پاکستان میں اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس سے وابستہ اصولی اور اخلاقی تصورات

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

پاکستان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ بنا اسلام کے نام پہ۔ پر پہلے دن سے وہاں اسلامی نظامِ حکومت کے لیے اس انداز کی جدوجہد چل رہی ہے جیسے حکمرانوں کے لیے یہ نظام ایک ناقابلِ قبول چیز ہو! ابتدائی دنوں کی سخت جد و جہد کے بعد اتنی کامیابی اس سلسلہ میں ملی کہ دستور ساز اسمبلی نے’’قراردادِ مقاصد‘‘ نام کی ایک قرارداد پاس کردی۔ یہ گویا ملک کے لیے اسلامی دستور کا سنگِ بنیاد ہوا۔ مگر پھر دستور بننے میں وہ لوہے لگے کہ کہیں ۱۹۷۳ء میں جا کے یہ ہو سکا۔یعنی پاکستان کے قیام پر ایک چوتھائی صدی گزرنے کے بعد۔ یہ دستور بہر حال ایسا بن گیا کہ جو طبقہ اسلامی نظامِ حکومت کی جد و جہد کر رہا تھا، اس نے بھی ضرورت کی حد تک اسے قابلِ قبول مان لیا۔لیکن جتنی بھی حکومتیں اس دستور کے ماتحت بنیں، ان میں سے کسی کا بھی طرزِ حکومت اس طبقہ کے لیے اطمینان بخش نہیں رہا ۔ اسلامی نظام (یا نظامِ مصطفےٰ ) کے نام پر آویزش کا ایک سلسلہ حکومتِ وقت کے ساتھ آج مزید ایک چوتھائی صدی گزرجانے پر بھی برابر قائم ہے۔ اور اس آویزش میں وہ نئے نئے طریقے برتنے کا تجربہ یہ اسلام پسند طبقہ کرتا نظر آرہاہے کہ اس کے مقصد سے ہمدردی کے ساتھ یہ طریقے کسی طرح اس کے مقصد سے ہم آہنگ نہیں دکھائی دیتے۔ نظر ایسا آنے لگا ہے جیسے ،کم از کم فی الحال ،یہ لوگ اسلامی حکومت کے بارے میں اپنے اصل نظریہ کی کامیابی سے مایوس ہو چکے۔ اب مسئلہ کسی نہ کسی طرح بس برِ سرِ حکومت آجانے کا ہے۔ پس وقت ہے کہ اس اسلام پسند طبقہ کو معاملہ کے اس پہلو پر توجہ دلائی جائے۔ 

نیت نیک ہو سکتی ہے، اُس سے بحث نہیں۔ مگر ذرا غور کرنے کی بات ہے ، جنرل مشرف نے نواز شریف کا تخت اُلٹا تو اس پورے اسلام پسند طبقہ کو اس پر نہایت خوش ہوتے دیکھا گیا۔ وقت بدل گیا اور جنرل مشرف سے بات بننے کے بعد بگڑ گئی اور بظاہر وہاں پہنچ گئی کہ اب پھر بننے والی نہیں، تو اس طبقہ کے نمائندے لندن میں انھیں نواز شریف صاحب سے یکجہتی کا اظہار کرنے پہنچ رہے ہیں۔ (معلوم ہے کہ شریف برادران آج کل لندن میں ان ارادوں کے اظہار کے ساتھ فروکش ہیں کہ وہ اب پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کے لیے واپس آرہے ہیں۔)نواز شریف کا تخت اُلٹ جانے پر خوشی کا سب سے اہم باعث ،یا حوالہ، ان کی وہ مخالفِ اُسامہ و طالبان پالیسی تھی جوکارگل قصہ کے سلسلہ میں واشنگٹن سے واپسی پربالکل ایک یو(U) ٹرن کے ا نداز میں موصوف نے اپنائی۔ اور پھر یہی پالیسی جب جنرل مشرف نے امریکہ کی معاونت میں ۲۰۰۱ء میں اپنالی تو اس طبقہ کے سب عناصر نے مل کر آنے والے الیکشن کے لیے ایک مشرف مخالف محاذ ’’متحدہ مجلسِ عمل‘‘ کے نام سے بنا یا اور اسی ( امریکہ دوست اُسامہ دشمن) پالیسی کے حوالہ سے ۲۰۰۲ء میں جنرل مشرف کی مسلم لیگ کے خلاف الیکشن لڑکرکامیابی کاوہ درجہ حاصل کیا کہ دوسروں کو تو اس کا اندیشہ کیا، خود کو بھی اتنی امید نہ رہی ہو گی۔پیپلز پارٹی تک پیچھے رہ گئی۔ لیکن اس کامیابی کے فوراً بعد کیا دیکھنے میں آیا؟ یہ کہ یہ کوشش شروع ہوئی کہ امریکہ اور مغربی ممالک اِن لوگوں کو اسامہ اور طالبان کی نظر سے نہ دیکھیں۔محاذ کی قیادت نے جماعتِ اسلامی کے مرکز منصورہ میں ان ممالک کے سفرا کو اس مقصد کے لیے مدعو کیا ۔اس اجتماعِ سفرا کی جو رپورٹ اخبارات میں آئی، وہ سوائے اس کے کوئی دوسرا تأثر اس کے مقصد کے بارے میں نہیں دیتی تھی۔ تو کیا یہ ابن الوقتانہ(ان الفاظ کے لیے معذرت) طور طریقے ذرا ایک بھی بے نظیر اور نواز شریف جیسے خالص سیاسی لوگوں کے طور طریقوں سے مختلف ہیں؟ اور کیا ان خالص سیاسی لوگوں کے مقاصد کی راہ اور کاروانِ نظامِ مصطفےٰ کے مقصد کی راہ ایک بھی ہو سکتی ہے؟ اور اسی ایک راہ سے منزلیں دونوں کوالگ الگ بھی مل سکتی ہیں؟

اچھا توپاکستان جو اسلام کے نام پر بنا، اس میں’’ اسلام کی حکومت ‘‘قائم نہ ہو سکنے کا آخر وہ مسئلہ کیا ہے کہ اس حکومت کے علمبرداراپنی جد و جہد میں ہرڈھنگ آزماتے آزماتے وہاں نکل گئے ہیں جہاں اس قافلہ کے ایک سالار کو غالب کا یہ شعر حسبِ حال نظر آنے لگ گیاتھا: 

ہاں اہلِ طلب کون سنے طعنۂ نا یافت 
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے 

اللہ جانے کیوں لوگوں کی نظر نہیں جاتی ،یا جان کر انجان بنا جارہا ہے ۔بات تو بالکل سامنے کی ہے! اسلام کے نام پہ بے شک یہ ملک بنا تھا۔ مگر کون سا اسلام؟ مولانا محمد قاسم نانوتوی والا؟مولانا مودودی والا؟یا سر سید اور مسٹرمحمد علی جناح والا اسلام؟ اگر یہ پہلے دو میں سے کسی کا ’’اسلام‘‘ ہوتاتو حضرت مولانا حسین احمد مدنی یہ نہ کہہ رہے ہوتے کہ پاکستان کا رقبہ تو بہت چیز ہے، ہمیں اگراس کے کسی ایک شہر اور کوچہ کے بارے میں بھی یقین ہو کہ لیگی قیادت وہاں اسلام قائم کرے گی تو ہم خیمہ بردار ہو کے چلیں، اور نہ مولانا مودودی اپنے ان لوگوں سے جو پٹھانکوٹ میں اُنھیں سمجھانا چاہ رہے تھے کہ پاکستان بننے سے تو ہمارا کام بڑا آسان ہو جائے گا پس ہم اس کی تائید کریں، یہ فرماتے کہ تم نیبو کے درخت سے آم کھانے کی توقع کرتے ہو! وہاں اسلام کی بات کرنے والوں کو پھانسیاں ملیں گی۔ (اور مولیٰنا تو واقعی پھانسی سے بس بال بال بچے)۔

پاکستان بنوانے والی اصل طاقتیں دو تھیں۔ ایک قائدِ اعظم مسٹر جناح کی ذات ،دوسرے علی گڑھ ۔ دوسرے الفاظ میں کلیدی رول ان کا تھا، باقی بس حمایت یا زینت۔ اور یہ ان دونوں کے تصورِ اسلام ہی کا قصہ تھا جس نے حضرت مدنی اور مولا نا مودودی سے وہ باتیں کہلوائیں ،( یہاں یہ نہ بھولیے کہ یہ ۱۹۴۷ ء سے پہلے کا علی گڑھ تھا ،کوئی آج کے علی گڑھ پہ نہ جائے، آج تو وہاں کی دنیا ہی بدلی ہو ئی ہے۔ پریہ بدلا ہوا علی گڑھ ہندوستان کے حصہ میں آیا ہے۔) خیر،مگر اس کو کیا کیجئے ! کہ دو ہی سال کے اندر جب پاکستان وجود میں آگیا اور مولانا مودودی کو پٹھانکوٹ سے ہجرت کرکے وہاں آنا پڑگیا تواس پاکستان نے ان سے خود ان کی بات کا یقین چھین لیا۔ اور جو کچھ وہ اس نیبو کے درخت سے آم کھانے کی کوشش میں کر سکتے تھے، اس میں کوئی دقیقہ اُٹھا کے انھوں نے نہیں رکھا۔ اسی میں ان کا ساتھ چھوڑتے ہوئے غالب کا وہ اوپر کا شعر مولانا امین احسن اصلاحی کو یاد آیا تھا۔ پر خوشی کی بات ہے کہ بالآخر(اگرچہ ذرا بعد ازوقت) مولیٰنا مودودی کو بھی احساس ہوگیا کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑتے اور لوگوں کو دوڑاتے رہے اور اب ان کا فرض ہے کہ اس کا اظہار کردیں۔ اس قابلِ تحسین واقعہ سے ہم باہر لوگوں کو واقف کرانے کی نیکی مولانا کے ایک زمانہ کے پیرو جناب ارشاد احمد حقانی کے قلم سے انجام پائی۔یہ موصوف کے ایک قسط وار کالم کا حصہ تھا جو یکم تا ۵ نومبر۲۰۰۰ء روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ مولانا نے اس کے مطابق اپنی جماعت کی شوریٰٗ میں اس مضمون کی ایک قرار داد پاس کرانی چاہی تھی کہ ہم پاکستان بننے کے بعد سے ایک غلط راستہ پر چلتے رہے۔ اب ضرورت ہے کہ اپنی صحیح راہ پر واپس جائیں۔مگر یہ وہ وقت (۷۲ء) تھاکہ مولانا کے قویٰ جواب دے رہے تھے۔ وہ اَمارت بھی چھوڑ چکے تھے۔ ۵۷ ء ؁ کا ماچھی گوٹھ والا رول اب وہ ادا نہیں کرسکتے تھے۔ رفقا حامی نہ ہوئے اور وہ بے بس ہوکے رہ گئے۔اللہ مغفرت فرمائے۔

الغرض مسئلہ میں ایک تویہ بنیادی عامل(فیکٹر) علی گڑھ والے اور قائدِ اعظم والے اسلام کا ہے۔ آپ اس سے تجاہل برت کر اس کو کالعدم نہیں کر سکتے۔ یہ ایک گہرا فکری عامل ہے۔ یہ پاکستان کی جڑوں میں پلایا ہوا ہے۔یہ آپ کے والے (یعنی’’ ملّا ‘‘والے) اسلام کی ہر قیمت پر مخالفت کرے گا۔ اس تصورِ اسلام کے لو گ آ پ کی جد و جہد کو اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی ایک کوشش سمجھیں گے۔ اس کے ما سوا ایک دوسرا بڑا مخالف عامل پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اور دَرآیا تھا۔ اور یہ وہ ہے جس کا کھلا اعتراف خود اس اسلامی محاذ نے منصورہ کا مذکورۂ بالا اجتماعِ سفراء بلاکر کر لیا۔یعنی پاکستان کے معاملات میں مغرب اور بالخصوص امریکہ کا فیصلہ کُن عمل دخل۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ پاکستان کے ایک ابتدائی قدم نے اُسے ایسا امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا تھاکہ کوئی حکومت وہاں امریکہ کی مرضی کے بغیر جب سے نہیں بنتی اور نہیں چلتی۔مثالیں اتنی ہیں اور آئے دن دہرائی جا تی ہیں کہ اس اشارہ سے وہ یکایک ذہنوں میں آجائیں گی ۔پس علی گڑھ اور قائدِ اعظم کے تصور اسلام والے لوگ اگراز خود یا کسی دباؤ سے کچھ نرمی بھی اس مسئلہ پر برتنا چاہیں تو مغرب انھیں اجازت نہیں دینے والا۔ اور یہ غریب کہاں سے مزاحمت کاحوصلہ لا سکتے ہیں جب امریکہ دشمنی کے نعروں پر الیکشن جیتنے والے بھی اس کوشش میں لگے نظر آئیں کہ ان کے نعرے بھلا دیے جائیں؟ 

یقین ہے کہ یہ نعرے بھلا دیے جانے کی کوشش محض ایک سیاسی مجبوری کے طور پر تھی نہ کہ دل سے۔اورکسی کو اگر شبہ رہا ہو تو ابھی مارچ کے مہینہ میں کارٹونوں کے مسئلہ پر احتجاج کو ان حضرات نے کارٹونوں سے زیادہ ا مریکہ و یورپ کی سیاست کے خلاف فضا بنانے کے لیے جس زور شور سے استعمال کیا، اس کے بعدکسی کا شبہ بھی قائم نہیں رہنا چاہئے، مگر یہ بات بہر حال طے ہو جاتی ہے اور اس کے ماننے سے مفر نہیں کہ پاکستان میں فی الحال(اور یہ ’’فی الحال‘‘مختصر قسم کی چیز بظاہر نہیں) امریکہ اور یورپ کی رضا کے بغیر کوئی حکومت کا خواب دیکھے گا تو وہ خود کو دھوکہ دے گا۔اور ان کی مرضی سے آکر اسلام نافذ کرنے کا خواب دیکھنے والا اس سے بھی بڑھ کر دھوکہ کھانے کا شوقین ہوگا۔ پس ایک طرف باہرکی ان غیر مسلم طاقتوں کانفوذ اور دوسری طرف پاکستان کی تأسیس میں پلایا ہوا لبرل اسلام، اِن دو اندرونی اور بیرونی مزاحم عوامل (مزید برآں وڈیرے اور جاگیرداران) کے ہوتے ہوئے سیاست کی راہ سے اسلام کو سیاسی طاقت بنانے کی کوشش صرف اپنی قوتوں کاضیاع ہی نہیں، اسلامی جد و جہد کے نام سے وابستہ اعلیٰ اصولی اور اخلاقی تصورات کو بھی لازماً مجروح کرکے رکھ دینے والا عمل ہے۔

دنیا میں رہ کر سیاست سے مفر یقیناً نہیں ہے، خاص کر جب کہ ملک کی سیاست انتخابی ہو۔ مضائقہ جو کچھ ہے وہ (مذکورہ قسم کی صورتِ حال میں) اسلام کو اس میدان میں لے کے آ نے میں ہے۔آخر کیوں ضروری ہے کہ ہم اسلامی نظام کا علم لے کر ہی سیاست میںآئیں؟مگر نہیں ،یہاں ہمیں متحدہ مجلسِ عمل کی اکائیوں میں سے جماعتِ اسلامی کو اس سوال سے باہر رکھنا ہوگا۔ وہ اسلام کی اس تعبیر پر ایمان رکھتی ہے جو اسے مولانا مودودی سے ملی۔اوروہاں اس معاملہ میں شدت کا یہ عالم تھا کہ مصر کے کاروبارِ حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کی شرکت کو ہمارے مفسرین نے جو بغیراس مفروضہ کے لے لیا کہ آپ نے سلطنت کے ہول سول اختیارات حاصل کر لیے تھے، اس پر مولانا نے اِن مفسرین کے بارے میں جو تبصرہ اپنی تفسیر میں رقم فرمایا ہے، اس پریقین اس کے بغیر آنا مشکل ہے کہ بعینہٖ الفاظ نقل کر دیے جائیں۔مولیٰنا کے الفاظ یہ ہیں:

’’حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دورِ انحطاط کے مسلمانوں نے کچھ اسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے توپچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں، ان سب کو وہ نیچے گراکر اپنے مرتبہ پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کابہانہ پیدا کریں۔۔۔۔‘‘ (تفیہم القرآن، حاشیہ آیت ۵۵) 

پس ٹھیک ہے جماعت کو تو عذر ہو سکتا ہے۔ مگر باقی لوگوں ،خاص کرمجلسِ عمل کی سب سے بڑی اکائی جو جمعیۃ علمائے اسلام سے عبارت ہے،اس کے لیے کو ئی دقت نظر نہیں آتی۔ وہ جن بزرگوں کی دینی تشریح کے ماننے والے ہیں، وہ توایک زمانہ تک صد فی صداسلامی حکومت کے سوا سیاست کا کوئی تصورنہ رکھنے اور اس کی راہ میں ہر بازی کھیلنے والوں میں سے ہونے کے باوجود جس دن اس نتیجہ پر پہنچے کہ فی الحال یا کم پر راضی ہوجانا ورنہ تن بہ تقدیر گوشہ میں بیٹھ جا نا ہے، اسی دن وہ شرحِ صدر کے ساتھ اس پر تیار ہوئے کہ ملک (ہند) میں ایسے نظامِ حکومت کی جد وجہد کریں جس میں اسلامی احکام اگرچہ نافذ نہ ہوں، مگر مسلمانوں کواپنی انفرادی اور معاشرتی زندگی اسلام کے مطابق رکھنے،اسلام کا پیغام پھیلانے اور ان کاموں کے لیے ضروری ادارے قائم کر نے کی آزادی ہو۔اور پھریہ جدو جہد ان کی نگاہ میں ایسا فریضہ ٹھیری کہ گو وہ جانتے تھے مسلم لیگ کے اسلامی حکومت کے نعرہ کے مقابلہ میں وہ جیت نہیں پاویں گے اور بحیثیت علمائے دین کے جو وقار انھیں حاصل رہا ہے، اس کو بھی وہ خطرہ میں ڈالیں گے، ہندو سے پیسے لینے کا ذلیل الزام بھی ان پر لگا، اور ہاں مولانا مودودی کا حکومتِ الٰہیہ کی جد و جہد والا فکر بھی انھیں چیلنج کرنے کو سامنے آچکا تھا، مگران میں سے کسی بات کا خوف اور دباؤ ان کے پاؤں میں لغزش نہیں پیدا کرسکا۔ اورآج حالات ببانگِ دُہل شہادت دے رہے ہیں کہ یہ سوچ بالکل صحیح تھی۔فکرِ مودودی کے جو وارثین بھارت میں رہ گئے تھے، چالیس برس تک اسی فکر کا پرچار کرتے رہنے کے بعد عملاً اس حقیقت سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ وہاں سیاست کی راہ سے اسلام کو غالب کرنے کی جد وجہد محض اُلٹا نتیجہ پیداکرنے والا(Counter Productive) عمل ہے ۔پس پاکستان میں بھی جب حالات کی زبان مسلسل پکار رہی ہے کہ دین کو سیاست میں لانے کے لیے وقت سازگار نہیں توبغیر اسلامی نظام کے نعرے کے سیاست میں حصہ لیجئے اور اس قدر ضرور لیجئے کہ دین مخالف عناصر کوبالکل بے مہار ہونے کا موقع نہ ملے، دینی عناصر سیاسی لحاظ سے بے دست و پا نہ پائے جائیں اور اپنے علاقوں میں خدمتِ خلق کے لیے کسی درجہ کا عمل داخل سیاست کے ایوان میں رہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام اور مصر کے کارو بارِ حکومت میں شرکت کی جو بات اوپرآگئی، اُسے غورسے دیکھا جائے تو وہ بھی بالکل صاف صاف بس ایک آنے والی قدرتی آفت اور خلقِ خداکے بیچ میں کھڑے ہوجانے کا رول تھا جس کا موقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو مہیّا کیا جارہا تھا۔اور اس میںیہ راز بھی تھا کہ خدمت کے اس فریضہ کی ادائیگی سے آپ کے لیے اپنے اُس کارِ نبوّت کی وسیع تر انجام دہی کی راہ اس دیارِ کفر میں کھلے گی جس کی ابتدا آپ نے جیل خانہ میں کردی تھی۔ اور پھر بات آگے بڑھ کر بچپن کے خواب ( ’’اِنّی رَأیْتُ الشَّمْسَ والْقمَرَ لی ساجِدِین‘‘) کے حقیقت کے سانچہ میں ڈھل جانے تک پہنچے گی۔ فَصَدَقَ اللہُ العظیم ۔شاہِ مصر کو اپنے ڈراؤنے خواب کی جو دل لگتی تعبیر صرف اپنے یہاں کے قیدی یوسفؑ سے ملی، اس نے اُس کے دل میں آپ کی وہ عظمت و منزلت قائم کی کہ کل تک جو قیدی تھا، اس سے بلا کسی درمیانی مرحلہ کے کہا جاتاہے ’’ اَنّکَ الْیَوْمَ لَدَےْنامَکِینُٗ اَمینُٗ ‘‘ (تم آج سے ہمارے یہاں صاحبِ منزلت اور صاحبِ اعتماد ہو !) تویہ محض تلافئ مافات نہیں تھی، شاہی خواب کے پس منظر میں یہ صاف طورپر بادشاہ کی (بادشاہانہ انداز میں) ایک درخواست بھی تھی کہ آنے والی قحط سالی کے مسئلہ سے نپٹنے کی ذمہ داری تم قبول کرلو !کیا اس پر اللہ کے نبی کو یہ جواب دے کرکہ ہاں ضرور، مگر پہلے گدّی خالی کردو، بادشاہ کے اس نہایت قیمتی اعتماد اور قدر و منزلت کو تباہ کردیناتھا (کہ اچھا ہم توکوئی مردِ خدا رسیدہ سمجھے تھے، پر آپ تو تخت و تاج کی تاک میں نکلے !) یا بے تأمل یہ پیشکش قبول کرتے ہوئے بس اس ذمہ داری کی ضرورت کے مطابق اپنے دائرۂ اختیار کی بات کرنا تھی؟ 

لاریب کہ اللہ کے نبی(علیہ الصلاۃ والسلام) کو یہ دوسری بات ہی زیبا تھی اور اسی مفہوم میں اس کو کہناتھا کہ: اِجْعَلْنی عَلیٰ خَزائِنِ الْاَرْضِ اِنِّی حَفیْظُٗ عَلیمُٗ! ہر گز ہر گز بادشاہ کا کفر اس سے مانع نہیں تھا کہ خلق خداکی ایک غیر معمولی آزمائش کو اپنی اہلیت کے بقدر ہلکا کرنے کا جو موقع اس سلطنت میں اس اعزاز و اعتماد کے ساتھ مل رہا ہے، اسے قبول کریں۔ مگر ہاں، مولانا مودودی کی مجبوری ان کا وہ فہمِ دین تھا جس کی ترجمان ان کی کتاب’’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ ہے۔ اس فہم کی رو سے واقعی حضرت یوسفؑ کو پہلے اسلامی نظامِ حکومت کااختیار مانگنا تھا، پھر چاہے خدمت کا موقع رہتا نہ رہتا۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جون ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter