(۱)
محترم مولانا زاہد الراشدی، زید مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
جیساکہ اطلاع ہے، آپ ان دنوں آپ ہمارے پردیسی دیس میں ہیں۔ خوش آمدید۔ امید ہے مشافہۃً بھی پذیرائی کا موقع ملے گا۔ اس ماہ کا الشریعہ دو ہی دن ہوئے ملا ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ بات وفاق کے ایسے صاف و صریح تبصرہ تک پہنچ گئی۔ بظاہر اس سے پہلے کوئی ذاتی رابطہ بھی اس موضوع پر نہیں کیا گیا۔ بہرحال خدا کرے کہ ’’ماوقع‘‘ میں سے خیر نکلے۔
شمارہ کی سب سے پہلی چیز اس کا ’’کلمۂ حق‘‘ تھی۔ آپ کے محترم غامدی صاحب جس تسلسل سے ایک مستقل موضوع الشریعہ کاچلے آتے ہیں، اس سے مجھ ایسے ایک قاری کو بھی جو کچھ زیادہ دلچسپی اس موضوع میں نہ لیتا ہو، ایک تأثر، کم از کم الشریعہ کی نگاہ میں، ان کے کچھ نہ کچھ ہونے کابہر حال ملتا ہے۔ اس دفعہ کا آپ کا کلمۂ حق بھی اسی موضوع کی نذر تھا اور وہ قدرتی طور پر اس تأثر کواور گہرا کرنے والا۔ مگراس میں سنت کے بارے میں موصوف کے اپنے تصور اور اس کی بنا پر سلف کے تصورِ سنت کا تنقیدی تجزیہ دیکھ کر سوچنے لگا کہ کیا یہ واقعی آپ کی اس قدر سنجیدہ توجہ کا مستحق تھا جس قدر سنجیدگی سے آپ نے کچھ جوابی معروضات آں موصوف کی خدمت میں پیش کی ہیں؟ مگر اس سے کچھ زیادہ دخل در معقولات کا ارادہ میں نہیں رکھتا تھا کہ آگے ورق گردانی میں ’’غامدی صاحب کے تصورِ سنت پر اعتراضات کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے مضمون نظر پڑ اتو قدرتی طور سے ایک اچٹتی نگا ہ اس پر بھی ڈالے بغیر نہ رہا جا سکا۔ اوریہاں تو سنت کے ساتھ موصوف کا وہ معاملہ دیکھا کہ بلامبالغہ پرویز صاحب کی یاد تازہ ہو گئی، جو قرآن و حدیث کی تفسیر و تشریح میں آزاد شاعری والا معاملہ رکھتے تھے کہ کسی ضابطہ و قاعدہ سے استناد کی اس میں انھیں ضرورت نہ تھی۔ وہ بجائے خود سند ہو گئے تھے، اور ماننے والے انھیں ملے۔
مذکورہ مضمون میں داڑھی سے متعلق حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مفہوم پر موصوف کا ایک اقتباس دوسرے ہی صفحہ پر ملتا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ مبارک’’ مشرکوں سے مختلف وضع اختیارکرو،داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں گھٹاؤ‘‘ (خالفوا المشرکینَ اوفِروا اللحیٰ واعفوا الشوارب) سے آپؐ کامدعا و مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’(لوگ) بڑھانا اگر چاہتے ہیں تو داڑھی بڑھا لیں مگر مونچھیں ہر حال میں پست کریں۔‘‘ یعنی داڑھی بڑھانے کا حکم نہیں، صرف اباحت واجازت تھی، جبکہ مونچھوں کی تراش کے بارے میں حکم تھا۔ کہنا چاہیے کہ یہ بیانِ اباحت بھی خاص طور پر گویا ان کے لیے تھا جو مونچھیں کچھ نہ کچھ بڑھانے کے شوقین ہی ہوں، کہ اس کاایک بدل ان کے شوق کی ایک گونہ تسکین کو مل جائے۔ پورا اقتباس آپ خود دیکھ لیں، جس میں ارشاد کے ا س مبینہ مفہوم کے ماتحت اس کی حکمت بھی بیان ہوئی ہے۔ میں بڑا حیران ہوں کہ کیا حدیث کے ساتھ اس طرح پیش آنے والوں کو بھی وہ اہمیت آپ جیسے اہلِ علم اور پشتینی خادمانِ حدیث کے یہاں دی جا سکتی ہے جو الشریعہ کے تقریباً ہر شمارہ سے نمایاں رہتی ہے! کم از کم مجھے تو نہیں معلوم کہ زبان کاکون سا قاعدہ الفاظِ حدیث کا یہ ’’شتر گربانہ‘‘ مطلب بھی لے لینے کی اجازت دیتا ہے۔ میں یقیناًبہت کم علم ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا کوئی قاعدہ آپ کے علم میں بھی نہ ہو گا۔ البتہ اپنے اس گمان میں مجھے شبہ اس لیے کرنا چاہیے کہ الشریعہ نے اس بیانِ مدعا پر کوئی تردیدی یا اختلافی نوٹ دینے کی ضرورت نہیں سمجھی ہے۔
ضمناً ایک اور گزارش بھی۔ فروری کا الشریعہ میں نے لکھنؤ میں پڑھا تھا۔ واپسی ابھی دو ہفتہ قبل ہوئی ہے۔ اس میں بھی ایک چیز چند سطروں کی طالب تھی۔ ’’مقامِ عبرت‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تھا جس میں سورۂ نساء کی آیت ۱۵ (والٰتی یأتینَ الفاحشۃ مِن نسآئکم) کی تأویل کے بارے میں صاحبِ مضمون نے غامدی صاحب کے بارے میں عزیزِ گرامی حافظ عمار خاں صاحب کے حوالہ سے نقل کیا تھا کہ ’’جناب جاوید احمد غامدی نے مولانا اصلاحی کی راے کے اس پہلو سے تو اتفاق کیا ہے کہ یہ آیت زنا کے ان مجرموں سے متعلق نہیں جو کسی وقتی جذبات کے غلبہ میں زنا کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں بلکہ دراصل زنا کو ایک عادت اور معمول کے طور پر اختیار کرنے والے مجرموں سے متعلق ہے۔‘‘ میں قرآنِ پاک کو سمجھنے کی کوشش میں مولانا اصلاحی کی کتاب سے بھی استفادہ کرنے والوں میں ہوں۔ کچھ ہی پہلے اپنے سلسلۂ محفلِ قرآن میں اس آیت سے گزرتے ہوئے مولانا کی تدبرِ قرآن بھی دیکھی تھی اور ان کی جو رائے تھی، وہ بہت بہتر معلوم ہوئی تھی۔ اور وہ کسی بھی طرح یہ نہیں تھی جس کی نسبت ان کی طرف کی گئی ہے، جس سے عہدِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلم معاشرہ کے بارے میں ایک کریہہ تصور کو راہ ملتی ہے۔ میرے پاس انجمن خدام القرآن کا ۱۳۹۶ کا مطبوعہ نسخہ ہے ۔اس میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس میں ’’ ایک عادت اور معمول کے طورپر ‘‘ والی بات کا شائبہ بھی ہو۔ میں مولانا کا حق سمجھتا تھا کہ ان کی براء ت میں یہ سطریں آپ کو لکھ دوں۔
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی
(۲)
برادر مکرم مولانا عمار خان ناصر مدظلہ
السلا م علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی!
یکے بعد دیگرے آپ کے ارسال کردہ کئی ’’علمی تحائف‘‘ موصول ہوئے۔ ان نوازشات پر آپ کا شکر گزار ہوں۔
آپ کا ارسال کردہ تازہ کتابچہ جو آپ نے مولانا مفتی عبدالواحد کی تنقیدات کے جواب میں لکھا ہے، اس سے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ بعض اسلاف کے تفردات کی آڑ میں آپ اجماع سے انکار کر رہے ہیں۔ اجماع کی آپ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ واللہ اعلم با لصواب۔
محترم! آپ فرماتے ہیں کہ سلف صالحین کی کتابوں سے ہٹ کر کوئی راے قائم کرنا درست ہے۔ اس پر آپ نے کئی مثالیں تحریر کیں جو کہ تفردات کے ضمن میں آتی ہیں۔ احقر نے الشریعہ اکیڈمی میں بھی اپنے ایک مختصر بیان میں حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ سے سوال پوچھا تھا کہ تفردات اور فکری گمراہی میں حد فاصل کیا ہے؟ لیکن حضرت نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ آپ سے بھی اسی سوال کا جواب مطلوب ہے۔ کیا آپ وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے؟
مخدوم گرامی! آپ نے آزادی اور لااکراہ کا جو نعرہ بلند کیا ہے، اس کے بعد آ پ غلط عقائد وافکار واعمال رکھنے والوں کو کیسے روک سکیں گے؟ وہ بھی تو یہی کہیں گے کہ اسلاف کی راے کے خلاف راے قائم کرنا جائز ہے، اس لیے ہم کسی تنقید کو نہیں مانتے۔ ما ہو جوابکم فھو جوابنا۔
محترم! میں بعض معاصرین کی طرح بازاری لہجہ میں گفتگوکا قائل نہیں ہوں، لیکن آپ کو برادرانہ طور پر تنہائی میں بارہا سمجھا چکا ہوں۔ آپ لا جواب ہو جاتے ہیں، مانتے نہیں ہیں۔ احقر کو آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ اپنی علمی جدوجہد اس انداز میں کیوں نہیں کرتے کہ عوام وخواص سب کو فائدہ ہو۔ الٹا آپ نے حضرت راشدی صاحب کو بھی صحیح بخاری کے ترجمہ ومختصر حواشی کے کام سے روک دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اگر دارالسلام والے صحیح بخاری پر کام کر رہے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب قیامت تک کسی اور کو اس پر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، سب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں؟
نئی آرا وافکار آپ جیسی باریک بینی سے تلاش کرتے ہیں، وہ قابل داد ہے۔ علم وذہانت آپ کا خاندانی ورثہ ہے۔ لیکن ناراضگی معاف، آپ اس خدا داد نعمت کو صحیح استعمال نہیں کر رہے۔ آپ غامدی صاحب کے پسندیدہ موضوعات کو ہی زیر بحث لاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے، آپ بہتر جانتے ہیں۔
کتابچہ کے آخری صفحہ پر آپ نے اہم بات لکھی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ علمی تفردات امت محمدیہ نے کبھی قبول نہیں کیے۔ الحمدللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’لاتجتمع امتی علی الضلالۃ‘ ( او کما قال علیہ السلام) کا تقاضا بھی یہی ہے۔ لیکن آپ نے اپنا سارا وزن تفردات کے پلڑے میں کیوں ڈال رکھا ہے، جب کہ ان کے قبول عام نہ ہونے کا آپ کو اعتراف بھی ہے؟ بالفاظ دیگر آپ کی سعی عملاً لاحاصل ہے، تاہم حسن نیت کاثواب تو آپ کو مل ہی جائے گا۔ کیا آپ ایک بے فائدہ وبے نتیجہ کام پر نظر ثانی کرنا اور اسے چھوڑنا پسند فرمائیں گے؟
ان گزارشات کی تلخی پر معذرت خواہ ہوں۔
(مولانا) مشتاق احمد
استاد جامعہ عربیہ چنیوٹ
(۳)
برادر مکرم مولانا مشتاق احمد صاحب زید مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ نے اپنے عنایت نامے میں، تلخی کے ساتھ ہی سہی، جس ہمدردی، محبت اور خیر خواہی کا اظہار فرمایا ہے، اس کے لیے شکر گزار ہوں، البتہ شکوہ یہ ہے کہ آپ میری آرا کا جائزہ میرے زاویہ نگاہ سے لے کر ان کی غلطی واضح کرنے کے بجاے ہمیشہ اپنے ذہنی تحفظات اور تعصبات کے تحت ہی ان پر غور فرماتے اور میری بات سمجھنے کے بجاے ہمیشہ اپنی بات ’’سمجھانے‘‘ کی کوشش کرتے ہیں۔ ممکن ہے، آپ اور آپ جیسے دوسرے مخلص دوستوں کے نزدیک خلوص کا تقاضا یہی ہو، لیکن کسی علمی اور فکری بحث میں اگر آپ مخاطب کے سوالات کو ہمدری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہ کریں تو اس کے ساتھ کی جانے والی ساری گفتگو درحقیقت خود کلامی بن جاتی ہے اور بحث کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ ’’ہم اس کے قائل نہیں کہ بے فائدہ بحثوں میں الجھیں۔‘‘
بہرحال آپ نے جو چند نکات اٹھائے ہیں، ان سے متعلق مختصراً اپنی معروضات پیش کر رہا ہوں۔
آپ نے فرمایا ہے کہ ’’تفردات اور فکری گمراہی میں حد فاصل کیا ہے؟‘‘ میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی حد فاصل موجود نہیں تو ’’علمی تفرد‘‘ اور ’’فکری گمراہی‘‘ کی الگ الگ اصطلاحات وضع کرنے اور ان کو الگ الگ مواقع پر استعمال کرنے کا تکلف ہی کیوں کیا گیا ہے؟ یہ فرق ایسا واضح ہے کہ مثال کے طور پر میں نے اکابر اہل علم کی جو منفرد آرا نقل کی ہیں، آپ بھی انھیں ’’فکری گمراہی‘‘ قرار نہیں دیں گے اور نہ کبھی انھیں اس طرح تنقید کا موضوع بنائیں گے جس طرح آپ بہت سی ’’فکری گمراہیوں‘‘ کو بناتے ہیں۔ اگر آپ کا ذہن عام راے سے علمی اختلاف اور فکری گمراہی میں فرق کرنے سے اتنا ہی قاصر ہے تو آپ اپنے اس طرز عمل کی کیا توجیہ کریں گے؟
آپ فرماتے ہیں کہ آزادئ فکر کا نعرہ بلند کرنے کے بعد ’’آ پ غلط عقائد وافکار واعمال رکھنے والوں کو کیسے روک سکیں گے؟‘‘ یہ سوال اس مفروضے پر مبنی ہے کہ کسی فکری یا عملی گمراہی کی غلطی واضح کرنے کا حتمی اور فیصلہ کن معیار یہ ہے کہ آپ اس کا سلف کے نقطہ نظر کے خلاف ہونا ثابت کر دیں۔ میرے نزدیک یہ طریقہ عوام کی سطح پر تو مفید ہو سکتا ہے، لیکن علمی لحاظ سے ایک بے حد کمزور طریقہ ہے۔ علمی سطح پر کسی نقطہ نظر کی غلطی یا گمراہی کو واضح کرنے کے لیے براہ راست اس استدلال کو موضوع بنانا ہوگا جو قرآن وسنت کے نصوص کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے، اور اکابر اہل علم نے ہمیشہ یہی کیا ہے۔ پھر یہ کہ اگر، آپ کے مفروضے کے مطابق، ہم سرے سے آزادئ فکر کے حق سے ہی دست بردار ہو جائیں، خواہ وہ محکم اور مسلمہ علمی اصولوں ہی کے دائرے میں کیوں نہ ہو، تو اس سے غلط عقائد اور افکار واعمال کا سد باب کیسے ہو جائے گا؟ جس شخص یا گروہ نے کوئی گمراہی کی راہ اختیار کرنی ہے، کیا وہ ایسا کرنے سے پہلے میرے اور آپ کے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کو دیکھے گا اور ہمیں سلف سے اختلاف نہ کرتا دیکھ کر خود بھی کوئی نئی راہ نکالنے سے باز آجائے گا؟ برا نہ مانیں تو آپ کا یہ ذہنی تحفظ مذہبی ذہن کی سادگی بلکہ سادہ لوحی کی غمازی کرتا ہے۔
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب امت نے کبھی اہل علم کے تفردات کو قبول نہیں کیا تو ان کی وکالت یا ترجمانی سعی لاحاصل کا درجہ رکھتی ہے۔ غالباً آپ کو رازی، شاہ ولی اللہ، ابن تیمیہ، علامہ انور شاہ، مولانا نانوتوی اور مولانا تھانوی رحمہم اللہ سے مخاطب ہونے کا موقع ملتا تو آپ انھیں بھی یہی ’’نصیحت‘‘ فرماتے۔ ازراہ کرم آپ ہی بتائیں کہ اس طرز فکر کو کس حد تک ’’علمی رویے‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے؟ کیا کسی صاحب علم کے اپنی راے پیش کرنے یا کسی راے کی تائید کرنے کا مقصد اور محرک یہ ہوتا ہے یا ہونا چاہیے کہ اسے لوگوں میں قبول عام حاصل ہو جائے؟ معاف کیجیے، یہ ذہنیت پیری مریدی کے حلقوں اور فرقہ وارانہ تعصبات رکھنے والے گروہوں کی تو ہو سکتی ہے، لیکن خالص علمی سطح پر قرآن وسنت پر غور کرنے والے اہل علم نے کبھی اس کی آرزو کی ہے اور نہ کوشش۔ آپ کے نزدیک اگر کسی سعی کے باحاصل یا لاحاصل ہونے کا معیار یہی ہے تو مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے بارے میں علم وتحقیق سے شغف رکھنے کا جو حسن ظن رکھتا ہوں، شاید مجھے اس پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔
محمد عمار خان ناصر
(۴)
فضیلۃ الشیخ محترم مولانا زاہد الراشدی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے حالیہ شمارے کو انٹرنیٹ پر دیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں ماہنامہ وفاق المدارس کی طرف سے عمار خان ناصر صاحب کی کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ کے حوالے سے ان کی تنقید اور تبصرہ پڑھنے کا موقع ملا۔ ساتھ ہی آپ کی طرف سے اس عزم کا اظہار بھی کہ آئندہ شمارے میں ان اعتراضات کا مفصل جواب دیا جائے گا۔
استاذ محترم! میں اپنے بچپن سے یہ باتیں سنتا پڑھتا چلا آ رہا ہوں۔ کہیں دار العلوم دیوبند کے یہ فرزندان جو کبھی علم کی شمع فروزاں کیے رکھتے تھے، اب وہ حیاتی اور مماتی کے لاحاصل مناظروں میں اپنی صلاحیتیں کھپاتے دکھائی دیتے تو کبھی سیاسی محاذ پر مولانا عبد اللہ درخواستی گروپ، مولانا فضل الرحمن گروپ اور مولانا سمیع الحق گروپ میں منقسم دکھائی دیے۔ کہیں یہ فرزندان اسلام اپنے معمولی اختلافات کو مناظرانہ رنگ دے کر اخبارات تک میں ایک دوسرے کے اعتراضات کے جواب اور پھر جواب الجواب میں مصروف رہتے۔ دیوبند کے یہ علما جہاں بریلویوں اور اہل تشیع کے باطل افکار کی تردید کر رہے ہوتے تھے ، وہاں یہ آپس میں بھی دست بگریباں نظر آتے تھے۔ ہم تو اس وقت آپ حضرات کا نام سن کر ادب سے ہی دبک جایا کرتے تھے۔ پھر ہم نے تو ہ طے کر لیا کہ اپنے اکابرین اور اساتذہ کو ہر حال میں احترام سے یاد رکھیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اب معاملہ یہاں تک آ پہنچا ہے کہ وفاق المدارس، جو دیوبندیوں کا نمائندہ مجلہ اور دیوبندیوں کے مدارس عربیہ کا امتحانی بورڈ ہے، وہ آپ کے بیٹے کی کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ کے حوالے سے نہایت برہم دکھائی دیتا ہے۔ ان کے انداز بیان میں شستگی کی جگہ درشتی، شایستگی کی جگہ مناظرانہ جدلیت، قرینے کی جگہ بد سلیقگی نمایاں طور پر دیکھی اورمحسوس کی جا سکتی ہے۔ اختلاف راے کے مختلف مراحل میں دلیل وبرہان کی بے وقعتی تو ہم اپنے بڑوں کے طرز عمل میں اپنے بچپن ہی سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے گفتگو علمی اور تحقیقی معیارات سے ہٹ کر قطعیت کے ساتھ عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔
جو چیزیں ماہنامہ وفاق المدارس میں ’’حدود وتعزیرات‘‘ کے حوالے سے پیش کی گئی ہیں، انھیں پڑھ کر میرا یک طرفہ تاثر، ممکن ہے اس کتاب کے خلاف قائم ہوا ہو، اس لیے اس کتاب کے حصول کے لیے میں نے فوری طور پر رابطہ قائم کیا ہے۔ لیکن میری اختلافی راے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر مناظرانہ کیفیت کا شکار ہو جاؤں، میری سانسیں پھول جائیں، گردن کی رگیں تن جائیں، آنکھیں شعلہ بار ہو جائیں اور منہ میں جھاگ آ جائے۔ ہرگز نہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ میں اس کتاب کو پڑھوں گا۔ اگر اس میں پیش کردہ بیانات اور مواد قرآن وسنت کے خلاف ہوئے تو ایک اختلافی نوٹ کے ساتھ مصنف کی توجہ اس کی علمی اور تحقیقی بے قاعدگیوں کی طرف ضرور مبذول کراؤں گا اور سمجھوں گا کہ جیسے اس عقلیت پرستی کے دور میں اور بہت ساری دیگر کتب موجود ہیں، یہ اسی ذخیرۂ کتب میں ایک اور اضافہ ہے۔
آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ آپ نے ’الشریعہ‘ کے آئندہ شمارے میں ماہنامہ ’وفاق المدارس‘ کے جن اعتراضات کے حوالے سے جواب دینے کا ارادہ فرمایا ہے، اسے منسوخ فرما دیجیے۔ ہم ماہنامہ ’وفاق المدارس‘ کی مجلس ادارت سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ بھی آپس میں علمی اختلاف راے کو اپنی مناظرانہ طبیعت کی بھینٹ چڑھنے سے بچائیں۔
محمد طارق غوری
(فاضل دار العلوم فیصل آباد
پی ایچ ڈی اسکالر پشاور یونیورسٹی)
(۵)
محترم مدیر الشریعہ
السلام علیکم
آج اسلام کی جو تصویر دنیا کو نظر آرہی ہے، اس میں وحشت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسلام خود کش حملہ آوروں کا مذہب بن گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ دہشت گردوں کا مذہب ہے، جب کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم نے تشدد کاراستہ اختیار کر لیا ہے اور پرامن وادیوں کو بارود سے بھر دیاہے۔ میں سزا اور جہاد سے انکار نہیں کرتا۔ دنیا کی دیگر قومیں بھی مذہب کے نام پر جنگ لڑتی رہی ہیں اور ان کے مذہبی قوانین میں بھی سخت سزائیں موجود ہیں، ہر چند کہ اب ان کی حکومتیں مذہب کے زیر اثر نہیں ہیں۔ انہوں نے مذہب کو عبادت گاہوں تک محدود کر دیا تھا اور زندہ رہنے کے لیے الگ سے قوانین بنا لیے ہیں۔
لیکن میں یہاں مختلف بات کہنا چاہتا ہوں۔ اسلام پہلے فلاحی ریاست کا تصور دیتاہے، فرد کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان کے روز گارکا انتظام اپنے ذمہ لیتا ہے۔ مسلمان حاکم اس بات سے ڈرتا ہے کہ اس کی ریاست میں کوئی شخص بھوکا نہ رہ جائے۔ یہ دراصل خوف خدا ہے جسے ہر حاکم کے دل میں ہونا چاہیے۔ سزا دینے سے پہلے اس بات کا اطمینان کیا جاتا ہے کہ یہ شخص گنہگار ہے یا نہیں، لیکن ہم نے تو آغاز ہی سزاؤں سے کیا ہے اور وہ بھی یوں کہ ایک عورت کو مردوں کے ہجوم میں کوڑے مار کر نفاذ اسلام کا اعلان کیا ہے۔ یہاں اصلی یا جعلی کی بحث کیا کر ے گی۔ دنیا بھر میں جو تاثر قائم ہونا تھا، وہ ہو گیا۔ اگر انارکی نے اسی انداز میں فروغ پایا تو پھر بہت سی خود ساختہ عدالتیں قائم ہو جائیں گی اور ہر گلی محلے میں انصاف ہونے لگے گا۔ ہر جگہ کوڑے مارے جائیں گے اور پھانسی گھاٹ ہر چوراہے پر نظر آئیں گے۔
جہاد کی اب مختلف صورت سامنے آئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر شخص نے اعلان جنگ کر دیا ہے۔ انفرادی جہاد نے خود کش حملہ آور پیدا کر دیے ہیں۔ یہ جہاد ی مساجد اور دیگر عبادت گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہر روز لوگ مررہے ہیں اوریہ زمین بے گناہوں کے خون سے سرخ ہو رہی ہے۔ یہ سلسلہ کہاں جاکر ختم ہو گا، کوئی نہیں جانتا۔ ہمارا کام تو صرف اتناہے کہ ہم ہر روز کسی نئے دھماکے کی آواز سنیں اور ایک دن خود کسی دھماکے کی نذر ہو جائیں۔
جاوید اختر بھٹی
(۶)
برادرم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم۔ امید ہے مزاج گرامی بخیریت ہوں گے۔
اپریل کی اشاعت میں ’’مکاتیب‘‘ میں قرآن اکیڈمی کے ایک ریسرچ ایسوسی ایٹ کا مکتوب شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے اپنی اعلیٰ درجے کی کم ظرفی کا نہایت پس انداز میں اظہار کیا ہے۔ میں نے جب کتاب ’’چہرے کا پردہ‘‘ پر تبصرہ آپ کو ارسال کیا تھا تو مصنفین کا نام نہیں لکھا تھا، بلکہ تبصرے میںیہ تک لکھا کہ ’’محمد احسن تہامی نے اس تمام علمی بحث کی ۱۷؍ اقساط کو ایک منظم ترتیب سے بے کم وکاست کتابی شکل میں محفوظ کر کے ارباب بصیرت کے حضور ایک فکری کاوش کے روپ میں پیش کر دیا ہے۔‘‘ (الشریعہ، مارچ ۲۰۰۹، ص ۵۶) غالباً ادارے کی جانب سے کتاب کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے مصنفین کے طور پر پروفیسر خورشید عالم کے ساتھ حافظ محمد زبیر کا نام بھی درج کیا گیا ہے جسے مکتوب نگار نے ’’بددیانتی‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ شاید انھیں بددیانتی کے معنی کی خبرنہیں ہے۔ وہ تو شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکات جیسے الفاظ کسی کتاب میں ان کے مضامین شائع کرنے پر کہے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ کوئی مصنف جب جو کچھ اپنی کج فہم فکر میں آئے، اسے قلم بند کر دینے کے بعد پچھتائے تو اپنی تحریروں کو کتابی صورت دینے والے کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکت کے طعنے کی بجاے اسے اپنی عقل کا ماتم کرنا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مصنف کا یہ مکتوب میرے اس پیرا گراف کا رد عمل ہے کہ ’’حافظ محمد زبیر کے علمی مرتبے اور تحقیق کے اسلوب کے حوالے سے جو تاثر اس کتاب کے مطالعے سے قائم ہوتا ہے، اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انھیں تحقیق کے میدان میں ابھی خاصا سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ خلط مبحث سے کام لیتے ہوئے کس طرح غیر متعلقہ معاملات اٹھاتے ہوئے علمی دیانت کے منافی طرز اختیار کرتے ہیں۔ ان کی عربی دانی کی قابلیت جس طرح ان کے نادر نمونوں سے سامنے آتی ہے، اس کو کوئی اورمثال ابھی تک ہمارے سامنے نہیں ہے کہ وہ کس طرح جابجا الفاظ کے غلط معنی اور کئی مقامات پر احادیث کے غلط ترجمے کر کے ایک افسوس ناک اورغلط روایت کے امین ہونے کابھرپور ثبوت دے رہے ہیں۔ حکمت قرآن مارچ ۲۰۰۶ میں اشاعت پذیر ان کے مقالے میں اٹھارویں حدیث کا ترجمہ انہوں نے جس طرح سے کیا ہے، اس پر افسوس کاا ظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ اصل معاملہ کیا تھا اور حافظ محمدزبیر نے کیا سے کیا کر کے پیش کیا ہے۔ (ص۱۹۰) اسی طرح نہ الفاظ کی دلالت سے نہ معانی کی دلالت سے، نہ ہی لغت کی شہادت سے ’جلباب‘ کامعنی وہ نکلتاہے جو حافظ محمد زبیر نکالتے ہیں۔ (ص ۲۲۲) فضیل بن عباس والی روایت کا مکمل علمی تجزیہ (ص۲۲۷) پڑھ کر ہمیں حافظ محمد زبیر کی علمی استعداد اور طرز استدلال سے جو آگاہی ہوتی ہے، اس پر فاعتبروا یا اولی الابصار ہی کہا جا سکتا ہے۔ غلط تراجم، بودے استدلال، معانی میں تحریف، اور غیر متعلقہ معاملات اٹھانے کی روایت کے ساتھ ساتھ عربی لغت سے ناواقفی کے باعث اگر حافظ محمد زبیر، پروفیسر خورشید عالم کی طرف سے دیے گئے مشوروں کو قبول کر لیں اور آئندہ بحثوں میں زیادہ سنجیدگی اور محنت سے کام لیں تو اس مباحثے کا حق ادا ہو جائے گا۔ ‘‘ (ص ۵۶)
مجھے ایک مبصر کی حیثیت سے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے محاسن ومعائب کو بیان کرنے اور اپنے تاثرات کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کا پورا حق حاصل تھا۔ اگر مصنف اپنے لکھے ہوئے مضامین سے منحرف ہو چکے ہیں تو اس میں تبصرہ نگار کا کیا قصور؟ انھیں چاہیے تھا کہ جن نکات کی طرف میں نے بطور مبصر توجہ دلائی ہے، اگر وہ درست نہیں تھے تو اپنے خط میں ان کے بارے میں اپنا زایہ نظر پیش کرتے۔ لیکن ظاہر ہے کہ مذکورہ نکات کا آنے والے دنوں میں بھی اگر کوئی سائل ان سے جواب مانگے گا تو وہ اپنے قلم کی نب سے کف اڑانے کے سوا کیا کہیں گے۔ اس کے سوا ان کی علمی زنبیل میں ہے ہی کیا؟
مکتوب نگار کو شکایت ہے کہ ’’دار التذکیر کے مالکان میرے نام سے میری اجازت کے بغیر ایک ایسا موقف پیش کر رہے ہیں جو کہ اب میرا نہیں ہے۔‘‘ بہرحال اب جبکہ وہ اپنا نظر ثانی شدہ موقف اپنے زیر اہتمام شائع کر رہے ہیں، انھیں پوری احتیاط اور محنت سے کام لینا چاہیے، کیونکہ اس کے بعد وہ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ’’قرآن اکیڈمی کے مالکان میرے نام سے ایک ایسا موقف پیش کر رہے ہیں جو کہ میرا نہیں ہے۔ جس کسی کو اس حوالے سے میرا موقف جاننا ہو، وہ میری کتاب کی اشاعت کا انتظار کرے۔‘‘
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز