ارباب علم ودانش کے لیے لمحہ فکریہ

ابو سلمٰی

۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں پاک فوج کی شجاعت کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل گئی جس سے عالم اسلام میں مسرت کی لہر دوڑ گئی اور کفر کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد صہیونی حکومت نے پاکستان کو دشمن نمبر ایک کہا اور اس کے خلاف خفیہ سازش شروع کر دی جو سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نمودار ہوئی۔

۱۹۷۱ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں اور عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں کوئی امیدوار نامزد نہیں کیے۔ دونوں جماعتوں نے سیاسی حقوق کی پامالی اور مالی بحران کے الزامات ایک دوسرے پر عائد کیے تو صوبائی تعصب اسلامی رشتے پر غالب آ گیا۔ دونوں جماعتیں بھاری اکثریت سے اپنے اپنے صوبوں میں کامیاب ہوئیں۔ خفیہ ہاتھوں نے اقتدار کی خاطر دونوں کو ہٹ دھرمی کا لقمہ دیا۔ اقتدار کی جنگ جس دور میں شروع ہوئی، اس وقت وطن عزیز میں فوجی حکومت تھی۔ طاغوتی عناصر نے وطن عزیز کی فوجی قیادت سے انتقام بھی لے لیا اور اس کے کردار کو پاکستان کے عوام اور عالم اسلام میں رسوا بھی کر دیا۔

اس کے بعد مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں صوبائی تعصب ابھارنے کے لیے علاقائی پارٹیاں معرض وجود میں آ گئیں تو صوبائی خود مختاری کے مطالبے منظر عام پر آ گئے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں سندھو دیش، کراچی کو الگ صوبہ، سرحد میں پختونستان، بلوچستان میں مرکز کے خلاف آہ وپکار، جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبے کا مطالبہ اور پنجاب بھر میں ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ کے نعرے لیڈروں کی زبان سے نکل کر عوام میں پھیل گئے۔

وطن عزیز کے محب وطن عناصر کی مساعی جمیلہ سے مغربی پاکستان کے صوبوں میں مشرقی پاکستان کی طرح خانہ جنگی کے حالات پیدا نہ ہو سکے۔ البتہ پاکستان نے جس کے نادیدہ اشارے پر روسی فوج کو افغانستان سے بھگانے میں اہم کردار ادا کیا، اسی صہیونی قوت کی ہٹ لسٹ پر سرفہرست آ گیا اور پاکستان کو نامور فوجی جرنیلوں کی قیادت سے محروم کر دیا گیا۔

پھر وطن عزیز میں جمہوری حکومتوں کے یکے بعد دیگرے شارٹ ٹرم سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران میں اسلام نافذ ہوا اور نہ عوام کے روزہ مرہ زندگی کے مسائل حل ہوئے بلکہ مسلسل مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی تو لوگ جمہوری نظام سے بھی مایوس ہو گئے۔

معاہدۂ واشنگٹن کی وجہ سے پاک فوج کی کارگل کی چوٹیوں سے پسپائی اور پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے افغانستان پر امریکی حملے سے عوام میں حکومت کے خلاف نفرت کے جذبات ابھر آئے تو اسلامی انقلاب کے داعی جولائی ۹۹۹ء۱ میں منظر عام پر آ گئے۔ آب پارہ چوک اور مسجد شہدا میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس کا بین ثبوت ہے۔

جب اس قسم کے حالات پیدا ہو جائیں تو مذہبی قیادت کو برسراقتدار آنے سے روکنے کے لیے صہیونی قوت کون سالائحہ عمل اختیار کرتی ہے؟ امریکی سی آئی اے کے تجزیہ نگار گراہم ای فلر کی رپورٹ کی آخری شق پیش خدمت ہے:

’’فوج کو اسلامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جائے اور جب یہ دیکھا جائے کہ ان ممالک میں اسلامی اور مسلم تشخص رکھنے والی کوئی سیاسی جماعت اور اس کا قائد عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے دل کی دھڑکن اور آنکھوں کا تارا بن چکا ہے اور عوامی حمایت اور تعاون کا سیلاب بلا خیز اسلامی تشخص اور پس منظر رکھنے والی سیاسی جماعت کے قائد کے اشاروں کا منتظر ہے اور وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ اسلام پسند عوامی قوت کا سیلاب سیکولر اور مغربیت زدہ حکمرانوں کی حکومتوں کو تنکوں کی طرح بہا لے جائے گا تو فوجی انقلاب کے ذریعے سے حکومت کا دھڑن تختہ کروا دیا جائے اور اسلام پسند قوتوں کا راستہ روک دیا جائے۔‘‘ (ہفت روزہ چٹان، لاہور ۔ ۳۱ اگست ۱۹۹۴ء۔ بحوالہ رواداری اور مغرب ص ۲۸۰)

اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے فلر کی ترکیب پر عمل کیا گیا۔ ایک کو سبک دوش کرنے اور دوسرے کو قبضہ کرنے کا اشارہ دے کر عراق، کویت کا ڈرامہ دہرایا گیا۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں اسماعیلی اسٹیٹ بنانے کی سرگرمیاں پہلے ہی سے جاری تھیں کہ اچانک گوجرانوالہ کو عیسائی اسٹیٹ اور سیالکوٹ شکر گڑھ کو قادیانی اسٹیٹ بنانے کی خبروں کا ایک دن اخبار میں شائع ہونا اور دوسرے دن تردید اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ فکر دامن گیر ہوئی کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ مگر ضلعی حکومتیں قائم کرنے کی پالیسی نے یہ معما حل کر دیا۔ مسلم پاکستانی کے بجائے سندھی، پنجابی کی صوبائی پہچان معروف تھی۔ اب اس کا گراف سیالکوٹی، ملتانی ضلعی سطح پر آ جائے گا۔ پھر یہ خبریں منظر عام پر آئیں گی کہ ہمارا ضلع معدنیات سے مالا مال ہے، کوئی کہے گا کہ ہمارا ضلع زرعی پیداوار میں خود کفیل ہے۔ پھر یہی کہیں گے کہ ہمیں مرکز سے کچھ نہیں ملتا۔ یہی نفرت کے جذبات ضلعی خود مختاری کے مطالبے تک پہنچ جائیں گے۔ خدا نخواستہ ضلعی حکومتوں کو غیر مسلم این جی اوز سے براہ راست قرضے لینے کے معاہدے کرنے کا اختیار مل گیا تو تعمیر وترقی کی آڑ میں ضلعی حکومتیں قرضوں کی دلدل میں پھنس جائیں گی۔ پھر وہی ہوگا جو این جی اوز آرڈر دیں گی۔

پھر کیا ہوگا؟ گوجرانوالہ میں عیسائیوں اور سیالکوٹ میں مرزائیوں کو آباد کرنے کی مہم شروع ہو جائے گی۔ پھر ضلعی خود مختاری کا مطالبہ شدت اختیار کر جائے گا تو یہ معاملہ اقوام متحدہ تک پہنچے گا اور این جی اوز کو اقوام متحدہ سے استصواب رائے کی قرارداد پر عمل کرنے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔ اس دوران میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مقبوضہ کشمیر یا کسی ایک حصے میں استصواب رائے کی قرارداد پر عمل ہوا تو مستقبل میں اقوام متحدہ کو اپنی نگرانی میں پاکستان کے اندر ضلعی خود مختاری کی قرارداد پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا۔ یہی عالم اسلام کی ایٹمی قوت کو ریزہ ریزہ کرنے کی سازش ہے اور مرزائیوں کا اکھنڈ بھارت قائم کرنے کا خواب ہے اور ۲۰۲۵ء تک اسلام کو مغلوب کرنے کے صہیونی منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ کس دور میں شروع ہوا؟ طریقہ واردات کیا ہے۔ ارباب علم ودانش کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

(بشکریہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور)

حالات و واقعات

(دسمبر ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter