ورلڈ اسلامک فورم کا سالانہ اجلاس

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل نے افغانستان کے خلاف امریکہ کی جنگ کو مغربی تہذیب وثقافت کی بالادستی قائم کرنے اور دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ کرنے کی جنگ قرار دیتے ہوئے جنگ کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ لیگ آف نیشنز کی طرح اقوام متحدہ بھی عالمی امن کے قیام میں ناکام ہو گئی ہے اس لیے اسے ختم کر کے موجودہ معروضی عالمی حقائق کی بنیا دپر اقوام عالم کے درمیان ایک نئے معاہدے اور اشتراک کی راہ ہموار کی جائے۔

مرکزی کونسل کا سالانہ اجلاس ۴ نومبر کو جامع مسجد سٹینلی روش آکسفورڈ میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا زاہد الراشدی، مفتی برکت اللہ، طٰہٰ قریشی، مولانا رضاء الحق سیاکھوی ، مولانا قاری عمران جہانگیری، مولانا محمد اکرم ندوی، مولانا محبوب الٰہی، مولانا محمد قاسم، مولانا محمد ریاض اور جناب مسرور احمد نے شرکت کی۔

فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا رضاء الحق سیاکھوی نے اجلاس میں فورم کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ورلڈ اسلامک فورم کا بنیادی مقصد عالم اسلام کے مسائل کی طرف اصحاب علم وفکر اور علمی ودینی مراکز کو توجہ دلانا اور ان کے حل کے لیے علمی وفکری جدوجہد کرنا ہے جس کے لیے مختلف جماعتوں اور راہ نماؤں کے ساتھ رابطوں اور ملاقاتوں کے علاوہ خصوصی اجتماعات اور مجالس کا انعقاد کیا گیا اور بعض کتابچے اور مضامین بھی شائع کیے گئے تاہم جو کچھ ہونا چاہئے تھا، اس کا اہتمام نہیں ہو سکا اور آئندہ اس کی تلافی کی جائے گی۔

اجلاس میں افغانستان کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا گیا اور ایک اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکہ اس جنگ کے ذریعے سے افغانستان کی اسلامی نظریاتی حکومت کو ختم کرنا چاہتا ہے، پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک کی اسلامی تحریکات کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہے اور وسطی ایشیا میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پر قبضہ کرنے کا عرصہ سے خواہش مند ہے لیکن وہ اپنی جنگ کے اصل مقاصد کے اظہار کی اخلاقی جرات سے محروم ہے اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عنوان دے کر دنیا کو دھوکا دے رہا ہے اس لیے یہ جنگ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا پر مغربی تہذیب وثقافت کی بالادستی قائم کرنے اور معاشی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے لڑی جا رہی ہے اور اسے فی الفور بند ہونا چاہیے۔

اعلامیہ میں اقوام متحدہ کے کردار کو انتہائی افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عالمی امن کے قیام میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کا قیام اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ دنیا بھر کی اقوام کے درمیان انصاف اور مساوات کا اہتمام کر کے جارحیت کے ارتکاب کو روکا جائے اور عالمی امن کو تحفظ فراہم کیا جائے لیکن اقوام متحدہ اپنے نصف صدی کے کردار کے حوالے سے لیگ آف نیشنز سے بھی زیادہ ناکام ادارہ ثابت ہوا ہے اور وہ دنیا پر جارحانہ قبضے کے خواہش مند امریکی کیمپ کے ذیلی ادارے کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور اس نے مظلوم اقوام کے خلاف جارحیت کا راستہ روکنے کے بجائے حملہ آور ملکوں کو جارحیت کے ارتکاب کے لیے این او سی جاری کرنے کا کاروبار سنبھال لیا ہے اس لیے اس ادارے کے باقی رہنے کا کوئی جواز موجود نہیں رہا اور اسے ختم کر کے اس کی جگہ موجودہ عالمی صورت حال اور معروضی حقائق کی بنیاد پر اقوام عالم کے درمیان ایک نئے معاہدے اور ایک نئے عالمی فورم کی تشکیل ناگزیر ہو گئی ہے جس کی بنیاد کسی ایک گروہ کی اجارہ داری اور اس کے مفادات کی بالادستی کے بجائے دنیا کی تمام اقوام کے درمیان انصاف کے قیام اور تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کے یکساں احترام وتحفظ پر ہو کیونکہ اس کے بغیر دنیا کو اس عالم گیر تباہی سے نہیں بچایا جا سکتا جسے نسل انسانی پر مسلط کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی چھتری تلے امریکی کیمپ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔

اعلامیہ میں جی ایٹ (G8) کی طرف سے عالمگیریت اور گلوبلائزیشن کے پروگرام کو عالمی نوآبادیات کا ایک نیا ایڈیشن قرار دیا گیا جس کا مقصد پوری دنیا کے وسائل اور ذخائر پر آٹھ ملکوں کے قبضہ اور کنٹرول کی راہ ہموار کرنا ہے اور غریب اقوام وممالک کو غلامی کے ایک نئے شکنجے میں جکڑنا ہے ا س لیے اس کے خلاف دنیا کی مظلوم اقوام کو متحدہو جانا چاہیے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ بات بھی محض فریب ہے کہ عالمگیریت اور بین الاقوامیت کا آغاز اب کیا جا رہا ہے اور مغربی ممالک اس کا آغاز کر رہے ہیں اس لیے کہ انسانی معاشرے کو رنگ ونسل اور علاقہ اور دیگر محدود امتیازات سے نجات دلاتے ہوئے پوری نسل انسانی کے لیے ایک دین، ایک فلسفہ اور ایک نظام حیات کا اعلان اب سے ڈیڑھ ہزار سال قبل خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا اور وہی انسانی سوسائٹی میں عالمگیریت اور گلوبلائزیشن کا نقطہ آغاز تھا جس کے بعد صدیوں تک دنیا کی مختلف اقوام اور ممالک نے خلافت کے تحت ایک نظام اور فلسفہ کے مطابق باہمی احترام کے ساتھ زندگی بسر کی ہے لیکن مغرب صرف طاقت اور پراپیگنڈے کے زور پر اسلام کے اس اعزاز اور کریڈٹ کو ہائی جیک کرنا چاہتا ہے جس کا عالم اسلام کے علمی وفکری حلقوں کو سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکی کیمپ نے اپنے سیاسی، تہذیبی اور معاشی مقاصد کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے ایک نئی عالمگیر جنگ شروع کر دی ہے اور اقوام متحدہ نے اسے این او سی بھی جاری کر دیا ہے لیکن دہشت گردی کا کوئی متعین مفہوم طے کرنے کے بجائے اسے مبہم چھوڑ دیا گیا ہے جو ایک خطرناک سازش ہے جس کے ذریعے سے دہشت گردی اور تحریکات آزادی کو آپس میں خلط ملط کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا کی کسی بھی تحریک اور جدوجہد کو دہشت گرد قرار دینے کا اختیار حملہ آور مغربی قوتوں کے اپنے ہاتھ میں رہے اور وہ دنیا کے جس گروہ اور تحریک کو چاہیں، دہشت گرد قرار دے کر اسے جارحیت کا نشانہ بنا ڈالیں۔ اس سے دنیا بھر کی تحریکات آزادی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے اور مظلوم اقوام وممالک کی آزادی اورخود مختاری سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کی واضح تعریف کی جائے اور دہشت گردی اور جہاد وآزادی کے درمیان فرق متعین کیا جائے ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ امریکی کیمپ آزادی کی تحریکات کو دہشت گردی کا نام دے کر جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتا ہے اور ظالم وغاصب قوموں کے جبر واستحصال میں ان کا کھلم کھلا سرپرست ومعاون بن گیا ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ نے فلسطین، کشمیر، چیچنیا اور عراق اور افغانستان وغیرہ میں نہتے شہریوں کے قتل عام اور ان پر ظالم وغاصب قوتوں کی وحشیانہ جارحیت پر جو مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اقتصادی ناکہ بندی اور بمباری کے ذریعے سے لاکھوں انسانوں کے قتل اور عورتوں اور بچوں کی ہلاکت پر جس طرح آنکھیں بند کر لی ہیں، اس کے بعد انصاف ، امن اور داد رسی کے حوالے سے اقوام متحدہ سے کوئی امید باقی نہیں رہی اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ سینٹ اور کانگریس کی طرح اقوام متحدہ بھی امریکہ ہی کا کوئی ادارہ ہے جو دنیا بھر میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جارحیت اور بالادستی کی راہ ہموار کرنے کے لیے مصروف کار ہے۔

اعلامیہ میں مسلم سربراہ کانفرنس کی تنظیم کے کردار کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ دو تین کو چھوڑ کر باقی تمام مسلم حکمران ملت اسلامیہ اور اپنے ملکوں کے عوام کی نمائندگی کرنے کے بجائے امریکی کیمپ کی نمائندگی کر رہے ہیں اور مغربی ملکوں کو عالم اسلام اور اپنے ملکوں کے جذبات واحساسات سے باخبر کرنے اور ان کے احترام پر آمادہ کرنے کے بجائے مغربی حکمرانوں کے خواہشات اور ایجنڈے کے مطابق اپنے عوام بالخصوص دینی حلقوں کو دبانے اور ریاستی جبر کا نشانہ بنانے میں مصروف ہے اور مسلم سربراہ کانفرنس کی تنظیم کو بھی انہوں نے اقوام متحدہ کی طرح بالادست اور جارح قوتوں کے مفادات کا محافظ بنا دیا ہے۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کی افادیت کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور مسلم سربراہوں کا ہنگامی اجلاس طلب کر کے اس میں دوٹوک فیصلہ کیا جائے اور اگر یہ ادارہ عالم اسلام کے مفادات اورمسلمانوں کی مشکلات میں کوئی موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اسے فوری طور پر ختم کر کے ملت اسلامیہ کو اس سنگین مذاق سے نجات دلائی جائے۔

ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل نے اپنے سالانہ اجلاس میں فیصلہ کیا کہ اعلامیہ میں مذکور مقاصد کے حصول اور اس کے لیے عالم اسلام کے دینی، سیاسی اور علمی حلقوں کو آمادہ کرنے کی غرض سے مہم چلائی جائے گی جس کے لیے ایک سال کا شیڈول طے کیا گیا ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے مولانا محمد عیسیٰ منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ ، مولانا رضاء الحق سیاکھوی، مولانامحمد اکرم ندوی اور جناب طٰہٰ قریشی پر مشتمل پانچ رکنی ورکنگ کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

اجلاس میں مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے موقف اور جذبات کو دلیل اور منطق کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنے اپنے ملکوں کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے جذبات اور موقف کے اظہار کے لیے تمام قانونی ذرائع اختیار کریں نیز اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی حمایت وامداد کے لیے قانون کے اندر رہتے ہوئے جو کچھ بھی وہ کر سکتے ہیں، اس سے گریز نہ کریں۔ میڈیا تک رسائی کی کوشش کی جائے ۔ ہر علاقہ کے مسلمان دینی وسیاسی رہنما ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کریں۔ دینی وسیاسی رہنماؤں سے روابط استوار کریں۔ جنگ کے مخالف عناصر کی آواز کو تقویت پہنچائیں۔ مشترکہ اجتماعات کا اہتمام کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اعتماد میں لیں۔ افغانستان اور دیگر مسلم ممالک کے بے گھر افراد اور خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کریں۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں یک طرفہ طور پر پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کے ازالہ کے لیے کام کریں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عالم اسلام کی بہتری اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔

اخبار و آثار

(دسمبر ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter