غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

مفتی نایف بن احمد الحمد

سوال

 گزشتہ ہفتے میں نے اپنی حاملہ بیوی کو طلاق دے دی تھی اور یہ ہماری شادی کے بعد کی تیسری طلاق تھی۔ چند روز کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ شدید غصے کی حالت میں طلاق دینے والے کے بارے میں علماے کرام نے بتایا ہے کہ ایسا شخص غصے کی شدت کے لحاظ سے تین قسم کے حالات سے ہو سکتا ہے:

۱۔ غصے کی ایسی حالت جس میں طلاق دینے والا وقتی طور پر آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور یہ احساس کھو بیٹھتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں دی جانے والی طلاق نافذ نہیں ہوتی۔ 

۲۔ غصے کی ایسی حالت جو اول الذکر سے کم ہو لیکن بہت ہی شدید غصے کی حالت ہو، اس کیفیت میں دی جانے والی طلاق کی بابت علماے کرام اور ائمہ عظام اختلاف کرتے ہیں کہ آیا یہ طلاق نافذ ہوگی یا نہیں ۔ جن ائمہ کرام نے اس طلاق کے نافذ نہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے، ان میں ہمارے ملک کے مفتی اعظم ابن باز، دوسرے بزرگ عالم ابن عثیمین اور سلف میں سے حافظ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ شامل ہیں۔

۳۔ مذکورہ بالا دو کیفیات سے کم درجے کا غصہ۔ اس حالت میں تمام علماے کرام کے نزدیک طلاق نافذ ہو جائے گی۔

میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دو برس پہلے جب میں نے اپنی بیوی کو پہلی طلاق دی تھی تو میری کیفیت دوسری قسم کے غصہ کی حالت تھی اور اس وقت مجھے طلاق کے مفصل احکام کا علم نہیں تھا اور میں نے پہلی طلاق کو ایک طلاق شمار کیا تھا۔ کیا اب جبکہ مجھے اس بابت معلوم ہو گیا ہے کہ حالت دوم میں بعض علماے کرام طلاق کو نافذ نہیں مانتے تو میرے لیے یہ باور کرنا جائز ہے کہ دو برس پہلے جو میں نے پہلی طلاق دی تھی، وہ نافذ نہیں ہوئی؟ طلاق دیتے ہوئے میں نے اس فرق کو بہرحال ملحوظ خاطر رکھا تھا جسے علماے کرام طلاق شرعی اور طلاق بدعی کہتے ہیں، اور میں نے دو یا تین طلاقیں سنت طریقے کے مطابق دی تھیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کر لوں مگر حلال طریقے سے اور سنت نبوی کی رو سے۔ تو کیا ایسا کرنا ازروئے شریعت میرے لیے جائز ہے؟


جواب

الحمد للہ وحدہ وبعد۔

غصے کی تین کیفیات علماے کرام نے بیان کی ہیں: (۱) ایسا غصہ جس میں انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس حالت میں تمام علماے کرام کے نزدیک طلاق نافذ نہیں ہوتی۔ (۲) ایسا غصہ جس میں طلاق دینے والا شخص اپنے ہوش وحواس میں ہوتا ہے اور جو الفاظ وہ ادا کرتا ہے، وہ بھی اور اس کے نتیجے سے بھی آگاہ ہوتا ہے، اگرچہ وہ غصے میں ہی ہوتا ہے تو ایسی طلاق بالاتفاق نافذ ہو جاتی ہے۔ (۳) غصے کی تیسری حالت ایک ایسی حالت ہے کہ اس میں طلاق دینے والا اگرچہ مکمل طور پر اپنے ہوش وحواس نہیں کھو بیٹھتا مگر یہ غصہ اس پر حاوی ہو جاتا ہے اور اس کے الفاظ اور نیت کا رابطہ وقتی طور پر منقطع ہو جاتا ہے اور غصہ کافور ہو نے کے بعد اسے اپنے فعل پر ندامت ہوتی ہے اور اب اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گیا تھا۔ ایسی حالت میں جو طلاق دی جائے، اس کے نافذ ہونے یا نافذ نہ ہونے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور ہمارے نزدیک ایسی حالت میں طلاق کا وقوع پذیر نہ ہونا زیادہ راجح ہے۔ امام ابن قیم اغاثۃ اللہفان میں فرماتے ہیں کہ ’والادلۃ الشرعیۃ تدل علی عدم نفوذ طلاقہ‘۔ شریعت کے احکام اس طلاق کے عدم وقوع پر دلالت کرتے ہیں اور یہی قول ہمارے استاذ محترم ابن تیمیہؒ کا بھی ہے۔

ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’ان غیرہ الغضب ولم یزل عقلہ لم یقع الطلاق‘  کہ اگر ایسا غصہ ہو کہ اس سے ہوش وحواس مکمل طور پر معطل نہ ہوئے ہوں تو طلاق وقوع پذیر نہ ہوگی، کیونکہ غصے کی شدت نے اس سے یہ حرکت کرائی ہوتی ہے۔ وہ بہرحال اس بات کو ناپسند کرتا تھا کہ اپنی بیوی سے گلو خلاصی کرا لے۔ اس حالت میں وہ کوئی صحیح فیصلہ کرنے کی حالت میں نہیں رہتا اور اس کا حکم اس شخص کا ہے جو طلاق دینے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے، یعنی طلاق المکرہ۔ امام ابن تیمیہؒ مزید لکھتے ہیں کہ یہ وہی حالت ہے جس میں اس کی بد دعا بھی قبول نہیں ہوتی جبکہ وہ اپنی یا مال کے لیے ہلاکت کی دعا کرتا ہو۔ اسی طرح اس حالت میں اگر وہ نذر مانتا ہے، کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی بظاہر اطاعت مقصود ہوتی ہے، تو یہ نذر بھی پوری کرنا اس پر واجب نہیں ہے۔

اسی رائے پر ہمارے معزز استاد مکرم ابن باز کا بھی فتویٰ ہے۔ یہی حکم مسند احمد، ابو داؤد اور حاکم کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’لا طلاق فی اغلاق‘ کہ اغلاق کی حالت میں طلاق نافذ نہیں ہوتی۔ لفظ اغلاق کا معنی امام احمد اور ابو داؤدؒ نے غضب (غصہ) کیا ہے۔ ابن قیمؒ کی اس موضوع پر ایک جامع تالیف موجود ہے جس میں وہ قرآن مجید کی آیات، احادیث مبارکہ اور صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؓ کے اقوال جمع کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ عدم وقوع ہی زیادہ قرین قیاس اور اصول شریعت کے موافق ہے۔ ہمارے نزدیک بھی امام ابن قیمؒ کے دلائل مضبوط اور قابل اطمینان ہیں۔ جسے توفیق ہو، وہ ان کی تالیفات سے رجوع کر سکتا ہے۔ 

بنا بریں آپ کی پہلی طلاق مذکورہ بالا اقسام میں سے اگر تیسری قسم سے تعلق رکھتی ہے اور آپ کی بیوی بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہو کہ واقعتا وہ طلاق انتہائی غصے کی حالت میں دی گئی تھی، مزید برآں اس پہلی طلاق کی توثیق مملکت کی کسی عدالت نے بھی نہیں کی ہے تو پہلی طلاق نافذ نہیں سمجھی جائے گی۔ ہاں اگر آپ کی زوجہ محترمہ آپ کے اس دعویٰ کی تصدیق نہیں کرتی ہیں یا مسلمان قاضی نے اس طلاق کی توثیق کر دی ہے تو یہ طلاق نافذ ہو گئی، کیونکہ اختلافی (شخصی) مسائل میں (حاکم) نامزد قاضی کا فیصلہ نافذ العمل ہوتا ہے (دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی)۔

(بشکریہ سہ ماہی ایقاظ، ملتان۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۵)

فقہ / اصول فقہ

(جون ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter