغیب، بالاجمال ہے اوراللہ تعالیٰ ہمیں اسی ایمان سے نجات دے دے، یہ ہماری خوش قسمتی ہوگی، لیکن ایمان بالتفصیل اور ایمان شہود العیان کے طورپر بھی ممکن الحصول ہے، اگر ہم اس کے لیے بھی ہمت کریں۔
تو حدیث کو اس کا پورا حق دینا چاہیے اور اس کی کماحقہ خدمت کرنی چاہیے۔ اس کے لیے عملاً جو کچھ بھی اصلاح ضروری ہے مدرسوں میں، منبر میں، محراب میں، اور وسائل کے ذریعے ، ان سب کی تجویز تو آگئی ہے لیکن ختام ا لمسک کے طورپر میں چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو توفیق دے اور سب سے پہلے اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دیں اور دوسرے لوگوں کو بھی جن کے پاس وسائل ہوں کہ وہ ایسا بڑا تعلیمی میوزیم بنا سکے جہاں ہرحدیث کی حقانیت، حدیث کی ریسرچ، حدیث کی شرح اور اس کی اسناد کا visual presentation معجزانہ اسلوب کے ساتھ موجود ہو۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔