(برطانیہ کے معروف مسلم دانش ور اور ماہر اقبالیات پروفیسر محمد شریف بقا صاحب نے قرآن کریم کی آیات کو موضوعات اور عنوانات کے حوالے سے ایک ہزار کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ’’قرآنی موضوعات‘‘ میں ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے جو ایک اچھی پیش کش ہے اور علم وعرفان پبلشرز، ۷۔سی ماتھر سٹریٹ، ۹۔ لوئر مال لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو رابطہ عالم اسلامی لندن کے دفتر میں اس کتاب کی تعارفی تقریب سے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ ادارہ)
صدر محترم ومعزز سامعین!
لندن کے ادبی وعلمی حلقوں میں پروفیسر محمد شریف بقا صاحب کی ہستی پاکستان کی تاریخی تہذیب، علم وآگہی، تصوف وکلام اور فلسفیانہ انداز لیے ہوئے ایک منفرد وممتاز مقام کی حامل ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی فکر اور کلام سے بقا صاحب کی ارادت وعقیدت عشق کے درجے کو پہنچی ہوئی ہے۔ آپ نے علامہ اقبال کے کلام اور فکر کو اپنی تحقیق اور غور وخوض کا مرکز ومحور بنایا ہے ۔ یورپ اور امریکہ کی حد تک یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کے علمی وادبی حلقوں میں آپ کا فکر وفن اور علمی، ادبی اور تحقیقی مقام مسلم ہے۔ آپ کی ہستی ادب وشاعری، فکری وتحقیقی اور علمی ودینی تمام حلقوں میں معروف ومحترم مانی جاتی ہے۔ آپ اپنے جذبِ دروں کے ساتھ طویل عرصہ سے برطانیہ میں فکر وتحقیق اور علامہ اقبال کے کلام کی تفہیم وتشریح میں سنجیدگی ویکسوئی سے منہمک ہیں۔ مغرب خصوصاً برطانیہ میں نئی نسل کے لیے شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام اور فکر کی تفہیم وتشریح کا قابل قدر کام آپ کے قلم سے وجود میں آیا۔ آپ اپنے مرشد علامہ اقبال کی طرح فروعی نزاعات سے اجتناب برتتے ہوئے اسلام کی اساسی تعلیمات کو اشاعت میں مشغول رہتے ہیں۔ آپ کی دو درجن کے قریب تصانیف علم دوست حلقوں سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ بندہ تقریباً تین دہائیوں سے روزنامہ جنگ میں بقا صاحب کے بصیرت افروز اور فکر انگیز مقالات ومضامین کا قاری ہے اور تقریباًدو دہائیوں سے آپ سے تعارف وشناسائی حاصل ہے۔ آپ کی بیشتر تصانیف نظر سے گزری ہیں۔ آپ کی بے نظیر تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ پر مجھے تبصرہ اور اظہار خیال کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ جب بقا صاحب کے متعلق غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ حضرات صوفیاء کرام کا خلوص وبے لوثی، سادگی ووقار، درد مندی وسنجیدگی بقا صاحب کی شخصیت میں رچ بس گئے ہیں۔
اسلام کی ۱۴ سو سالہ تاریخ میں عربی کے بعد فارسی صدیوں سے اسلامی فکر وفلسفہ، علوم وآگہی، ادب وشاعری کے اظہار کا ذریعہ رہی ہے اور برصغیر میں تقریباً گزشتہ ہزار سالہ علمی وفکری خزانوں کی امین ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا بھی بڑا حصہ جو آپ کے فکر وفلسفہ کا نقطہ عروج ہے، فارسی ہی میں ہے۔ پروفیسر محمد شریف بقا صاحب کا فارسی مطالعہ خصوصاً فارسی زبان کے مفکرین، فلاسفہ، ادبا اور شعرا کا مطالعہ نہایت عمیق ووسیع ہے۔ اب تو طبقہ علما میں بھی فارسی میں گہری بصیرت رکھنے والے نایاب ہو چکے ہیں۔ اس جہت سے برطانیہ ویورپ میں شاید ہی بقا صاحب کی نظیر ملے۔ بقا صاحب اردو وفارسی دونوں زبانوں کے قادر الکلام شاعر ہیں۔ حمد ونعت میں بھی ان کا جداگانہ رنگ ہے۔
اقبال کے متعلق مفکر اسلام سید ابو الحسن علی ندویؒ نے شہادت دی ہے کہ اس سو سال میں جدید طبقہ نے اقبال سے بڑا دیدہ ور پیدا نہیں کیا۔ وہ عصر حاضر کے مشرق کے سب سے بڑے مفکر وفلسفی ہیں۔ رشید احمد صدیقی مرحوم نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اقبال کا کلام اس صدی کا علم کلام ہے۔ اقبال کے فکر وکلام کی خصوصیات میں عشق رسول، قرآن سے شغف اور حضرات صوفیاء کرام کا سوز وساز شامل ہیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بہت صحیح کہا ہے کہ اقبال پر دنیا کے بڑے مذہب کی گرفت اتنی نہیں جتنی ایک بڑی شخصیت کی ہے۔ وہ با خدا دیوانہ باش وبا محمد ہوشیار کا مصداق ہے اور اس کی شاعری وکلام کا خلاصہ ہے: ’’قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں‘‘ اور صوفیاء کا جذب دروں، سوز ومعنی اس کے شعر شعر سے ٹپکتا ہے۔ یہی خصوصیات برطانیہ ومغرب میں اقبال کے سب سے بڑے شارح وترجمان پروفیسر محمد شریف بقا صاحب کی ہیں۔ آپ کی دو درجن کے قریب تصانیف میں سب سے نمایاں اور بے مثال انہی تین موضوعات پر ہیں۔ سب سے طویل ’’قرآنی موضوعات‘‘ جو تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے، دوسری ’’رسول اکرم ﷺ مغربی اہل دانش کی نظر میں‘‘ اور تیسری ’’اقبال اور تصوف‘‘۔
مولانا ندویؒ لکھتے ہیں: ’’اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب قرآن مجید اس قدر اثر انداز ہوئی ہے کہ اتنا وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے نہ کسی کتاب سے لیکن اقبال کا قرآن پڑھنا عام لوگوں کے قرآن پڑھنے سے بالکل مختلف رہا ہے۔ آپ کے والد گرامی نے (جو ایک باصفا درویش تھے) اقبال کو بچپن میں جب وہ صبح روزانہ قرآن پڑھنے بیٹھے، تلقین کی تھی کہ قرآن اس طرح پڑھا کرو جیسے قرآن اس وقت تم پر نازل ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اقبال نے قرآن کو اس طرح پڑھنا شروع کیا گویا وہ واقعی اس وقت نازل ہو رہا ہے۔ ایک شعر میں وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور وفکر اور تدبر وتفکر کرنے میں گزاری۔ وہ ان کی محبوب ترین کتاب تھی جس سے انہیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا۔ اس سے انہیں ایک نیا یقین، نئی قوت وتوانائی حاصل ہوتی۔ جوں جوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا، ان کی فکر میں بلندی پیدا ہوتی گئی۔ موجودہ دور کی ظلمتوں میں اس نے قرآن کے بعد مولانا روم کو اپنا رہنما ومرشد بنایا۔ جس طرح مولانا روم کے دور میں فلسفہ یونان عقلوں پر چھا گیا تھا، حتیٰ کہ علما بھی اس سے ہٹ کر سوچ نہیں سکتے ہیں۔ مولانا روم نے اپنی مثنوی کے ذریعے سے ایمان وایقان، عشق وسرور، سوز وساز کا پیغام دیا۔ اسی طرح اقبال کو بھی مغرب کے مادی وعقلی اور بے روح وبے خدا افکار ونظریات سے سابقہ پڑا۔ مادہ وروح کی کشمکش پورے عروج کے ساتھ سامنے آئی۔ اس قلبی اضطراب وذہنی انتشار کے موقع پر اقبال کومولانا روم نے بہت کچھ سہارا دیا۔ انہوں نے مولانا روم کو اپنا کامل رہنما تسلیم کیا اور صاف اعلان کیا کہ عقل وخرد کی ساری گتھیاں جسے یورپ کی مادیت نے الجھا رکھا ہے، اس کا حل صرف آتش رومی کے سوز ساز میں پنہاں ہے:
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں
اقبال کو عصر حاضر کے علما ودانش وروں، مفکرین وفلاسفہ سے سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کو چھوڑ کر فلسفہ یونان اور روح کو چھوڑ کر الفاظ کی پرستش شروع کر دی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان براہ راست کتاب اللہ کا مطالعہ کریں اور اس کے علوم وحکمت سے مستفید ہوں۔
قرآن دنیا کی واحد کتاب ہے جس نے نوع انسانی کے افکار، اخلاق وتہذیب اور طرز زندگی پر اتنی وسعت، اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالا ہے جس کی کوئی نظر دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ پہلے اس کی تاثیر نے ایک قوم کو بدلا اور پھر اس قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بدل ڈالا۔ یہ کتاب صرف کاغذ کے صفحات پر لکھی نہیں رہ گئی بلکہ عمل کی دنیا میں اس کے ایک ایک لفظ نے خیالات کی تشکیل کی اور مستقل تہذیب کی تعمیر کی۔ ۱۴۰۰ برس سے اس کے ان اثرات کا سلسلہ جاری ہے اور روز بروز اس کے یہ اثرات پھیلتے جا رہے ہیں۔ یہ پورے نظام زندگی کانقشہ پیش کرتی ہے جس میں عقائد، اخلاق، تزکیہ نفس، عبادات، معاشرت، تہذیب، تمدن، معیشت، سیاست، عدالت، قانون غرض حیات انسانی کے ہر پہلو سے متعلق ایک نہایت مربوط ضابطہ بیان کرتی ہے۔ یہی نہیں، قرآن جو تصور کائنات وانسان پیش کرتا ہے، وہ تمام مظاہر اور واقعات کی مکمل توجیہ کرتا ہے۔ وہ ہر شعبہ علم میں تحقیق کی بنیاد بن سکتا ہے۔ جن حقائق کو علم کی حیثیت سے وہ پیش کرتا ہے، ان میں سے کسی ایک کو بھی آج تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکا۔ فلسفہ وسائنس اور علوم عمران کے تمام آخری مسائل کے جوابات اس کے کلام میں موجود ہیں اور سب کے درمیان ایسا منطقی ربط ہے کہ ان پر ایک مکمل، مربوط اور جامع نظام فکر قائم ہوتا ہے۔ جو وسیع وجامع نظام اس کتاب میں پایا جاتا ہے، وہ اس زمانہ کے اہل عرب، اہل روم ویونان وایران تو درکنار، اس بیسیویں اور اکیسویں صدی کے علم سائنس کے دعوے داروں میں بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ فلسفہ وسائنس اور علم عمران کی کسی ایک شاخ کے مطالعہ میں اپنی عمر کھپا دینے کے بعد آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ اس شعبہ علم کے آخری مسائل کیا ہیں اور پھر جب غائر نگاہ سے قرآن کو دیکھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں ان تمام مسائل کا واضح جواب موجود ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک علم تک محدود نہیں ہے بلکہ ان تمام علوم کے باب میں صحیح ہے جو کائنات اور انسان سے کوئی تعلق رکھتے ہیں۔
چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی عربی زبان کا معیار فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کر دیا تھا حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املا، انشاء ومحاورہ، قواعد زبان اور استعمال الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو لیکن یہ صرف قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہٹنے نہ دیا۔ اس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا۔ اس کا ہر محاورہ آج تک عربی ادب میں مستعمل ہے۔ اس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے اور تقریر وتحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو چودہ سو سال پہلے قرآن میں استعمال ہوئی۔
صدیوں سے ہمارے زوال ونکبت اور تنزل وپستی کی سب سے بڑی وجہ اقبال کے الفاظ میں یہ ہے:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
یہ دراصل قرآن مجید کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے: وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مہجورا۔ ’’جب رسول شکایت کریں گے کہ اے میرے رب، میری قوم نے قرآن کو پس پشت ڈال رکھا تھا۔‘‘
دیکھا جائے تو قرآن پاک کی یہ آیت ایک معجزہ ہے اور ایک پیش گوئی بھی۔ اس میں ہمارے اس دور کی ہوبہو تصویر پیش کی گئی ہے۔ دورِ نبوت میں قرآن ہر مسلمان کا حرزِ جاں بنا ہوا تھا۔ ہر کلمہ گو کا شغف وانہماک دنیا میں کسی کتاب سے تھا تو وہ صرف قرآن تھی۔ بد قسمتی سے جوں جوں دورِ نبوت سے دوری ہوتی گئی، مسلمانوں کا انہماک ومشغولیت کتاب اللہ کے بجائے انسانی علوم وفنون اور کتابوں سے بڑھتی گئی۔ خاص طور پر برصغیر میں چونکہ اسلام براہ راست حجاز کے بجائے ایران وترکستان کی راہ سے پہنچا، اس لیے وہاں شروع ہی سے قرآن وسنت کے بجائے عجمی وایرانی علوم وافکار، فلسفوں اور نظریات کا غلبہ رہا۔ اس کے بعد مغل دور میں ہمایوں کے شاہ ایران کے زیر بار احسان ہونے کے بعد تو فلسفہ ومنطق انسانی افکار ونظریات، اسرائیلی داستانوں اور کہانیوں کا بند کھل گیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے نصاب تعلیم کا نوے فی صد حصہ انہی انسانی علوم وفنون، فلسفوں اور نظریات کا مرقع رہا ہے۔ قرآن کے حق میں سب سے موثر آوازحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بلند کی مگر اس وقت سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد علمی مرکز ثقل دہلی سے لکھنو منتقل ہو چکا تھا جہاں مکمل طور پر ایرانی فکر کے حامل شیعی حکمرانی قائم ہو چکی تھی اس لیے ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ بد قسمتی سے اب تک ہمارے دینی مدارس میں وہ نصاب تعلیم کسی نہ کسی شکل میں رائج ہے جس کی اصل بنیاد مشہور ایرانی حکیم وفلسفی فتح اللہ شیرازی نے رکھی تھی جس کا بیشتر حصہ علوم قرآن کے بجائے عجمی فلسفوں، منطق، حکمت وعلم کلام پر قائم ہے جن کا تعلق انسان کے عمل وکردار کے بجائے ذہنی ودماغی ورزش پر ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کی تفسیروں کا تعلق زیادہ تر انہی آیات سے تھا جو امر ونہی پر مشتمل ہیں ۔ اور وہ آیات جن کا براہ راست تعلق انسانی عمل وکردار سے نہیں، ان کی تفصیل میں جانے اور ان کی تعبیر وتفسیر کرنے میں وہ بہت احتیاط سے کام لیتے۔ تفسیر ابن عباسؓ اور تفسیر ابن کعبؓ کا بیشتر حصہ قرآن کے مفرد وغریب الفاظ کی تشریح سے تعلق رکھتا ہے یا آیاتِ احکام کے تعلق سے کوئی حدیث انہیں معلوم ہوئی تو وہ ان آیات کی تشریح وتوضیح میں بیان کر دی جاتی۔ رہے اعتقادی مسائل یا اسرار کائنات تو اس باب میں صحابہ کرامؓ سے بہت کم چیزیں منقول ہیں۔ دور تابعین میں پہلی بار ایرانیوں اور رومیوں کے ساتھ اختلاط کے بعد عجمی افکار کی دخل اندازی اور باطل افکار ونظریات کے سبب سے انتشار ذہنی پیدا ہونا شروع ہوا۔ دوسری طرف یونانی فلسفہ سے لوگ روشناس ہونے لگے۔ تیسری طرف مختلف معاشرتی، معاشی وسیاسی نوعیت کے پیچیدہ مسائل سامنے آئے۔ اس وقت ان کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ لوگوں کو ذہنی کشمکش اور کج بحثی سے بچا کر براہ راست قرآن وسنت کی اتباع پر ڈالا جائے جس کی بکثرت مثالیں قاضی شریحؒ ، ابراہیم نخعیؒ ، مجاہدؒ ، عطاؒ ، ابن سیرینؒ اور مکحولؒ کے تفسیری نکات میں ملتی ہے۔ اس دور میں نئے مسائل میں اجتہاد کثرت سے ہوا مگر تضاد یا مناظرانہ رنگ پیدا نہیں ہوا۔ اس کے بعد تبع تابعینؒ کے دور میں سارے باطل افکار کھل کر سامنے آئے جو اس سے پہلے جھجھکتے ہوئے سامنے آئے تھے۔ ایک طرف سبائیت وخارجیت، رفض واعتزال اپنے اپنے مقاصد کے لیے قرآن وسنت کو استعمال کرنے میں تیز گام ہوئے۔ دوسری طرف یونانی افکار سے متاثر لوگ عوام کے ذہنوں کو مسموم کر رہے تھے اور قرآن کی تفسیر یونانی فلسفہ کے ماتحت کر رہے تھے۔ ان فکری ونظری فلسفوں کے مقابلے پر ابو عمر بن العلاءؒ ، شعبہ بن الحجاجؒ ، سفیان ثوریؒ ، امام مالکؒ ، یونس بن حبیبؒ ، وکیع بن الجراحؒ وغیرہ نے تفسیر بالماثور یا تفسیر بالاحادیث والآثار کر کے لوگوں کو راہ حق پر قائم رکھنے کی کوشش کی لیکن جو لوگ عجمی ایرانی ویونانی افکار سے پوری طرح متاثر ہو چکے تھے، انہوں نے عقلیت، اعتزال اور یونانی فلسفہ واشراق کے رنگ میں تفسیریں کیں۔
غرض تفسیر قرآن میں اصل خرابی اس وقت ہوئی جب اسلامی تہذیب غیر اسلامی تہذیبوں اور افکار وفلسفوں سے دوچار ہوئی تو قرآن کی تفسیر مفسرین کے عقلی شعبدوں کی مینا کاری ہو گئی۔ اس کا آغاز یونانی فلسفہ کی اساس پر ہوا۔ اموی وعباسی خلفا کے دور میں درباروں میں یونان کے حکما سقراط،افلاطون اور ارسطو وغیرہ کی تعلیمات ترجمہ ہو کر پہنچنے لگیں۔ ادھر مسلمان حکما وفلاسفہ نے قرآن پاک کی تعلیمات کو ان یونانی فلاسفہ کے افکار سے مناسبتیں دینی شروع کیں۔ مزید برآں ایران کی زرتشتی تعلیمات اور ہندوستان سے اپنشدوں کے تصورات بعض مسلمان حکما وفلاسفہ کے دماغوں میں جگہ پا گئے۔ تفسیر قرآن میں ان کے تراجم عجمی علم وفن کا نقطہ آغاز تھے۔ اس سے پہلے عرب صرف شاعری سے آشنا تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن پاک کی تفسیر میں یونانی وایرانی اور ہندوستانی الٰہیات کا تصور اور اس تصور کے تحت کائنات اور انسان کے متعلق عقلی استدلال راہ پا گیا اور وہ تمام بحثیں قرآن پاک کی تفسیر کا جز ہو گئیں جو قرآن کے مقصد اور دعوت سے خارج تھیں۔ امام رازیؒ اشعری نے جو کچھ لکھا، امام غزالیؒ نے اس باب میں جن خیالات کا اظہار کیا، الجصاصؒ اور زمخشریؒ معتزلی نے تفسیر بالرائے کی جو بنیاد قائم کی، وہ قرآن پاک کی فطرہ وسادہ دعوت وتعلیمات کو اٹھا کر دقیق فلسفیانہ مباحث کے طلسم خانے میں لے گئے جس سے ایک پیچیدہ علم کلام پیدا ہو گیا۔ امام رازی کی معرکہ آرا تفسیر کبیر کے متعلق مولانا آزادؒ لکھتے ہیں:
’’اس میں منطق وفلسفہ، حکمت وعلم کلام وغیرہ سب کچھ ہے مگر قرآن نہیں ہے‘‘
امام رازی خود دنیا کے سارے علوم وفنون کی سیر کے بعد اپنی آخری تصنیف میں قم طراز ہیں:
’’میں نے علم کلام اور فلسفہ کے تمام طریقوں کو خوب دیکھا بھالا لیکن بالآخر معلوم ہوا کہ نہ تو ان میں کسی بیمار کے لیے شفا ہے نہ کسی پیاسے کے لیے سیرابی۔ سب سے بہتر اور حقیقت سے نزدیک راہ وہی ہے جو قرآن کی اپنی راہ ہے۔‘‘
غرض فہم قرآن میں تمام تر الجھاؤ اسرائیلیات اور عقلیات کی بدولت پیدا ہوئے جس کا تصنیفی شاہکار امام فخر الدین رازیؒ کی تفسیر کبیر ہے کہ اس کی بدولت قرآن میں شکوک وایرادات کے دروازے اس طرح کھلے کہ ان کا بند ہونا مشکل ہو گیا۔ اس حقیقت کو علامہ اقبالؒ نے ان الفاظ میں واشگاف کیا ہے۔
چوں سرمہ رازی من از دیدہ فروئشتیم
تقدیر امم دیدم پنہاں بہ کتاب اندر
علاجِ ضعفِ یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
غرض قرآن محض عقل نہیں کہ اس کو عقل سے حل کیا جائے۔ قرآن ایک عشق ہے جو اپنی جوت خود جگا لیتا ہے اور قاری وسامع کو مسحور کرتا ہے۔ عقل دلیل دیتی ہے، اعتقاد نہیں دیتی۔ اعتقاد شخصیت سے پیدا ہوتا ہے جو سیرت کو جلا دینی اور عشق کو لطافت بخشتی ہے۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ کی زندگی کو عملی قرآن کہا گیا ہے۔ مولانا ابو الکلامؒ ’’تذکرہ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’قرآن کی حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے بیضاوی وبغوی کی ورق گردانی نہیں بلکہ دل دردمند کے الہام اور جبرئیلِ عشق کے فیضان کی ضرورت ہے۔‘‘
اور دل دردمند کا الہام اور جبرئیلِ عشق کا فیضان اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم قرآن کو نظر وفکر کی اس زبان میں سمجھیں جو احادیث نبوی اور آثار صحابہؓ اور اقوال تابعین کے سانچے میں ڈھلی ہے اور قرآن ہی کے الفاظ ومطالب کی زبان ہے۔ مولانا آزاد اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’قرآن جب نازل ہوا تو اس کے مخاطبوں کا پہلا گروہ ہی ایسا تھا کہ تمدن کے وضعی وصناعی سانچوں میں ابھی اس کا دماغ نہیں ڈھلا تھا۔ فطرت کی سیدھی سادھی فکری حالت پر قانع تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن اپنی شکل ومعنی میں جیسا کہ واقع میں تھا، ٹھیک ٹھیک ویسا ہی ان کے دلوں میں اترتا گیا اور اسے قرآن کے فہم ومعرفت میں کسی طرح کی دشواری محسوس نہیں ہوئی۔ صحابہ کرامؓ جب پہلی مرتبہ قرآن کی کوئی آیت یا سورت سنتے تھے تو سنتے ہی اس کی حقیقت کو پالیتے تھے لیکن صدر اول کا دور ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ روم وایرن کے تمدن کی ہوائیں چلنے لگیں اور پھر یونانی علوم کے تراجم نے انسانی علوم، فنون وضعیہ کا دور شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جوں جوں وضعیت کا دور بڑھتا گیا، قرآن کے فطری اسلوب سے طبیعتیں ناآشنا ہوتی گئیں۔ رفتہ رفتہ وہ وقت آ گیا کہ قرآن کی ہر بات وضعی وصناعی طریقوں کے سانچوں میں ڈھالی جانے لگی۔ چونکہ ان سانچوں میں وہ ڈھل ہی نہیں سکتی تھی اس لیے طرح طرح کے الجھاؤ پیدا ہونے لگے اور جس قدر کوششیں سلجھانے کی کی گئیں، الجھاؤ اور زیادہ بڑھنے لگا۔‘‘
آگے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور سے قرون آخر تک جس قدر مفسر پیدا ہوئے، ان کا طریق تفسیر ایک روبہ تنزل معیارِ فکر کی مسلسل زنجیر ہے جس کی ہر پچھلی کڑی پہلی کڑی سے پست تر ہے اور ہر سابق لاحق سے بلند تر واقع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں جس قدر اوپر کی طرف بڑھتے جاتے ہیں، حقیقت زیادہ واضح، زیادہ بلند اور اپنی قدرتی شکل میں نمایاں ہوتی جاتی ہے اور جس قدر نیچے اترتے ہیں، حالت برعکس ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال فی الحقیقت مسلمانوں کے عام دماغی تنزل کا قدرتی نتیجہ تھی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ قرآن کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکتے تو کوشش کی کہ قرآن کو اس کی بلندیوں سے نیچے اتار لیں کہ ان کی پستیوں کا ساتھ دے سکے۔‘‘
بقول اقبال:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
اس اعتبار سے قرآن دنیا کی مظلوم ترین کتاب ہے۔ چنانچہ علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:
’’علما روایت پسند ہوئے تو اسرائیلیات کا شکار ہوئے اور علما عقلیت پسند ہوئے تو یونانیوں کے مزعومات کے اسیر وپابند۔ تمام علماء اسلام میں علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم ہی دو بزرگ ہیں جو ایک طرف روایات کے ناقد ومبصر ہیں تو دوسری طرف یونانی فلسفیات کے نقاد اور ان کے حق وباطل کے واقف کار اور ان کے دل ان سب سے ماورا حکمت محمدی کے ذوق چشیدہ اور ان کے سینے معارف نبوی ﷺ کے گنجینہ ہیں۔ ان کی تفسیر تمام تر حکمت ومصلحت اور حقیقت ومغز پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ حکمت نہیں جو یونان کے صنم کدہ سے اچھلی ہے بلکہ وہ جو حجاز کی نہر کوثر سے بہہ کر نکلی ہو یا جو فطرت انسانی کے ربانی چشموں سے ابلی ہو۔‘‘
جس طرح گزشتہ دور میں مسلمانوں کی علمی تباہی کا راز قرآن کو چھوڑ کر فلسفہ یونان کی دماغی پیروی میں تھا، اسی طرح آج مغربی فکر وتمدن کی اندھی تقلید میں ہے۔ انسان قرآن کی روح تک اس وقت پہنچ سکتا ہے جب اسرائیلیات وعقلیات اور موجودہ مغربی فکر وفلسفہ کی ذہنی آلودگیوں سے دور رہ کر قرآن کو اس کے اپنے ماحول، زبان اور احادیث وآثار کی روشنی میں دیکھے۔ آج قرآن کا مقابلہ بائبل یا تورات سے نہیں اور نہ اس کی ٹکر ہندومت یا بدھ مت ومجوسیت وغیرہ سے ہے بلکہ اسلام کا مقابلہ آج یورپ کے سائنسی وعلمی نظریات وافکار سے ہے جن میں نئی نسل کے لیے ایسا سحر ہے کہ جب تک ان کو مطمئن نہ کیا جائے ہم نئی نسل کو اس سحر سے نہیں نکال سکتے۔ آج یورپ کا ضمیر پھر اصل فطرت اور مذہب کی طرف لوٹنا چاہتا ہے مگر قرآن کے حامل صدیوں سے فلاسفہ یونان کی بھول بھلیاں کے اسیر بن چکے ہیں۔
قرآن کا مخاطب صرف مسلمان نہیں بلکہ نوع انسانی ہے۔ وہ خدا، انسان اور کائنات کے باہمی رشتہ کی گرہ کشائی کرتا ہے۔ وہ انسان کو ایسے اصول اور دستور حیات عطا کرتا ہے جس سے انسانی فکر وعمل میں کوئی کجی نہ رہے۔ قرآن انسانیت کے لیے فلاح وسعادت کی راہ کھولتا ہے اور وہ اپنے خالق کے متعلق انسان کی ابدی جستجو اور اس سارے سفر کی آخری منزل کا سنگِ میل ہے۔ انسان قرآن کی رہنمائی کے بغیر نہ تو اپنے خالق کا صحیح تصور کر سکتا ہے، نہ اپنی ذات کی معرفت۔ دنیا کے اکثر مذاہب اور قوموں نے اللہ کے تصور کو اپنے حصار میں بند کر لیا ہے اور خدا کو صرف اپنا ہی معبود گردانا ہے لیکن قرآن نے خدا کے رب العالمین ہونے کا اعلان کیا ہے۔ قرآن سے پہلے تک دنیا کی قوموں میں خدا کا تصور خوف ودہشت کا تصور تھا، قرآن نے رحمت وعدالت کا تصور پیش کیا ہے۔ قرآن پوری انسانیت کے لیے ایک عالمی منشور ہے۔ یہ ان لوگوں کی جستجو اور اضطراب کا فطری جواب ہے جو اپنے خالق ورب کی تلاش میں عقل وفکر کے صحراؤں اور بیابانوں میں بھٹک رہے ہیں۔ قرآن سے پہلے جو کتب سماوی تھیں وہ انسانیت کے لیے بمنزلہ ابتدائی نصاب کے تھیں اور قرآن ایک بالغ، باشعور اور ترقی یافتہ معاشرہ کے لیے مکمل اور جامع نظام حیات ہے۔ قرآن ایک بے مثل سچائی ہے جو کائنات، انسان اور خدا کے باہمی رشتہ کو حرف آخر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ خدا اور اس کی صفات کیا ہیں؟ اس کائنات کی تکوین کیونکر ہوئی؟ انسان ربوبیت کاملہ کا مظہر ہے۔ قرآن تمام سچائیوں کی جامع آخری آسمانی دستاویز ہے۔ وہ ایک ضابطہ ہے جس پر چل کر انسان رشد وہدایت اور سعادت حاصل کرتا ہے۔ اس کا مطالعہ خالق کی حقیقت، کائنات کی غایت، انسان کی تخلیق کے مقصد، نبوتوں کے مشن، جزا وسزا کے قانون اور حق وباطل کے امتیازات سے آگاہ کرتا ہے۔ اس کی تعلیم ٹھیک ٹھیک دلوں میں اتر جاتی ہے اور انسان یقین کی اس دولت کو پا لیتا ہے جو فلسفہ کے سفر میں شک کے کانٹوں سے تلووں کو زخمی کرتی اور اضطراب کے صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ سائنس کی خانہ ویرانی کا بھی یہی عالم ہے۔ وہ ثبوت دیتی ہے مگر یقین نہیں دیتی۔ انسانی روح کی منزل مقصود یقین ہے۔ جب تک اس کو یقین حاصل نہ ہو وہ کائنات کے توے پر اسپند کے دانے کے مانند تڑپتا رہتا ہے۔ انسانی زندگی یقین کے بغیر جان کنی کی زندگی ہے اور یقین کی دولت صرف قرآن عطا کرتا ہے۔
قرآن سے لطف اندوز ہونے اور استفادہ کرنے اور فہم قرآن کے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ طویل طویل تفاسیر کے بجائے محض ترجمہ سمجھنے پر اکتفا کیا جائے اس لیے کہ ہر دور میں قرآن کی جو تفسیریں کی گئی ہیں، ان میں مفسر کے ذہن وفکر پر جس پہلو کا غلبہ تھا، اس کا عکس آ گیا یا دور کے رجحانات وتقاضوں کا۔ اس لیے قرآن کی زیادہ ضخیم وبسیط تفاسیر کے بجائے صرف قرآن کے ترجمہ یا مختصر ترین توضیح کو ترجیح دی جائے جیسے حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ کے حواشی ہیں کیونکہ زیادہ طویل وعریض تفاسیر سے انسان خالق کے بجائے اپنی ہی جیسے دوسرے انسانی کلام میں مشغول ہو کر قرآن اور اللہ کے بجائے انسانی ذہن وفکر سے متاثر ہونے لگتا ہے۔ اس لیے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے دینی نصاب تعلیم کے متعلق اپنے وصیت نامہ میں یہ لکھا کہ قرآن کا ترجمہ بغیر تفسیر کے ختم کرنا چاہئے۔ پھر اس کے بعد تفسیر جلالین بقدر درس پڑھائی جائے۔ جلالین قرآن کی مختصر ترین تفسیر ہے جس کے الفاظ تقریباً قرآن کے الفاظ کے برابر ہیں۔ لمبی لمبی تفاسیر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے کلام کو کسی مخصوص شخص کے فکر ونظر کی عینک سے دیکھنے لگتا ہے۔ گویا کلام اللہ کو سمجھنے کے لیے پہلے کسی انسان کے ذہن وفکر پر ایمان لایا جائے۔ انسان قرآن کا صحیح لطف، اس سے استفادہ اور برکات اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب وہ قرآن کے الفاظ یا زیادہ سے زیادہ اس کے ترجمہ تک محدود رہے۔ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ فرماتے ہیں کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام شجر کے ذریعے سے خدا سے ہم کلام ہوئے تھے، انسان قرآن پڑھتے وقت اپنے کو شجر تصور کرے پھر اپنے میں سے نکلے ہوئے الفاظ کو یوں سمجھے کہ خدائے پاک ہم کلام ہیں اور میں براہ راست سن رہا ہوں۔ مولانا محمد علی مونگیریؒ بانی ندوۃ العلما فرماتے ہیں کہ میں نے ابتداء اً حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی سے عرض کیا، حضرت مجھ کو جو مزہ شعر میں آتا ہے قرآن شریف میں نہیں آتا۔ فرمایا ابھی بُعد ہے۔ قُرب میں جو مزہ قرآن شریف میں ہے کسی چیز میں نہیں۔ کثرت سے قرآن شریف پڑھا کرو۔ اللہ میاں دل پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔
قرآن کی تفہیم اور اسے بآسانی سمجھنے اور کسی موضوع پر حکم خداوندی معلوم کرنے کے لیے ہمارے مکرم پروفیسر محمد شریف بقا صاحب نے تقریباً ۱۶۵ عنوانات یا موضوعات مقرر کر کے ہر ہر موضوع پر آیات قرآنی مع ترجمہ کے درج کر دی ہیں۔ اب معمولی اردو پڑھا لکھا شخص بھی کسی موضوع پر بآسانی حکم خداوندی معلوم کر سکتا ہے۔ ’’قرآنی موضوعات‘‘ نہ صرف عام مسلمان کے لیے بلکہ سکالرز، علما اور علمی کام کرنے والوں کے لیے بھی بیش قیمت تحفہ ہے۔ اب کسی درپیش موضوع پر چند لمحات میں ہر شخص قرآن پاک میں موجود تمام آیات کا احصا کر سکتا ہے اور کسی موضوع پر قرآن پاک میں بکھری ہوئی آیات پر یکجا نظر ڈال کر قرآن حکم اور منشاے خداوندی معلوم کر سکتا ہے۔ اگرچہ عربی میں اس موضوع پر متعدد حضرات نے کام کیا ہے مگر اردو میں اپنے انداز کا منفرد اور قابل صد ستائش کام ہے جس پر پروفیسر محمد شریف بقا صاحب بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ کتاب باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ عمدہ کمپوزنگ، خوبصورت طباعت، مضبوط جلد اور حسین سرورق کے ساتھ ظاہری طور پر بھی نہایت دیدہ زیب بن گئی ہے۔ یہ کتاب اس لائق ہے کہ ہر لائبریری، ہر مسجد اور ہر گھر کی زینت بنے اور گھر کے افراد جمع ہر کر سبقاً سبقاً پڑھیں تاکہ ہمارا قرآن سے ربط وتعلق قائم ہو۔ اس کی برکات سے ہماری زندگیاں منور ہوں اور حشر کے روز قرآن ہمارا مضبوط سفارشی بنے۔ وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔