فرائضی تحریک اور حاجی شریعت اللہؒ
بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف پہلی عوامی مزاحمتی تحریک

یہ بنگال کے مسلمانوں کا ایک فرقہ تھا۔ حاجی شریعت اللہ اس فرقہ کے بانی تھے۔ حاجی شریعت اللہ ۱۷۸۲ء میں ضلع فرید پوری کے ایک گاؤں بندر کھولہ میں پیدا ہوئے۔ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں حج بیت اللہ کے لیے گئے اور وہاں شیخ طاہر السنبل الشافعی المکی سے وابستہ ہو کر تقریباً بیس برس تک اکتسابِ علم کرتے رہے۔

ڈاکٹر ٹیلر کے بیان کے مطابق حاجی صاحب قیام مکہ کے دوران وہابی تحریک سے کافی متاثر ہوئے۔ ۱۸۲۰ء میں وطن واپسی پر وہ ایک عالم اور مناظر کی حیثیت سے معروف ہو چکے تھے۔ گھر واپسی پر راستے میں ان کے قافلے کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا۔ اس لوٹ مار میں حاجی صاحب کی کتب اور تبرکات بھی ضائع ہو گئے۔ حاجی صاحب اس حادثہ سے دل برداشتہ ہو کر ان کے گروہ میں شامل ہو گئے۔ حاجی صاحب کی دینداری اور بلند کرداری کو دیکھ کر ڈاکوؤں کا گروہ تائب ہو کر ان کا پیرو ہو گیا۔

بنگال کے مسلمانوں کی حالت انگریز تاجروں اور ہندو زمینداروں کے ہاتھوں ناگفتہ بہ تھی۔ مسلمان ہندو تہذیب کے بیشتر اثرات قبول کر چکے تھے۔ حاجی صاحب نے خاموشی سے دیہات میں تبلیغ شروع کر دی اور مسلمانوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ غیر اسلامی رسم و رواج ترک کر دیں۔ خدائے واحد کی بندگی کریں۔ آغاز میں حاجی صاحب کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن آہستہ آہستہ حاجی صاحب کے عالی کردار اور سادگی تعلیم سے متاثر ہو کر ڈھاکہ فرید پور اور باریسال کے دیہاتی مسلمان آپ کے ہمنوا بن گئے۔ کیونکہ اس تحریک میں فرائضِ دین کی پابندی پر زور دیا جاتا تھا اس لیے یہ ’’تحریکِ فرائضی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ حاجی صاحب نے پیر اور مرید کی اصطلاحوں کو ترک کر کے استاد اور شاگرد کی اصطلاحیں جاری کیں۔ حاجی صاحب نے ہاتھ پر بیعت لینے کی رسم بھی ترک کر دی۔ وہ لوگوں کو گناہوں سے توبہ کی ترغیب دیتے اور نیکوکاری کی تعلیم دیتے تھے۔ اس بناء پر یہ لوگ ’’توبار‘‘ (توبہ کرنے والے) بھی کہلاتے تھے۔

تحریک کی مقبولیت اور لوگوں میں بھائی چارہ ہونے کے باعث ان میں جرات پیدا ہو گئی اور انہوں نے ہندوانہ عقائد و رسوم سے پہلو تہی شروع کر دی۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کی طرف سے مقررہ کردہ درگا پوجا ٹیکس دینے سے صاف انکار کر دیا اور بیگار دینا بھی بند کر دیا۔ ان کی بہو بیٹیوں نے زمینداروں کے گھروں میں کام کاج چھوڑ دیا۔ اس سے ان میں منافرت اور غصہ پھیلنے لگا۔ انگریزوں کے مسلمانوں پر مظالم کی وجہ سے اس زمانے میں حاجی شریعت اللہ نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر مسلمانوں کو عیدین اور جمعہ کی نماز سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی، ہندو اور زمیندار اس تحریک سے بہت خوفزدہ تھے۔ چھوٹے چھوٹے فسادات نے بڑھ کر ۱۸۳۱ء میں باقاعدہ شدت اختیار کر لی۔ مسلمانوں پر مقدمات قائم ہونے لگے۔ خود حاجی صاحب پر مقدمہ چلا مگر عدمِ ثبوت کی بناء پر سزا سے بچ گئے۔

حاجی صاحب کا کردار بے داغ تھا۔ وہ مخلص اور دیندار تھے۔ اسی لیے لوگ ان کو باپ کا درجہ دیتے تھے۔ بنگالی مسلمانوں خصوصاً‌ کسانوں اور کاشت کاروں کے دلوں پر آپ کا انمٹ اثر تھا جس نے ان میں بیداری اور ولولہ پیدا کر دیا تھا۔

۱۸۴۰ء میں حاجی صاحب کی وفات کے بعد اس فرقے کی قیادت ان کے بیٹے نے سنبھال لی جو دودھو میاں کے نام سے مشہور ہوئے۔ ملک کے سیاسی اور معاشی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنا دائرہ کار پورے بنگال میں پھیلا دیا اور باقاعدہ بیعت لینی شروع کر دی۔ انہوں نے بنگال کو متعدد حلقوں میں تقسیم کر کے ان پر خلیفے مقرر کیے جو مقامی مریدوں کے باہمی تنازعات کا فیصلہ کرتے تھے اور دودھو میاں کو ہر وقت حالات سے باخبر رکھا کرتے تھے۔ خلیفہ مریدوں سے بیت المال کے لیے چندہ جمع کرتے جو بالعموم جنس کی شکل میں ہوتا۔ ہر مرید روزانہ ایک چٹکی چاول جمع کر کے رکھتا تھا۔ خلیفہ کے آدمی یہ امداد جمع کرتے تھے جسے ضرورت مندوں اور مسافروں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ لوگ ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جوق در جوق اس تحریک میں شامل ہونے لگے۔

اس زمانے کے سپرنٹنڈنٹ پولیس ویمپر کے بیان کے مطابق اس کے گرد کم از کم اَسی ہزار سرگرم کارکن تھے۔ اس تحریک کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ دودھو میاں پر ۱۸۳۸ء میں لوٹ مار، ۱۸۴۱ء میں قتل اور ۱۸۴۴ء میں اغواء اور لوٹ مار کے مقدمات بنائے گئے مگر کسی نے ان کے خلاف گواہی نہ دی۔ اس لیے وہ ہر مقدمے سے بری ہو جاتے۔

۱۸۵۷ء میں تحریک آزادی کے دوران ان کو علی پور اور پھر فرید پور میں نظر بند کر دیا گیا۔ ۱۸۵۹ء میں جب وہ رہا ہوئے تو شدید بیمار تھے۔ اور ۲۴ ستمبر ۱۸۶۲ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے بعد تحریک کو ان کے تین بیٹوں میں سے کوئی صحیح جانشین نہ مل سکا جس کی بناء پر رفتہ رفتہ یہ تحریک ختم ہونے لگی۔ لیکن فرائضی تحریک نے بنگال کے مسلمانوں میں بیداری، دینی حمیت اور اپنے معاشرتی، معاشی اور سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد کا جو جذبہ پیدا کیا، اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

(ماخوذ از شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا)


(اپریل ۱۹۹۷ء)

اپریل ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۲

پچاس سالہ تقریبات اور ہمارا قومی طرزِ عمل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندانِ ولی اللّٰہی کی دینی خدمات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

ولی اللّٰہی خاندان کی سیاسی جدوجہد
مولانا نجم الدین اصلاحی

امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے دور کے سیاسی حالات
ڈاکٹر محمد مظہر بقا

ایسٹ انڈیا کمپنی
پروفیسر غلام رسول عدیم

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار پر کیسے قبضہ کیا
میڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں برصغیر کی معاشی تباہی
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

برصغیر کی غلامی کا پس منظر
ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

بنگال کا آخری مسلمان فرمانروا نواب سراج الدولہ شہید
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کی یلغار کے سامنے آخری چٹان: سلطان ٹیپو شہیدؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

شہدائے بالاکوٹؒ اور ان کی جدوجہد
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

آخری مغل تاجدار، بہادر شاہ ثانی
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرائضی تحریک اور حاجی شریعت اللہؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرنگی اقتدار کے بعد متحدہ ہندوستان دارالحرب ہے: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا ایک اہم فتویٰ
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter