آج کا دور آلودگی کا دور ہے۔ اس آلودگی کی تباہ کاریوں سے دنیا کو روشناس ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ پھر بھی جگہ جگہ اور بار بار یہ کہاجارہاہے کہ حضرت انسان کی طرف سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کیے جانے والے نت نئے تجربات کے باعث زمین کی فضا اس قدر زہریلی اور خطرناک ہورہی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہاتو جلد ہی فضا اس قدر مکدر ہوجائے گی کہ کرہ ارض پر حیاتیاتی زندگی کا امکان باقی نہ رہے گا۔ بعض سائنس دان تو اس حد تک مایوس ہوچکے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ کرہ ارض پر زندگی چند برس کی مہمان ہے۔ زندگی کی مختلف جہتوں میں آلودگی کا زہر جس طرح سرایت کرگیا ہے، اس کے پیش نظر کئی ماہرین حیاتیات کا خیال ہے کہ اتنا آلودہ فضا اور کثیف حالات میں انسان کا زندہ رہ جانا ہی ایک معجزہ ہے، تاہم وہ اس معجزے کے باوجود مستقبل کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ چنانچہ اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انسان کو مکمل تباہی سے کیسے باز رکھا جائے؟ بظاہر یہ بڑا سیدھا سا سوال ہے لیکن اگر اس سوال کو محض تکنیکی یا سائنسی سمجھا جائے تو یہ ایک ایسی غلطی ہوگی جس کے نتائج کا تحمل شاید نہ کیا جا سکے۔ سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آلودگی پیدا کرنے والا انسان کس قسم کی حیاتیاتی، طبیعیاتی ،نفسیاتی اور جذباتی حالت میں ہے اور کیا آج کے انسان پر بھروسہ کیا جاسکتاہے کہ وہ زمین کو اس ممکنہ عذاب سے بچالے جو خود اسی کے ہاتھوں ظہور میں آنے ہے؟
تہذیب انسانی کے ہر دور میں جن باتوں کو تبدیلی کے طور پر محسوس کیاجاتاہے، ابتدا میں اکثر انہیں ترقی سمجھاجاتاہے، لیکن بعد میں انہیں مراجعت تصور کیاجاتاہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آجاتاہے کہ مبالغہ آمیزی شروع ہوجاتی ہے۔ آج سے پانچ چھ دہائیاں قبل نیوکلیر پاور کا پہلی بار تذکرہ ہوا تو یہ خیال کیا جانے لگا کہ اس ایجاد کی بدولت بجلی کی کوئی کمی نہیں رہے گی۔ بعض مغربی ممالک نے تو اس کے ذریعے سے پانی کو منجمد کرکے اسے افریقہ کے صحرائے اعظم تک پہنچانے کے دعوے شروع کردیے تھے۔ یہ پہلی منزل تھی، جسے ترقی کا نام دیا گیا، لیکن جب نیوکلیر پاور پلانٹ لگائے گئے تو پتہ چلا کہ انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے پانی کی بہت بڑی مقدار درکار ہوگی اور جب یہی گرم پانی خارج ہوگا تو وہ اس قدر زہر آلود ہوچکا ہوگا کہ پانی میں رہنے والی ہر جاندارشے تباہ ہوجائے گی۔ یہ دوسری یعنی مراجعت کی منزل تھی۔ چنانچہ اس کے پیش نظر کئی ناقدین ومخالفین نے یہ مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ نیو کلیر پاور کے ذریعے سے بجلی پیدا کرنے کاسلسلہ ختم کردیا جائے۔ یہ تیسری منزل یعنی رد عمل کی انتہا تھی، ضرورت اس امر کی تھی کہ پانی کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی نعم البدل تلاش کر کے نیوکلیر ری ایکٹر سے جو فائدہ ہوسکتاہے، اسے تو حاصل کیاجائے مگر اس کی وجہ سے جو آلودگی پیدا ہوتی ہے، اس سے بچاجاسکے۔
اسی مسئلے کو ایک اور تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ عصر حاضر میں اگر ایک طرف علم اور سائنس عروج پر ہے تو دوسری طرف مذہبی، روحانی اوراخلاقی اقدار زوال پزیر ہیں۔ اس اخلاقی وروحانی انحطاط نے آج کے انسان کو نفسیاتی مریض بنادیاہے۔ اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ مادی ترقی کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگتے ہوئے انسان کے ذوق جمالیات میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ درحقیقت انسان کی جمالیاتی حس کی کمزوری ہی ذہنی، باطنی، فضائی اور ماحولیاتی بلکہ تمام اقسام کی آلودگیوں کا کلیدی سبب ہے۔ لہٰذا اگر ہم حقیقی معنوں میں کرہ ارض کو بچانے کے خواہش مند اور آلودگی کے خاتمے کے آرزو مند ہیں تو ہمیں انسانی روح کے اس روز بروز بڑھتے ہوئے سرطان کا علاج کرنا ہوگا جس نے ہمارے دلوں سے فطرت کے حسن وجمال کی قدر وقیمت اور احترام کو ختم کر دیاہے، کیونکہ محض سائنسی معلومات اور مادی وسائل کے سہارے تسکین قلب کا حصول ممکن نہیں۔ مشہور انگریز شاعر لارڈ ٹینی سن نے اپنی ایک نظم میں کیا خوب بات کہی تھی:
Let knowledge flow from more to more
But more of reverence in us dwell
یعنی علم میں جتنابھی اضافہ ہوتاجائے، وہ تو اچھاہے لیکن اس سے بھی زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہمارے دلوں میں احترام کا جذبہ جاگزیں ہو۔ بلاشبہ ہمارے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم ممکنہ تباہی اورہولناکیوں سے محفوظ رہنے کے لیے آج کے انسان میں جمالیاتی حسن کو بیدار کرکے فطرت کے احترام کا جذبہ پیدا کریں۔ دنیا جب سے قائم ہے، دانش مندوں، مفکروں، فلسفیوں، علما، حکما اور پیغمبروں نے فطرت کے حسن وصداقت اور فضیلت کے اعتراف واحترام کے ذریعے سے ہی روح کے سرطان اورذوق جمالیات کے فقدان کا علاج کیاہے۔
لاریب! فطرت کی رنگینی حسن کامل کے جن اصولوں پر کار فرمارہتی ہے، ان کے بارے میں فکر وتدبر سے کام لیا جائے توہمارا دل دائمی احساس احترام پر مجبور ہوجاتاہے۔ صاحب بصیرت وبصارت جانتے ہیں کہ یہ کائنات جو بظاہر مادی دکھائی دیتی ہے، عملی اعتبارسے روحانی ہے۔ یہ درخشاں آسمان، زرخیز زمین، پہاڑوں کے تکیے، مہکتے ہوئے پھولوں کی گل کاریاں، شگفتہ غنچوں کی کیاریاں، بدلتے ہوئے موسم ومناظر، لہراتی ہوئی ندیاں،بل کھاتے دریا، اور شور مچاتی آبشاریں محض مفید ہی نہیں، ان کی خوبصورتی اور حسن ہمیں سرشار بھی کرتاہے۔ اسی لیے تو جان کیٹس کو کہنا پڑا کہ خوبصورت چیز دائمی مسرت کاباعث ہوتی ہے۔ فطرت کا حسن جہاں دل کو سکون اور راحت بخشتاہے، وہاں قلب ونظر کو تمام آلودگیوں اور گردوغبار سے بھی پاک کرتاہے۔ ممتاز قلمکار وکٹر ہیو گو نے اپنے عظیم شاہکار Les Miserablesمیں ایک پادری کاتذکرہ کیاہے جو اپنے علاقے کادورہ کرتے کرتے ایک ایسے مکان پر پہنچ گیا جو ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھا اور وہاں سے ایک وادی نظر آتی تھی۔ جس شخص کا یہ مکان تھا، اس کے بارے میں گاؤں والوں نے پادری سے شکایت کی کہ یہ شخص اتنا غیر دیندار ہے کہ اتوار کے روز بھی گرجا گھر نہیں جاتا۔ چنانچہ پادری نے موقع پا کر اپنے میزبان سے اس سلسلے میں گفتگو کی اور پوچھا کہ تم آخر اتوار کے دن عبادت میں کیوں شریک نہیں ہوتے۔ اس پر اس شخص نے پشیمانی کا ا ظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’جناب! ہر رو زصبح کو جب میں اٹھتاہوں اور اپنے کی چھت سے سورج کو نکلتے دیکھتاہوں تو میرے دل سے بے ساختہ ایک آہ نکل جاتی ہے اور میں چپ چاپ کافی دیر تک قدرت کا یہ کرشمہ دیکھتا رہتا ہوں۔ ‘‘ یہ سن نے پادری نے اس شخص کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور بولا، میرے دوست جتنی بکواس میں کرتا رہتا ہوں، اس کے بجائے کاش میں بھی اس طرح خدا کی پرستش کرسکتا، جس جذبہ احترام کے ساتھ تم طلوع آفتاب کے منظر کو دیکھتے ہو۔‘‘ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے مجھے عالمی شہرت یافتہ شاعر فطرت ورڈز ورتھ کے یہ خوبصورت خیالات یاد آرہے ہیں :
"Nature never did betray
The heart that loved her; 'tis her privilege,
Through all the years of this our life, to lead
From joy to joy; for she can so inform
The mind that is within us, so impress
With quietness and beauty, and so feed
With lofty thoughts, that neither evil tongues,
Rash judgements, nor the sneers of selfish men,
Nor dreary intercourse of daily life
Shall ever prevail against us, or disturb
Our cheerful faith, that all which we behold
Is full of blessing."
’’فطرت نے کبھی اس دل سے بے وفائی نہیں کی جس نے اس سے محبت کی۔ صرف فطرت ہی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہمیں زندگی بھر مسرتوں سے ہمکنار کرتی رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمارے دل ودماغ کو اس طرح سکون اور خوبصورتی سے متاثر کردیتی ہے اور ہمارے خیالات کو اتنا بلند کردیتی ہے کہ پھر کوئی بات بھی ہمارے اس عقیدے کو متزلزل نہیں کرپاتی کہ ہمارے گرد وپیش جوکچھ بھی دکھائی دیتاہے، ا س میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ پھر نہ تو لوگوں کی بدزبانی دل پر اثر کر پاتی ہے اور نہ خود غرض لوگوں کی طنز وحقارت۔ پھر زندگی کی بے کیفی بھی دل کو مغموم نہیں کر پاتی۔‘‘
صرف مغربی ادب ہی نہیں، خود ہماری مقدس آفاقی کتاب قرآن مجید میں غور کرنے والوں کے لیے چالیس ابواب میں فطرت اور حسن فطرت کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سورۃ رحمن میں تو دریاؤں ،سمندروں ،پہاڑوں، ریگستانوں کی جانب اور ان سب چیزوں کے درمیان جو کچھ ہے، ان کی جانب اشارہ کیا گیاہے۔ ان چیزوں کودیکھتے ہوئے انسان ۲۳ مرتبہ ’’فبایّ الآء ربکما تکذبٰن‘‘ پکار اٹھتاہے۔ سنسکرت کی ایک کہاوت ہے ’’پنڈے سو برہمن ڈے‘‘ جس کا مطلب ہے کہ جو کچھ کائنات میں ہے، وہی تمھارے جسم میں ہے۔ اسی لیے تو ہمیں بار بار یہ بتایا جاتاہے اور بالکل صحیح بتایا جاتاہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور ہاں،اگر اسلام دین فطرت ہے تو پھر احترام فطرت عین اسلام ہے۔ یہ بات ہم تمام بنی نوع انسان کو نہ سہی، صرف امت مسلمہ کو ہی باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں تو یقین جانیے کہ ہرقسم کی آلودگی میں بے حد کمی واقع ہوجائے۔ جس دین کے پیغمبر اعظمﷺ نے صفائی کونصف ایمان قرار دیاہو، اس کے پیروکاروں کا جسم ،گھر، گلیاں اور محلہ غلیظ کیوں کرہوسکتاہے؟ اگر اسلام دین فطرت ہے تو پھر کیا دھویں او رغلاظت سے فضا اور پہاڑوں، ندیوں، نالوں اور حسن فطرت کو نقصان پہنچانے والے سچے مسلمان ہوسکتے ہیں؟ ہر مسلمان کے دل میں احترام فطرت کاجذبہ جاگزیں ہونا لازم ہے۔ ہمیں اپنی تعلیم وتبلیغ میں اسلام کے اس خوبصورت پہلو کاتذکرہ خوب کرناہوگا۔ ہم سب کا فرض ہے کہ یہ جذبہ پید ا کرکے ایمان کومضبوط بنائیں اور آلودگی کا خاتمہ کریں، کیونکہ دھیرے دھیرے ہمارے جسم میں دوڑتے ہوئے خون کی طرح آلودگی ہمارے ماحول کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ یہ لکڑی میں دیمک کی طرح ہمار ے ماحول کو کھوکھلا کررہی ہے۔ اسے روکنا، اس کے خلاف جہاد کرنا ہم سب کا سماجی ودینی فریضہ ہے اور اگر ہم خدانخواستہ اسے روکنے میں ناکام رہے تو پھر وہ دن دور نہیں جب اس کرہ ارض پر آلودگی تو ہوگی، مگر انسان نہیں ہوگا۔