عصر کی نماز کے بعد یا مغرب کی نماز سے ذرا پہلے گھروں کے دروازوں پر دستک دیتے قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کی طرح کے چہرے جن کے ماتھوں پر محراب، سر پر عمامہ، ٹوپی یا رومال، لباس کی وضع قطع شریعت کے قواعد وضوابط کے مطابق اور گفتگو میں تحمل پایا جاتا ہے، آپ کو یقیناًنظر آتے ہوں گے۔ اپنے لڑکپن سے آج تک میں دین کی محنت میں لگے ہوئے لوگوں کو دیکھتا آ رہا ہوں۔ آپ چاہے ناگواری کا اظہار کریں، تمسخر اڑائیں یا توجہ سے بات نہ سنیں، ان کی جبین پر شکن تک نہیں آتی۔ یہ لوگ بلا کے ہیں۔ ایسے لگتا ہے ان کو اپنے پڑوس کی، شہر کی، ملک کی بلکہ پوری دنیا کے عوام کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ان کا تردد ان کو جہنم کی آگ سے بچانا ہے۔ یہ اپنی محنت سے اور مسلسل گفتگو سے چند لوگوں کو قائل کر لیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ اس بیان میں شریک ہوں جو مسجد میں عموماً مغرب کی نماز کے بعد منعقد ہوتا ہے۔ پھر وہاں سے ایسے ہی چند مزید گروہ گلیوں اور محلوں میں نکل جاتے ہیں۔ اپنی اس تگ ودو اور محنت کو یہ لوگ ’’گشت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ گشت صرف اپنی گلی یا محلے تک محدود نہیں رہتا بلکہ ملکوں ملکوں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔
ان لوگوں کی زندگیوں کی ظاہری آب وتاب ایسے لگتی ہے جیسے عبادت کے تمام سلیقے ان کو ازبر ہیں۔ آداب نماز سے لے کر روزہ، تراویح اور اعتکاف سب اس انہماک سے ادا کرتے ہیں کہ ان پر رشک آتا ہے۔ ان کی گفتگو آخرت کے خوف سے پر اور جنت کی لذتوں سے آراستہ ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی ادارے میں کام کر رہے ہیں یا کسی کاروبار کی اساس ان کے ہاتھ میں ہے، ان کا رنگ ڈھنگ دور سے پہچانا جاتا ہے۔ لوگ ان سے محبت بے شک نہ کریں، لیکن نفرت نہیں کرتے۔ ایک طویل عرصے تک یہ ’’گشت‘‘ صرف ایک گروہ تک محدود تھا لیکن اب ایسے ہی گشت کچھ اور لوگوں نے بھی اختیار کر لیے اور اب میرے ملک میں لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے بے چین لوگ جابجا نظر آئیں گے۔
مجھے ان لوگوں کی بود وباش، فقر وغنا اور سینے کی تڑپ اچھی لگتی ہے۔ یہ لوگ کتنے دردمند ہیں کہ دوسرے کی آخرت بچانے کے لیے بے چین ومضطرب ہیں، لیکن میں اس سارے پس منظر میں ایک عجیب وغریب بات سوچتا رہتا ہوں اور پھر ان سوچوں کے بھنور سے نکل نہیں پاتا۔ یہ لوگ جس مملکت خدادا پاکستان کی گلیوں اور محلوں میں خدائے واحد کا فرمان لیے گھوم رہے ہوتے ہیں، وہاں ۱۴ کروڑ کی آبادی میں ۵ کروڑ کے قریب ایسے گھرانے بھی آباد ہیں جنھیں اتنا بھی رزق میسر نہیں کہ ان کی زندگی کی گاڑی چل سکے۔ یہ لوگ ہو سکتا ہے کسی ایسے دروازے پر دستک دے دیں جہاں ماں نے بچوں کو پانی میں نمک مرچ گھول کر سوکھی روٹی کے ساتھ پیٹ بھر کر سلایا ہو اور باپ اس فکر میں غلطاں ہو کہ کل اس گھر میں پیٹ کے ایندھن کا سامان کہاں سے آئے گا۔ ہو سکتا ہے ان لوگوں نے راہ چلتے ایک ایسے شخص کو روکا ہو کہ جو دن رات دہاڑی دار مزدوروں کے اڈے پر ہر رکتی ہوئی گاڑی کے پاس التجا والے چہرے کے ساتھ لپکا ہو، لیکن دن کا سورج ڈھلنے تک اسے مزدوری کے لیے کوئی اپنے ساتھ نہ لے کر گیا ہو۔ بوجھل قدموں سے یہ شخص اپنے گھر کی سمت کس پریشانی کے عالم میں لوٹ رہا ہوگا۔ ان بندگان خدا کی دستک ایسے دروازوں پر بھی ہو سکتی ہے جہاں چند دن پہلے کسی باپ نے بازار سے زہر خریدا اور بھوک سے بے تاب، کھانے کی آرزو میں تڑپتے بچوں کی خوراک میں ڈالا اور پھر ان کے ساتھ کھانا کھا کر موت کی نیند سو گیا ہو۔ یہ کسی بے روزگار نوجوان، کسی بے کس، محروم اور بے آسرا کے سامنے بھی اپنی بات بیان کرتے ہوں گے۔ یہ اس باپ کے سامنے بھی جاتے ہوں گے جس نے رزق حلال سے اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت کی ہو، لیکن وہ روزگار سے اس لیے محروم رہے کہ ان کی رسائی کسی سیاست دان، کسی جرنیل یا کسی اعلیٰ افسر کی دہلیز تک نہ تھی اور آج ان کو غربت وافلاس کی زندگی میں صرف سفارش اور رشوت کے خلاف بد دعائیں ہی یاد آتی ہوں گی۔
انھی خیالوں میں گم میں ایک محفل میں جا نکلا جہاں ایسا ہی شخص لوگوں کو ترغیب دے رہا تھا کہ کیا تم نے کبھی جا کر دیکھا کہ تمھارا پڑوسی نماز پڑھتا ہے کہ نہیں۔ وہ جہنم کی آگ کی طرف جا رہا ہے اور تم اسے بچانے کے لیے کیوں نہیں دوڑتے۔ میں سر سے پاؤں تک کانپ گیا اور مجھے سرکار دو عالم کی وہ احادیث یاد آنے لگیں۔ آپ نے فرمایا ’’جو اپنے بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتا ہے اور پانی پلاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے سات خندق دور فرما دیتا ہے۔ دو خندقوں کا درمیانی فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’بھوکے کو کھانا کھلانا مغفرت واجب کرنے والے اعمال میں سے ہے۔‘‘ آپ نے ابن عباس سے فرمایا ’’جو مسلمان کسی مسلمان کو کپڑا پہناتا ہے تو جب تک پہننے والے کے بدن پر اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی رہتا ہے، پہنانے والا اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے۔‘‘ ایک جگہ فرمایا ’’مسکین کو اپنے ہاتھ سے دینا بری موت سے بچاتا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ’’آگ سے بچنے کی کوشش کرو، چاہے آدھی کھجور ہی دے کر کرو۔‘‘ حضرت عائشہ کہتی ہیں ’’میرے پاس ایک سائل آیا۔ میں نے اسے کچھ دینے کو کہا۔ پھر بلایا اور دیکھا کہ اسے کیا دیا۔ آپ نے فرمایا، تم یہی چاہتی ہو نا کہ گھر میں جتنا آئے اور جتنا خرچ ہو، اس کا تمھیں علم ہو۔ فرمایا جی ہاں۔ فرمایا، حساب کتاب کے پھیر میں نہ پڑو۔ گن گن کر نہ دو، ورنہ اللہ تمھیں بھی گن گن کر دے گا۔‘‘
میں خواب دیکھنے والا شخص ہوں۔ خواب دیکھتا رہتا ہوں کہ شاید ایک دن ایک ایسا ’’گشت‘‘ بھی نکلے گا، اپنے کندھوں پر اپنا مال ودولت لادے ہوئے، اور مسجدوں کے دروازے سے نکل کر گھروں پر دستک دیں گے: ہے کوئی بھوکا، ہے کوئی نادار، ہے کوئی مسکین، ہم سے کھانا کھالو اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا لو، ہماری پوشاک پہن لو اور ہمیں اللہ کی حفاظت میں جانے دو۔ ہمارے ہاتھ سے بغیر گنے سب کچھ لے لو تاکہ اللہ ہمیں بے حساب عطا کرے۔ عصر کے بعد، مغرب سے پہلے، ماتھوں کے محراب، سروں پر عمامے اور کندھوں پر مال ومتاع لادے کوئی ایک گشت تو ایسا نکلے!
(بشکریہ روزنامہ جنگ۔ ۲۵ جون ۲۰۰۵)