شہدائے بالاکوٹؒ اور ان کی جدوجہد

شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے مختصر حالات

آپ ۱۲ ربیع الثانی ۱۱۹۳ھ کو دہلی میں پیدا ہوئے، نام محمد اسماعیل تھا۔ آپ حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ ۱۲۲۷ھ) کے بیٹے اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ۱۱۷۶ھ) کے پوتے تھے۔

ایں خانہ ہمہ آفتاب است

والدہ ماجدہ کا نام بی بی فاطمہ تھا۔ آٹھ سال کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کر لیا تھا۔ ابتدائی صَرف و نحو کی کتابیں آپ نے اپنے والد بزرگوار سے پڑھی تھیں۔ اور اس کے بعد منطق و معقول کی کتابیں بھی انہی سے پڑھیں اور ان سے فراغت کے بعد حدیث شریف حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ ۱۲۳۹ھ) سے پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غضب کی ذہانت بخشی تھی۔ آپ اپنے تعلیمی دور میں مطالعہ اور تکرار کی طرف کم توجہ کرتے تھے۔ آپ کی توجہ شب و روز تیر اندازی، گولی چلانا، اور گھوڑے پر چڑھنا، ورزش اور جہاد کی تیاری میں صَرف ہوتی تھی۔ لیکن بایں ہمہ اساتذہ جب پڑھے ہوئے سبق کا امتحان لیتے تو حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سب ساتھیوں سے الگ نکل جاتے تھے اور مشکل سے مشکل مقام میں بھی کبھی نہ رکتے، ان کی اس خداداد قابلیت پر ان کے تمام ساتھی رشک کرتے اور دنگ رہ جاتے تھے۔

سولہ سال کی عمر میں آپ فارغ التحصیل ہو گئے تھے، آپ پتلے دبلے اور متوسط قد کے تھے لیکن بڑے بہادر، دلیر اور جری تھے۔ مولانا شہید رحمۃ اللہ علیہ نے گھوڑے کی سواری میاں رحیم بخش صاحبؒ چابک سوار سے سیکھی تھی جو اپنے فن کے امام تھے۔ وہ پہلے کٹر بدعتی تھے۔ پھر مولانا شہیدؒ کے فیض صحبت سے پکے موحد ہو گئے تھے اور ان کے ساتھ پشاور کے گرد و نواح میں سکھوں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے بعمر سو سال شہید ہو گئے تھے۔ گو عمر زیادہ تھی لیکن نوجوانوں کی طرح باہمت طبیعت رکھتے تھے۔

جب مولانا شہید رحمۃ اللہ علیہ سپاہیانہ فنون کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو دریا میں تیرنا سیکھا، تین چار سال تک اکثر اوقات دریا ہی میں رہتے تھے اور طلبہ کو سبق دریا کے کنارے پر آکر پڑھا دیتے تھے۔ اس کے بعد آپ نے پیدل چلنے اور دوڑنے کی مشق کی اور سخت گرمی کے زمانہ میں عین دوپہر کے وقت جامع مسجد دہلی کے سرخ پتھروں کے فرش پر گھنٹوں آہستہ آہستہ چلتے جس سے ابتدائی دور میں پاؤں پر آبلے پڑ گئے، کوئی کہتا یہ مجنوں ہے، کوئی کہتا اس کو کسی نے وظیفہ بتایا ہے اور یہ چلہ کرتے ہیں۔ لیکن اصل بات کچھ اور ہی تھی اور وہ جہاد کی تیاری تھی۔ اور اسی طرح سردی کا موسم معمولی کپڑوں میں گزار دیتے، جبکہ اکثر لوگ لحافوں اور گرم کپڑوں میں بھی سردی کا شکوہ کرتے رہتے۔ اور اسی طرح کم سونے کی مشق بھی خوب کی حتیٰ کہ بعض اوقات آٹھ آٹھ دس دس دن تک نہ سوتے تھے۔

ان تمام مشقوں کے ساتھ مولانا شہید رحمۃ اللہ علیہ نے وعظ کہنے اور لوگوں کی اصلاح بھی شروع کر دی۔ ان کے وعظ پر ہنگامے بھی ہوتے رہے اور قبر پرستوں نے ان کو قتل کروانے کے ناپاک ارادے بھی کیے مگر مشہور ہے کہ جس کو خدا رکھے اس کو کون چکھے۔ صحیح تصوف کے نہ صرف یہ کہ مولانا شہیدؒ قائل ہی تھے بلکہ انہوں نے بڑے بڑے جلیل القدر صوفیائے کرامؒ کی بڑی تعریف کی اور حقیقی تصوف اور سچے صوفیوں کی تعریف میں کتاب بھی تصنیف فرمائی جس کا نام ’’حقیقتِ تصوف‘‘ ہے۔ (اس کا تذکرہ مرزا حیرت دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’حیاتِ طیبہ‘‘ ص ۱۱۶ طبع ادارہ ترجمان السنہ میں کیا ہے) اور خود حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے جو اسی سلسلہ تصوف کی ایک کڑی ہے۔

سکھوں کے خلاف جہاد کا جذبہ

سکھوں کا بابا گرونانک جو قریب ۱۴۶۹ء میں قصبہ تلونڈی میں (جس کو اب نانکانہ کہتے ہیں) پیدا ہوا۔ مولانا شہید علیہ الرحمہ کے زمانہ میں اس کے ماننے والوں کا پنجاب میں بڑا زور تھا۔ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی اور مختلف جگہوں سے سکھوں کی مسلمانوں پر زیادتیوں (مثلاً‌ اذان بند کر دینا، مسجدوں کو مسمار کر دینا، مسجد کو مسٹ گڑھ کہنا، مسلمان عورتوں کی آبرو سے کھیلنا وغیرہ وغیرہ) کی افواہیں اور خبریں دہلی میں پہنچتی رہتی تھیں۔ ان خبروں کی تصدیق کے لیے خود مولانا شہید رحمۃ اللہ علیہ تنِ تنہا انبالہ، پھر وہاں سے امرتسر پہنچے۔ مسلمانوں کی حالت ہی دگرگوں تھی۔ بے شمار کلمہ گو پیروں اور شہیدوں کی نماز پڑھتے تھے۔ پیر غیب کے نام پر روزے رکھتے تھے۔ حضرت کبیر رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا نجات دہندہ مانتے تھے۔ حضرت شیخ فرید رحمۃ اللہ علیہ کو مشکل کشا مانتے تھے۔

ان ہی بدعقیدتیوں اور بدعملیوں کی نحوست یہ ہوئی کہ امرتسر کی دس فیصدی مسجدیں سکھوں کے قبضہ میں تھیں۔ بعض میں گھوڑے باندھتے اور بعض کو انہوں نے اپنا دفتر بنا رکھا تھا (معاذ اللہ)۔ اور سکھوں نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ کوئی شخص بلند آواز سے اذان نہ کہے۔ اور بعض جگہ مسلمانوں کو مجبور کیا جاتا کہ بکرا ذبح کرتے وقت بجائے اللہ اکبر کے گورونانک کا نام لیں (معاذ اللہ تعالیٰ)۔ مسلمانوں کو یہ جرات ہی نہیں ہوتی تھی کہ شکستہ مسجد کی مرمت کر سکیں یا نئی مسجد بنا سکیں۔ سر دربار سکھ اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ و بارک وسلم (فداہ نفسی روحی) کو توہین آمیز الفاظ سے یاد کرتے تھے اور مسلمانوں کو ’’موسلا‘‘ کہتے تھے۔ سکھوں کے بچے، مسلمانوں کو دیکھتے ہی ’’سور دا بچہ‘‘ کہتے تھے۔

ایک موقع پر ملتان کے کچھ مظلوم مسلمان رنجیت سنگھ کے پاس اپنے ظالم حاکم کی شکایت لے کر پہنچے تو بجائے ان کی داد رسی کے گدھے کے بول سے ان کی داڑھیاں منڈوا کر اور سارا سامان چھین کر ان کو دربار سے نکال دیا۔ یہ بے چارے روتے ہوئے امرتسر پہنچے تو وہاں شیر سنگھ نامی سکھ نے ان مظلوموں کی عورتیں چھین کر انہیں شہر بدر کر دیا۔ اکثر مسجدوں میں سوار، کتے، گھوڑے اور بیل وغیرہ باندھے جاتے تھے۔ کوئی مسلمان گلے میں قرآن کریم نہ لٹکا سکتا تھا۔ اگر کوئی ناواقف ایسا کرتا تو وہ قید خانہ بھیج دیا جاتا تھا اور قرآن کریم کو زبردستی لے کر آگ میں ڈال دیا جاتا تھا (العیاذ باللہ تعالیٰ)۔

الغرض پورا پنجاب سکھا شاہی میں مبتلا تھا اور سکھوں کی چیرہ دستی یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ بعض شہروں میں آٹھ آٹھ دس دس قرآن کریم روزانہ جلا دیے جاتے اور غریب مسلمانوں اور مزارعین پر یہ ظلم و ستم ہوتا کہ من مانے طریقہ پر ان کو محصول دینا پڑتا ورنہ ان کی بیویاں اور بچے سر عام بازار میں نیلام کر دیے جاتے۔ یہ سارے واقعات حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ نے امرتسر وغیرہ میں بچشم نم خود دیکھے اور موثق ذرائع سے سنے۔ اس قسم کے مظالم صوبہ سرحد میں بھی سکھوں نے جاری رکھے۔

چنانچہ یوسف زئی قبیلہ کے ایک پٹھان نے امرتسر میں مولانا شہید علیہ الرحمہ سے یہ ماجرا بیان کیا کہ ہماری بد بختی سے ہم آپس میں لڑ رہے تھے کہ سکھوں نے ہم پر حملہ کر کے ہماری عورتوں، نابالغ بچوں، بیمار مردوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا اور بعض کو آگ میں زندہ جلا دیا۔ اور ہماری مسجدوں میں سور ذبح کیے۔ اس نے کہا کہ آپ میرے ساتھ پشاور جائیں تو یہ ساری کیفیت آپ کو بتا دوں۔ اس کی معیت میں مولانا شہید علیہ الرحمہ امرتسر سے لاہور تشریف لائے اور ایک سرائے میں ٹھہرے لیکن آگے نہ جا سکے۔ یہاں امرتسر سے بھی زیادہ مظالم سکھوں کے انہوں نے دیکھے اور وہاں جہالت اور پیر پرستی کا یہ عالم دیکھا کہ پیر پرست لوگ نماز میں بجائے اللہ اکبر کے ’’یا غوث اغثنی‘‘ کہتے تھے۔

پنجاب سے رنجیت سنگھ کے زمانہ میں تقریباً‌ ۳۵ فیصد مسلمان بھاگ کر انگریز کی علمداری میں چلے گئے تھے۔ رنجیت سنگھ اور دوسرے سکھوں کے گھروں میں کھلم کھلا مسلمان عورتیں تھیں۔ لاہور کی شاہی مسجد کے حجروں میں سکھوں کا اصطبل تھا۔ وضو کرنے کے حوض میں گھوڑوں کی لید ڈالی جاتی تھی۔ اذان و گاؤکشی بند تھی (معاذ اللہ تعالیٰ)۔

ان افسوس ناک اور سنگین واقعات کا حضرت مولانا شہید رحمۃ اللہ علیہ پر گہرا اثر ہوا اور انہوں نے دل میں عزمِ مصمم کر لیا کہ ان وحشی سکھوں سے ضرور انتقام لینا چاہیے تاکہ اسلام اور اہلِ اسلام کی سربلندی اور عظمت ظاہر ہو۔ یہ یاد رہے کہ دہلی سے لاہور کا یہ سارا سفر مولانا شہید علیہ الرحمہ نے پا پیادہ کیا اور قصبہ قصبہ گاؤں گاؤں پھر کر خود نہایت احتیاط سے حالات کا جائزہ لیا اور سکھوں کے بعض قلعوں کے نقشے بھی لیے۔ اس سفر میں پنجابی بولنے پر بھی خوب قدرت حاصل کر لی اور مسلمانوں کی اصلاح میں بھی دن رات منہمک رہے اور سب حالات کا جائزہ لے کر واپس دہلی تشریف لے گئے۔

مخلص رفقاء کی تلاش

حضرت مولانا شہید رحمۃ اللہ علیہ ایسے مخلص رفقاء کی جستجو میں تھے جو سکھوں کے خلاف جہاد میں ان کا کلی تعاون اور نصرت کریں۔ مشہور ہے ’’جوئندہ یا بندہ‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو حضرت سید احمد صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ ۲۴ ذی قعده ۱۲۴۶ھ شہیداً‌) جیسے جاں نثار اور مصلح پیر مرحمت فرمائے جن کے دستِ حق پرست پر چالیس ہزار سے زیادہ ہندو مسلمان ہوئے۔ اور لاکھوں مسلمانوں کو گناہوں سے توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ ان کے علاوہ لاکھوں افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔

حضرت سید احمد صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ گو ظاہری علوم میں زیادہ دسترس نہیں رکھتے تھے، انہوں نے حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے صرف قرآن و حدیث اور تفسیر کی مختصر تعلیم حاصل کی تھی مگر ربانی جلووں نے ان کے دل کو منور کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ حضرت مولانا شاہ شہید علیہ الرحمہ جیسے متبحر اور بے بدل عالم ان پر فریفتہ ہو کر ان کے دستِ حق پرست پر بیعت کرنے پر مجبور ہو گئے۔

مزید برآں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک بہت بڑے جید عالم حضرت مولانا عبد الحئی صاحب برہانوی [بڈھانوی] رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ ۸ شعبان ۱۲۴۳ھ بمقام خہر سرحد) جیسے نڈر، جری اور دلیر مجاہد ان کو عطا فرمائے۔ حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ ان جیسے متعدد دیگر مخلص ساتھیوں کے ہمراہ ۱۲۴۱ھ میں براستہ راجپوتانہ، مارواڑ، سندھ، حیدر آباد، شکار پور، بلوچستان، قندھار، کابل پہنچے (کیونکہ براستہ پنجاب سرحد پہنچنا سکھا شاہی کی وجہ سے مشکل اور خلافِ مصلحت تھا) وہاں ایک بہت بڑے جید عالم اور پیر حضرت ملا محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو، جن کے لاکھوں مرید، شاگرد اور عقیدت مند تھے، جہاد کے لیے تیار کیا اور ان کی دعائیں اور معونت اور نصرت لے کر پشاور کا رخ کیا۔ اور ۲۰ جمادی الاولیٰ ۱۲۴۲ھ کو بمقام خویشگی سکھوں سے جہاد ہوا۔ ظاہری مناسب کچھ بھی نہ تھا، صرف اعلاء کلمۃ الحق اور شوقِ جہاد اور جذبۂ شہادت ہی اس کا باعث تھا۔ نو سو کے قریب مجاہدین اسلام تھے اور اپنے سے دس گنا حریف کے مقابلہ میں نکلے اور نبرد آزما ہوئے۔ اس معرکہ میں سات سو دشمن مارے گئے اور صرف سینتیس مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے بعد موضع سیدو بستی میں مقابلہ ہوا جس میں بدھ سنگھ (برادر عم زاد رنجیت سنگھ) کی فوج کے دو ہزار سے زائد سکھ جہنم رسید ہوئے۔

پھر ان مجاہدین اسلام نے حضرو کے مقام پر سکھوں کے خلاف شب خون مارا جس میں بہت سا سامان غنیمت مجاہدین کے ہاتھ آیا۔ اس کے بعد میدان سیدو میں سکھوں سے مقابلہ ہوا مگر شیعہ مذہب کے دو سرداروں نذر محمد اور ولی محمد نے حضرت سید صاحب علیہ الرحمہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے باوجود ان سے غداری کی اور کھانے میں زہر ہلاہل دے دیا۔ آٹھ دن تک حضرت سید علیہ الرحمہ بے ہوش رہے اور اس مکاری کی وجہ سے مجاہدین کی توجہ لڑائی سے ہٹا کر اپنے امیر لشکر کی عزیز زندگی کی طرف لگا دی اور یہ معرکہ بھی ناکام کر دیا۔ اسی موقع پر ایک اور شیعی سردار یار محمد نے یہ غداری کی کہ باوجود بیعت کرنے کے اپنے لنگڑے ہاتھی کے مہاوت کو تلقین کی کہ کسی طرح حضرت سید صاحب علیہ الرحمہ کو ہلاک کر دے۔ گو حضرت سید صاحب علیہ الرحمہ کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا لیکن مسلمانوں کو اس معرکہ میں سخت جانی نقصان پہنچا۔

یہاں سے ناکامی کے بعد حضرت سید صاحبؒ کے حکم اور سردار حبیب اللہ خانؒ گڑھی (ضلع ہزارہ) کی استدعا پر ان کے لڑکے کو سکھوں کی قید سے چھڑانے کے لیے حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ کی مختصر سی جماعت کو ساتھ لے کر علاقہ بالائی پکھلی ڈنگلہ پہنچے، مٹھی بھر مجاہدین اسلام کا سردار ہری سنگھ نلوہ کے فوجی افسر سردار پھول سنگھ کی چار ہزار سے زیادہ مسلح اور آزمودہ کار فوج سے مقابلہ ہوا لیکن ان مجاہدین اسلام نے ان کے چھکے چھڑا دیے، باطل کی اس فوج نے مجاہدین اسلام کے سروں کو جھکانے کی بے حد کوشش کی مگر وہ باطل کے سامنے کب دبنے والے تھے۔ ان میں سے ہر ایک بزبان حال یہ کہتا تھا:

ستمگروں کے ستم کے آگے نہ سر جھکا ہے نہ جھک سکے گا
شعار صادق پہ ہم ہیں نازاں جو کہہ رہے ہیں وہیں کریں گے

اس موقع پر صرف سات مسلمان شہید اور گیارہ زخمی ہوئے اور تین سو سکھ مارے گئے اور پانچ سو زخمی ہو گئے۔ اس کے بعد گڑھی سنگاری سے نصف میل کے قریب جہاد ہوا، اس میں دو سکھوں کو بنفس نفیس حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ نے جہنم رسید کیا اور تیسرے سکھ کی گولی سے حضرت مولانا شہیدؒ کے ہاتھ کی انگلی اڑ گئی مگر اس درد و کرب میں بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر اللہ اکبر کہہ کر سکھوں سے برسر پیکار ہوئے۔ نتیجہ میں سکھوں کے قدم اکھڑ گئے اور بفضلہٖ تعالیٰ یہ میدان بھی مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ اور سردار حبیب اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لڑکے کو سکھوں سے نجات ملی۔

اس کے بعد حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ پھر مقام پنج تار پہنچ گئے جو مجاہدین اسلام کا یک گونہ مرکز تھا۔ پھر مولانا شہید اور حضرت سید شہید علیہما الرحمہ دونوں کی قیادت میں دریائے لنڈھ کے پار اتمان زئی میں جہاد ہوا۔ بارہ تیرہ سو کے قریب مجاہدینِ اسلام تھے اور مقابلہ میں چار ہزار رنجیت سنگھ کی فوج تھی۔ مگر غضب یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر درانی مسلمان تھے جو لالچ میں آکر مسلمانوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ اس موقع پر حضرت شہید علیہ الرحمہ نے بڑی ہی بہادری سے کام لے کر شب خون مارا اور دشمن کے دو توپچیوں کی خود اپنے ہاتھ سے گردن اڑا دی اور اس حکمت عملی سے حملہ کیا کہ چار سو سے زائد لاشیں دشمن میدان میں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ کا ایک آدمی بھی زخمی نہ ہوا اور اپنے مجاہدوں کو حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ نے یہ حکم دیا کہ چونکہ درانی مسلمان ہیں اس لیے جب تک ان میں سے کوئی شخص تمہارے مقابلہ میں ہتھیار نہ اٹھائے تم اسے کچھ نہ کہنا اور اگر ان میں سے کوئی گرفتار ہو جائے تو جو تم کھاتے ہو اسے بھی کھلاؤ اور جو لباس خود پہنتے ہوئے اسے بھی پہناؤ کیونکہ وہ بھی تمہارے مسلمان بھائی ہیں۔

حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ کے اس اعلان اور حسنِ معاملہ سے آگاہ ہو کر دو ہزار کے قریب سرداروں نے صدق دل سے بدعات سے تائب ہو کر احکام قرآنی پر عمل کرنے کا تحریری عہد کیا۔ ان لوگوں نے حضرت شہید علیہ الرحمہ اور آپ کے غریب الوطن مجاہدین کی بڑی مالی امداد کی۔ انہوں نے یہ التزام بھی کیا کہ وہ اپنی کمائی کا آٹھواں حصہ مجاہدین اسلام کو دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان سرداروں کی وجہ سے عوام پر بھی بڑا اچھا اثر پڑا کہ وہ بھی توحید و سنت کے شیدائی بن گئے۔

لطیفہ: اس جہاد میں بعض درانی مسلمانوں نے تو مقابلہ کیا لیکن ایک وفادار ہندو نے جو حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ پر فریفتہ تھا (جس کا نام راجہ رام، قوم راجپوت، باشنده بیسواڑہ) تھا اس نے حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ کا ساتھ دیا اور بڑی پھرتی سے دشمن پر توپ سے گولہ باری کرتا رہا کہ دشمن کو قدم سنبھالنے مشکل ہو گئے۔

وبعدہ بمقام پنج تار جہاد ہوا۔ تقریباً‌ چھ ہزار فوج سکھوں کی تھی جس کی کمان رنجیت سنگھ کی طرف فرانسیسی جنرل اسوانٹورا کر رہا تھا لیکن اس موقع پر بھی اللہ تبارک و تعالٰی نے فتح و نصرت مجاہدین اسلام کو عطا فرمائی۔ اور یہ جنرل جو لاہور سے یہ عزم لے کر آیا تھا کہ میں سید احمد اور اسماعیل کو زندہ گرفتار کر کے رنجیت سنگھ کے دربار میں لاؤں گا، شکست فاش کھا کر بے نیل مرام لاہور واپس چلا گیا۔

اس کے بعد مجاہدین اسلام نے ایک غدار مسلمان خادی خان کے قلعہ ہنڈ پر حملہ کر کے ان غداروں کے خاتمہ کے بعد قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ حاکم پشاور سلطان محمد خان نے سکھوں کے اکسانے پر مجاہدین کے مقابلہ کے لیے پانچ ہزار کی فوج ایک انگریز افسر کیول صاحب کو دے کر روانہ کیا۔ مولانا شہید علیہ الرحمہ کے ساتھ صرف ساٹھ آدمی تھے۔ ظاہر بات ہے کہ ساتھ آدمیوں کا مقابلہ پانچ ہزار سے کیا معنی رکھتا ہے؟ اس لیے مجبوراً‌ صلح کی گئی کہ ان سے اور ان کے ساتھیوں سے کوئی تعرض نہ ہوگا۔ انگریز افسر نے صلح نامہ پر دستخط کر دیے۔ مگر سلطان محمد خان نے غداری کی اور ان کو قید کر کے پشاور پہنچا دیا۔ اس کی اس غداری پر شرمسار ہو کر انگریز افسر اس کی ملازمت سے مستعفی ہو گیا۔

ان بے چاروں کو قلعہ میں بند کر دیا گیا۔ ایک دن سلطان محمد خان نے حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ کو سامنے لا کر پوچھا، جانتے ہو اب تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ آپ نے بے باکانہ جواب دیا، تیری شقاوت قلبی اور بے ایمانی سے یہی توقع ہے کہ ہمیں جام شہادت نصیب ہوگا جس کے ہم مدت سے متلاشی ہیں اور بڑے شوق سے اس کا انتظار کرتے ہیں۔ بقول شخصے

اتنا پیغام درد کا کہنا
جب صبا کوئے یار سے گزرے
کون سی رات آپ آئیں گے
دن بہت انتظار میں گزے

اس کے بعد ان کو پھر قلعہ میں بند کر دیا گیا اور سنگین پہرہ لگا دیا گیا۔ مگر ان عالی ہمت لوگوں نے ایک دن موقع پا کر سب قلعہ کی دیوار پر چڑھ گئے اور اوپر سے اندھیرے میں چھلانگیں لگا لگا کر دشمن میں خوف و ہراس پھیلا کر پنج تار پہنچے۔ حضرت سید احمد صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں کو اپنے ان ساتھیوں کی قید پر بے انتہا غمی تھی، مگر اس کے بعد اچانک ان کے آجانے سے خوشی کی بھی کوئی حد نہ تھی۔

اس کے بعد ریاست انب کے غدار پائندی خان سے مقابلہ ہوا جس نے پہلے یہ عہد کیا تھا کہ میں اپنی پوری ریاست میں قرآن و حدیث کے سارے احکام نافذ کروں گا مگر بعد کو غداری کر کے مجاہدین کے خلاف دو ہزار فوج لے کر حملہ آور ہوا، اور ایسی مار کھائی کہ دریائے اباسین کو عبور کر کے خدا جانے کہاں جا نکلا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے خاصا رقبہ حضرت سید صاحب علیہ الرحمہ کی زیر حکومت آگیا جس میں قرآن و سنت کے مطابق احکام جاری کر دیے گئے۔ مقدمات و تنازعات کا فیصلہ قانونِ شرع کے مطابق ہونے لگا اور شریعت مطہرہ کے سامنے لوگوں کے سر جھک گئے اور محکمہ احتساب قائم کر دیا گیا۔ اس کا ایسا اثر ہوا کہ کوسوں تک ڈھونڈھنے سے بھی کوئی بے نماز نہیں ملتا تھا۔ ان علاقوں میں پنج تار، قلعہ لنڈھ اور اس کے تمام اضلاع زیدہ، تربیل، پھولڑہ وغیرہ وسیع اور سرسبز علاقے شامل تھے۔

رنجیت سنگھ کو اس کا سخت صدمہ ہو۔ اس نے مسلمانوں کو رشوتیں دے دے کر ان کو مجاہدین اسلام کے خلاف کیا اور پھر چار ہزار تازہ دم پیدل فوج اور ایک ہزار سوار اور چار توپ خانے اور بہت سا سامان حرب دے کر چتربائی پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا۔ حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ ایک ہزار مجاہدین اسلام اور دو توپیں لے کر ان کے مقابلہ کے لیے نکلے اور ان کو مار بھگایا۔ سکھوں کی ہمتیں پست ہو گئیں، وہ اسماعیل کا نام سن کر ہی کانپ جاتے تھے اور یہ ایمانی رعب تھا جو کفار پر اللہ تعالیٰ نے طاری کر دیا۔

اس کے بعد آخری جہاد کے لیے حضرت سید احمد شہید اور حضرت مولانا شہید علیہما الرحمہ نے کشمیر میں سکھوں کا زور توڑنے کے لیے بالا کوٹ کا رخ کیا۔ رنجیت سنگھ نے شیر سنگھ کی سرکردگی میں سکھوں کی بیس ہزار فوج دے کر ان کے تعاقب کے لیے روانہ کیا اور یہ مجاہد بالاکوٹ ابھی پہنچے ہی تھے کہ سکھوں کا لشکر بھی آدھمکا۔ آٹھ نو سو مجاہدین کا بیس ہزار کے لشکر سے اور وہ بھی بے سروسامانی کی حالت میں کیا مقابلہ ہو سکتا تھا؟ لیکن بایں ہمہ جو حضرات جام شہادت کے لیے بے قرار تھے وہ ٹکر لیے بغیر کب رک سکتے تھے؟ خوب معرکہ کا جہاد ہوا اور بالآخر حضرت مولانا شہید علیہ الرحمہ نے (حضرت سید احمد شہید علیہ الرحمہ کے بعد) ۲۴ ذی قعدہ ۱۲۴۶ھ بمطابق ۱۸۳۱ء بوقت ظہر بالاکوٹ کے مقام پر سکھوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ جس کی مدت سے ان کو آرزو تھی اور اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔

بالاکوٹ میں دریا کے کنارے پر جامع مسجد کے قریب مختصر سے قبرستان میں حضرت سید احمد شہید علیہ الرحمہ کی قبر ہے (اور عوام میں یہ بھی مشہور ہے کہ حضرت سید صاحبؒ کا باقی جسم اطہر تو یہاں مدفون ہے لیکن سر مبارک گڑھی حبیب اللہ خان میں دریا کے کنارے پر مدفون ہے۔ جہاں ایک مرقد پر اب بھی یہ لکھا ہے والعلم عند اللہ تعالیٰ۔

اور بالاکوٹ کے عقب میں شمالی مغربی قبرستان میں ایک پہاڑی نالے کے قریب بلند ٹیلہ پر مجاہد عظیم حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید فی سبیل اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی قبر انور ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے شمار و بے حساب رحمتیں ان پر (اور ان کے مخلص ساتھیوں پر) نازل ہوں جن کی ساری زندگی تحریری و تقریری و عملی جہاد میں گزری۔ شرک و بدعت کے مٹانے اور توحید و سنت کے احیاء میں ان حضرات نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ جن کے ان مجاہدانہ کارناموں سے پورے ہندوستان و افغانستان اور قبائلی علاقوں میں توحید و سنت کی شمع آج بھی بحمد اللہ تعالیٰ روشن ہے۔ گو خود تو وہ قبر میں آرام فرما رہے ہیں مگر ان کا بہترین کارنامہ تاقیامت زندہ رہے گا۔ مگر صد افسوس کہ جو کچھ وہ چاہتے تھے وہ مقصد بتمامہ پورا نہیں ہو سکا۔ اور وہ اپنی آرزوئیں اور حسرتیں دل ہی میں لے کر چلے گئے۔ آہ ؎

لحد میں کون کہتا ہے اکیلا نعش حاتم کو
ہزاروں حسرتیں مدفون ہیں دریا کے پہلو میں


(اپریل ۱۹۹۷ء)

اپریل ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۲

پچاس سالہ تقریبات اور ہمارا قومی طرزِ عمل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندانِ ولی اللّٰہی کی دینی خدمات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

ولی اللّٰہی خاندان کی سیاسی جدوجہد
مولانا نجم الدین اصلاحی

امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے دور کے سیاسی حالات
ڈاکٹر محمد مظہر بقا

ایسٹ انڈیا کمپنی
پروفیسر غلام رسول عدیم

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار پر کیسے قبضہ کیا
میڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں برصغیر کی معاشی تباہی
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

برصغیر کی غلامی کا پس منظر
ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

بنگال کا آخری مسلمان فرمانروا نواب سراج الدولہ شہید
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کی یلغار کے سامنے آخری چٹان: سلطان ٹیپو شہیدؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

شہدائے بالاکوٹؒ اور ان کی جدوجہد
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

آخری مغل تاجدار، بہادر شاہ ثانی
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرائضی تحریک اور حاجی شریعت اللہؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرنگی اقتدار کے بعد متحدہ ہندوستان دارالحرب ہے: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا ایک اہم فتویٰ
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter