مسلمان دہشت گردوں کا واسطہ کل سزائے موت دینے والے عملے (Death squad)سے تھا۔ شراب کے اثر سے ان کے حواس بجا نہیں تھے اور قہقہے لگاتے ہجوم کے درمیان میں سے انہیں ایک کھلی گاڑی پر سزائے موت کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ چین کے شمال مغربی علاقے کاشغر میں سہ پہر کی روشن دھوپ میں کئی درجن مسلمان قیدی نیلی گاڑیوں پر قطار میں کھڑے تھے۔ ان کے حواس بجا نہیں تھے اور وہ اپنے ارد گرد سے تقریباً بے خبر تھے۔ ماؤزے تنگ کے ۱۰۰ فٹ اونچے مضبوط مجسمے کے نیچے کھڑے یہ قیدی، جن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں، آہستہ آہستہ لڑکھڑا رہے تھے اور سفید دستانوں والے سپاہی انہیں سہارا دے رہے تھے۔ ان کی آنکھیں بے حد سرخ تھیں اور ان کی گھورتی ہوئی لیکن خالی نظریں ان کی پریشان فکری پر دلالت کر رہی تھیں۔ انہیں احساس نہیں تھا کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر ان کا سامنا جلاد سے ہونے والا ہے۔ ان کے عقیدے کی انتہائی تذلیل کرتے ہوئے انہیں ان کے آخری کھانے کے ساتھ شراب پلائی گئی تھی۔بظاہر ان لوگوں کو ترکی اکثریت کے صوبے سنکیانگ میں ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کے لیے لڑتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ علیحدگی پسند کئی سالوں سے مسلم اکثریت کے اس علاقے کو چین کے قبضے سے چھڑا کر یہاں ’’مشرقی ترکستان‘‘ کے نام سے ایک نیا ملک قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان اور مغرب کے مابین حالیہ تصادم نے اسلامی جوش وجذبے کو اور ہوا دی ہے۔ بہت سے مقامی لوگ طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک بیجنگ اور واشنگٹن کے ’’کافروں‘‘ میں کوئی فرق نہیں۔
افغانستان کی صورت حال کے ممکنہ اثرات کے خدشے کے پیش نظر بیجنگ کی وفادار ایلیٹ فوج گزشتہ ہفتے سے یہاں تعینات ہے۔ اس بحران نے چینی حکمرانوں کو مزید سختی کے ساتھ علیحدگی پسندوں کو کچلنے کا موقع فراہم کیا ہے اور گزشتہ روز بیجنگ حکومت کے سرکاری عہدیداروں نے سزائے موت سے کچھ پہلے کے ان غم ناک لمحات کو ایک سیاسی اجتماع میں تبدیل کر دیا۔مسلمان قیدیوں کی گاڑیوں کی قطار کے سامنے کمیونسٹ پارٹی کے سینکڑوں ارکان ترتیب سے بنی ہوئی قطاروں میں بیٹھے تھے اور صدر ژیانگ زیمن (Jiang Zemin)کے (آہنی عزم کا) حوالہ دیتی ہوئی خون جما دینے والی تقریروں کی داد دے رہے تھے۔ بینروں، جھنڈوں اور پراپیگنڈا کا مقصد پورا کرتی ہوئی تصویروں میں گھرے ہوئے مسلمان قیدی خاموشی کے ساتھ (اپنے ذہنوں پر چھائی ہوئی) شراب کی دھند کے پار دیکھنے کی کوشش رہے تھے۔ یہ دل دہلا دینے والا منظر جس نے شہر کے مین روڈ کو بلاک کررکھا تھا، ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ پھر ایک پولیس کا سائرن بجنے کے بعد گاڑیوں کے قافلے نے اپنا سفر شروع کر دیا۔ لبریشن سٹریٹ کے دونوں طرف موجود ہزاروں تماشائی گزرتی گاڑیوں کو دیکھنے کے لیے آگے بڑھنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ سزائے موت کے میدان کو جاتے ہوئے قیدیوں کوآمنے سامنے دیکھ کر کئی لوگ بے چین لیکن بظاہر ہنس رہے تھے۔ صرف چند بچے، جنہوں نے اپنی باپردہ ماؤں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، ہجوم سے پیچھے ہٹ گئے۔ قیدی کچھ بھی نہیں بول رہے تھے۔ سب کی گردن میں ایک بڑا سا اشتہار لٹکا ہوا تھا جو چینی زبان کے بجائے مقامی ترکی زبان میں لکھا گیا تھا۔ ان پر ان قیدیوں کے جرائم لکھے ہوئے تھے جن میں عوامی امن وامان کو خراب کرنا اور دوسرے عام قسم کے جرائم شامل ہیں۔ ایک آدمی نے بتایا کہ ان میں سے دو قیدیوں کو تو ابھی سزائے موت دے دی جائے گی جبکہ باقی واپس جیل میں چلے جائیں گے۔
پیپلز سکوائر کے نزدیک جہاں سڑک تقسیم ہو جاتی ہے، قافلہ بھی تقسیم ہو گیا اور زیادہ تر گاڑیاں مقامی پولیس اسٹیشن کی جانب روانہ ہو گئیں جو شہرکی خستہ حال دیوار کے ساتھ واقع ہے۔ میں نے ایک ٹیکسی میں دوسری طرف جانے والے قافلے کا تعاقب کیا جو پولیس کی کچھ کاروں اور صرف ایک گاڑی پر مشتمل رہ گیا تھا جس پر دونوں بد نصیب قیدی سوار تھے۔ ہجوم اب بھی میلوں تک سڑک کے دونوں جانب کھڑا تھا۔ غالباً بہت سے تماشائیوں کو ان کے افسروں کی طرف سے حکم تھا کہ وہ اس خاص موقع پر موجود رہیں جس کا انتظام پارٹی عہدیداروں نے سوچے سمجھے پروگرام کے تحت لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے کیا تھا۔ صحرا میں واقع اس سرسبز اور قدیم شہر میں سلک روڈ پر ہم کئی مسجدوں کے سامنے سے گزرے۔ پٹرول اسٹیشن پر موجود ایک شخص نے بتایا کہ قیدیوں سے بھری ہوئی ایسی گاڑیاں وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ چکا ہے۔ ہموار سڑک جس کے دونوں جانب درخت اور مٹی کے جھونپڑے بنے ہوئے تھے، صحرا کے کنارے تک جا رہی تھی۔ شہر کے اختتام پر گاڑی اچانک ایک ملٹری ٹریننگ گراؤنڈ میں داخل ہو گئی۔دونوں بد قسمت قیدی صحرائے کاشغر کے پار چین اور افغانستان کے درمیان حائل پہاڑی سلسلے پر آخری نظر ڈال سکتے تھے۔ جب انہیں گاڑی سے اتارا گیا تب بھی ان کے ہاتھ ان کی کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے ۔ میں نے سزائے موت کا منظر نہیں دیکھا البتہ اس کے فوراً بعد پہنچ کر میں نے ایک عینی شاہد سے گفتگو کی۔ اس نے بتایا کہ ان کی گردن کے پچھلی حصے میں گولی ماری گئی اور سارا کام صرف تین منٹ میں مکمل ہو گیا۔ مقامی رواج کے مطابق یہ گولی مجرم کے خاندان کو بھیج دی جائے گی تاکہ وہ آئندہ نسلوں کے لیے وارننگ بن سکے۔
(ڈیلی ’’دی ٹائمز‘‘، ۲۶ ستمبر ۲۰۰۱)
(ترجمہ: ادارہ)