مکاتیب

ادارہ

(۱)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

برادرم محمد عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔

ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں اپنا مضمون دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس پر میں آپ کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اس مضمون کے حوالے سے راقم کو ذاتی طور پر مختلف اصحاب علم کی طرف سے تبصرے بھی موصول ہوئے جن میں چند باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ان میں کچھ باتیں غلط فہمی کا نتیجہ تھیں جن کا ازالہ میں ضروری سمجھتا ہوں۔

۱۔ ’الشریعہ‘ میں میرا تعارف صحیح شائع نہ ہو سکا۔ میں نے آپ کی طرف جو خط لکھا تھا، اس میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ میں ریسرچ سنٹر، قرآن اکیڈمی میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ کے کام کر رہا ہوں۔ مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

۲۔ بعض اہل علم نے اعتراض کیا ہے کہ مضمون میں حوالے نہیں تھے، جبکہ میں نے جو مضمون ’الشریعہ‘ میں شائع کروانے کے لیے بذریعہ ڈاک بھیجا تھا، اس میں تمام حوالہ جات باقاعدہ موجود تھے۔

۳۔ بعض اہل علم نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اہل سنت کے تصور ’شرائع من قبلنا‘ کے حوالے سے مضمون میں کوئی بحث نہیں آئی۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میں نے جو مضمون ’الشریعہ‘ میں شائع ہونے کے لیے بھیجا تھا، اس میں تقریباً آٹھ صفحات پر مشتمل دو ابحاث، ایک تو ’’غامدی صاحب کے تصور کتاب کا رد، شرعی دلائل (احادیث) کی روشنی میں‘‘ اور دوسری بحث ’’غامدی صاحب کے تصور کتاب اور اہل سنت کے تصور شرائع من قبلنا میں فرق‘‘ کے بارے میں تھیں جن کو مدیر ’الشریعہ‘ نے شائع نہیں کیا۔ اگر مضمون کے شروع میں مدیر ’الشریعہ‘ کی طرف سے ایک پیراگراف میں اس بات کی وضاحت آ جاتی کہ ہم نے فلاں فلاں ابحاث کسی حکمت کے تحت مضمون سے نکال دی ہیں تو اچھا تھا۔

قارئین کی معلومات کے لیے اگر یہ خط ’الشریعہ‘ میں بھی شائع ہو جائے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔

حافظ محمد زبیر

ریسرچ ایسوسی ایٹ، قرآن اکیڈمی

36/K ماڈل ٹاؤن لاہور

(۲)

محترم المقام زاہد الراشدی صاحب

سلام خلوص!

امید ہے کہ آپ خیر یت سے ہوں گے۔ طویل مدت سے ’الشریعہ‘، ’شاداب‘ کے تبادلہ میں موصول ہورہاہے۔ دیگر اسلامی جرائد بھی موصول ہوتے ہیں، لیکن الشریعہ کا فکری رنگ ہی منفرد اور جداگانہ ہے۔ میں ہرشمارہ بڑی توجہ سے پڑھتاہوں اور کئی مرتبہ اس کے روشن خیالی اور شعور انسانیت پر مبنی فکر انگیز مضامین اپنے ہم خیال مسلم دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتاہوں۔ خصوصاً بنی اسرائیل کے متعلق آپ کے مضامین نے بے حد متاثرکیا جو عصر حاضر کی سوچ کے غماز تھے۔ البتہ احمدیوں کے بارے میں مضامین خاصے ’’دل آزار‘‘لگے۔ بہر کیف مسیحیت کے بارے میںآپ کا نقطہ نظر اور انداز فکر قدرے فراخ دلانہ ہے۔ آج مناظرے کا دور نہیں رہا، لہٰذا ہمیں بین المذاہب یعنی انٹر فیتھ مکالمہ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ مختلف مذاہب وادیان او ر مسالک کے درمیان نہ صرف غلط فہمیوں اور کج بحثیوں کا خاتمہ ہو بلکہ باہمی رواداری ،یگانگت ،ہم آہنگی، محبت ،اخوت اور برداشت کی ثقافت کو فروغ حاصل ہو۔

مئی ۲۰۰۶ء کے سرورق پر ’’آراوافکار‘‘ کے حوالے سے عبارت اسی فکر کی نمائندہ اور ترجمان ہے۔ خاص طور پر یہ فقرے: ’’صدیوں سے مذہبی طبقے کا دائرہ کارعقائد، عبادات اور نیک بننے کی مشق رہ گیاہے۔ ان کے پاس انسانیت کی بہبود کے لیے سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔ ‘‘ اس فکرکی جتنی بھی ترویج واشاعت کی جائے اور اس کی جتنی بھی تحسین کی جائے، وہ فی زمانہ کم ہوگی۔ رب کائنات آپ کو اپنے حفظ واما ن میں رکھے۔ کارِلائقہ سے یاد فرمائیں ۔

اس شعر کے ساتھ اجازت دیں :

دین کوئی بھی اختیار کرے 

آدمی آدمی سے پیار کرے

نوٹ: ایک ضروری بات رہ گئی۔ آراوافکار کے مفکر اورآپ کے دست راست مولانا محمد عیسیٰ منصوری چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم لندن سے لندن میں ملاقات ہوئی تھی جہاں ہم دونوں نے وکٹون ٹیلی وژن پر بین المذاہب مکالمہ اور لندن میں بم دھماکہ کی صورت حال پر گفتگو اور اظہاررائے کے لیے live پروگرام میں حصہ لیا جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا۔ میں نے مسیحیوں او ر مولانا نے مسلم حلقوں کی نمائندگی کی۔ یہ پروگرام تین مرتبہ پورے یورپ میں دکھایاگیا ۔

والسلام

ڈاکٹر کنول فیروز

477 جہانزیب بلاک

علامہ اقبال ٹاؤن ۔ لاہور

(۳)

محترم جناب عمار خان ناصر صاحب 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے ملتاہے۔ اپریل کے مہینے میں آپ نے توہین رسالت کے نتیجے میں عالم اسلام میں جو صورت حال پیدا ہو ئی ہے، اس پر نہایت سنجیدگی سے بحث کی ہے اور صورت حال کا نہایت عمدہ طریقے سے تجزیہ کیاہے، لیکن امت مسلمہ کی داخلی صورت حال اور رویے کے ضمن میں جن امورکی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے، ان پر کچھ عرض کرنا چاہتاہوں ۔

بدھ کے مجسموں کو مسمار کرنے کے واقعہ کو آپ نے سیاسی محرکات کے تحت داخل کیاہے اور اس کو اخلاقیات کے منافی قراردیاہے، حالانکہ یہ واقعہ کوئی سیاسی پس منظر نہیں رکھتا۔ ہمارے فقہا او ر علماے کرام نے تصویر سازی اور مجسمہ سازی کو حرام قراردیاہے۔ اکثریت کے نزدیک یہ حرمت علی الاطلاق ہے، لیکن جو تصویر سازی، مجسمہ سازی اور فنون لطیفہ کو اصلاً مباح قرار دیتے ہیں، ان کوبھی میرے خیال میں اس واقعہ پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ان کے نزدیک بھی اگر یہ فنون فواحش یا مشرکانہ افعال یاعقائد سے وابستہ ہوں تو پھر سد ذرائع کے طور پر انھیں حرام قرار دیاجاسکتاہے۔ گوتم بدھ کو آج بھی کروڑوں لوگ پوجتے ہیں اور اس کے مجسمے کو عبادت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پس یہ اقدام مذہبی تعلیمات کی رو سے کیا گیا، سیاست سے اس کا تعلق جوڑنا صحیح نہیں ہے۔ 

دوسری اہم بات جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے،یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک مذہبی گروہ کے پیغمبر کے بارے میں تضحیک اورتمسخر پر مبنی لٹریچر شائع ہوتاہے اور مذہبی جلسوں میں ان لوگوں کے بارے میں ناشائستہ زبان استعمال ہوتی ہے۔ یقیناًیہ ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر ہمیں اپنے رویے اور اخلاقی حالت کا جائزہ لینا چاہے تاکہ افراط وتفریط سے بچا جائے اور صحیح بات کی طرف پیش رفت ممکن ہو، لیکن اگر کوئی مذہبی گروہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہو، اس کی سرگرمیاں مسلمانوں کے دین وایمان کے لیے خطرہ ہوں، اور خود ان کے پیغمبر کی کتابوں میں اسلامی شخصیات اور مسلمانوں کے حوالے سے تضحیک اور تمسخر پر مبنی مواد موجود ہو تو کیا ایسی باتوں کی نشان دہی کو اسلام کے دفاع کے لیے استعمال کرنا بھی اسلامی تعلیمات کے منافی ہوگا؟

تیسری اہم بات توہین رسالت کو رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تک محدود رکھنے سے متعلق ہے۔ یقیناًمذہبی لیڈروں کو دیگر پیغمبروں کی توہین اور گستاخی کے رویے کا نوٹس لینا چاہیے اور اس حوالے سے بھی لوگوں کو متحرک کرنا چاہیے ،کیونکہ تمام انبیا کا احترام لازمی ہے اور ان میں سے کسی ایک کی توہین بھی نبوت اور رسالت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ توہین رسالت کو کسی نے بھی رسول اللہ کی ذات گرامی تک محدود اور مخصوص نہیں کیا۔ مسلمانوں کے اس پر احتجاج نہ کرنے کو یہود ونصاریٰ کے ساتھ مذہبی مخاصمت کے رویے سے نہیں جوڑا جا سکتا۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عبدالحمید 

گاؤں سرڈھری (قلعہ) 

ضلع چارسدہ

مکاتیب

(جون ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter